• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ننگے سر نماز پڑھنا

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میری نظر (اور تحقیق) میں ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ یہ بات طےشدہ ہے کہ مسلمان کے لیے مکمل اسلامی ہیئت اختیار کرنے کے بعد ہی نماز میں داخل ہونا مستحب ہے کیونکہ حدیث میں ہے:
"فان اللہ احق ان یتزین لہ" (اخرجہ الطحاوی فی "شرح الآثار" و الطبرانی والبیہقی فی "السنن الکبری")
"اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے"
ننگے سر رہنے کی عادت، ننگے سر راستوں میں چلنا اور اسی طرح عبادات کی جگہوں میں داخل ہو جانا سلف صالحین کے عرف میں اچھی ہیئت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ غیرمسلموں کی عادت ہے جو کفار اپنی فتوحات کے ساتھ لے کر آئے اور بہت سے مسلمان ممالک میں یہ عادت (عامۃ الناس میں) سرایت کر گئی جسے اپنا کر انہوں نے اپنی اسلامی شخصیت کو ضائع کر دیا۔ پس یہ جدید صورتحال سابق اسلامی عرف کی مخالفت کی دلیل نہیں بن سکتی اور نہ اس سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز نکالا جا سکتا ہے۔
مصر میں "انصار السنۃ" کے بھائیوں نے حج میں ننگے سر رہنے سے ننگے سر نماز پڑھنے پر جو قیاس کیا ہے وہ ان بھائیوں کے غلط ترین قیاسات میں سے ہے۔ یہ دلیل کیسے درست ہو سکتی ہے جبکہ حج میں ننگے سر رہنا اسلامی شعیرہ ہے اور اس کے مناسک میں سے ہے جس میں کوئی دوسری عبادت شریک نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ قیاس صحیح ہوتا تو نماز میں ننگے سر رہنا بھی واجب ہوتا کیونکہ یہ حج میں واجب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے حالت احرام کے سوا کبھی بھی عمامے کے بغیر نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ ایسی بات ہوتی تو ضرورنقل کی جاتی۔ اگرکوئی اس کے خلاف سمجھتا ہے تو دلیل اسی کے ذمے ہے۔ حق بات پیروی کی زیادہ مستحق ہوتی ہے۔
یہ یاددہانی کرنا بھی ضروری ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا صرف مکروہ ہی ہے، لیکن (ایسا کرنے والے کی نماز باطل نہیں ہوتی) بلکہ نماز صحیح ہوتی ہے۔ ۔ ۔ پس ننگے سر والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روکنا درست نہیں ہے البتہ (امام کو خیال کرنا چاہیے) کہ اسے دوسروں سے زیادہ تمام و کمال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کا خیال رکھنا چاہیے اور اس کا پابند ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔
(القول المبین فی اخطاء المصلین ص 56 تا 58، مشہور حسن سلمان)
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
البتہ فقط عمامہ ثابت ہے نا کہ کسی بھی کپڑے سے سر ڈھانپنا۔۔۔۔۔

اور بغیر عمامہ کے مکروہ بھی نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ "مکروہ" ایک مستقل حکم ہے جس لیے دلیل کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔

یہ لازم نہیں کہ مستحب کو انجام نہ دینا مکروہ ہو۔۔۔
 

پاکستان

مبتدی
شمولیت
مئی 25، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
0
البتہ فقط عمامہ ثابت ہے نا کہ کسی بھی کپڑے سے سر ڈھانپنا۔۔۔۔۔

اور بغیر عمامہ کے مکروہ بھی نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ "مکروہ" ایک مستقل حکم ہے جس لیے دلیل کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔

یہ لازم نہیں کہ مستحب کو انجام نہ دینا مکروہ ہو۔۔۔

محترم ان تینوں باتوں کی احادیث سے ثبوت پیش ہوسکتے ہیں یا قیاس سے کام چلارہے ہو مقلدین کی طرح؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

