آنکھیں اگر ہوں بند تو دن بھی رات ہے!
لولی صاحب اپنے شیخ الکل فی الکل سید نزیر حسین دہلوی کی اس بات کو آنکھیں کھول کر پڑھو ! کیا شیخ الکل فی الکل صاحب اپنے اس قول میں سچے ہیں یا جھوٹے؟
"امام صاحب نے اپنے اس قول سےرجوع کرکے صاحبین کے قول کو اختیار کیا ہے پس اب ائمہ ثلثہ میں سے کسی کے نزدیک غیر لاچاری کی حالت میں نماز کے اندر فارسی وغیرہ زبان میں قرآن پڑھنا درست نہیں ۔"
اگر جناب یہ پڑھ لیتے تو یہ جاہلانہ باتیں نہ کرتے؟
السلام علیکم محترم -.
ذرا یہ بھی پڑھ لیں -آپ کے پیارے امام ابو حنیفہ رح نے مسلہ فاتحہ خلف الامام میں رجوع کر لیا تھا -
لأبي حنیفۃ ومحمد قولان أحدھما عدم وجوبھا علی المأموم بل ولا تسن وھذا قولھما القدیم أدخلہ محمد في تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ إلی الأطراف وثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عند المخافۃ للحدیث المرفوع لا تفعلوا إلا بأم القرآن وفي روایۃ لا تقرؤوا بشي إذا جھرت إلا بأم القرآن وقال عطائ: کانوا یرون علی الماموم القراءۃ فیما یسر فرجعا من قولھما الأول إلی الثاني احتیاطا۔
یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے اس مسئلہ (قرأت فاتحہ خلف الامام) میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ مقتدی کے لیے الحمد شریف نہ واجب ہے نہ سنت اور یہ ان کا پہلا قول ہے، امام محمد ؓ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قدیم قول کو داخل کیا اور ان کے نسخے اطراف میں پھیل گئے- د
وسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو احتیاطا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن وبہتر ہے اور آہستہ نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے (یہ قول اس لیے اختیار کیا کہ ) صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام مقتدیوں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب میں بلند آواز سے پڑھ رہا ہوں تو سوائے سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔
اور امام صاحب کے استاد حضرت عطاء جلیل القدر تابعی نے فرمایا کہ صحابہ کرام وتابعین نماز جہری وسری میں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے (پس ان دلائل صحیحہ کی بنا پر )
امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے احتیاطا اپنے پہلے قول سے رجوع کیا اور دوسرے قول کے قائل ہوگئے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ہی بہتر ہے، ائمہ دین کا یہی شیوہ تھا، جب اپنے قول کے خلاف حدیث کو دیکھتے تو اپنے قول کو چھوڑ دیتے اور صحیح حدیث کے مطابق فتوی صادر فرماتے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا: '
'إذا صح الحدیث فھو مذھبي ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ ...''۔ (در مختار: 1 / 5 معہ رد المختار) یعنی حدیث صحیح میرا مذہب ہے، اگر تم کو کوئی دلیل قرآن وحدیث سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور اسی کے مطابق فتوی دیا کرو۔
آپ کے پیارے امام نے تو اس معاملے میں رجوع کرلیا - لیکن آپ احناف ابھی تک غیر مقلدین کی دشمنی میں فاتحہ خلف الامام کے قائل نہ ہو سکے اور نہ شاید کبھی ہو سکیں گے -
اور امام صاحب کا آخری جملہ کہ "ا
گر تم کو کوئی دلیل قرآن وحدیث سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور اسی کے مطابق فتوی دیا کرو" کے بارے میں بھی یہی حقیقت ہے کہ صرف غیر مقلدین کی دشمنی میں اپنے امام کی بات کو پس پشت ڈالا ہوا ہے- یعنی جان سے گئے لیکن اپنی فقہ اور امام کی نام نہاد تقلید کو نہ چھوڑا -لیکن قرآن و صحیح احادیث کو چھوڑنا گوارا کر لیا - (فاتبرو یا اولی ابصار)-