• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تناقضات
علی محمد حقانی دیوبندی اپنی ایک پسندیدہ روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:

" یزید بن ابی کوفی پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے مگر وہ ثقہ ہے۔"
( نبوی نماز مدلل، سنتدی پا گو پھریوں، ص: 355 )
{ یزید بن ابی زیاد کوفی تی توژی جو بعض محدثین کلام کیو آھی مگر اھوثقۃ آھی۔}

اور جب یہی یزید بن ابی زیاد "مخالفین" کی حدیث مسح علی الجوربین میں آ جاتا ہے تو "حقانی" صاحب فرماتے ہیں:
"زیلعی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے"
{زیلعی فرمائیندو آھی تھ ھن جی سندم یزید بن ابی زیاد آھی۔ء اھو ضعیف آھی۔}
(نبوی نماز، ص:165)
کیا انصاف اسی کا نام ہے!

محدث شام شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ سے ایک عجیب سہو ہوا ہے، انھوں نے "صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم" ص:80 میں ایک ضعیف اور غیر صریح روایت کی بنیاد پر جہری نمازوں میں قراتِ فاتحہ کو منسوخ قرارد دیا ہے، حالانکہ ان کی مستدل روایت کے راوی سیدنا ابور ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جہری و سری دونوں نمازوں میں مقتدی کا سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت ہے۔
{دیکھیے: صحیح مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراۃ الفاتحہ فی کل رکعۃ۔۔۔۔۔، حدیث: 395 و صحیح ابی عوانۃ: 128/2 ، و سندہ صحیح۔}


مختصر یہ کہ نماز کے موضوع پر اردو اور دیگر زبانوں کی اکثر کتب پر اندھا دھند اعتماد صحیح نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد کتابوں نے عوام کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر رکھا ہے۔

ڈاکٹر شفیق الرحمٰن صاحب نے عوام و خواص کے لیے عام فہم اردو میں "نمازِ نبوی" کے نام سے کتاب مرتب کی ہے۔ جس میں انھوں نے کوشش کی ہے کہ کوئی ضعیف حدیث شامل نہ ہونے پائے۔ راقم نے بھی تحقیق و تخریج کے دوران میں اس بات کی بھر پور سعی کی ہے کہ اس میں صرف مقبول احادیث کو لایا جائے اب ماشاء اللہ جدید ایڈیشن میں تحقیق و تخریج کی نظر ثانی کی گئی ہے، لہذا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی ضعیف روایت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ انسان غلطی اور خطا کا پتلا ہے، لہذا اہل علم سے درخواست ہے کہ اگر کسی حدیث کی علت پر مطلع ہوں تو راقم کو آگاہ کریں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تلافی کی جاسکے۔

یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ کتاب و سنت کی نشرواشاعت کے معروف عالمی ادارے "دارالسلام" کو اسے جدید ترین اور اعلٰی ترین انداز میں شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ اس سلسلے میں جناب مولانا عبدالمالک مجاہد ڈائریکٹر دارالسلام، حافظ عبدالعظیم اسد حفظہما اللہ اور دیگر وابستگان دارالسلام کی گراں قدر مساعی قبول فرمائے اور اسے میرے لیے بھی توشہ آخرت بنائے۔ آمین!

ابو طاہر حافظ زبیر علیزئی محمدی
( اگست 2008 ء)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کتاب و سنت کی اتباع کا حکم

ارشاد باری تعالٰی ہے:
"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِين"[المائدہ 3:5]
"اے مسلمانو! " آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ہے، اور تمھارے لیے اسلام کو "بطور" دین پسند کرلیا ہے"
یہ آیت 9 ذولحجہ 10 ہجری کو میدانِ عرفات میں نازل ہوئی۔ اس کے نازل ہونے کے تین ماہ بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل اور اکمل دین امت کو سونپ کر رفیق اعلٰی سے جاملے اور امت کو یہ وصیت فرما گئے:
"تركت فيكم امرين لن تضلوا ماتمسكتم بهما كتاب الله وسنة نبيه"
{[حسن] السنن الکبرٰی للبیھقی، آداب القاضی، باب ما یقضی بہ القاضی و یفتی بہ المفتی: 114/10 ، حدیث: 20337 ، والموطا للامام مالک، القدر، باب النھی عن القول بالقدر، حدیث:1708 ۔ یہ روایت اپنے شواہد کے ساتھ حسن ہے۔ }
"میں تمھارے اندر دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہوگے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔"
[صحیح البخاری، الاعتصام، باب الاقتداء، بسنن رسول اللہ، حدیث:7280 ]

