رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
متن کی تفہیم تب ممکن ہے جب متن رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو۔ اور متن کے ثبوت کے لئے روات کا معتبر ہونا لازمی ہے۔ ورنہ اگر سند کو دیکھا نہ جائے تو آپ جیسا کوئی بھی ایڑا غیڑا دین میں کچھ بھی اضافہ کرتا جائے۔ عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "الإسناد من الدين فلو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء"یعنی جناب کو ’’متن‘‘ سے کوئی سروکار نہیں؟
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے اس کی تفہیم سے کوئی غرض و غایت نہیں اور لوگوں کو اہلحدیث ہونے کا دھوکہ دیتے ہو۔ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل اور تقریر کا نام ہے روات کو حدیث نہیں کہتے۔ کنویں سے باہر آؤ گے تو حقیقت آشکارا ہوگی۔
امام ابن سیرین فرماتے ہیں: "إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذوا دينكم" یہ علم دین ہے پس دیکھو کہ تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو (صحیح مسلم)۔
امام یحیی بن سعید القطان فرماتے ہیں: "لا تنظروا إلي الحديث، ولكن انظرا إلي الإسناد، فإن صح الإسناد وإلا فلا تغتروا بالحديث إذا لم يصح الإسناد" حدیث کی طرف مت دیکھو بلکہ اسناد کی طرف دیکھو، پس اگر اسناد صحیح ثابت ہو جائے (تو متن کی تفہیم کی طرف آؤ) ورنہ محض حدیث کے متن سے دھوکا مت کھاؤ اگر اسناد صحیح نہیں ہے۔ (سیر اعلام النبلاء)
آپ جیسے لوگ ہیں جو نبی اکرم ﷺ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے دین کی شکل بگاڑتے ہیں جنہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حدیث کے الفاظ اللہ کے رسول سے ثابت بھی ہیں یا نہیں، بس اپنے امام معصوم جسے آپ نبی تسلیم کر چکے ہیں اس کی بات سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