• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نواب صدیق حسن خان کی کتابوں کا حکم

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اولاً: یہ حدیث ضعیف ہے۔
http://dorar.net/hadith?skeys=لعن آخر هذه الأمة أولها&m[]=1420

ثانیا: اگر یہ صحیح بھی ہو تو اس کا بہترین مصداق اہل تشیع ہیں جو اس امت کے اوّل ترین اور افضل ترین لوگوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) اور کے اہل بیت النبی (ازواج مطہرات وغیرہن) پر لعن طعن کرتے ہیں۔
لیکن معاف کیجئے اس دھاگے میں صورت مختلف ہے کہ اس دھاگے میں وہابی اپنے اکابر علماءپر لعن طن اور برات کا اعلان کررہے ہیں
اور جہاں تک بات ہے اس روایت کی تو وہابیوں کے امام شوکانی نے اس حدیث پر حسن لغیرہ کا حکم لگایا ہے
إذا اتُّخِذَ الفَيْءُ دُوَلًا والأمانةُ مَغْنَمًا والزكاةُ مَغْرَمًا وتُعُلِّمَ لغيرِ الدِّينِ وأطاع الرجلُ امرأتَه وعَقَّ أُمَّه وأَدْنَى صديقَه وأَقْصَى أباه وظَهَرَتِ الأصواتُ في المساجدِ وساد القبيلةَ فاسِقُهُم وكان زعيمُ القومِ أَرْذَلَهم وأُكْرِمَ الرجلُ مَخَافةَ شرِّه وظَهَرَتِ القِيَانُ والمعازفُ وشُرِبَتِ الخُمورُ ولَعَن آخِرُ هذه الأمةِ أولَها فلْيَرْتَقِبُوا عند ذلك رِيحًا حمراءَ وزَلْزَلَةً وخَسْفًا ومَسْخًا وقَذْفًا وآياتٍ تُتَابَعُ كنِظامٍ بالٍ قُطِعَ سِلْكُه فتتابع بعضُه بعضًا
الراوي: أبو هريرة المحدث: الشوكاني - المصدر: نيل الأوطار - الصفحة أو الرقم: 8/262
خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره

اس روایت کو لیکر اب شوکانی صاحب پر لعن شروع مت کیجئے گا مہربانی ہوگی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کسی سے رائے کے اختلاف کو لعن طعن کہا جاتا ہے؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا!​

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ کے موقع نبی کریمﷺ کے حکم کے باوجود رسول اللہ کو مٹانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو کیا انہوں نے نعوذ باللہ نبی کریمﷺ پر لعن طعن کیا؟؟؟

قرآن کریم کے مطابق سیدنا سلیمان علیہ السلام نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی رائے سے اختلاف کیا (وداود وسليمن إذ يحكمن في الحرث إذ نفشت فيه غنم القوم وكنا لحكمهم شهدين ففهمناها سليمان وكلا آتينا حكما وعلما) تو کیا انہوں نے اپنے نبی والد (داؤد علیہ السلام) پر لعن طعن کیا؟!!

تمام ائمہ کرام نے جو فرمایا کہ ’’اگر ہماری بات کتاب وسنت کے خلاف ہو تو اسے ردّ کر دینا، دیوار پر مار دینا۔‘‘ کیا انہوں نے لوگوں کو اپنے آپ پر لعن طعن کی دعوت دی؟؟؟

