• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز وتر

asad142

رکن
شمولیت
اپریل 25، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
65
السلام علیکم...
میں احناف کی مسجد میں نماز تراویح ادا کرتا ہوں.. اب احناف کے نزدیک تین رکعت وتر کا طریقہ الگ ہے جیسے پہلے تشہد میں بھی التحیات کا پڑھنا اور دعاءقنوت سے پہلے رفع یدین کرنا وغیرہ...
اب کیا میں بھی امام کی اتباع کرتے ہوئے پہلے تشہد میں التحیات اور دعاء قنوت سے پہلے رفع یدین کروں یا نہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم...
میں احناف کی مسجد میں نماز تراویح ادا کرتا ہوں.. اب احناف کے نزدیک تین رکعت وتر کا طریقہ الگ ہے جیسے پہلے تشہد میں بھی التحیات کا پڑھنا اور دعاءقنوت سے پہلے رفع یدین کرنا وغیرہ...
اب کیا میں بھی امام کی اتباع کرتے ہوئے پہلے تشہد میں التحیات اور دعاء قنوت سے پہلے رفع یدین کروں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام تین وتر ، دو تشہد اور ایک سلام کیساتھ پڑھاتا ہے، اور دعائے قنوت کے بدلے اجتماعی دعا مانگتا ہے۔
جس مسجد میں میں نماز پڑھتا ہوں اس مسجد کا امام وتر کی نماز کچھ ایسے پڑھاتا ہے کہ: تین رکعات بالکل مغرب کی نماز کی طرح یعنی: دوسری رکعت میں تشہد کیلئے بیٹھتا ہے، پھر اسکے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوتا ہے،
اس نماز کا کیا حکم ہے؟ کیا اس نماز کی کوئی شرعی دلیل ہے یا نہیں؟ کیا میں اسکے ساتھ صرف تراویح پڑھ کر وتر اکیلئے پڑھ لوں؟ یا میں وتر اسکے ساتھ پڑھوں؟
یہ بات بھی علم میں ہو کہ امام متعصب حنفی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:

آپکے امام نے نمازِ وتر تین رکعات دو تشہد اور ایک سلام کیساتھ پڑھائی ہے یہ ان مشہور مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں جمہور اور احناف کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے، اور ہمارے نزدیک اس انداز سے نماز وتر ادا کرنا مکروہ ہے، چنانچہ تین رکعت وتر ادا کرنے کے دوشرعی طریقے ہیں وہ یہ ہیں:

پہلا طریقہ: تین رکعت کو ایک ہی تشہد کیساتھ پڑھا جائے۔

دوسرا طریقہ: کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے، اور پھر ایک رکعت وتر ادا کرے۔

آپکو ان دونوں طریقوں کی تفصیل مع دلائل سوال نمبر : (46544) کے جواب میں ملے گی۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر کی تین رکعات کو دو تشہد اور ایک سلام کیساتھ نمازِ مغرب کی طرح پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اور ہم نے اس کیفیت سے ممانعت کے متعلق علمائے کرام کے فتاوی جات سوال نمبر: (72246) اور (26844) کے جوابات میں ذکر کئے ہیں۔


چنانچہ آپکے لئے ضروری ہے کہ آپ اسے نصیحت کریں، اور اتباعِ سنت کیلئے اسکی راہنمائی کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام چال چلن، اور خصوصی طور پر نماز میں اقتدا کی جائےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (ایسے نماز پڑھو جیسے کہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) بخاری: (605)

اور قنوت وتر کے بارے میں مسئلہ ہم نے سوال نمبر: (14093) کے جواب میں بیان کردیا ہے۔

ہم آپ کے لئے یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ:

آپ اس امام اچھے انداز میں نصیحت کریں، شاید کے وہ آپکی بات مان لے، اور خود ساختہ اعمال ترک کردے، اور اگر وہ اپنی ڈِگر پر ڈٹا رہے تو آپ اسکے پیچھے نماز اسی صورت میں ترک کر سکتے ہیں کہ آپ کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو اپنی شکل وصورت اور نماز میں سنت کا پیرو کار ہو، اور اگر ایسا امام نہ ملے تو آپ اسی کے پیچھے نمازیں پڑھیں، اسکی بدعت کا نقصان اُسی کو ہوگا، اور آپکو ساری رات قیام کا ان شاء اللہ اجر مل جائے گا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب الآذان میں کہا ہے کہ: باب ہے: "فتنہ پرور، اور بدعتی کی امامت کے بارے میں" اور حسن بصری کہتے ہیں کہ: [اسکے پیچھے] نماز پڑھو، اسکی بدعت اُسی پر ہوگی۔

اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ :( نماز آدمی کے تمام اعمال میں سب سے عمدہ چیز ہے جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی عمدہ کام کرو، اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے علیحدہ رہو)انتہی

اس امام نے امام ابو حنیفہ کیلئے تعصب کا اظہار کیا، تو مسلمان پر واجب ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو، چاہے اس کی زد میں کسی بھی شخص کی مخالفت ہوتی ہو۔

چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہوگئی تو اب اس کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کے قول کی وجہ سے سنت کو ترک کردے"

تمام مسلم ائمہ کرام کے اجتہادات ہیں، اور جو اجتہاد میں کامیاب رہے تو اسکے لئے دوہرا اجر ہے، اور اگر اجتہاد میں غلطی کا شکار ہوجائے تو ایک اجر ضرور ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے: (جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ خوب تگ ودو کیساتھ فیصلہ کرے، اور فیصلہ صحیح ہوجائے تو ایسے شخص کو دوہرا جر ملے گا، اور اگر فیصلہ کرنے والا غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے تو اسے ایک اجر ملے گا) بخاری: (7652)، مسلم: (1716)

یہی وجہ تھی کہ ائمہ کرام اتباع کتاب و سنت کا زیادہ حرص کیساتھ اہتمام کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے ہمیں یہ حکم دیا کہ اگر انکے اجتہادی اقوال سنت سے متصادم ہوں تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دیا جائے۔

اور اس قسم کے اقوال آپکو البانی رحمہ اللہ کی کتاب: "صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " میں ملے گے، لیکن ہم یہاں پر ان میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے چند اقوال ذکر کرتے ہیں۔

آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر حدیث صحیح ثابت ہو تو وہ میرا مذہب ہے"

اور فرمایا:
"جب تک کوئی ہمارے اقوال کے ماخذ، مصادر [یعنی دلائل]نہیں جانتا اس وقت تک اس کیلئے ہمارے اقوال اپنانا جائز نہیں ہے"

اسی طرح فرمایا:

"جب میں کوئی بات کہوں جو کتاب اللہ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کےسے متصادم ہو تو میری بات کو چھوڑ دینا۔ "

چنانچہ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خود ہی قرآن وسنت کی اتباع کا حکم دے رہے ہیں، اور اپنے اجتہاد کیساتھ کہے ہوئے متصادم اقوال کو چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔
اس سب کے باوجود ہم آپکی آراء کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیسے ترک کر دیں!؟ اگر یہ متعصب امام ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بات کو سچے دل سے مانتا تو سنت پر عمل کرتا، اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو ترک کردیتا ، جیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود ہی اس بات کا حکم دیا ہے۔

واللہ اعلم .( الاسلام سؤال و جواب )
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام تین وتر ، دو تشہد اور ایک سلام کیساتھ پڑھاتا ہے، اور دعائے قنوت کے بدلے اجتماعی دعا مانگتا ہے۔
جس مسجد میں میں نماز پڑھتا ہوں اس مسجد کا امام وتر کی نماز کچھ ایسے پڑھاتا ہے کہ: تین رکعات بالکل مغرب کی نماز کی طرح یعنی: دوسری رکعت میں تشہد کیلئے بیٹھتا ہے، پھر اسکے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوتا ہے،
اس نماز کا کیا حکم ہے؟ کیا اس نماز کی کوئی شرعی دلیل ہے یا نہیں؟ کیا میں اسکے ساتھ صرف تراویح پڑھ کر وتر اکیلئے پڑھ لوں؟ یا میں وتر اسکے ساتھ پڑھوں؟
یہ بات بھی علم میں ہو کہ امام متعصب حنفی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:

آپکے امام نے نمازِ وتر تین رکعات دو تشہد اور ایک سلام کیساتھ پڑھائی ہے یہ ان مشہور مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں جمہور اور احناف کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے، اور ہمارے نزدیک اس انداز سے نماز وتر ادا کرنا مکروہ ہے، چنانچہ تین رکعت وتر ادا کرنے کے دوشرعی طریقے ہیں وہ یہ ہیں:

پہلا طریقہ: تین رکعت کو ایک ہی تشہد کیساتھ پڑھا جائے۔

دوسرا طریقہ: کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے، اور پھر ایک رکعت وتر ادا کرے۔

