- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
کبیرہ گناہ کے مرتکب شخص کا نماز جنازہ:
مسلمانوں کو گناہ گاروں کا نماز جنازہ پڑھنا چاہیے۔ البتہ کسی بڑے عالم کو اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے جو حرام کام کرنے میں مشہور ہو تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور اس کام سے رک جائیں۔
سیّدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک جنازہ لایا گیا اور آپ سے عرض کی گئی کہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں۔
آپ نے پوچھا کیا اس پر قرض ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ پس آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
پھر دوسرا جنازہ لایا گیا۔ آپ نے پوچھا کیا اس پر قرض ہے؟ آپ کو بتایا گیا ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس نے وراثت چھوڑی ہے؟ صحابہ نے کہا تین دینار۔ آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ آپ نے پوچھا کیا اس پر قرض ہے؟ صحابہ نے کہا ہاں تین دینار آپ نے فرمایا تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس کا قرض میرے ذمے ہے آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
(بخاری الحوالات،ان احال دین المیت علی رجل جاز، ۹۸۲۲.)
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کی جنگ میں ایک شخص فوت ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو بے شک اس نے مال غنیمت میں سے چوری کی ہے۔"
(النسائی، الجنائز، الصلاۃ علی من غل، ۱۶۹۱.)
سیدناجابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جس نے خود کشی کی تھی۔‘‘
(مسلم: الجنائز، باب: ترک الصلاۃ علی القاتل نفسہ: ۸۷۹.)
رئیس دارالافتاء سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا اسے مسلمانوں کے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا اس لیے کہ وہ گناہ گار ہے کافر نہیں۔ خودکشی معصیت ہے کفر نہیں لیکن معروف عالم دین اور ایسے لوگوں کو جن کی خاص اہمیت ہو چاہیے کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کے عمل سے راضی ہیں۔ (فتاویٰ اسلامیہ ص۹۹.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر مارتا ہے وہ جہنم میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو شخص نیزہ چبھو کر اپنی جان دیتا ہے وہ جہنم میں اپنے آپ کو نیزہ مارتارہے گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔‘‘
(بخاری، الجنائز، باب ماجاء فی قاتل النفس: ۵۶۳۱، مسلم: ۹۰۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی جان خود لی اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘
(بخاری، احادیث الانبیاء: ۳۶۴۳، مسلم: الإیمان، باب: غلظ تحریم قتل الإنسان نفسہ: ۳۱۱.)
لہٰذا معزز اہل علم اس کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں تا کہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ (ع، ر)
البتہ کوئی گناہ گار توبہ کر لے یا اس پر دنیا میں حد جاری ہو جائے تو بڑے عالم کو اس کا نماز جنازہ پڑھانا چاہیے۔
ایک صحابیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کا اعتراف کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری کی پھر اس کا نماز جنازہ پڑھا اور دفن کی گئی۔ (مسلم، الحدود، من اعترف علی نفسہ بالزنی،۵۹۶۱.)
مسلمانوں کو گناہ گاروں کا نماز جنازہ پڑھنا چاہیے۔ البتہ کسی بڑے عالم کو اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے جو حرام کام کرنے میں مشہور ہو تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور اس کام سے رک جائیں۔
سیّدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک جنازہ لایا گیا اور آپ سے عرض کی گئی کہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں۔
آپ نے پوچھا کیا اس پر قرض ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ پس آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
پھر دوسرا جنازہ لایا گیا۔ آپ نے پوچھا کیا اس پر قرض ہے؟ آپ کو بتایا گیا ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس نے وراثت چھوڑی ہے؟ صحابہ نے کہا تین دینار۔ آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ آپ نے پوچھا کیا اس پر قرض ہے؟ صحابہ نے کہا ہاں تین دینار آپ نے فرمایا تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اس کا قرض میرے ذمے ہے آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
(بخاری الحوالات،ان احال دین المیت علی رجل جاز، ۹۸۲۲.)
سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کی جنگ میں ایک شخص فوت ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو بے شک اس نے مال غنیمت میں سے چوری کی ہے۔"
(النسائی، الجنائز، الصلاۃ علی من غل، ۱۶۹۱.)
سیدناجابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جس نے خود کشی کی تھی۔‘‘
(مسلم: الجنائز، باب: ترک الصلاۃ علی القاتل نفسہ: ۸۷۹.)
رئیس دارالافتاء سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا اسے مسلمانوں کے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا اس لیے کہ وہ گناہ گار ہے کافر نہیں۔ خودکشی معصیت ہے کفر نہیں لیکن معروف عالم دین اور ایسے لوگوں کو جن کی خاص اہمیت ہو چاہیے کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کے عمل سے راضی ہیں۔ (فتاویٰ اسلامیہ ص۹۹.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر مارتا ہے وہ جہنم میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو شخص نیزہ چبھو کر اپنی جان دیتا ہے وہ جہنم میں اپنے آپ کو نیزہ مارتارہے گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔‘‘
(بخاری، الجنائز، باب ماجاء فی قاتل النفس: ۵۶۳۱، مسلم: ۹۰۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے اپنی جان خود لی اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘
(بخاری، احادیث الانبیاء: ۳۶۴۳، مسلم: الإیمان، باب: غلظ تحریم قتل الإنسان نفسہ: ۳۱۱.)
لہٰذا معزز اہل علم اس کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں تا کہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ (ع، ر)
البتہ کوئی گناہ گار توبہ کر لے یا اس پر دنیا میں حد جاری ہو جائے تو بڑے عالم کو اس کا نماز جنازہ پڑھانا چاہیے۔
ایک صحابیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کا اعتراف کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری کی پھر اس کا نماز جنازہ پڑھا اور دفن کی گئی۔ (مسلم، الحدود، من اعترف علی نفسہ بالزنی،۵۹۶۱.)