- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
تجہیز و تکفین
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ گزرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’راحت پانے والا ہے یا اس سے اوروں نے راحت پائی‘‘ مومن بندہ دنیا کے رنج ومصیبت سے راحت پاتا ہے اور اس ایذاء سے اللہ کی رحمت کی طرف آرام پاتا ہے اور فاجر بندہ سے انسان، شہر، درخت اور جانور راحت پاتے ہیں۔‘‘
(بخاری: الرقاق، باب: سکرات الموت: ۲۱۵۶، مسلم: ۰۵۹.)
عالم نزع میں تلقین :
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ان لوگوں کو جو مرنے کے قریب ہوں (لا الہ الا اللہ) کی تلقین کرو۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب تلقین الموتی (لا الہ الا اللہ) حدیث ۶۱۹، ۷۱۹.)
یعنی ان کے قریب (لا الہ الا اللہ) پڑھو تا کہ اسے سن کر وہ بھی پڑھیں لیکن افسوس کہ جہلا زندہ، قریب المرگ کو تو اس کی تلقین نہیں کرتے البتہ موت کے بعد چارپائی کو کندھا دیتے وقت کہتے جاتے ہیں ’’کلمہ شہادت، حالانکہ خیر القرون کے مسلمانوں میں سے کسی نے بھی یہ کام نہیں کیا پھر یہ آج ہمارے دین کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟ (ع، ر)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’جس کا آخر کلام (لا الہ الا اللہ) ہوا وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
(ابو داود، الجنائز، باب فی التلقین: ۶۱۱۳۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
کیونکہ اس نے آثار موت دیکھ کر نہیں بلکہ اللہ سے ڈر کر (لا الہ الا اللہ) پڑھا لیکن چند ہی لمحوں بعد اللہ کی قضا آ گئی اور (لا الہ الا اللہ) اس کی زندگی کا آخری کلام بن گیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے آمین۔ (ع، ر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب تم بیمار یا میت کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ اس وقت تم جو کچھ کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المریض والمیت: ۹۱۹.)
اللہ تعالیٰ کے بارے میں نیک گمان رکھنا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہیں اس حال میں موت آنی چاہیے کہ تم اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتے ہو۔‘‘
(مسلم: الجنۃ، باب: الأمر بحسن الظن باللہ تعالیٰ عند الموت: ۷۷۸۲.)
اللہ تعالیٰ سے امید اور گناہوں سے خوف :
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قریب المرگ نوجوان کے پاس سے گزرے آپ نے پوچھا اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے خائف ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس بندے کے دل میں اس وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اللہ تعالیٰ اسے وہی عطا فرما دیتے ہیں جسکی وہ امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے امن بخشتا ہے جس سے وہ خائف ہوتا ہے ۔‘‘
(ابن ماجہ۱۶۲۴، ترمذی الجنائز باب ما جاء فی التشدید عند الموت:۳۸۹.)
مکہ یا مدینہ میں مرنے کی تمنا کرنا:
ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا:
’’اللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ‘‘
’’اے اللہ! مجھے شہادت کی موت دے اور مجھے مدینہ رسول میں موت دے۔‘‘
(بخاری: أبواب فضائل المدینہ: ۰۹۸۱)
موت کی آرزو کی ممانعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’موت کی آرزو نہ کرو۔ اگر تم نیک ہو تو شاید زیادہ نیکی کر سکو گے اور اگر بدکار ہو تو شاید توبہ کر کے اللہ کو راضی کر سکو گے۔‘‘
(بخاری، التمنی، باب مایکرہ من التمنی: ۵۳۲۷.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"نہ موت کی آرزو کرو نہ موت کی دعا کرو، کیونکہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی (نیکی کرنے کی) امید ختم ہو جاتی ہے اور مومن کی لمبی عمر سے اس کی نیکیاں بڑھتی ہیں۔‘‘
(مسلم، الذکر و الدعاء باب کراھیۃ تمنی الموت: ۲۸۶۲.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا :
’’دنیا میں اس طرح رہ گویا کہ تو مسافر بلکہ راہی ہے‘‘
چنانچہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے، جب شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کر۔ جب صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کر۔ تندرستی کو بیماری اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جان۔
(بخاری، الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم کن فی الدنیا کانک غریب: ۶۱۴۶.)
میت کو بوسہ دینا :
جس کا کوئی قریبی دوست یا عزیز فوت ہو جائے تو اس کو میت کا فرط محبت سے بوسہ لینا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا اور اس وقت وہ فوت ہو چکے تھے اور میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔
(ابو داؤد الجنائز، باب فی تقبیل المیت:۳۶۱۳،ترمذی۹۸۹.)
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹایا پھر آپ پر جھکے اور آپ کا بوسہ لیا۔
(بخاری: الجنائز، باب: الدخول علی المیت بعد الموت إذا أدرج فی کفنہ: ۱۴۲۱.)