آپکو ان دونوں طریقوں کی تفصیل مع دلائل سوال نمبر : (46544) کے جواب میں ملے گی۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر کی تین رکعات کو دو تشہد اور ایک سلام کیساتھ نمازِ مغرب کی طرح پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اور ہم نے اس کیفیت سے ممانعت کے متعلق علمائے کرام کے فتاوی جات سوال نمبر: (72246) اور (26844) کے جوابات میں ذکر کئے ہیں۔


چنانچہ آپکے لئے ضروری ہے کہ آپ اسے نصیحت کریں، اور اتباعِ سنت کیلئے اسکی راہنمائی کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام چال چلن، اور خصوصی طور پر نماز میں اقتدا کی جائےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (ایسے نماز پڑھو جیسے کہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) بخاری: (605)

اور قنوت وتر کے بارے میں مسئلہ ہم نے سوال نمبر: (14093) کے جواب میں بیان کردیا ہے۔

ہم آپ کے لئے یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ:

آپ اس امام اچھے انداز میں نصیحت کریں، شاید کے وہ آپکی بات مان لے، اور خود ساختہ اعمال ترک کردے، اور اگر وہ اپنی ڈِگر پر ڈٹا رہے تو آپ اسکے پیچھے نماز اسی صورت میں ترک کر سکتے ہیں کہ آپ کسی ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو اپنی شکل وصورت اور نماز میں سنت کا پیرو کار ہو، اور اگر ایسا امام نہ ملے تو آپ اسی کے پیچھے نمازیں پڑھیں، اسکی بدعت کا نقصان اُسی کو ہوگا، اور آپکو ساری رات قیام کا ان شاء اللہ اجر مل جائے گا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب الآذان میں کہا ہے کہ: باب ہے: "فتنہ پرور، اور بدعتی کی امامت کے بارے میں" اور حسن بصری کہتے ہیں کہ: [اسکے پیچھے] نماز پڑھو، اسکی بدعت اُسی پر ہوگی۔

اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ :( نماز آدمی کے تمام اعمال میں سب سے عمدہ چیز ہے جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی عمدہ کام کرو، اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے علیحدہ رہو)انتہی

اس امام نے امام ابو حنیفہ کیلئے تعصب کا اظہار کیا، تو مسلمان پر واجب ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو، چاہے اس کی زد میں کسی بھی شخص کی مخالفت ہوتی ہو۔

چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہوگئی تو اب اس کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کے قول کی وجہ سے سنت کو ترک کردے"

تمام مسلم ائمہ کرام کے اجتہادات ہیں، اور جو اجتہاد میں کامیاب رہے تو اسکے لئے دوہرا اجر ہے، اور اگر اجتہاد میں غلطی کا شکار ہوجائے تو ایک اجر ضرور ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے: (جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ خوب تگ ودو کیساتھ فیصلہ کرے، اور فیصلہ صحیح ہوجائے تو ایسے شخص کو دوہرا جر ملے گا، اور اگر فیصلہ کرنے والا غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے تو اسے ایک اجر ملے گا) بخاری: (7652)، مسلم: (1716)

یہی وجہ تھی کہ ائمہ کرام اتباع کتاب و سنت کا زیادہ حرص کیساتھ اہتمام کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے ہمیں یہ حکم دیا کہ اگر انکے اجتہادی اقوال سنت سے متصادم ہوں تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دیا جائے۔

اور اس قسم کے اقوال آپکو البانی رحمہ اللہ کی کتاب: "صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " میں ملے گے، لیکن ہم یہاں پر ان میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے چند اقوال ذکر کرتے ہیں۔

آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر حدیث صحیح ثابت ہو تو وہ میرا مذہب ہے"

اور فرمایا:
"جب تک کوئی ہمارے اقوال کے ماخذ، مصادر [یعنی دلائل]نہیں جانتا اس وقت تک اس کیلئے ہمارے اقوال اپنانا جائز نہیں ہے"

اسی طرح فرمایا:

"جب میں کوئی بات کہوں جو کتاب اللہ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کےسے متصادم ہو تو میری بات کو چھوڑ دینا۔ "