ناظم شهزاد٢٠١٢

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 07، 2012
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
1,533
پوائنٹ
120
ان سب باتوں سےپہلے یہ لازم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمامہ یا پگڑی وغیرہ کا استعمال کیا آیا یہ شرعی عمل تھا یا معاشرتی۔
کیونکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمامہ والے عمل پر بڑا زور دیتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ اور کئی ایسے کام ہیں جن کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں جاتی۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس،کھانا پینا،گھر، بچھونا، برتن وغیرہ
پہلے ان کی قدر متعین کی جائے بعد میں ان کے بارے میں مکرو،مستحب اور جائز وناجائز کے بارے میں بات کی جائے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
نماز ننگے سر پڑھنا مکروہ عمل ہے۔۔۔
لیکن اگر سر پر ٹوپی پہن لی جائے تو سر ڈھنگ جائے گا۔۔۔
یہ آسان سی بات ہے جس کو الجھاکر کچھ نہیں ملنے والا۔۔۔
جس نے امام پہنا ہے وہ امامہ پہن لے جس نے ٹوپی پہنی ہے وہ ٹوپی پہن لے۔۔۔
اور جس نے کپڑےکا رومال رکھنا ہے وہ اُس سے سر کو ڈھانپ لے۔۔۔
اس مسئلے میں ضروری چیز صرف سر کو ڈھانپنا ہے۔۔۔
ورنہ جہاں تک امامے کی بات ہے تو جو لوگ امامہ پہنتے ہیں۔۔۔
اُن کے عقائد پر اگر بات کی جائے تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں سب جانتے ہیں۔۔۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امامہ پہنا تو عمل بھی میں سمجھتا ہوں ویسا ہی ہونا چاہئے۔۔۔
لیکن آج کے اس نفسہ نفسی کے دور کو دیکھیں اور پھر نظر اسلاف کی زندگیوں پر دوڑائیں تو کہاں ہیں وہ طریقے۔۔۔
ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف سوچ رکھتا ہے۔۔۔ لیکن کوشش یہ ہی ہونی چاہئے کے سوچ کا زاویہ ایسا نہ ہو کے سامنے والا کسی عمل کے انجام میں تذبذب کا شکار ہوجائے۔۔۔
ایک شخص اپنے لباس کے حوالے سے اگر امامہ نہیں پہننا چاہتا تو کم سے کم ہماری کوشش یہی ہونی چاہئے کے وہ کم سے کم ٹوپی کا اہتمام ضرور کرے۔۔۔
واللہ اعلم
 

ناظم شهزاد٢٠١٢

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 07، 2012
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
1,533
پوائنٹ
120
نماز ننگے سر پڑھنا مکروہ عمل ہے۔۔۔
اگر ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ عمل ہے تو پھر
عجمی لباس میں نماز ادا کرنا بھی مکروہ عمل ہے۔
عجمی لباس میں عربی لباس کے علاوہ سارے لباس ہی آ جاتے ہیں۔
کیا آپ اسے مانتے ہیں؟
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ کہنا درست نہین ہے - علماء مکروہ کو شرعی حکم سمجھتے ہین- اور شرعی حکم کے لیے ضروری ہے ، کہ قرآن و حدیث سے دلیل ہو- مکروہ اگرچہ جائز ہوتا ہے مگر ناپسندیدہ ہوتا ہے - ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ کہنے کی کوی دلیل نہین ہے-

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ، ننگے سر نماز پڑھنے سے ٹوکا، یا عمامہ کی نماز کو ،ننگے سر کی نماز سے افضل کہا ، یا کسی ایک صحابی نے ، کسی کو عمامہ نہ پہننے پر ٹوکا ہو اور اسے مکروہ کہا ہو؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میں نے جو پہلی لائن میں بات لکھی وہ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ علیہ کا حوالہ دیا ہے۔۔۔
حالانکہ اس کے بعد باقی کی سطور میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے میں کس موقف کی بات کررہا ہوں۔۔۔
میرے نزدیک عمل کے انجام دہی کے حوالے سے یہ حدیث کافی ہے کے اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔۔۔
ہاں رہی بات ننگے سر نماز پڑھنا کیسا عمل ہے؟؟؟۔۔۔
سوال یہ ہونا چاہئے تھا۔۔۔
بات سیدھی سی ہے کے ننگے سر نماز پڑھنے سے کیا نماز قبول نہیں ہوگی؟؟؟۔۔۔

