- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,591
- پوائنٹ
- 791
موجودہ احناف امام صاحب کا اس قول سے رجوع بتاتے ہیں ،لیکن یہ رجوع مشکل لگتا ہے ،بلکہ ناممکن ،،کیونکہ امام صاحب کے فارسی میں نماز اور قرآن پڑھنے کے جواز کا جو پس منظر صاحب ھدایہ نے بیان کیا ہے ،،وہ اس قول سے بھی بڑا اور خطرناک قول ہے ،اس پر کسی توجہ ہی نہیں دی ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
وأماالكلام في القراءة فوجه قولهما إن القرآن اسم لمنظوم عربي كما نطق به النص إلا أن عند العجز يكتفى بالمعنى كالإيماء بخلاف التسمية لأن الذكر يحصل بكل لسان.
ولأبي حنيفة رحمه الله تعالى قوله تعالى: {وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ} [الشعراء:196] ولم يكن فيها بهذه اللغة ولهذا يجوز عند العجز إلا أنه يصير مسيئا لمخالفته السنة المتوارثة ويجوز بأي لسان كان سوى الفارسية هو الصحيح لما تلونا.والمعنى: لا يختلف باختلاف اللغات والخلاف في الاعتداد ولا خلاف في أنه لا فساد،،۔
ترجمہ : دونوں شاگردوں کا قول کہ نماز اور قرآن بزبان فارسی پڑھنا جائز نہیں کی دلیل یہ ہے ،کہ۔ قرآن نام ہے اس خاص عربی نظم کا جس پر قرآنی نص دلالت کررہی ہے وَهُوَ قَوْله تَعَالَى {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا} [يوسف: 2]
جبکہ ابوحنیفہ ؒ نے فارسی والے قول کی دلیل یہ بتائی ہے کہ قرآن میں ہے وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ}یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی تھا "
اور ظاھر ہے اس عربی زبان میں نہیں تھا ،( بلکہ موجودہ عربی الفاظ کا معنی ہی تھا ،لھذا عجز کی صورت میں فارسی میں جائز ہونا چاہئیے،
وأماالكلام في القراءة فوجه قولهما إن القرآن اسم لمنظوم عربي كما نطق به النص إلا أن عند العجز يكتفى بالمعنى كالإيماء بخلاف التسمية لأن الذكر يحصل بكل لسان.
ولأبي حنيفة رحمه الله تعالى قوله تعالى: {وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ} [الشعراء:196] ولم يكن فيها بهذه اللغة ولهذا يجوز عند العجز إلا أنه يصير مسيئا لمخالفته السنة المتوارثة ويجوز بأي لسان كان سوى الفارسية هو الصحيح لما تلونا.والمعنى: لا يختلف باختلاف اللغات والخلاف في الاعتداد ولا خلاف في أنه لا فساد،،۔
ترجمہ : دونوں شاگردوں کا قول کہ نماز اور قرآن بزبان فارسی پڑھنا جائز نہیں کی دلیل یہ ہے ،کہ۔ قرآن نام ہے اس خاص عربی نظم کا جس پر قرآنی نص دلالت کررہی ہے وَهُوَ قَوْله تَعَالَى {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا} [يوسف: 2]
جبکہ ابوحنیفہ ؒ نے فارسی والے قول کی دلیل یہ بتائی ہے کہ قرآن میں ہے وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ}یہ قرآن پہلے صحیفوں میں بھی تھا "
اور ظاھر ہے اس عربی زبان میں نہیں تھا ،( بلکہ موجودہ عربی الفاظ کا معنی ہی تھا ،لھذا عجز کی صورت میں فارسی میں جائز ہونا چاہئیے،
Last edited: