• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

علماء کرام سے گزارش ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کا کیا طریقہ ہے اس پر روشنی ڈالیں. اور ہاتھ کو پکڑنے کے متعلق بھی وضاحت کریں. (واضح رہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق نہیں جاننا).


نوٹ: یہ سوال بغرض تفہیم ہے. گزارش ہے کہ صرف علماء کرام ہی اس پر روشنی ڈالیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم

تحریر:حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ

حدیث :
((عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ))
سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) حکم دیاجاتاتھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ (بخاری: ۱۰۲/۱ ح ۷۴۰، و موطأ امام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷ باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ، وروایۃ ابن القاسم بتحقیقی: ۴۰۹)
فوائد:
۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :

“یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ“
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)

۲: سنن ابی داود (ح ۷۵۶) وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح ، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے ، علامہ نووی نے کہا :
“عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے ” (نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)
نیموی فرماتے ہیں: “وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف” اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے ۔

۳: یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے او رعورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے ، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیاجاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر ، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں ،یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہﷺ کی تعلیم سے نماز کی ہیئت ، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے ، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہوجائے تو برحق ہے ، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔

۴: سیدنا انسؓ سے منسوب تحت السرۃ (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ۔ حافظ ابن حجر نے کہا : منکر الحدیث (تقریب التہذیب : ۲۳۰۴)
(دیکھئے مختصر الخلافیات للبیہقی: ۳۴۲/۱، تالیف ابن فرح الاشبیلی و الخلافیات مخطوط ص ۳۷ ب و کتب اسماء الرجال)

۵: بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے “تحت السرۃ” والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں “تحت السرۃ” کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلوبغا (کذاب بقول البقاعی / الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
“پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے” (فیض الباری ۲۶۷/۲)

۶: حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۲۵۱/۱)!!

۷: تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب “المدونۃ” میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالکؒ نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا :”مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں” امام مالکؒ اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگرنوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس طرح و ہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے ۔ (دیکھئے المدونۃ ۷۶/۱) اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالکؒ کی روایت کردہ حدیثِ سہل بن سعدؓ ہی کافی ہے ۔

۸: جولوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی (۷۴/۲۰ ح ۱۳۹) کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن حجدر کذاب ہے ۔ (دیکھئے مجمع الزوائد ۱۰۲/۲) معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہٰذااس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے ۔

۹: سعید بن جبیر (تابعی) فرماتےہیں کہ نماز میں “فوق السرۃ” یعنی ناف سے اوپر (سینے پر ) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق / الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ و سندہ صحیح )

۱۰: سینے ہر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب “نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام”ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدللہ!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ!
مجھے یہ پوچھنا تھا کہ علماء کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ کو بائیں پشت یا کلائی یا ذراع پر رکھنا تینوں طرح ہاتھ باندھ سکتے ہیں.
آخر یہ کس دلیل کی بنا پر؟؟؟
اگر یہ الگ الگ روایات کی بنا پر ہے تو اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ:‏‏‏‏ وَقَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَاب
عاصم بن کلیب نے اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت پہنچے اور کلائی پر رکھا، اس میں یہ بھی ہے کہ پھر میں سخت سردی کے زمانہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو بہت زیادہ کپڑے پہنے ہوئے دیکھا، ان کے ہاتھ کپڑوں کے اندر ہلتے تھے۔
(ابو داؤد: 727)
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۱۱) (صحیح)

قال الشيخ الألباني: صحيح

براہ کرم وضاحت فرمائیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عَنْعَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ:‏‏‏‏ وَقَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَاب
اوپر شیخ زبیر رحمہ اللہ کی تحریر میں اسی کا حوالہ ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا
(سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
اسی حدیث پر علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وثمة حديث رابع: من حديث وائل بن حُجر، [وقد سبق (ص 210) ] . أعله المومى إليه بالشذوذ (3/7) ، ولكنه تعامى عن كونه بمعنى الحديث الذي قبله عن وائل أيضاً مرفوعاً بلفظ: ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد. [وقد سبق (ص 209) ] .وقد اعترف بصحة إسناده (3/7) ، فلو أنه حاول يوماً ما أن يحقق هذا النص الصحيح في نفسه عملياً - وذلك بوضع اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد، دون أي تكلف -؛ لوجد نفسه قد
وضعهما على الصدر! ولعرف أنه يخالفه هو ومن على شاكلته من الحنفية حين يضعون أيديهم تحتالسرة، وقريباً من العورة!
[أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ] ‘‘

