• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اختلاط کی بحث

بعض علماء نے بتایا ہے کہ سماک بن حرب کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہوگیا تھا، وہ اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ تغیر باخرۃ، دیکھئے الکواکب النیرات لابن الکیال (ص ۴۵) اور الاغتباط بمن رمی بالاختلاط (ص۱۶۱ ت ۴۸)

ابن الصلاح الشہرزوری نے کہا: "واعلم ان من کان من ھذا قبیل مختجاً برواتیہ فی الصحیحین او احدھما فانا نعرف علی الجملۃ ان ذلک مما تمیز وکان ماخوذاً عنہ قبل الاختلاط واللہ اعلم"
(علوم الحدیث مع التقیید والایضاح ص ۶۶ نوع ۶۲)

یعنی مختلطین کی صحیحین میں بطور حجت روایات کا مطلب یہ ہے کہ وہ اختلاط سے پہلے کی ہیں، یہ قول دوسرے قرائن کی روشنی میں بالکل صحیح ہے۔ صحح مسلم میں سماک بن حرب کے درج ذیل شاگرد ہیں:
1۔ ابوعوانہ(۲۲۴)
2۔ شعبہ (۲۲۴)
3۔ زائدہ(۲۲۴)
4۔ اسرائیل (۲۲۴)
5۔ ابو خیثمہ زہیر بن معاویہ (۴۳۶)
6۔ ابوالاحوص (۴۳۶)
7۔ عمر بن عبید الطنافسی (۲۴۲/۴۹۹)
8۔ سفیان الثوری (۲۸۷/۶۷۰) تحفۃ الاشراف للمزی (۱۵۴/۲ ح ۲۱۶۴)
9۔ زکریا بن ابی زائدہ ( ۲۸۷/۶۷۰)
10۔ حسن بن صالح (۷۳۴)
11۔ مالک ن مغول (۹۶۵)
12۔ ابو یونس حاتم بن ابی صغیرہ (۱۶۸۰)
13۔ حماد بن سلمہ ( ۷/۱۸۲۱)
14۔ ادریس بن یزید الاودی (۲۱۳۵)
15۔ ابراہیم بن طہمان (۲۲۷۷)
16۔ زیاد بن خیثمہ ( ۴۴/۲۳۰۵)
17۔ اسباط بن نصر (۲۳۲۹)
معلوم ہوا کہ ان سب شاگردوں کی ان سے روایت قبل از اختلاط ہے لہٰذا "سفیان الثوری: حدثنی سماک" والی روایت پر اختلاط کی جرح کرنا مردود ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ "علی صدرہ" کے الفاظ سماک بن حرب سے صرف سفیان ثوری نے نقل کئے ہیں اسے ابوالاحوص، شریک القاضی نے بیان نہیں کیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سفیان ثوری ثقہ حافظ ہیں اور سماع کی تصریح کررہے ہیں لہٰذا دوسرے راویوں کا "علی صدرہ" کے الفاظ ذکرنہ کرنا کوئی جرح نہیں ہے کیونکہ عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوا کرتا اور عدم مخالفت صریحہ کی صورت میں ثقہ وصدوق کی زیادت ہمیشہ مقبول ہوتی ہے بشرطیکہ اس خاص روایت میں بتصریحات محدثین کرام وہم و خطا ثابت نہ ہو۔ نیموی حنفی نے بھی ایک ثقہ راوی (امام حمیدی) کی زیادت کو زبردست طور پر مقبول قراردیا ہے، دیکھئے آثار السنن (ص ۱۷ ح ۳۶ حاشیہ: ۲۷)

موطا امام مالک ( ۹۸۵/۲، ۹۸۶ ح ۱۹۱۵) میں عبداللہ بن دینار عن ابی صالح اسمان عب ابی ھریرۃ قال: "ان الرجل لیتکلم بالکلمۃ۔۔۔الخ ایک قول ہے۔
امام مالک ثقہ حافظ ہیں۔

عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار: "صدوق یخطئ" (حسن الحدیث) نے یہی قول: "عن عبداللہ بن دینار عن ابی صالح عب ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال: ان العبد لیتکلم بالکلمۃ۔۔۔۔ الخ
مرفوعاً بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان ح ۶۴۷۸)
معلوم ہو اکہ مرفوع اور موقوف دونوں صحیح ہیں اور امام بخاری کے نزدیک بھی ثقہ وصدوق کی زیادت معتبر ہوتی ہے۔ والحمداللہ

* بعض لوگ مسند احمد (۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۳) کے الفاظ "یضع ھذہ علی صدرہ" کے بارے میں تاویلات کے دفاتر کھول بیٹھتے ہیں حالانکہ امام ابن الجوزی نے اپنی سندکے ساتھ مسند احمد والی روایت میں "یضع ھذہ علی ھذہ علی صدرہ" کے الفاظ لکھے ہیں (۲۸۴/۱) اس سے مؤولین کی تمام تاویلات ھباء منثورا ہوجاتی ہیں اور "علی صدرہ" کے الفاظ صحیح اور محفوظ ثابت ہوجاتے ہیں۔

* جب یہ ثابت ہے کہ ثقہ وصدوق کی زیادت صحیح و حسن اور معتبر ہوتی ہے تو وکیع و عبدالرحمن بن مہدی کا سفیان الثوری سے "علی صدرہ" کے الفاظ بیان نہ کرنا چنداں مضر نہیں ہے، یحییٰ بن سعید القطان زبردست ثقہ وحافظ ہیں ان کا یہ الفاظ بیان کردینا عاملین بالحدیث کے لیے کافی ہے۔

* یاد رہے کہ سفیان ثوری سے باسند صحیح وحسن ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے۔

* راوی اگر ثقہ یا صدوق ہوتو اس کا تفرد مضر نہیں ہوتا۔

* بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روایت میں "فی الصلوٰۃ" کی صراحت نہیں ہے۔
عرض ہے کہ (ایک) حدیث (دوسری) حدیث کی تشریح کرتی ہے۔ مسنداحمد ہی میں اس روایت کے بعد دوسری روایت میں "فی الصلوٰۃ" کی صراحت موجود ہے۔
(احمد ۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۴ من طریق سفیان عن سماک بن حرب)
تنبیہ(۱): سماک بن حرب (تابعی) رحمہ اللہ کے بارے میں ثابت کردیا گیا ہے کہ وہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں۔ ان پر اختلاط والی جرح کا مفصل ومدلل جواب دے دیا گیا ہے کہ سفیان ثوری اور شعبہ وغیرہما کی ان سے روایت قبل از اختلاط ہے لہٰذا ان روایتوں پر اختلاط کی جرح مردود ہے۔
تنبیہ(۲): سما ک بن حرب اگر عکرمہ سے روایت کریں تو یہ خاص سلسلۂ سند ضعیف ہے۔
دیکھئے سیر اعلام النبلاء (۲۴۸/۵) وتقریب التہذیب ( ۲۶۲۴، اشار الیہ)
اگر وہ عکرمہ کے علاوہ دوسرے لوگوں سے، اختلاط سے پہلے روایت کریں تو وہ صحیح الحدیث و حسن الحدیث ہیں۔ والحمد للہ

تنبیہ(۳): محمد عباس رضوی بریلوی نے لکھا ہے کہ " اس کا ایک راوی سماک بن حرب ۔ مدلس راوی ہے اور یہ روایت اس نے عن سے کی ہے اور بالاتفاق محدثین مردود ہوتا ہے۔
(مناظرے ہی مناظرے ص ۳۳۵ نیز دیکھئے ص ۱۲۹، ۱۳۴)
رضوی صاحب کا یہ کہنا کہ "سماک بن حرب مدلس" بالکل جھوٹ ہے۔ کسی محدث نے سماک کو مدلس نہیں کہا اور نہ کتب مدلسین میں سماک کا ذکر موجود ہے۔
یاد رہے کہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے۔
وما علینا الاالبلاغ (۱۸ شعبان ۱۴۲۷ھ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
"حدیث اور اھلحدیث" کتاب کا جواب دیوبندی اصول سے
نقطۂ آغاز

الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین، اما بعد:
نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں ؟ اس سلسلے میں ہم نے تفصیل کے ساتھ بادلائل ثابت کیا ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھے جائیں۔
بعض لوگ تعصب وتقلید کی بنا پر ان دلائل صحیحہ سے اعراض کرتے ہیں اور بے بنیاد اعتراضات اور ضعیف و بے سند روایات کا سہارا لے کر سادہ لوح عوام کوبہلا پھسلا رہے ہیں لہٰذا ہم نے ضروری سمجھا کہ ایسے حضرات کی روایات کا تجزیہ کیا جائے۔
"حدیث اور اہلحدیث" نامی کتاب کے باب "نماز میں دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا مسنون ہے" کا مکمل جواب دے دیا ہے اور اتمام حجت کے لیے "حدیث اور اہلحدیث " کی عبارت کا عکس نقل کرنے کا اہتمام بھی کیا ہے۔
چند قابل توجہ باتیں درج ذیل ہیں:
۱۔ اگر صحیح سند کے ساتھ کوئی حدیث یا صحیح سند کے ساتھ کوئی اثر ِ صحابی ہوتا تو انوار خورشید صاحب اپنے اس باب کا آغاز قول ِ تابعی کے بجائے ان سے کرتے۔ !
۲۔ آل تقلید اپنے دعویٰ کو تقویت پہنچانے کے لیے "تحریف شدہ" روایات بھی لکھ دیتے ہیں جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے۔
۳۔ آل تقلید کا صحیح احادیث و آثار کے بجائے ضعیف و بے سند روایات بیان کرنا ، جن کی وضاحت کردی گئی ہے۔
۴۔ ڈبے میں "حدیث اور اہلحدیث" نامی کتاب کا سکین کیا ہوا عکس ہے اور نیچے اس کا جواب دیوبندی اصول کی رُو سے دیا گیا ہے ۔ والحمدللہ
۱: (ص ۲۷۵)

جواب: یہ ایک تابعی کا قول ہے جس کے متعدد جوابات ہیں:
۱۔ دیوبندیوں وبریلویوں کے نزدیک صرف امام ابو حنیفہؒ کا قول ہی حجت ہے، ان کے علاوہ دیگر اماموں یا تابعین ومن بعدہم کے اقوال سرے سے حجت ہی نہیں ہیں۔ دیوبندیوں کی پسندیدہ کتاب "تذکرۃ النعمان ترجمہ عقود الجمان" میں لکھا ہوا ہے کہ "امام ابو حنیفہؒنے فرمایا: "اگر صحابہ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہوتو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔" (ص۲۴۱، والقول المتین فی الجہر بالتامین ص ۷۰)
اس حوالے سے دو باتیں ثابت ہوئیں:
اول: امام ابو حنیفہ ؒتابعین کے اقوال وافعال کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔
دوم: امام صاحب تابعین میں سے نہیں ہیں۔
۲۔ ابو مجلز تابعی کا یہ قول نبی ﷺ کی اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ آپ ﷺ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔(دیکھئے مسند احمد ۲۲۶/۵ وسندہ حسن)
۳۔ ابومجلز تابعی کا قول دوسرے تابعی طاؤس ؒکےخلاف ہے جو فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے، دیکھئے سنن ابی داؤد (ح ۷۵۹ وسندہ حسن الی طاؤس ؒ)
۴۔ سعید بن جبیر (تابعی) فرماتے ہیں کہ نماز میں "فوق السرۃ" یعنی ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے چاہییں۔ (امالی عبدالرزاق /الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ وسندہ صحیح)
لہٰذا ابو مجلز کا قول سعید بن جبیر تابعی کے قول کے بھی خلاف ہے۔
۵۔ دیوبندی و بریلوی دونوں حضرات اس قول کے برخلاف اپنی عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ سینے پر ہاتھ باندھیں۔
۲: (ص ۲۷۶)