معلوم ہوا کہ اسلام، کتاب و سنت میں محدود ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ و فتویٰ صرف وہی صحیح اور قابلِ عمل ہے جو قرآن و حدیث سے مدلل ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى، قيل ومن يأبى يا رسول الله! قال: من أطاعني دخل الجنة، ومن عصاني فقد أبى"
" میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول! انکار کرنے والا کون ہے۔ آپ نے فرمایا: " جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا۔"
[صحیح البخاری، الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ ، حدیث:7280 ]

سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور موثر نصیحت فرمائی۔ وعظ سن کر ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل دہل گئے۔ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ وعظ تو ایسا ہے جیسے کسی رخصت کرنے والے کا ہوتا ہے، اس لیے ہمیں خاص وصیت کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور "اپنے امیر کی جائز بات" سننا اور ماننا اگرچہ "تمہارا امیر" حبشی غلام ہی ہو۔ میرے بعد جو تم میں سے زندہ رہے گا، وہ سخت اختلاف دیکھے گا۔ اس وقت تم میری سنت اور ہدایات یافتہ خلفائے راشدین کا طریقہ لازم پکڑنا، اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہنا اور "دین کے اندر" نئے نئے کاموں "اور طور طریقوں" سے بچنا کیونکہ "دین میں" ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
{[صحیح] سنن ابی داود، السنہ، باب فی لزوم السنۃ، حدیث: 4607 ، وسندہ صحیح، و جامع الترمذی، العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدعۃ، حدیث:2676 ۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ }
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ کوئی بدعت حسنہ نہیں۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:
"ہر بدعت گمراہی ہے، خواہ لوگ اسے اچھا سمجھیں۔"
[السنۃ لمحمد بن نصرالمروزی، ص:82 و سندہ صحیح]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حدیث کے معاملے میں چھان بین اور احتیاط:
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ"[النحل 44:16 ]
" اور ہم نے آپ کی طرف ذکر "قرآن مجید" نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کے لیے بیان کریں جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے تا کہ وہ غوروفکر کریں۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الا انی اُوتیتُ الکتابَ وَ مِثلہُ معہُ"
"یاد رکھو! مجھے قرآن مجید اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز "حدیث" دی گئی ہے۔"
{[صحیح] سنن ابی داود، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، حدیث:4604 ، و سندہ صحیح، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث:97 میں اسے صحیح کہا ہے۔}

جس طرح اللہ تعالٰی نے اپنی اطاعت کو فرض کیا ہے، اسی طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی فرض قرار دی ہے۔ فرمایا:
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ "[محمد 33:47 ]
"اے اہل ایمان! اللہ کی اطاعت کرو اور "اسکے" رسول کی اطاعت کرو۔ اور "اس اطاعت سے ہٹ کر" اپنے اعمال باطل نہ کرو۔"

معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی طرح حدیث نبوی بھی شرعی دلیل اور حجت ہے مگر حدیث سے دلیل لینے سے قبل اس بات کا علم ضروری ہے کہ آیا وہ حدیث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یَکُونُ فی آخر الزمَان دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ یاتُونَکم منَ الاحَادیثِ بِمَا لم تسمعوا انتم ولا آباوکم فایاکم وایاکم وایاھم لا یُضلونَکم وَلا یفتنونکُمْ"
[صحیح مسلم، المقدمہ، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحملھا، حدیث:7 ]
"آخری زمانے میں دجال اور کذاب ہوں گے، وہ تمھیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنھیں تم نے اور تمھارے آباء و اجداد نے نہیں سنا ہوگا، لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمھیں گمراہ کردیں اور فتنے میں ڈال دیں۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مزید فرمایا:
"مَنْ کَذَبَ علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار"
[صحیح البخاری، العلم، باب اثم من کذاب علی النبی، حدیث:110,108,107 ]
"جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع"
[ صحیح مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع، حدیث:5 ، ترقیم دارالسلام۔]
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے۔"

ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس نے مجھ سے ایسی کوئی حدیث بیان کی جسے وہ جانتا ہے کہ جھوٹ ہے تو یہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ہے" اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کرتا ہے جس بارے میں اسے شک ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا صحیح نہیں تو یہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ہے۔"
[اطراف الغرائب والافراد للدارقطنی، تالیف محمد بن طاہر المقدسی:22/1 ، و سندہ صحیح۔]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ ثابت ہے کہ وہ حدیث بیان کرنے میں انتہائی احتیاط برتتے تھے۔
حافظ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" صحابہ رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے سے مخص اس لیے گریز کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث بیان کرنے میں غلطی، زیادتی یا کمی ہوجائے اور وہ آپ کے اس فرمان " جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولتا ہے، اس کا ٹھکانا آگ ہے" کے مصداق قرار پائیں۔"
[الکامل لابن عدی: 80/1 ۔]

امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو شخص حدیث کے ضعیف راوی کا ضعف جاننے کے باوجود ضعف بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہے اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث یا ان میں سے اکثر اکاذیب "جھوٹ" ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ علم ہوجانے کے باوجود عمدا ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث محض اس لیے بیان کرتے ہیں کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ "اس کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتابیں تالیف کردی ہیں"۔ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔"
[صحیح مسلم، المقدمہ، باب بیان ان الاسناد من الدین کے آخری الفاظ]

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے کسی عمل کا واجب یا مستحب ہونا ثابت ہوسکتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے، اس نے اجماع کی مخالفت کی۔"
[التوسل والوسیلۃ، ص:95 ۔]

جمال الدین قاسمی فرماتے ہیں کہ یحٰیی بن معین، ابن حزم اور ابوبکر ابن العربی رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک فضائل اعمال میں بھی صرف مقبول احادیث ہی قابل استدلال ہیں۔
[قواعد التحدیث، ذکر المذاھب فی الاخذ بالضعیف۔۔۔۔، ص:113 ۔]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شیخ احمد شاکر، شیخ البانی اور شیخ محمد محیی الدین عبدالحمید اور دیگر محقیقین کا بھی یہی موقف ہے۔
یاد رہے کہ ضعیف حدیث (جسے مسلکی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصول حدیث کی روشنی میں خالص فنی بنیادوں پر دلیل کے ساتھ ضعیف قرار دیا جائے) سے استدلال کے ضمن میں محدثین کرام کے مختلف اقوال ہیں، مثلا:

1- اگر عمل قوی دلائل سے ثابت ہے اور ضعیف حدیث میں صرف اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے تو لوگوں کو اس عمل کی ترغیب دینے کے لیے اس ضعیف حدیث کو بیان کرنا جائز ہے۔

2-کسی مسئلے کے متعلق قرآن مجید اور مقبول احادیث مکمل طور پر خاموش ہوں، صرف بعض ضعیف روایات سے کچھ راہنمائی ملتی ہو تو اس مسئلے میں کسی امام کے قول پر عمل کرنے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ اس ضعیف حدیث پر عمل کر لیا جائے۔ مگر دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ صرف وہی ضعیف حدیث بیان کی جائے گی جس کا ضعف معمولی ہو، نیز اس کے ضعیف ہونے کی صراحت کی جائے گی۔

3-تیسری رائے یہ ہے کہ اگر ضعیف حدیث کی تائید میں دیگر قوی دلائل موجود ہوں تو پھر اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