خلاصہ :
اس عبارت میں البانیؒ ایک مقلد ناقد کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ اگر کسی دن یہ مقلد اس صحیح حدیث پر عمل کرکے دیکھے، یعنی دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی ، کلائی اور بازو پر بغیر تکلف رکھ کر باندھے تو دونوں ہاتھوں کو سینے پر پائے گا یعنی دونوں اس صورت سینے پر ہی آئیں گے ،
اور اسے اور اس جیسے حنفی مقلدین کو سمجھ آجائے گا کہ یہ حدیث صحیح ان کے خلاف ہے
جب وہ نماز میں اپنے ہاتھوں کو ناف کے نیچے ، اور شرمگاہ کے قریب باندھتے ہیں ‘‘
(اصل صفۃ الصلاۃ ص۲۲۱ )
اور شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ہمیں کئی دفعہ اس طرح ہاتھ باندھ کر دکھایا ،
رحمہ اللہ رحمۃ واسۃ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اوپر شیخ زبیر رحمہ اللہ کی تحریر میں اسی کا حوالہ ہے ، ملاحظہ فرمائیں :

اسی حدیث پر علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وثمة حديث رابع: من حديث وائل بن حُجر، [وقد سبق (ص 210) ] . أعله المومى إليه بالشذوذ (3/7) ، ولكنه تعامى عن كونه بمعنى الحديث الذي قبله عن وائل أيضاً مرفوعاً بلفظ: ثم وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد. [وقد سبق (ص 209) ] .وقد اعترف بصحة إسناده (3/7) ، فلو أنه حاول يوماً ما أن يحقق هذا النص الصحيح في نفسه عملياً - وذلك بوضع اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد، دون أي تكلف -؛ لوجد نفسه قد
وضعهما على الصدر! ولعرف أنه يخالفه هو ومن على شاكلته من الحنفية حين يضعون أيديهم تحتالسرة، وقريباً من العورة!
[أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ] ‘‘

خلاصہ :
اس عبارت میں البانیؒ ایک مقلد ناقد کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ اگر کسی دن یہ مقلد اس صحیح حدیث پر عمل کرکے دیکھے، یعنی دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی ، کلائی اور بازو پر بغیر تکلف رکھ کر باندھے تو دونوں ہاتھوں کو سینے پر پائے گا یعنی دونوں اس صورت سینے پر ہی آئیں گے ،
اور اسے اور اس جیسے حنفی مقلدین کو سمجھ آجائے گا کہ یہ حدیث صحیح ان کے خلاف ہے
جب وہ نماز میں اپنے ہاتھوں کو ناف کے نیچے ، اور شرمگاہ کے قریب باندھتے ہیں ‘‘
(اصل صفۃ الصلاۃ ص۲۲۱ )
اور شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ہمیں کئی دفعہ اس طرح ہاتھ باندھ کر دکھایا ،
رحمہ اللہ رحمۃ واسۃ
محترم شیخ!
یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں پشت یا کلائی یا ذراع پر رکھنا تینوں طرح ہاتھ باندھ سکتے ہیں یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟ ہاتھ باندھنے کے تین طریقے ہیں یا ایک؟؟؟ کیونکہ ابوداؤد میں ہے:
حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا
(سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
تو اس طرح ایک طریقہ ہوگا. لیکن علماء کرام تین طریقہ بتاتے ہیں. میں مانتا ہوں کہ الگ الگ احادیث ملتی ہیں. لیکن اس مسئلہ میں صحیح بات کیا ہے؟ ہاتھ کیسے باندھے جائیں؟

اور ہاتھ پکڑنے کی کیا کیفیت ہوگی؟؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں پشت یا کلائی یا ذراع پر رکھنا تینوں طرح ہاتھ باندھ سکتے ہیں یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟ ہاتھ باندھنے کے تین طریقے ہیں یا ایک؟؟؟
اس طرح:
Screenshot_2017-03-11-09-33-27.png
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ مسئلہ کافی دن سے الجھن کا باعث بنا ہوا ہے. جتنا پڑھتا جاتا ہوں الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں. شاید وجہ یہ ہو کہ میرے سامنے تمام احادیث موجود نہیں ہیں.
اسکا حل یہی نظر آتا ہے کہ خود سے احادیث کی تخریج کی جاۓ اور جب تمام احادیث سامنے آجائیں تو کوئی راۓ قائم کی جاۓ. ایسا نہیں ہے کہ علماء کرام کی تشریحات نا قابل اعتبار ہیں بلکہ مسئلہ شاید اب تک میں کسی کو سمجھا نہیں پایا ہوں.
اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top