جیسا کے حدیث میں ہے جمعہ کے دن غسل کیا کرو نماز سے پہلے۔۔۔
لیکن اگر یہ سہولت پانی کی قلت کی وجہ سے میسر نہیں تو کیا جمعہ کی ادائیگی کا فریضہ اُسے ادا کرنے سے محروم کردے گا؟؟؟۔۔۔
قطعی نہیں۔۔۔ تو پھر ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم کیوں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔۔۔
 

ارشد

رکن
شمولیت
دسمبر 20، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
اسلام و علیکم
کہیں سنا اور پڑھا تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دفعہ ننگے سر نماز پڑھنے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔اور ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ننگے سر نماز پڑھنے کو عمل کرکے لوگوں کو دکھایا اور فرمایا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بھی نماز پڑھی ہے۔کیا ایسی کوی دلیل ہے؟؟
اگر کوی مسلمان ساری زندگی کبھی امامہ نہ پہنے(جسکی کے اکثریت ہے) تو کیا اللہ کے یہاں اسکی پوچھ ہوگی؟اگر جواب نفی میں ہے تو اسکو نماز کے ساتھ خاص کرنےاور نماز کی شرط قبولیت پر شریعی دلیل؟؟اگر امامہ نماز کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا تو ٹوپی کیسے؟؟
پھر اوربھی سوال پیدا ہونگے، جیسے ٹوپی کیسی ہونی چاہیے، کیونکہ ٹوپی کا استعمال اور بھی مذہب کے لوگ کرتے ہیں، اور قسم قسم کے ٹوپیاں دستیاب ہیں، کونسی ٹوپی اسلامی ٹوپٰ کہلاگی اسکی نشاندہی کیسی ھوگی اور اسکی بنیاد اور دلیل کیا ہوگی؟نمازننگے سر مکرو سمجھنے کے چکر میں آج مسلمانوں میں یہ بھی رواج پایاجاتا ہے مثلًا میڈ ان چاینا ٹوپی یاکسی اور مقصد کیے لیے رکھا جانے والاچھوٹا سا گندا رومال بھی استعمال کیا جاتا ہے۔جسکی وجہہ سے بجایےحصول زینت کےآدمی جوکر نظر آتا ہے۔ کیا ایسا کرنا معیوب نہیں؟؟یہ میرے ذاتی نظریات ہیں،اور اسکی کوی اہمیت اور یہ کوی حجت نہیں،مگر انہی سوالوں کی وجہہ سے ٹوپی کو لازم سمجھنے پر میرا دل آمدہ نہیں جب تک کوی ٹھوس دلیل نہ ملے۔۔۔یہاں موجود بھایوں سے رھنمای کی درخواست۔۔جزاک اللہ۔۔
آخر میں سوال، کیا بعیت الخلا جاتے میں سر ڈھانکنے پر کوی حدیث موجود ہے؟؟؟؟؟
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
ان سب باتوں سےپہلے یہ لازم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمامہ یا پگڑی وغیرہ کا استعمال کیا آیا یہ شرعی عمل تھا یا معاشرتی۔
کیونکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمامہ والے عمل پر بڑا زور دیتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ اور کئی ایسے کام ہیں جن کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں جاتی۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس،کھانا پینا،گھر، بچھونا، برتن وغیرہ
پہلے ان کی قدر متعین کی جائے بعد میں ان کے بارے میں مکرو،مستحب اور جائز وناجائز کے بارے میں بات کی جائے۔
بھائی جی یہ جیسا بھی عمل تھا شرعی یامعاشرتی پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب

ہم نے کبھی کسی اہل حدث کو اس عمل پر زور دیتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی اہل حدیث عالم کو ؟

بھا ئی جی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر کوئی مسلم کسی سنت پر عمل کرتا پایا جائے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔یہاں بعض مقامات پر شائد سنت کو ایسی اہمیت ہی نہیں دی جاتی بس یہ کہہ کر بات ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا اس کہ نہ کرنے سے فلاں عمل میں کو ئی فرق آجائے گا
تو بھائی ہمارا مشاہدہ ہے ایسا سوچنے والہ آہستہ آہستہ سنت سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے
 
Top