جواب : اس اثر میں ربیع راوی غیر متعین ہے اگر اس سے مراد ربیع بن صبیح ہے تووہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھئے جز ء رفع الیدین بتحقیقی (ح۶۸ ص ۸۱)
۳: (ص ۲۷۶)

جواب: یہ روایت موضوع ہے، محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے۔(کتاب الضعفاء للعقیلی ۵۲/۴ وسندہ صحیح)
محمد بن الحسن الشیبانی کی صریح توثیق کسی محدث سے بھی ثابت نہیں ہے اور جمہور محدثین نے اسے مجروح قراردے رکھا ہے۔ شیبانی کا استاد ربیع بن صبیح جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ کتاب الآثار بذات خود شیبانی مذکور سے ثابت نہیں ہے، جیسا کہ راقم الحروف نے "النصر الربانی فی ترجمۃ محمد بن الحسن الشیبانی" میں ثابت کیا ہے۔ فالسند ظلمات
۴: (ص۲۷۶)

جواب: یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہی نہیں ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ کا عکس (ص ۶۰،۶۲) اسے سب سے پہلے قاسم بن قطلو بغا (کذاب) نے مصنف سے منسوب کیا ہے۔ نیموی حنفی نے قلابازیاں کھاتے ہوئے بھی اس قطلو بغا والی روایت کو "غیر محفوظ" یعنی ضعیف قراردیا ہے۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
۵: (ص ۲۷۶)

جواب: یہ روایت ضعیف ہے ، اس کا راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی الواسطی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، نیموی حنفی نے کہا: "وفیہ عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وھو ضعیف"(آثار السنن ، حاشیہ : ح ۳۳۰)
۶: (ص۲۷۷)

جواب: اس کا راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ضعیف ہے ، دیکھئے جواب السابق :۵
۷: (ص ۲۷۷)

جواب: یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ مردود ہے، منتخب کنز العمال میں اس کی کوئی سند مذکور نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
۸: (ص ۲۷۷)

جواب: اس روایت کی سند میں سعید بن زربی البصری العبادانی سخت ضعیف راوی ہے۔ تحقیق کے لیے دیکھئے الخلافیات للبیہقی (قلمی ص ۳۷) مختصر الخلافیات (۳۴۲/۱)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ "منکر الحدیث" (تقریب التہذیب : ۲۳۰۴)
۹: (ص ۲۷۷)

جواب: یہ روایت تین وجہ سے ضعیف ہے:
عاصم الجحدری اور عقبہ بن صہبان کے درمیان العجاج الجحدری کا واسطہ ہے(التاریخ الکبیر ۴۳۷/۶)
العجاج مجہول الحال ہے۔
ابن الترکمانی نے لکھا ہے:
"وفی سندہ ومتنہ اضطراب" اس کی سند اور متن میں اضطراب ہے۔ (الجوہر النقی ۳۰/۲)
۱۰: (ص۲۷۸)

جواب: یہ حوالہ بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
۱۱: (ص۲۷۸)

جواب: یہ سارے حوالے بے سند ہیں لہٰذا مردود ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
کلیم حیدر بھائی،
اس کتاب میں آپ کی پیش کردہ اسکین تصاویر سائٹ سے ہٹا دی گئی ہیں۔ بہتر ہے آپ اپنے مراسلہ جات اپ ڈیٹ کریں اور فورم پر ہی یہ تصاویر اپ لوڈ کر دیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
تقلید پرستی کا ایک عبرتناک واقعہ


حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی فرماتے ہیں:

(تقریر ترمذی ص۳۹۹ مطبوعہ کتب خانہ مجیدیہ ملتان)