چنانچہ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خود ہی قرآن وسنت کی اتباع کا حکم دے رہے ہیں، اور اپنے اجتہاد کیساتھ کہے ہوئے متصادم اقوال کو چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں۔
اس سب کے باوجود ہم آپکی آراء کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیسے ترک کر دیں!؟ اگر یہ متعصب امام ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بات کو سچے دل سے مانتا تو سنت پر عمل کرتا، اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو ترک کردیتا ، جیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود ہی اس بات کا حکم دیا ہے۔

واللہ اعلم .( الاسلام سؤال و جواب )
صحيح البخاري - (ج 4 / ص 73)
938 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ
قَالَ الْقَاسِمُ وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور جب کوئی اختتام کرنا چاہے تو ایک رکعت پڑھ لے وہ سابقہ نماز کو وتر کر دے گی۔
راوی حدیث قاسم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو تین رکعت وتر ہی پڑھتے پایا ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
سنن أبي داود - (ج 4 / ص 123)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ قَالَ
قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِكَمْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ قَالَتْ كَانَ يُوتِرُ بِأَرْبَعٍ وَثَلَاثٍ وَسِتٍّ وَثَلَاثٍ وَثَمَانٍ وَثَلَاثٍ وَعَشْرٍ وَثَلَاثٍ وَلَمْ يَكُنْ يُوتِرُ بِأَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ وَلَا بِأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ
(تحقيق الألباني :صحيح)
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتروں کے بارے پوچھا کہ کتنے پڑھتے تھے؟ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر چار اور تین ، چھ اور تین، آٹھ اور تین یا دس اور تین پڑھتے۔ سات رکعات سے کم اور تیرہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
سنن النسائي: کتاب قیام اللیل و تطوع النہار: ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي إِسْحَقَ فِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْوِتْرِ: حديث نمبر 1684:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ٭
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے ۔ پہلی رکعت میں"سبح اسم ربک الاعلی" پڑھتے دوسری میں "قل یا ایہاالکافرون" اور تیسری میں "قل ہو اللہ احد" پڑھتے تھے۔
مسند أحمد: مسند العشرۃ المبشرین بالجنة: وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: حديث نمبر640
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنْ الْمُفَصَّلِ قَالَ أَسْوَدُ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ وَإِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَإِذَا زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ وَالْعَصْرِ وَإِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَإِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَتَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ۔
علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم (تین رکعت) وتر مفصل کی نو (9) سورتوں کے ساتھ پڑھتے- پہلی رکعت میں " الھاکم التکاثر " ، " انا انزلناہ فی لیلۃ القدر " اور " اذا زلزلت الارض" پڑھتے اور دوسری رکعت میں " والعصر" ، " اذا جاء نصر اللہ والفتح" اور " انا اعطیناک الکوثر" پڑھتے اور تیسری رکعت میں " قل یا ایھا الکافرون" ، " تبت یدا ابی لھب" اور " قل ھو اللہ احد" پڑھتے-
سنن النسائي - (ج 6 / ص 198)
1680 - أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيْ الْوِتْرِ
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔
سنن النسائي (3 / 235):
1701 - أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَلَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، وَيَقُولُ ـ يَعْنِي بَعْدَ التَّسْلِيمِ ـ: «سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ» ، ثَلَاثًا [حكم الألباني] صحيح
درج بالا احادیث میں وتر کا تین رکعت ہونا وضاحت سے آگیا-
جو وتر کو مغرب کی نماز سے خواہ مخواہ مشابہ ثابت کرے کے ممانت والی احادیث اس ضمن میں پیش کرتے ہیں انہی سمجھ لینا چاہیئے کہ تین وتر مغرب کی نماز کی طرح ادا نہیں کیئے جاتے بلکہ ان دونوں میں فرق ہے اور وہ تیسری رکعت میں سورت فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا اور رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھنا۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
صحيح البخاري (2 / 24):
993 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الحَارِثِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ القَاسِمِ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ، فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ» قَالَ القَاسِمُ: «وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلاَثٍ، وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لاَ يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ»
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز وتر کا مسنون طریقہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز وتر کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ ایک وتر اور تین وتر دونوں میں کونسی سورت پڑھنی چاہیے ۔ ؟ عشاء کی نماز میں ایک وتر پڑھنا چاہیے یا تین؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وتر کے معنی طاق (Odd Number) کے ہیں۔ احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرما یا کرتے تھے۔
آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔
ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
«الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل »صحیح ابوداود:۱۲۶۰