نہیں بہرام صاحب! لعن طعن وہ ہوتا ہے جو آپ رافضی حضرات امہات المؤمنین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کرتے ہیں!!!
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
بہرام صاحب : کیوں جھوٹ پہ کمر باندھی ہے ! جھوٹے آدمی کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی یہاں فورم پر کیا ہوگی؟
جناب نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے جھوٹ لکھ دیا کہ "اس دھاگے میں وہابی اپنے اکابر علماءپر لعن طن اور برات کا اعلان کررہے ہیں"
بہرام صاحب اس دھاگہ میں اہل حدیث کے کس فرد نے اپنے کس اکابر پر "لعن طعن " کی ہے وہ لعن طعن نقل کر دیں ورنہ اس آیت کا مصداق بنیں (لعنۃ اللہ علی الکاذبین)
محترم بھائی انس نضر صاحب نے اس حدیث کا مصداق اہل تشیع کو قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ( ثانیا: اگر یہ صحیح بھی ہو تو اس کا بہترین مصداق اہل تشیع ہیں جو اس امت کے اوّل ترین اور افضل ترین لوگوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) اور کے اہل بیت النبی (ازواج مطہرات وغیرہن) پر لعن طعن کرتے ہیں۔)
جناب نے اسکا جواب نہ دیکر یہ مان لیا ہے کہ واقعی اہل تشیع صحابہ کرام اور اہل بیت النبی ازواج مطہرات پر لعن طعن کرتے ہیں۔ورنہ اسکا جواب ضرور لکھتے؟
ثابت ہوا کہ اہل تشیع ہی اس حدیث کے اولین مصداق ہیں!
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
@شاکر
منتظم حضرات تصاویر مسخ کرنا چاہیں تو کر دیں ،مجھے طریقہ معلوم نہیں،معذرت۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
نواب صاحب کیا اپنی بات کی دلیل قرآن و حدیث سے نہیں دیتے؟
محترم بھائی! ہر مجتہد کتاب وسنت سے جو استدلال کرتا ہے وہ اس کا اپنا اجتہاد ہوتا ہے جس میں وہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ کسی امتی کا اجتہاد وحی نہیں ہوتا، وحی صرف اور صرف کتاب وسنت ہے۔ یہی معنیٰ ہے حدیث مبارکہ إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران، وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر کا۔
یہی فرق ہے اہل الحدیث اور اہل الرائے میں۔ اہل الرّائے اس اجتہاد کو شریعت سمجھتے ہیں لہٰذا وہ قضاء القاضی کو ظاہرا وباطناً نافذ مانتے ہیں اور اسی لئے وہ اجتہاد در اجتہاد (ایک اجتہاد سے مزید اجتہاد) کے قائل ہیں۔ جبکہ اہل الحدیث اجتہاد کو شریعت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک وحی اور شریعت صرف اور صرف کتاب وسنت ہے۔ عالم کا اجتہاد اور قاضی کا فیصلہ اس کی رائے ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ اور اگر وہ غلط ہو تو قاضی کا فیصلہ ظاہراً تو لاگو ہوجاتا ہے، باطناً نہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث: إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وأقضي له على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اجتہاد در اجتہاد کے قائل نہیں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم بھائی! ہر مجتہد کتاب وسنت سے جو استدلال کرتا ہے وہ اس کا اپنا اجتہاد ہوتا ہے جس میں وہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ کسی امتی کا اجتہاد وحی نہیں ہوتا، وحی صرف اور صرف کتاب وسنت ہے۔ یہی معنیٰ ہے حدیث مبارکہ إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران، وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر کا۔
یہی فرق ہے اہل الحدیث اور اہل الرائے میں۔ اہل الرّائے اس اجتہاد کو شریعت سمجھتے ہیں لہٰذا وہ قضاء القاضی کو ظاہرا وباطناً نافذ مانتے ہیں اور اسی لئے وہ اجتہاد در اجتہاد (ایک اجتہاد سے مزید اجتہاد) کے قائل ہیں۔ جبکہ اہل الحدیث اجتہاد کو شریعت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک وحی اور شریعت صرف اور صرف کتاب وسنت ہے۔ عالم کا اجتہاد اور قاضی کا فیصلہ اس کی رائے ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ اور اگر وہ غلط ہو تو قاضی کا فیصلہ ظاہراً تو لاگو ہوجاتا ہے، باطناً نہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث: إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وأقضي له على نحو ما أسمع فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ فإنما أقطع له قطعة من النار سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اجتہاد در اجتہاد کے قائل نہیں
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی۔
تو اگر کوئی عامی شخص نواب صاحب کے اجتہاد پر عمل کرتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

(ظاہرا باطنا نافذ کے مسئلے میں ذرا سا فرق ہے۔ یہ ہر جگہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اس روایت میں بھی نہیں ہو رہا۔ یہ صرف املاک غیرمرسلہ غیر اموال میں ہوتا ہے۔ جملہ معترضہ)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جی بالکل درست
تو آپ لوگ کوئی ایسی کتاب کیوں نہیں لکھ لیتے جس میں وہ تمام مسائل جمع کر لیں جن پر اہلحدیث کی اکثریت جمع ہے؟ اس سے خود اہلحدیث عوام کو آسانی ہوگی۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس طرح ہم ’تقلید شخصی‘ کرتے ہیں تو آپ تقلید کیوں نہیں کر لیتے؟ بھائی! یہی تو ہم اور آپ میں بنیادی اختلاف ہے۔

