- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
وضو کے دیگر مسائل
احادیث میں وضو کے اعضاء کو دو دو بار اور ایک ایک بار دھونے کا ذکر بھی آیا ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اکثر عمل تین تین بار دھونے پر رہا ہے۔
ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
سب علماء کا اتفاق ہے کہ اعضاء کا ایک ایک بار دھونا بھی کافی ہے۔
ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وضو کی کیفیت دریافت کی تو آپ نے اسے اعضاء کا تین تین بار دھونا سکھایا اور فرمایا: "اس طرح کامل وضو ہے، پھر جو شخص اس (تین تین بار دھونے) پر زیادہ کرے یا (یوں) کمی کرے (کہ کسی عضو کو چھوڑ ڈالے یا پورا نہ دھوئے) پس تحقیق اس نے (ترک سنت کی بنا پر)برا کیا اور(مسنون حد سے تجاوز کرکے)زیادتی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے اپنی جان پر)ظلم کیا۔"
[صحیح]سنن ابی داود، الطھارۃ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، حدیث:135 وسندہ حسن، وسنن النسائی، الطھارۃ، باب الاعتداء فی الوضوء، حدیث:140۔ امام ابن خزیمہ نے حدیث:174 میں اور امام نووی نے المجموع:438/1 میں اسے صحیح ، جبکہ حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر:83/1 میں جید کہا ہے۔
احادیث میں وضو کے اعضاء کو دو دو بار اور ایک ایک بار دھونے کا ذکر بھی آیا ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اکثر عمل تین تین بار دھونے پر رہا ہے۔
ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
سب علماء کا اتفاق ہے کہ اعضاء کا ایک ایک بار دھونا بھی کافی ہے۔
ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وضو کی کیفیت دریافت کی تو آپ نے اسے اعضاء کا تین تین بار دھونا سکھایا اور فرمایا: "اس طرح کامل وضو ہے، پھر جو شخص اس (تین تین بار دھونے) پر زیادہ کرے یا (یوں) کمی کرے (کہ کسی عضو کو چھوڑ ڈالے یا پورا نہ دھوئے) پس تحقیق اس نے (ترک سنت کی بنا پر)برا کیا اور(مسنون حد سے تجاوز کرکے)زیادتی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے اپنی جان پر)ظلم کیا۔"
[صحیح]سنن ابی داود، الطھارۃ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، حدیث:135 وسندہ حسن، وسنن النسائی، الطھارۃ، باب الاعتداء فی الوضوء، حدیث:140۔ امام ابن خزیمہ نے حدیث:174 میں اور امام نووی نے المجموع:438/1 میں اسے صحیح ، جبکہ حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر:83/1 میں جید کہا ہے۔