’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ»صحیح ابن ماجہ:۹۸۰

1-تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : کان یوتر برکعۃ وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعۃ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت کے ساتھ وتر بناتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔ مزید ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ:«صلی رکعتین ثم سلم ثم قال أدخلو إلیّ ناقتي فلانة ثم قام فأوتر برکعة»(مصنف ابن ابی شیبہ)
’’انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیاپھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر بنایا۔‘‘
2- پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: «کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعة یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرها»(صحیح مسلم:۷۳۷)
3- سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:« کان رسول اﷲ! یوتر بسبع أو بخمس لا یفصل بینهن بتسلیم ولا کلام» (صحیح ابن ماجہ :۹۸۰)
’’نبی سات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘
4- نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں: «ویصلي تسع رکعات لایجلس فیھا الا في الثامنة … ثم یقوم فیصلي التاسعة»
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۴۶)
(آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔
دلیل:ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع»(صحیح ابن ماجہ:۹۷۰)

’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘
«اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ إنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ»(صحیح ترمذی:۳۸۳،بیہقی :)

’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے ہدایت دی، مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی

محدث فتوی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز وتر کا مسنون طریقہ

تحریر: ابوثاقب محمد صفدر حضروی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
➊ ”اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔“ [بخاري : 6410، مسلم : 2677]

➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں سے۔“ [مسلم : 756]

➌ نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہیں۔ جب صبح (صادق) ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ یہ ایک (رکعت پہلی ساری) نماز کو طاق بنا دیگی۔“ [بخاري : 993، 990مسلم : 749]

➍ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے۔“ [ابن ماجه : 77، مصنف ابن ابي شيبه : 2؍291]

➎ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے۔“ [مسلم : 736]

➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جس کی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔“ [ابوداؤد : 1422، نسائي : 1710، ابن ماجه : 1190، صحيح ابن حبان : 270، مستدرك1؍302وغيره]
↰ تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھیں جیسا کہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے۔ [ديكهئے مسلم : 752، 736، 765، 769، بخاري : 626، 990، 993، 994، 2013، ابن ماجه : 1177، نسائي 1698، صحيح ابن حبان : 678، صحيح ابن حبان الاحسان4؍70، 2426وغيره]

➐ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ وتر ایک رکعت ہے آخر شب میں، اور پوچھا گیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے تو انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔“ [مسلم : 753]

➑ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاري : 991، طحاوي : 1549، 1551، آثار السنن200، 201، 202]
➒ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاري : 3764، 3765، آثار السن203]
➓ سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [بخاري : 2356، طحاوي : 1634، آثار السنن 205، 6٠6، وغيره]
⓫ امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [دارقطني : 1657، طحاوي 1631، آثار السنن204]
⓬ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔“ [مسلم : 755]

⓭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول رات، رات کے وسط اور پچھلی رات (یعنی) رات کے ہر حصہ میں نماز پڑھی۔ [بخاري : 755، 996]
⓮ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں۔ [ ابوداؤد1439ابن خزيمه1101، ابن حبان 671، وغيره]

⓯ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔“ [مسلم : 751]
↰ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو وتر کے بعد رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں۔

⓰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تین وتر (اکٹھے ) نہ پڑھو، پانچ یا سات وتر پڑھو۔ اور مغرب کی مشابہت نہ کرو۔“ [دار قطني نمبر 1634، ابن حبان 680، آثار السنن591، 596وغيره]

نوٹ :
اس کے برعکس بعض حضرات نے یہ فتوی دیا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں۔ [دیکھئے علم الفقہ ص 186از عبدالشکور لکھنوی دیوبندی]
دیوبندیوں کے مفتی اعظم عزیز الرحمن (دیوبندی) نے فتویٰ دیا ہے کہ ”ایک رکعت وتر پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز حتی الوسع نہ پرھیں۔ کیونکہ وہ غیر مقلد معلوم ہوتا ہے اور اس شخص کا امام بنانا اچھا نہیں ہے ؟“ [دیکھئے فتاویٰ دارالعلوم دیوبنج 3ص154 سوال نمبر 770، مکتبہ امداد یہ ملتان پاکستان]

حرمین شریفین میں بھی امام ایک رکعت وتر پڑھاتے ہیں۔ اب ان حجاج کرام کی نمازوں کا کیا ہو گا ؟ اور اس فتویٰ کی زد میں کون سی شخصیات آتی ہیں ؟
◈ جبکہ جناب خلیل احمد سہار نپوری (دیوبندی) صاحب انوار ساطعہ کے بدعتی مولوی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہما اس پر۔ اور امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ کا وہ مذھب۔ پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا۔“ [براهين قاطعه ص7]

