عَنْ
عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ:
ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ: وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَاب
اوپر شیخ زبیر رحمہ اللہ کی تحریر میں اسی کا حوالہ ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا
(سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
اسی حدیث پر علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وثمة حديث رابع: من حديث وائل بن حُجر، [وقد سبق (ص 210) ] . أعله المومى إليه بالشذوذ (3/7) ، ولكنه تعامى عن كونه بمعنى الحديث الذي قبله عن وائل أيضاً مرفوعاً بلفظ: ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد. [وقد سبق (ص 209) ] .وقد اعترف بصحة إسناده (3/7) ، فلو أنه حاول يوماً ما أن يحقق هذا النص الصحيح في نفسه عملياً - وذلك بوضع اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد، دون أي تكلف -؛ لوجد نفسه قد
وضعهما على الصدر! ولعرف أنه يخالفه هو ومن على شاكلته من الحنفية حين يضعون أيديهم تحتالسرة، وقريباً من العورة!
[أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ] ‘‘
خلاصہ :
اس عبارت میں البانیؒ ایک مقلد ناقد کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ اگر کسی دن یہ مقلد اس صحیح حدیث پر عمل کرکے دیکھے، یعنی دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی ، کلائی اور بازو پر بغیر تکلف رکھ کر باندھے تو دونوں ہاتھوں کو سینے پر پائے گا یعنی دونوں اس صورت سینے پر ہی آئیں گے ،
اور اسے اور اس جیسے حنفی مقلدین کو سمجھ آجائے گا کہ یہ حدیث صحیح ان کے خلاف ہے
جب وہ نماز میں اپنے ہاتھوں کو ناف کے نیچے ، اور شرمگاہ کے قریب باندھتے ہیں ‘‘
(اصل صفۃ الصلاۃ ص۲۲۱ )
اور شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ہمیں کئی دفعہ اس طرح ہاتھ باندھ کر دکھایا ،
رحمہ اللہ رحمۃ واسۃ