- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام:
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام کی وصیت کرنا بدعت اور عمل جاہلیت ہے۔ اگر وصیت نہ کی گئی ہو تو اہل میت کا از خود اس قسم کی دعوتوں کا انتظام کرنا بھی جائز نہیں ہے‘‘
سیّدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم دفن کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔
(ابن ماجہ ۲۱۶۱.)
پھر یہ بات حکم شریعت کے خلاف بھی ہے کیونکہ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ اہل میت کے لیے کھانا تیار کرکے ان کی دل جوئی کی جائے اس لیے کہ وہ مصیبت کی وجہ سے مشغول ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جعفر بن ابی طالب کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا: ’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو ان لوگوں پر ایسی مصیبت آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔ ‘‘
(أبو داؤد: الجنائز، باب: صنعۃ الطعام لأہل المیت: ۲۳۱۳، ابن ماجہ: ۰۱۶۱۔ فتاوی اسلامیہ، جلد دوئم ص۸۸.)
ساتواں یا چالیسواں منانا:
الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب کافتوی ہے کہ میت کے لیے اس کی وفات کے دن یا کسی معین مثلا ساتویں یا چالیسویں دن بکری، گائے، اونٹ یا پرندوں وغیرہ کو ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کرنا بدعت ہے اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کر نے کے لیے دن یا رات کا معین کرنا مثلا جمعرات کا دن، جمعہ کا دن یا جمعہ کی رات وغیرہ تو یہ بھی بدعت ہے سلف صالحین میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا۔ لہٰذا اس قسم کی بدعتوں کو ترک کر دینا واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)) ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات شامل کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
(بخاری، الصلح، ۷۹۶۲، ومسلم، الاقضیۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور، ۸۱۷۱۔ فتاوی اسلامیہ ،جلد دوم ،ص۷۶.)
فتویٰ کمیٹی الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب کا فتوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے میت کے لیے کسی قسم کی محفل منعقد کرنا ہرگز ثابت نہیں۔ نہ وفات کے وقت نہ وفات کے بعد، ساتویں یا چالیسویں دن نہ ایک سال کے بعد بلکہ یہ بدعت اور بہت بری بدعت ہے۔ یہ قدیم مصریوں اور دیگر کافروں کی رسم ہے لہٰذا جو مسلمان اس قسم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں انہیں سمجھانا اور اس سے منع کرنا ضروری ہے ہو سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر کے ان بدعات اور کفار کی مشابہت سے اجتناب کر لیں۔
(فتاوی اسلامیہ، جلد دوئم ص۹۸.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک آدمی کو چھینک آئی تو اس نے ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) کہا یہ سن کر سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ’’میں بھی ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) کہہ سکتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ہمیں یہ تعلیم نہیں دی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ: "چھینک آنے پر ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ)) پڑھا جائے۔‘‘
(ترمذی، الادب، باب ما یقول العاطس اذا عطس، ۸۳۷۲۔ امام حاکم (۴/۵۶۲،۶۶۲) اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔
معلوم ہوا کہ دین میں اپنی طرف سے کسی قسم کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وفات کے بعد دعوتوں کے اہتمام کی وصیت کرنا بدعت اور عمل جاہلیت ہے۔ اگر وصیت نہ کی گئی ہو تو اہل میت کا از خود اس قسم کی دعوتوں کا انتظام کرنا بھی جائز نہیں ہے‘‘
سیّدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم دفن کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔
(ابن ماجہ ۲۱۶۱.)
پھر یہ بات حکم شریعت کے خلاف بھی ہے کیونکہ شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ اہل میت کے لیے کھانا تیار کرکے ان کی دل جوئی کی جائے اس لیے کہ وہ مصیبت کی وجہ سے مشغول ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جعفر بن ابی طالب کے غزوہ موتہ میں شہید ہونے کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا: ’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو ان لوگوں پر ایسی مصیبت آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔ ‘‘
(أبو داؤد: الجنائز، باب: صنعۃ الطعام لأہل المیت: ۲۳۱۳، ابن ماجہ: ۰۱۶۱۔ فتاوی اسلامیہ، جلد دوئم ص۸۸.)
ساتواں یا چالیسواں منانا:
الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب کافتوی ہے کہ میت کے لیے اس کی وفات کے دن یا کسی معین مثلا ساتویں یا چالیسویں دن بکری، گائے، اونٹ یا پرندوں وغیرہ کو ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کرنا بدعت ہے اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کر نے کے لیے دن یا رات کا معین کرنا مثلا جمعرات کا دن، جمعہ کا دن یا جمعہ کی رات وغیرہ تو یہ بھی بدعت ہے سلف صالحین میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا۔ لہٰذا اس قسم کی بدعتوں کو ترک کر دینا واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)) ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات شامل کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
(بخاری، الصلح، ۷۹۶۲، ومسلم، الاقضیۃ، باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور، ۸۱۷۱۔ فتاوی اسلامیہ ،جلد دوم ،ص۷۶.)
فتویٰ کمیٹی الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب کا فتوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے میت کے لیے کسی قسم کی محفل منعقد کرنا ہرگز ثابت نہیں۔ نہ وفات کے وقت نہ وفات کے بعد، ساتویں یا چالیسویں دن نہ ایک سال کے بعد بلکہ یہ بدعت اور بہت بری بدعت ہے۔ یہ قدیم مصریوں اور دیگر کافروں کی رسم ہے لہٰذا جو مسلمان اس قسم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں انہیں سمجھانا اور اس سے منع کرنا ضروری ہے ہو سکتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر کے ان بدعات اور کفار کی مشابہت سے اجتناب کر لیں۔
(فتاوی اسلامیہ، جلد دوئم ص۹۸.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک آدمی کو چھینک آئی تو اس نے ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) کہا یہ سن کر سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے ’’میں بھی ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ)) کہہ سکتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ہمیں یہ تعلیم نہیں دی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ: "چھینک آنے پر ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ)) پڑھا جائے۔‘‘
(ترمذی، الادب، باب ما یقول العاطس اذا عطس، ۸۳۷۲۔ امام حاکم (۴/۵۶۲،۶۶۲) اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔
معلوم ہوا کہ دین میں اپنی طرف سے کسی قسم کی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