یہ فریق مخالف کی کتب کے ہم حوالے اس لئے دیتے ہیں تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے اور ویسے بھی ہر فریق کے لئے اس کی کتاب یا اپنے اکابرین کی کتاب اس پر حجت ہے۔ [ديكهئے بخاري، 3635، مسلم : 1299] جب تک وہ اس سے برأت کا اظہار نہ کرے۔
جو حضرات تین وتر اکٹھے پڑھتے ہیں اور اصلاح کر لیں اور اپنے علماء سے اس کی دلیل طلب کریں کہ کون سی صحیح حدیث میں تین وتر اکٹھے پڑھنا آیا ہے۔ جن روایات میں ایک سلام سے تین رکعتوں کا ذکر آیا ہے وہ سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔ بعض میں قتادہ رحمہ اللہ مدلس ہے اور مدلس کی ”عن“ والی روایت صحیح نہیں ہوتی۔ جب تک وہ سماع کی صراحت نہ کرے یا پھر کوئی دوسرا ثقہ راوی اس کی متابعت نہ کرے (تاہم بعض صحابہ کرام سے تین وتر اکٹھے پڑھنا ثابت ہے ) یاد رہے کہ صحیحین میں تدلیس مضر نہیں وہ دوسرے طرق سے سماع پر محمول ہے۔ [ديكهئے خزائن السنن ص 1حصه اول، ازالة الريب 1237از جناب سرفراز خان صفدر ديوبندي، حقائق السنن ص 156، 161، وغيره]
تاہم اگر کوئی ان ضعیف روایات (اور آثار ) پر عمل کرنا چاہے تو دوسری رکعت میں تشہد کے لئے نہیں بیٹھے گا۔ بلکہ صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لئے بیٹھے گا۔ جیسا کہ السنن الکبریٰ للبیہقی وغیرہ میں قتادہ کی روایت میں ہے۔ [زاد المعادص 330 ج 1] اور [مسند احمد ص 155 ج 5] والی روایت لا فصل فيهن یزید بن یعمر کے ضعف اور حسن بصری رحمہ اللہ کے عنعنہ (دو علتوں) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
↰ دو تشہد اور تین وتر والی مرفوع روایت بلحاظ سند موضوع و باطل ہے۔ دیکھئے [الاستیعاب ص 471ج 4 ترجمہ ام عبد بنت اسود، میزان الاعتدال وغیرہ ہما]
اس کے بنیادی راوی حفص بن سلیمان القاری اور ابان بن ابی عیاش ہیں۔ دونوں متروک و معتہم ہیں۔ نیچے کی سند غائب ہے اور ایک مدلس کا عنعنہ بھی ہے۔ اتنے شدید ضعف کے باوجود ”حدیث و اہل حدیث“ کے مصنف نے اس موضوع (جھوٹی) روایت سے استدلال کیا ہے۔ دیکھئے [کتاب مذکور ص523، نمبر22 طبع مئی 1993ء تفصیل کے لئے دیکھیں ھدیۃ المسلمین ص56]

محترم بھائیو ! اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی ہے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ ”ان لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ کہیں ان پر فتنہ (شرک و کفر) اور دردناک عذاب آنہ جائے۔“ [سورة النور63] مومن کی تو یہ شان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آ جائے تو سر تسلیم خم کر دے۔ اس کا عمل اگر پہلے خلاف سنت تھا۔ تو اب دلیل مل جانے پر اپنے عمل کو حدیث، رسول کے مطابق کرے، یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ حدیث رسول کو اپنے پہلے سے طے شدہ اصول اور عمل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہے ! [ماخوذ ازھدیہ المسلمین ص 54، از حافظ زبیر علی زئی]
↰ خود تو بدلتے نہیں حدیث کو بدل دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی سوچ و فکر سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔

⓱ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
”میری تمام امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کر دیا۔“ کسی نے پوچھا: انکار کرنے والا کون ہو گا ؟ آپ نے فرمایا : ”جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا۔ اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے میرا انکار کیا۔“ [صحيح بخاري 7680]

نیز فرمایا :
⓲ ”جس نے بھی میری سنت سے منہ موڑا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ [بخاري 5023، مسلم : 1401]