4-چوتھا قول یہ ہے کہ ضعیف حدیث کے بیان کا دروازہ نہ کھولا جائے کیونکہ:
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
  • کسی عمل کی جس فضیلت کو بیان کیا جائے گا، سننے والا اس فضیلت کی سچائی پر ایمان لائے گا "تبھی اس عمل کو بجا لائے گا" اور اسی بات کا نام عقیدہ ہے اور عقائد میں ضعیف حدیث سے استدلال بالاتفاق ناجائز ہے۔
  • تقریبا ہر باطل فرقہ، کتاب و سنت کے فہم میں صحابہ و تابعین کے مجموعی فہم و عمل سے کافی دور ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے خود ساختہ امتیازی مسائل کا دفاع نہیں کرسکتا، اب اگر ضعیف احادیث کے بیان کا دروازہ کھول دیا گیا تو وہ یہ جھوٹا دعوٰی کرے گا کہ "فلاں حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر اس کی تائید فلاں آیت کریمہ یا مقبول حدیث سے ہورہی ہے، لہذا یہ حدیث ضعیف کے باوجود قابل استدلال ہے۔" حالانکہ فہم سلف کے مطابق اس فلاں آیت یا مقبول حدیث سے اس ضعیف حدیث کی قطعا تائید نہیں ہوتی۔
  • آج کل عملا جو کچھ ہورہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ مفاد پرست علمائے سوء صرف فضائل ہی نہیں بلکہ عقائد و اعمال کو بھی مردود بلکہ موضوع روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ "اول تو یہ احادیث بالکل صحیح ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہوئی تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بالاتفاق قابل قبول ہوتی ہے۔"
  • اس میں شک نہیں کہ دین محمدی کا اصل محافظ اللہ تعالی ہے، لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ دین الہی کی کوئی بات مروی نہ ہو یا مروی تو ہو مگر اس کی تمام روایات ضعیف ہوں، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک چیز دین الہی نہ ہو مگر مقبول احادیث کے ذخیرے میں موجود ہو، دوسرے الفاظ میں جو اصل دین ہے وہ مقبول روایات میں موجود ہے اور جو دین نہیں ہے اس روایت پر موثر جرح موجود ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ ضعیف حدیث سے استدلال کا دروازہ بند ہی رہنے دیا جائے۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: ریاض الصالحین اردو" طبیع دارالسلام فوائد حدیث:1381 ع، ر۔]
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محقیقین، محدثین اور ائمہ رحمۃ اللہ علیھم کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا آپ نے کیا ہے۔ یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ یا منع کیا ہے۔ یہ اس لیے کی جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں، لہذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہیے جو ثابت ہو ورنہ وہ انسان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کے مانند ہوگا مگر "افسوس کہ" اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہیں رکھا، سوائے محقیقین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کیونکہ وہ "علماء" بہت سی صحیح روایات کے بارے میں صیغہ تمریض کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی۔ اور بہت سی ضعیف روایات کے بارے میں صیغہ جزم کے ساتھ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ یا اسے فلاں نے روایت کیا ہے۔ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔"
[مقدمۃ المجموع:63/1 ]
معلوم ہوا کہ صحیح اور ضعیف روایات کی پہچان اور ان میں تمیز کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیر ثابت شدہ حدیث کی نسبت کرنے سے بچا جاسکے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ولا فرق فی العمل بالحدیث فی الاحکام او فی الفضائل اذ الکل شرع۔ "احکام ہوں یا فضائل، حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب شریعت میں سے ہیں۔"
[تبیین العجب بما ورد فی فضائل رجب، ص:73 ]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خطبہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم


انَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَ نَسْتَعِیْنُہ، مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہ وَاَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیُکَ لَہٗ وَ [اَشْھَدُ] اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ۔ اَمَّا بَعْدُ:
فَاِنّٰ خَیْرِ الْحَدِیثِ كتاب الله وخير الهدي هدي محمد [صلى الله عليه وسلم] وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة

[صحیح مسلم، الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ، حدیث: 867, 868 ، و سنن النسائی، النکاح، باب ما یستحب من الکلام عند النکاح، حدیث:3280 ]
"بلا شبہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس سے مدد مانگتے ہیں، جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اپنے در سے دھتکار دے اس کے لیے کوئی رہبر نہیں ہوسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ تعالٰی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔"
حمد و صلاۃ کے بعد:

یقینا تمام باتوں سے بہتر بات اللہ تعالٰی کی کتاب ہے اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور تمام کاموں سے بد ترین کام وہ ہیں جو "اللہ کے دین میں" اپنی طرف سے نکالے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نماز: فرضیت، فضیلت اور اہمیت


اولاد کو نمازسکھانے کا حکم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مروا اولادکم بالصلاۃ وھم ابناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع"
[صحیح] سنن ابی داور، الصلاۃ، باب متٰی یومر الغلام بالصلاۃ؟ حدیث:494 ، وسندہ حسن، وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء متٰی یومر الصبی بالصلاۃ؟ حدیث:407 وقال:"حسن صحیح" اس حدیث کو امام ابن خزیمہ، ) حدیث:1002 ( ، حاکم: )201/1 علی شرط مسلم( اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
"اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس برس کے ہوں تو انھیں ترکِ نماز پر مارو اور ان کے بستر جدا کردو۔"
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والدین کو حکم فرمارہے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو سات برس کی عمر ہی میں نماز کی تعلیم دے کر نماز کا عادی بنانے کع کوشش کریں اور اگر وہ دس برس کے ہوکر نماز نہ پڑھیں تو والدین تادیبی کاروائی کریں، انھیں سزا دے کر نماز کا پابند بنائیں اور دس برس کی عمر کا زمانہ چونکہ بلوغت کے قریب ہے اس لیے انھیں اکٹھا نہ سونے دیں۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ترک نماز، کفر کا اعلان ہے

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایمان اور شرک و کفر کے درمیان فرق، نماز کا چھوڑ دینا ہے۔"
[صحیح مسلم، الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، حدیث:82 ]

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان نماز دیوار کی طرح حائل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ترکِ نماز مسلمان کو کفر تک پہنچانے والا عمل ہے۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ہمارے اور ان "منافقوں" کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے نماز چھوڑ دی ، پس اس نے کفر کیا۔"
[صحیح] جامع الترمذی، الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، حدیث:2621 ، وسندہ صحیح، و سنن النسائی، الصلاۃ، باب الحکم فی تارک الصلاۃ، حدیث:464۔ اسے امام ترمذی، ابن حبان ) الاحسان:1452 ( ، حاکم ) المستدرک 7,6/1( اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو جو امن حاصل ہے کہ وہ قتل نہیں کیے جاتے اور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور انھیں مسلمان سمجھا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور ان کا نماز پڑھنا ان کے اور مسلمانوں کی تلوار اور یلغار سے محفوظ ہے اور جس نے نماز ترک کی تو اس نے اپنے کفر کا اظہار کردیا۔ مسلمان بھائیو! غور کرو، کس قدر خوف کا مقام ہے کہ ترک نماز، کفر کا اعلان ہے۔

عبداللہ بن شقیق رحمۃ اللہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اعمال میں سے کسی چیز کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔
[صحیح] جامع الترمذی، الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، حدیث:2622 ، وسندہ صحیح وللحدیث طریق آخر عندالحاکم:7/1 ، حدیث:12 ، وسندہ حسن۔

سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جو شخص نماز چھوڑ دے تو یقینا اس سے "اللہ کی حفاظت کا" ذمہ ختم ہوگیا۔"
[حسن] سنن ابن ماجہ، الفتن، باب الصبر علی البلاء، حدیث:4034 ، وسندہ حسن، وحسنہ البوصیری۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جس شخص کی نمازِ عصر فوت ہوجائے تو گویا اس کا اہل "گھربار" اور مال لوٹ لیا گیا۔"
[صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ ، باب اثم من فاتتہ العصر، حدیث:552 ، و صحیح مسلم ، المساجد، باب التغلیظ فی تقویت صلاۃ العصر، حدیث:626 ]

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص نے نماز عصر چھوڑ دی ، اس کے اعمال باطل ہوگئے۔"
[صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب من ترک العصر، حدیث:553 ، وباب التبکیر بالصلاۃ فی یوم غیم، حدیث:594 ]
 
Top