• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جنبی کے قرآن پڑھنے کی کراہیت
حالت جنابت میں قرآن حکیم کی تلاوت کے ممنوع ہونے کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا اور کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔"
[سنن ابی داود، الطھارۃ، باب فی الجنب یقرا القرآن، حدیث:229، وھو حدیث حسن، وجامع الترمذی، الطھارۃ، باب ما جاء فی الرجل یقرا القرآن علی کل حال۔۔۔۔، حدیث:146

حافظ ابن حجر نے فرمایا:
"حق یہ ہے کہ یہ حدیث حسن کی قسم سے ہے اور دلیل بننے کے لائق ہے"
[فتح الباری:408/1 ، تحت الحدیث:305]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے چونکہ جنابت عموما ایک اختیاری حالت ہے جس کا ازالہ بھی اختیاری ہے، یعنی غسل کرکے یا 'کسی وجہ سے غسل نہ کرسکنے کی صورت میں' تیمم کرکے انسان اس حالت کو دور کرسکتا ہے، لہذا جنبی شخص کے لیے قرآن کریم کی تلاوت جائز نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی حسن سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ
قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک جنبی نہ ہوجاو اور اگر جنابت لاحق ہوجائے تو پھر ایک حرف بھی نہ پڑھو۔
[سنن الدار قطنی:118/1، حدیث:419 وقال:"ھو صحیح عن علی" وسندہ حسن]

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کررہے تھے کی وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہیں دیا۔
[صحیح مسلم، الحیض، باب التیمم، حدیث:370 معلوم ہوا کہ پیشاب کی حالت میں نہ تو کسی کو سلام کرنا چاہیے اور نہ کسی کے سلام کا جواب دینا چاہیے۔]

جب حدث اصغر کی حالت میں سلام کا جواب دینا مکروہ ہوا تو جنبی کا قرآن کی تلاوت کرنا بالاولٰی مکروہ ہوا،
البتہ باقی اذکار کی بابت امام نووی فرماتے ہیں:
جنبی کے لیے تسبیح، تحمید، تکبیر اور دیگر دعائیں اور اذکار بالاجماع جائز ہیں۔
[المجموع:164/2]

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔
[صحیح مسلم، الحیض، باب ذکراللہ تعالی فی حال الجنابۃ وغیرھا، حدیث:373]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کیا حائضہ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے؟
حالت حیض ونفاس میں قرآن کریم کی تلاوت کے ممنوع و ناجائز ہونے کے بارے میں کوئی مقبول 'صحیح یا حسن' حدیث نہیں ہے، لہذا حائضہ عورت قرآن چھوئے بغیر زبانی تلاوت کرسکتی ہے جبکہ ذکرواذکار اور دعائیں بالاجماع جائز ہیں۔
اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، آپ فرماتی ہیں کہ ایام حج میں حائضہ ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بیت اللہ کے طواف کے علاوہ باقی ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔"
[صحیح البخاری، الحیض، باب الامر بالنفساء اذا نفس، حدیث:294، والحج، باب تقضی الحائض المناسک کلھا الا الطواف بالبیت۔۔۔۔۔،حدیث:1650، وصحیح مسلم، الحج، باب بیان وجوہ الاحرم۔۔۔، حدیث:1211]

ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی عورتوں کو بھی عید کے روز عیدگاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ لوگوں کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعا کے ساتھ دعا کریں لیکن نماز نہ پڑھیں۔
[صحیح البخاری، الحیض، باب شھود الحائض العیدین۔۔۔۔۔۔، حدیث:324، وصحیح مسلم، صلاۃ العیدیں، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین الی المصلی۔۔۔۔، حدیث:890]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
استحاضہ کا مسئلہ
استحاضہ یہ ہے کہ ایام حیض کے بعد عورت کی شرمگاہ سے خون کا نکلنا جاری رہے۔ یہ ایک مرض ہے۔ جب عورت اپنے حیض کی عادت کے دن پورے کرلے تو پھر اسے غسل کرکے نماز شروع کردینا لازم ہے کیونکہ خونِ استحاضہ کا حکم خونِ حیض سے مختلف ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابو حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! مجھے خونِ استحاضہ آتا ہے اور میں 'بوجہ خونِ استحاضہ' پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نہیں جب تجھے حیض کا خون آئے تو ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دے اور جس وقت خونِ حیض بند ہوجائے 'اور خونِ استحاضہ شروع ہو' تو اپنے استحاضہ کے خون کو دھو اور نماز پڑھ۔"
[صحیح البخاری، الحیض، باب الاستحاضۃ، حدیث:306 وصحیح مسلم، الحیض، باب المستحاضۃ وغسلھا، حدیث:333]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابو حنیش رضی اللہ عنہا سے یہ بھی فرمایا:
"ہر نماز کے لیے وضو کرلیا کرو۔"
[صحیح البخاری، الوضوء، باب غسل الدم، حدیث:228]