⓳ ”جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ۔“ [بخاري : 7688، مسلم : 1337]
⓴ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا : ”نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔“ [بخاري : 231]
21 : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جس نے ہماری طرح نماز پڑھی۔ ہمارے قبلہ کا رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے۔“ [بخاري : 391]

ایک دوسری روایت میں ہے۔
22 : ”مجھے اللہ نے حکم دیا کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں جب تک لوگ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں۔“ [بخاري396]

23 : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”میری سنت کو میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو۔“ [ ابوداؤد : 2607، الترمذي : 6276 وقال : حسن صحيح و صححه ابن حبان : 102 او الحاكم1؍95، 96 و وافقه الذهبي]

24 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”آخری زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہیں تم نے اور تمہارے آباو اجداد نے نہیں سنا ہو گا۔ لہذا ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال دیں۔“ [مسلم : 7]

محترم بھائیو، بزرگو ! اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے اور امام الانبیاء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی ”نماز محمدی“ کو سینے سے لگائیں۔ اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
25 : ”جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔“ [الاحزاب : 71]

ورنہ یاد رکھیں :
26 : ”قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔“ [بخاری : 3288مسلم : 2639]
وما علينا إلا البلاغ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس کے برعکس بعض حضرات نے یہ فتوی دیا ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں۔ [دیکھئے علم الفقہ ص 186از عبدالشکور لکھنوی دیوبندی]
دیوبندیوں کے مفتی اعظم عزیز الرحمن (دیوبندی) نے فتویٰ دیا ہے کہ ”ایک رکعت وتر پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز حتی الوسع نہ پرھیں۔ کیونکہ وہ غیر مقلد معلوم ہوتا ہے اور اس شخص کا امام بنانا اچھا نہیں ہے ؟“ [دیکھئے فتاویٰ دارالعلوم دیوبنج 3ص154 سوال نمبر 770، مکتبہ امداد یہ ملتان پاکستان]
حرمین شریفین میں بھی امام ایک رکعت وتر پڑھاتے ہیں۔ اب ان حجاج کرام کی نمازوں کا کیا ہو گا ؟ اور اس فتویٰ کی زد میں کون سی شخصیات آتی ہیں ؟
◈ جبکہ جناب خلیل احمد سہار نپوری (دیوبندی) صاحب انوار ساطعہ کے بدعتی مولوی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہما اس پر۔ اور امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ کا وہ مذھب۔ پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا۔“ [براهين قاطعه ص7]
ان حضرات کا حرمین میں عصر کی نماز کے متعلق کیا خیال ہے، جس وقت حرمین میں عصر کی نماز ہوتی ہے، فقہ حنفیہ کی رو سے تو عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا، بلکہ ظہر کا وقت ہوتا ہے!
ظہر کے وقت میں عصر ادا کرنے کی کوئی صورت بھی نہیں کہ فقہ حنفیہ ميں تو ظہر و عصر کو تقدیم کے ساتھ جمع بھی نہیں کیا جا سکتا!

جمع بین الصلاتین:
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہیے؛ لیکن اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے؛ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہاء وعلماء کی یہ جماعت، اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اور اگر ایسا امام نہ ملے تو آپ اسی کے پیچھے نمازیں پڑھیں، اسکی بدعت کا نقصان اُسی کو ہوگا، اور آپکو ساری رات قیام کا ان شاء اللہ اجر مل جائے گا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں کتاب الآذان میں کہا ہے کہ: باب ہے: "فتنہ پرور، اور بدعتی کی امامت کے بارے میں" اور حسن بصری کہتے ہیں کہ: [اسکے پیچھے] نماز پڑھو، اسکی بدعت اُسی پر ہوگی۔

اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ :( نماز آدمی کے تمام اعمال میں سب سے عمدہ چیز ہے جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی عمدہ کام کرو، اور جب وہ برا کام کریں تو ان کی برائی سے علیحدہ رہو)انتہی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ صاحب!
جس طرح حنفی امام نے وتر ادا کیے، وہ بدعت ہے..تو کیا جب میں اُس کی اقتداء کروں گا تو عملی طور پر اُسی بدعت کا مرتکب نہیں ہوں گا؟

اور محترم شیخ!
فتنہ پرور یا بدعتی امام کی بدعت کسی اور چیز میں ہو گی؟ نا کہ نماز میں؟ جیسا کہ بالا اقوال فتنے کے بارے میں ہیں نا کہ نماز میں کسی بدعت کے بارے میں؟
جزاک اللہ خیرا
 
Top