معلوم ہوا کہ تقلید کرنے والا دلیل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور نہ دلیل سنتا ہے ، یاد رہے کہ امام مالک سے ارسال یدین قطعاً ثابت نہیں ہے۔ مالکیوں کی غیر مستند کتاب "مدونہ" کا حوالہ مؤطا امام مالک کے مقابلے میں مردود ہے۔
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے۔ اور نمازمیں ہاتھ نہ باندھنا خلاف سنت ہے، اب ہاتھ کہاں باندھیں جائیں اس میں اہل حدیث اور اہل الرائے کا اختلاف ہے۔
شاکر بھائی اس پر بھی غور کریں


أدلة سدل اليدين في الصلاة متعددة، وسنورد لعضها على سبيل الاختصار، فمهنا:
(1) حديث الطبراني في الكبير ولفظه (كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان في صلاته رفع يديه قبال أذنيه فإذا كبر أرسلها)*1* أهـ. المراد منه، وهو يوافق معناه ما جاء في حديث أبي حميد الساعدي الآتي، انظر كتاب إبرام النقض لابن ما يابا ص (32).
(3) ومن أدلته أيضاً ما نقل عن الحافظ ابن عبدالبر في كتاب العلم أنه قال: (لقد نقل مالك حديث السدل عن عبدالله بن الحسن) أهـ.*3* أنظر إبرام النقض ص (39).
(4) ومنها ما روي من كون العلماء قد أثبتوا كون عبدالله بن الزبير كان لا يقبض ولا يرى أحداً قابضاً إلا فك يديه، وقد نقل الخطيب في تاريخ بغداد كون عبدالله بن الزبير أخذ صفة الصلاة من جده أبي بكر الصديق رضي الله عنه، وهذا يظهر منه على هذا القول كون أبي بكر رضي الله عنه كان لا يقبض، أنظر إبرام النقض ص (38) وكتاب القول الفصل ص (24)، وهذه الرواية عن عمله، وروى عنه علمه بوقوع القبض، والظاهر تأخر العمل*4*.
(5) ومنها ما نقله ابن أبي شيبة عن الحسن البصري وإبراهيم النخعي وسعيد بن المسيب وابن سيرين وسعيد بن جبير، فقال إنهما كانوا لا يقبضون في الصلاة، وهم من كبار التابعين الآخذين عن الصحابة رضي الله عنهم ومعترف لهم بالعلم والورع، انظر إبرام النقض ص (33). ومثلهم أبو مجلز وعثمان النهدي وأبو الجوزاء، فقد نقل هؤلاء أن القبض خاص بأحبار اليهود وبالمسيحيين، فقد سئل ابن سيرين عن وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة فقال: إنما ذلك من أجل الروم، وقال الحسن البصري: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (كأني أنظر إلى أحبار اليهود واضعي أيمانهم على شمائلهم في الصلاة).*5* المرجع السابق ص (34) نقلاً عن ابن أبي شيبة.
(6) ومن الأدلة أيضاً كون السدل قال العلماء إنه إما ندب أو مباح، وحين حاول أحد علماء الشافعية أن يقول إنه مكروه رد عليه الآخرون بأن الإمام الشافعي في الأم قال إنه لا بأس به لمن لا يعبث بيديه في الصلاة. وأما القبض ففيه مع قول الندب قول بالكراهة وقول بالمنع، فصار من الشبه التي يطلب تركها بالحديث المتفق عليه وهو قوله صلى الله عليه وسلم: (الحلال بين والحرام بين وبينهما أمور مشتبهات..) الحديث، وحرمته نقلها محمد السنوسي في كتابه (شفاء الصدر باري المسائل العشر) وكذلك نقلها الحطاب وغيره عند الكلام على القبض في الصلاة*6*.

ان کا جواب بھی ہو جانا چاہیے تاکہ اشکال ختم ہو جائے اور معاملہ واضح ہو جائے
 
Top