حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کا طریقہ عمامہ یا ٹوپی سے سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا تھا۔ نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 1335، 1336
پگڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں شامل ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر سیاہ پگڑی تھی۔‘‘ (مسلم،کتاب الحج،باب جواز دخول مکة بغیر احرام، ترمذی،اللباس،باب العمامة، السوداء، ابو داؤد، اللباس،باب فی العمائم)
حدیث میں آتا ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا اور آپ نے اپنی پگڑی پر مسح کیا۔‘‘ (بخاری،الوضوء، باب المسح علی الخفین، مسلم،الطہارة، باب المسح علی الناصیة والعمامة)
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقہ کے پیش نظر سر پر پگڑی رکھنا چاہیے ، پھر مقام غور ہے بھلا یہ کہیں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کے وقت تو پگڑی یا خمار پر مسح فرمایا اور نماز پڑھتے وقت پگڑی یا خمار کو اُتار کر رکھ لیا ؟ ننگے سر نماز پڑھنے یا ننگے سر رہنے کو معمول اور عادت بنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حکما” بھی عمامہ باندھنے کا ثبوت احادیث کے اندر ملتا یے ۔ چنانچہ ایک روایت یوں ملتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اعتموا تزدادو حلما” عمامہ باندھا کرو اس سے حلم میں بڑھ جاؤ ۔ ( رواہ الطبرانی فی الکبیر ج ا ص 194 مرفوعا )۔
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے ۔( فتح البار ج 10 ص 335 )
ایک اور روایت حضرت رُکانہ سے اس طرح آتی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ” ہمارے اور مشرکوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں ” (مشکوۃ باب اللباس )
عمامہ اور ٹوپی کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ علیھم سے :۔
حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ تابعی فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہھا کو شملہ اپنے دونوں منڈھوں کے درمیان ڈالتے دیکھا ۔ (شمایل ترمذی باب ماجاء فی عمامہ)۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے کسی نے پوچھا کہ عمامہ باندھنا سنت ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ ۔ فرمایا ” ہاں سنت ہے “۔ اور مزید فرمایا ” عمامہ باندھا کرو کہ اسلام کا نشان ہے ، مسلمان اور کافر میں فرق کرنے والا ہے ” ( عینی عمد ۃ القاری ج 21 ص30)۔
عبید اللہ جو نافع رحمۃ اللہ علیہ تابعی کے شاگرد ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ( حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پوتے )اورسالم بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے ) کو ایسا کرتے ( یعنی شملہ اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈالتے ) دیکھا۔ ۔ (شمایل ترمذی باب ماجاء فی عمامہ)۔
میاں نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں ” ٹوپی و عمامہ سے نماز پڑھنا اولٰی ہے کیونکہ یہ امر مسنون ہے “۔ ( فتاوٰی نذیریہ ج 1 ص 240 )۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ “نماز کا مسنون طریقہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالدوام ثابت ہے یعنی بدن پر کپڑا اور سر ڈھکا ہوا، پگڑی یا ٹوپی سے”۔( فتاوٰ ی ثنایہ ج 1 ص 525 )۔
یہی کچھ ابوداود غزنوی اور دیگر علمائے اہل حدیث نے لکھا ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیے کنزل الحقائق۔
علامہ ابن قیم کے حوالے سے بھی ایک بات سن لیجئے وہ فرماتے ہیں کہ ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کو اس وقت تک شہر کا حاکم مقرر نہ فرماتے تھے جب تک اسے عمامہ نہ بندھواتے تھے ۔(زادالمعاد ج 1ص50)۔
اسی طرح ابن قیم اپنے استاد علامہ ابن تیمیہ سے پگڑی اور سملہ کی حمایت میں ایک طویل روایت لانے کے بعد فرماتے ہیں ” جو اس سنت کا منکر ہے وہ جاہل ہے”۔(زادالمعاد ج1ص50 )۔