جی بالکل درست
تو آپ لوگ کوئی ایسی کتاب کیوں نہیں لکھ لیتے جس میں وہ تمام مسائل جمع کر لیں جن پر اہلحدیث کی اکثریت جمع ہے؟ اس سے خود اہلحدیث عوام کو آسانی ہوگی۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس طرح ہم ’تقلید شخصی‘ کرتے ہیں تو آپ تقلید کیوں نہیں کر لیتے؟ بھائی! یہی تو ہم اور آپ میں بنیادی اختلاف ہے۔
کتاب وسنت کے علاوہ کسی کتاب کو اصل الاصول بنا دینے اور ’تقلیدِ شخصی‘ میں کیا جوہری فرق ہے؟؟؟
مثلاً حنفی لوگ اگر یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر مسئلہ مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ سے ہی پوچھنا ہے
یا
مفتی تقی عثمانی کوئی ایسی فقہی کتاب تصنیف کر دیں جس میں وہ تمام مسائل جمع کر دیں جن پر احناف کی اکثریت جمع ہے۔ اور احناف اسے اصل الاصول بنا لیں
ان دونوں میں کیا فرق ہوا؟؟؟
عزیز بھائی!
یہ آسانی اور اتحاد کا دعویٰ بھی بڑا عجیب ہے؟!! تقلید شخصی یا کتابوں کو اصل الاصول (مثلاً الہدایۃ کالقرآن وغیرہ وغیرہ ) بنا دینے سے احناف میں کیا آسانی پیدا ہوئی ہے؟؟! یا ان میں کونسا ایسا اتحاد اتفاق ہوگیا ہے؟!!
کیا بریلوی دیوبندی دونوں ہی احناف میں سے نہیں ہیں؟؟؟ دونوں ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔ یہی حال دیوبندی حضرات میں مماتی اور حیاتی حضرات کا ہے؟؟!! احناف کے یہاں تو ایسی کتابیں موجود ہیں تو پھر ان میں یہ سلسلے چشتی، قادری، سہروردی وغیرہ کہاں سے در آئے؟؟! سود کا مسئلہ لے لیں! دیو بندیوں میں ہی اتنے اختلافات ہیں کہ شمار نہیں۔ طاہری القادری صاحب اور بریلویوں میں آپس میں کتنے اختلافات ہیں؟؟!! رکوع کے رفع الیدین جیسے معروف اور قدیم ترین مسئلے میں احناف آج تک متفق نہ ہو سکے کہ اسے منسوخ قرار دیا جائے یا بدعت یا کفر! بعض کے نزدیک رفع الیدین اور ترک رفع دونوں جائز ہیں لیکن پھر اختلاف ہے کہ افضل کیا ہے؟ بعض کے نزدیک افضل رفع الیدین کرنا ہے، بعض کے نزدیک ترک افضل ہے؟؟!!
میرے بھائی! اتحاد واتفاق کرنا ہے تفرقہ بازی سے بچنا ہے تو اس کا واحد حل اعتصام بحبل اللہ (کتاب وسنت پر جم جانا) ہے:
واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا
امتیوں میں کسی شخص پر یا کتاب وسنت کے علاوہ کسی کتاب پر امت کا اتحاد واتفاق ہونا نا ممکن ہے۔ اس سے اختلاف بڑھ سکتا ہے کم نہیں ہو سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ جب عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے حج کے موقع پر امام مالک سے موطا (جس میں احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ صحابہ وتابعین کی فقہی آراء بھی موجود ہیں) کا درس لیا تو متاثر ہو کر ارادہ کیا کہ موطا کو خانہ کعبہ میں رکھ دیا جائے اور لوگوں کو اس کا پابند بنایا جائے تو امام مالک نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا:
لا تفعل يا أمير المؤمنين ، فإن أصحاب رسول الله ﷺ اختلفوا في الفروع وتفرقوا في البلاد ، وكل مصيب کہ ’’یہ کام نہ کرو۔ صحابہ کرامؓ نے مسائل میں اختلاف کیا اور مختلف شہروں میں پھیل گئے ان میں ہر ایک حق پر ہو سکتا ہے۔‘‘ یہ سن کر کر خلیفہ خاموش ہو گیا۔ رواہ ابو نعیم فی الحلیہ
امام ابن کثیر فرماتے ہیں خلیفہ منصور نے امام مالک سے تقاضا کیا کہ اگر آپ پسند کریں تو لوگوں کو موطا کا پابند بنا دیا جائے۔ تو امام صاحب نے کمال علم وانصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا:
إن الناس قد جمعوا واطلعوا على أشياء لم نطلع عليها کہ ’’ممکن ہے دیگر علماء ایسا علم حاصل کرلیں اور (اپنی کتب میں) جمع کر دیں جو ہمارے پاس نہیں۔ (لہٰذا لوگوں کو موطا پر کیونکر مجبور کیا جا سکتا ہے؟‘‘