اپنا مقصد نکالنے کے لئے تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو بدل ڈالا دو دو طریقوں کا چکر چلا کر۔
دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر کہاں رکھنا ہے اس کا ذکر صحیح بخاری ہی میں ہے۔
صحيح البخاري أَبْوَابُ الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ فی الباب عن ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
وَوَضَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَفَّهُ عَلَى رُسْغِهِ الْأَيْسَرِ
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر رکھی
اس کے علاوہ اس حدیث کو بھی ملاحطہ فرما لیں؛
سنن أبي داود :
وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ
دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، گٹ اور کلائی پر رکھا۔
یاد رہے کہ کف، رسغ، ساعد، ذراع کا حصہ ہیں کہ ذراع بڑی انگلی کی نوک سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔
ذخیرہ احادیث میں کسی حدیث میں بھی ذراع پر ذراع رکھنے کا ذکر نہیں۔
کوئی آپ جتنا بھی جاہل ہو سکتا ہے سوچا نہیں تھا
دائئں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ذراع سے مراد ذراع پر رکھنا ہے
اور ہاتھ ذراع پر تب ہی آئے گا جب دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنی تک کے حصہ پر رکھا جائے گا
آپ نے کہا کہ ذراع کے کون سے حصے پر رکھنا ہے
عرض ہے کہ لفظ ذراع بولا جا رہا ہے تو اس سے مراد پوری ذراع ہو گا نا کہ ذراع کا کوئی حصہ
اس کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھو اگر عقل والے ہوئے تو سمجھ جاؤ گے ورنہ ہوا میں اندھی چلاتے رہنا
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے
اور وہاں بازو دھونے کے لئے الفاظ ہیں کہ:
وغسل وجھه وذراعیه
اور آپ اپنے چہرے اور دونوں ذراع کو دھویا
[دیکھیے صحیح بخاری حدیث 274]
اب آپ کی طرح کوئی جاہل یہ کہنا شروع کر دے کہ جناب یہاں بازو دھونے کا ذکر ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ذراع کہاں تک دھونی ہے۔
ظاہر ہے تم کہو گے کہ ذراع سے مراد پوری ذراع کہنی تک دھونی ہے
تو جب یہاں ذراع کا یہ معنی لیتے ہو
تو نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق حدیث سہل بن سعد میں ذراع سے مراد پوری ذراع کا نام لیتے ہوئے موت پڑھتی ہے کیا؟؟؟؟
یا مسلکی تعصب کی وجہ سے کر نہیں سکتے
Sent from my SM-J510F using Tapatalk