خون حیض، بلوغت کی علامت ہے۔ یہ ایک طبعی خون ہے، اس کا آنا بیماری کی وجہ نہیں ہوتا، اس کے برعکس استحاضہ بیماری کی علامت ہے چونکہ یہ خون، حیض سے پہلے بھی آتا ہے اور حیض کی مدت گزر جانے کے باوجود نہیں رکتا، اس لیے بعض خواتین اسے بھی حیض سمجھ کر نماز چھوڑے رکھتی ہیں، لہذا اس مسئلے کو بالوضاحت سمجھنا ضروری ہے:

1- اگر کسی عورت کو خون استحاضہ شروع ہوجائے اگر اس سے پہلے اس کی عادت حیض معلوم تھی کہ اتنے دن حیض آتا ہے تو یہ عورت اپنی عادت کے مطابق عمل کرکے اتنے دن حائضہ رہے گی جبکہ باقی ایام استحاضہ کے شمار کرے گی جس میں ہر فرض نماز کے لیے وضو کرکے نماز پڑھے گی۔

2- اگر اسے اپنے حیض کی عادت معلوم نہیں لیکن اسے دونوں خونوں کے درمیان فرق کا علم ہے کہ حیض کا خون گاڑھا، سیاہ اور بدبودار ہوتا ہے، جبکہ خونِ استحاضہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ اگر دونوں خونوں کے درمیان تمیز کرسکتی ہے تو جسے وہ حیض سمجھے اس خون کو خونِ حیض سمجھ کر حائضہ بنی رہے اور اس کے بعد کے دنوں میں مستحاضہ شمار ہوگی۔

3- اگر اسے نہ تو اپنی عادت کا علم ہے اور نہ ہی دونوں خونوں کے درمیان تمیز کرسکتی ہے تو اس صورت میں وہ عورتوں کی عام عادت کے مطابق مہینے میں چھ، سات دن حیض کے شمار کرے گی جبکہ باقی دن استحاضہ کے شمار کرے گی۔
دیکھیے نیل الاوطار:259/1 ع۔و۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حائضہ کے لیے نماز اور روزے کی ممانعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے"
[صحیح البخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، حدیث:304، وصحیح مسلم، الایمان، باب نقصان الایمان۔۔۔۔، حدیث:79]

ایک عورت معاذہ رحمۃ اللہ علیہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا:
کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضا تو دیتی ہے، نماز کی نہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آیا کرتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا مگر نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔"
[صحیح مسلم، الحیض، قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاۃ، حدیث:355]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نفاس کا حکم
بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے، اسے نفاس کہتے ہیں۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن بیٹھا کرتی تھیں۔
[حسن] سنن ابی داود، الطھارۃ، باب ماجاء فی کم تمکث النفساء؟ حدیث:139، وسنن ابن ماجہ، الطھارۃ، باب النفساء کم تجلس؟ حدیث:648 امام حاکم نے المستدرک:175/1 میں اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح ، جبکہ امام نووی رحمۃ اللہ نے المجمعوع: 525/2 میں حسن کہا ہے۔

یعنی عام طور پر چالیس دن نفاس کی حالت میں رہتے ہوئے نماز، روزہ اور جماع سے اجتناب کرتی تھیں۔

اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیھم کے نزدیک نفاس کے خون کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ اگر چالیس روز کے بعد بھی خون جاری رہے تو اکثر اہل علم کے نزدیک وہ خون استحاضہ ہے جس میں عورت ہر نماز کے لیے وضو کرتی ہے۔ نفاس کی کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں۔

نفاس اور حیض کے خون کا حکم ایک جیسا ہے، یعنی ان حالات میں نماز، روزہ اور جماع منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام نفاس کی نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔
[صحیح] سنن ابی داود، الطھارۃ، باب ماجاء فی وقت النفساء، حدیث:312 وھو حدیث حسن۔ امام حاکم نے المستدرک:175/1 میں اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔

ابن المنذر نیشاپوری فرماتے ہیں:
نفاس کے خون کی وجہ سے نماز ترک کی جاتی ہے، لہذا اگر یہ خون بند ہوجائے تو فرض نماز پڑھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
[الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف:253/2]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
غسل کا بیان

غسل جنابت کا طریقہ
میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر دونوں ہاتھ دھوئے، پھر دائیں کے ساتھ بائیں پر پانی ڈالتے ہوئے شرمگاہ کو دھویا، پھر بایاں ہاتھ، جس سے شرمگاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا، پھر اسے دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ دھویا، پھر کہنیوں سمیت ہاتھ دھوئے، پھر تین بار سر پر پانی ڈالا اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا، پھر تمام بدن پر پانی ڈالا، پھر جہاں آپ نے غسل کیا تھا اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔
[صحیح البخاری، الغسل، باب تفریق الغسل والوضوء، حدیث:265،وصحیح مسلم، الحیض، باب صفۃ غسل الجنابۃ، حدیث:317]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کسی حدیث میں(غسل جنابت کا وضو کرتے وقت) سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔
[فتح الباری:472/1، تحت الحدیث:249]

عائشہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔
امام نسائی نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے:
"جنابت کے وضو میں سر کا مسح ترک کرنا"۔
[صحیح]سنن النسائی، الغسل، باب ترک مسح الراس فی الوضوء من الجنابۃ، حدیث:422 وسندہ صحیح غریب۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے امام احمد سے سوال کیا کہ جنبی جب (غسل سے قبل)وضو کرے تو کیا سر کا مسح بھی کرے؟
آپ نے فرمایا کہ وہ مسح کس لیے کرے جب کہ وہ اپنے سر پر پانی ڈال گا؟

امی عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے نہاتے اور دونوں اس سے چلو بھر بھر کر لیتے تھے۔
[صحیح البخاری، الغسل، باب تخلیل الشعر۔۔۔۔، حدیث:273]
تنبیہ: نماز کے لیے غسل جنابت کا وضو کافی ہے۔

آبادی میں غسل کرتے وقت پردے کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔
[صحیح البخاری، الغسل، باب التستر فی الغسل عند الناس، حدیث:280,281، وصحیح مسلم، الحیض، باب تستر المغتسل بشوب ونحوہ، حدیث:336,337]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دیگر غسل
غسل جنابت کے بعد اب ان احوال کا ذکر کیا جارہا ہے جن میں غسل کرنا واجب، مسنون یا مستحب ہے۔

جمعہ کے دن غسل
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اذا جاء احدکم الجمعۃ فلیغسل"
"جب تم میں سے کوئی شخص نماز جمعہ کے لیے آئے تو وہ غسل کرے"۔
[صحیح البخاری، الجمعۃ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ۔۔۔۔، حدیث:877، وصحیح مسلم، الجمعۃ، باب کتاب الجمعۃ، حدیث:844]

سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہفتے میں ایک دن (جمعے کو)غسل کرے۔ اس میں سر اور اپنا بدن دھوئے"۔
[صحیح البخاری، الجمعۃ، باب ھل علی من لم یشھد الجمعۃ غسل۔۔۔؟ حدیث:897، وصحیح مسلم، الجمعۃ، باب الطیب والسواک یوم الجمعۃ، حدیث:849]

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جمعے کے دن ہر بالغ مسلمان پر نہانا واجب ہے"۔
صحیح البخاری، الجمعۃ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ۔۔۔۔۔، حدیث:879]

ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جمعے کے دن غسل کرنا واجب ہے کیونکہ اس کی احادیث زیادہ صحیح اور قوی ہیں۔ ابن حزم اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہما نے بھی اسی مذہب کو اختیار کیا ہے۔
[دیکھیے المحلّٰی:255/1، ونیل الاوطار:275/1]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
میت کو غسل دینے والا غسل کرے
سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص میت کو غسل دے اسے چاہیے کہ وہ خود بھی نہائے۔"
[حسن صحیح]سنن ابی داود، الجنائز، باب فی الغسل من غسل المیت، حدیث:3161,3162، وھو حدیث حسن، وجامع الترمذی، الجنائز، باب فی الغسل من غسل المیت، حدیث:993، وسنن ابن ماجہ، الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت، حدیث:1463۔ امام ترمذی نے اسے حسن جبکہ ابن حبان نے الموارد، حدیث:751 میں اور امام حاکم نے المستدرک:23/1 میں صحیح کہا ہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ہم میت کو غسل دیتے، پھر ہم میں سے بعض غسل کرتے اور بعض نہ کرتے۔
[صحیح] السنن الکبرٰی للبھقی:306/1، وسنن الدارقطنی:72/2،حدیث:1802 وسندہ صحیح، حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر:138/1 میں اسے صحیح کہا ہے۔
دونوں احادیث کو ملانے سے مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ جو شخص میت کو غسل دے، اس کے لیے نہانا مستحب ہے، ضروری نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نومسلم کے لیے غسل
سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ
وہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کریں۔
[حسن صحیح] سنن ابی داود، الطھارۃ، باب فی الرجل، یسلم فیومربالغسل، حدیث:355، وھو حدیث صحیح، وجامع الترمذی، الجمعۃ، باب ما ذکر فی الاغتسال عندما یسلم الرجل، حدیث:605۔ وقال:"حسن" امام نووی نے المجموع:152/2 میں اسے حسن جبکہ امام ابن خزیمہ نے حدیث:255,256 میں اور ابن حبان نے الموارد، حدیث:234 میں صحیح کہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عیدین کے روز غسل
نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدالفطر کے روز عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔
[صحیح] الموطا للامام مالک، العیدین، باب العمل فی غسل العیدین، حدیث:436۔177/1، حدیث:428، وسندہ صحیح اس کی سند اصح الاسانید ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جمعہ، عرفہ، قربانی اور عیدالفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔
[صحیح] السنن الکبرٰی للبیھقی:278/3، والشافعی فی الام:163/7، وسندہ صحیح، وشرح معنی الاثار:119/1

یہ عیدین کے روز غسل پر سب سے اچھی دلیل ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں:
اس مسئلے میں اعتماد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر پر ہے، نیز اس کی بنیاد جمعے کے غسل پر قیاس ہے۔
[المجموع:11/5]
 
Top