میت پر چادر ڈالنا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ایک دھاری دار یمنی چادر سے آپ کو ڈھانپ دیا تھا۔‘‘
(بخاری: الجنائز، باب: الدخول علی المیت بعد الموت: ۱۴۲۱.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت پر چادر ڈالنی چاہیے جو بوقت ضرورت ہٹائی جا سکتی ہے۔
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ گزرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’راحت پانے والا ہے یا اس سے اوروں نے راحت پائی‘‘ مومن بندہ دنیا کے رنج ومصیبت سے راحت پاتا ہے اور اس ایذاء سے اللہ کی رحمت کی طرف آرام پاتا ہے اور فاجر بندہ سے انسان، شہر، درخت اور جانور راحت پاتے ہیں۔‘‘
(بخاری: الرقاق، باب: سکرات الموت: ۲۱۵۶، مسلم: ۰۵۹.)
عالم نزع میں تلقین :
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ان لوگوں کو جو مرنے کے قریب ہوں (لا الہ الا اللہ) کی تلقین کرو۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب تلقین الموتی (لا الہ الا اللہ) حدیث ۶۱۹، ۷۱۹.)
یعنی ان کے قریب (لا الہ الا اللہ) پڑھو تا کہ اسے سن کر وہ بھی پڑھیں لیکن افسوس کہ جہلا زندہ، قریب المرگ کو تو اس کی تلقین نہیں کرتے البتہ موت کے بعد چارپائی کو کندھا دیتے وقت کہتے جاتے ہیں ’’کلمہ شہادت، حالانکہ خیر القرون کے مسلمانوں میں سے کسی نے بھی یہ کام نہیں کیا پھر یہ آج ہمارے دین کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟ (ع، ر)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’جس کا آخر کلام (لا الہ الا اللہ) ہوا وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
(ابو داود، الجنائز، باب فی التلقین: ۶۱۱۳۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
کیونکہ اس نے آثار موت دیکھ کر نہیں بلکہ اللہ سے ڈر کر (لا الہ الا اللہ) پڑھا لیکن چند ہی لمحوں بعد اللہ کی قضا آ گئی اور (لا الہ الا اللہ) اس کی زندگی کا آخری کلام بن گیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے آمین۔ (ع، ر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب تم بیمار یا میت کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ اس وقت تم جو کچھ کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المریض والمیت: ۹۱۹.)
اللہ تعالیٰ کے بارے میں نیک گمان رکھنا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہیں اس حال میں موت آنی چاہیے کہ تم اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتے ہو۔‘‘
(مسلم: الجنۃ، باب: الأمر بحسن الظن باللہ تعالیٰ عند الموت: ۷۷۸۲.)
اللہ تعالیٰ سے امید اور گناہوں سے خوف :
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قریب المرگ نوجوان کے پاس سے گزرے آپ نے پوچھا اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے خائف ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس بندے کے دل میں اس وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اللہ تعالیٰ اسے وہی عطا فرما دیتے ہیں جسکی وہ امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے امن بخشتا ہے جس سے وہ خائف ہوتا ہے ۔‘‘
(ابن ماجہ۱۶۲۴، ترمذی الجنائز باب ما جاء فی التشدید عند الموت:۳۸۹.)
مکہ یا مدینہ میں مرنے کی تمنا کرنا:
ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا:
’’اللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ‘‘
’’اے اللہ! مجھے شہادت کی موت دے اور مجھے مدینہ رسول میں موت دے۔‘‘
(بخاری: أبواب فضائل المدینہ: ۰۹۸۱)
موت کی آرزو کی ممانعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’موت کی آرزو نہ کرو۔ اگر تم نیک ہو تو شاید زیادہ نیکی کر سکو گے اور اگر بدکار ہو تو شاید توبہ کر کے اللہ کو راضی کر سکو گے۔‘‘
(بخاری، التمنی، باب مایکرہ من التمنی: ۵۳۲۷.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"نہ موت کی آرزو کرو نہ موت کی دعا کرو، کیونکہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی (نیکی کرنے کی) امید ختم ہو جاتی ہے اور مومن کی لمبی عمر سے اس کی نیکیاں بڑھتی ہیں۔‘‘
(مسلم، الذکر و الدعاء باب کراھیۃ تمنی الموت: ۲۸۶۲.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا :
’’دنیا میں اس طرح رہ گویا کہ تو مسافر بلکہ راہی ہے‘‘
چنانچہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے، جب شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کر۔ جب صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کر۔ تندرستی کو بیماری اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جان۔
(بخاری، الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم کن فی الدنیا کانک غریب: ۶۱۴۶.)
میت کو بوسہ دینا :
جس کا کوئی قریبی دوست یا عزیز فوت ہو جائے تو اس کو میت کا فرط محبت سے بوسہ لینا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا اور اس وقت وہ فوت ہو چکے تھے اور میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔
(ابو داؤد الجنائز، باب فی تقبیل المیت:۳۶۱۳،ترمذی۹۸۹.)
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ۔انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹایا پھر آپ پر جھکے اور آپ کا بوسہ لیا۔
(بخاری: الجنائز، باب: الدخول علی المیت بعد الموت إذا أدرج فی کفنہ: ۱۴۲۱.)
میت پر چادر ڈالنا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ایک دھاری دار یمنی چادر سے آپ کو ڈھانپ دیا تھا۔‘‘
(بخاری: الجنائز، باب: الدخول علی المیت بعد الموت: ۱۴۲۱.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت پر چادر ڈالنی چاہیے جو بوقت ضرورت ہٹائی جا سکتی ہے۔