السنن الكبرى للبيهقي (2 / 48):
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ، أنبأ عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ زَكَرِيَّا، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ زَيْدٍ السُّوَائِيُّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: " إِنَّ مِنَ السُّنَّةِ فِي الصَّلَاةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ تَحْتَ السُّرَّةِ " وَكَذَلِكَ رَوَاهُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَرَوَاهُ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
سنن أبي داود (1 / 201):
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِيِّ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ»
یہ روایات علماء احناف کے نزدیک بھی ضعیف ہیں لیکن موصوف اپنا منجن بیچنے پر تلے ہوئے ہیں
علامہ عینی حنفی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
فإن قلت: كيف يكون الحديث حجة على الشافعي وهو حديث ضعيف لا يقاوم الحديث الصحيح والآثار التي احتج بها مالك والشافعي، هو حديث وائل بن حجر أخرجه ابن خزيمة في " صحيحه " قال: «صليت مع رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فوضع يده اليمنى على اليسرى على صدره» ".
اگر تم کہو کہ یہ حدیث حدیث علی رضی اللہ عنہ شافعی کے خلاف کیسے حجت ہوسکتی ہے جبکہ یہ ضعیف ہے اور اس صحیح حدیث کے ہم پلہ ہے نہ ان آثار کے ہم پلہ ہے جن سے مالک اور شافعی نے حجت پکڑی ہے اور وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے امام ابن خزیمہ بے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھا.
البناية شرح الهداية للعيني ٢/١٨٢
شمس الدین محمد بن محمد بن محمد بن امیر الحجاج رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
لم يثبت حديث يعين محل الوضع إلا حديث وائل المذكور
کس مقام پر ہاتھ باندھے جائیں؟ اس کی تعیین کے سلسلے میں وائل بن حجر کی مذکوہ حدیث کے علاوہ کوئی حدیث ثابت نہیں.
شرح المنية بحواله درة في إظهار غش نقد الصرة ص ٦٧
زین الدین بن ابراہیم بن محمد المعروف بابن نجیم المصری لکھتے ہیں:
ولم يثبت حديث يوجب تعيين المحل الذي يكون فيه الوضع من البدن إلاحديث وائل المذكور
جسم کے کس حصے پر ہاتھ باندھے جائیں؟ اس سلسلے میں وائل بن حجر کی مذکورہ حدیث کے علاوہ کوئی حدیث ثابت نہیں ہے.
البحر الرئق شرح كنز ا لدقائق ١/٣٢٠
ابو الحسن نورالدین السندی حنفی لکھتے ہیں:
وأما حديث إن من السنة وضع الأكف على الأكف في الصلاة تحت السرة فقد اتفقوا على ضعفه. كذا ذكره ابن الهمام نقلاً عن النووي، وسكت عليه.
رہی حدیث کہ سنت میں سے ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا تو اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق یے امام ابن الہمام نے اسی طرح نووی سے نقل کیا ہے اور اس پر خاموشی اختیار کی ہے.
حاشية السندي علي سنن ابن ماجه ١/٢٧١
علامہ محمد حیات سندھی حنفی نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے.
فتح الغفور في وضع الأيدي علي الصدور
علامہ عبد الحی لکھنوی فرماتے ہیں:
ضعيف متفق علي ضعفه كذا قال النووي
یہ حدیث ضعیف ہے اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے جیسا کہ نووی نے کہا ہے.
حاشية علي الهداية ١/١٠٢
نقلآ عن التعليق المنصور ص ٦٩
مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
وأما في تحت السرة فلنا أثر علي في سنن أبي داود بسند ضعيف .
تحت السرة کے سلسلے میں ہمارے لئے سنن ابی داود میں علی رضی اللہ عنہ کا ضعیف سند سے اثر ہے.
العرف الشذي للكشميري ١/٢٦١