کتاب وسنت کے علاوہ کسی کتاب کو اصل الاصول بنا دینے اور ’تقلیدِ شخصی‘ میں کیا جوہری فرق ہے؟؟؟

مثلاً حنفی لوگ اگر یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر مسئلہ مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ سے ہی پوچھنا ہے
یا
مفتی تقی عثمانی کوئی ایسی فقہی کتاب تصنیف کر دیں جس میں وہ تمام مسائل جمع کر دیں جن پر احناف کی اکثریت جمع ہے۔ اور احناف اسے اصل الاصول بنا لیں

ان دونوں میں کیا فرق ہوا؟؟؟

عزیز بھائی! یہ آسانی اور اتحاد کا دعویٰ بھی بڑا عجیب ہے؟!! تقلید شخصی یا کتابوں کو اصل الاصول (مثلاً الہدایۃ کالقرآن وغیرہ وغیرہ ) بنا دینے سے احناف میں کیا آسانی پیدا ہوئی ہے؟؟! یا ان میں کونسا ایسا اتحاد اتفاق ہوگیا ہے؟!!

کیا بریلوی دیوبندی دونوں ہی احناف میں سے نہیں ہیں؟؟؟ دونوں ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں۔ یہی حال دیوبندی حضرات میں مماتی اور حیاتی حضرات کا ہے؟؟!! احناف کے یہاں تو ایسی کتابیں موجود ہیں تو پھر ان میں یہ سلسلے چشتی، قادری، سہروردی وغیرہ کہاں سے در آئے؟؟! سود کا مسئلہ لے لیں! دیو بندیوں میں ہی اتنے اختلافات ہیں کہ شمار نہیں۔ طاہری القادری صاحب اور بریلویوں میں آپس میں کتنے اختلافات ہیں؟؟!! رکوع کے رفع الیدین جیسے معروف اور قدیم ترین مسئلے میں احناف آج تک متفق نہ ہو سکے کہ اسے منسوخ قرار دیا جائے یا بدعت یا کفر! بعض کے نزدیک رفع الیدین اور ترک رفع دونوں جائز ہیں لیکن پھر اختلاف ہے کہ افضل کیا ہے؟ بعض کے نزدیک افضل رفع الیدین کرنا ہے، بعض کے نزدیک ترک افضل ہے؟؟!!

میرے بھائی! اتحاد واتفاق کرنا ہے تفرقہ بازی سے بچنا ہے تو اس کا واحد حل اعتصام بحبل اللہ (کتاب وسنت پر جم جانا) ہے: واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا

امتیوں میں کسی شخص پر یا کتاب وسنت کے علاوہ کسی کتاب پر امت کا اتحاد واتفاق ہونا نا ممکن ہے۔ اس سے اختلاف بڑھ سکتا ہے کم نہیں ہو سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ جب عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے حج کے موقع پر امام مالک سے موطا (جس میں احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ صحابہ وتابعین کی فقہی آراء بھی موجود ہیں) کا درس لیا تو متاثر ہو کر ارادہ کیا کہ موطا کو خانہ کعبہ میں رکھ دیا جائے اور لوگوں کو اس کا پابند بنایا جائے تو امام مالک نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا: لا تفعل يا أمير المؤمنين ، فإن أصحاب رسول الله ﷺ اختلفوا في الفروع وتفرقوا في البلاد ، وكل مصيب کہ ’’یہ کام نہ کرو۔ صحابہ کرامؓ نے مسائل میں اختلاف کیا اور مختلف شہروں میں پھیل گئے ان میں ہر ایک حق پر ہو سکتا ہے۔‘‘ یہ سن کر کر خلیفہ خاموش ہو گیا۔ رواہ ابو نعیم فی الحلیہ
امام ابن کثیر فرماتے ہیں خلیفہ منصور نے امام مالک سے تقاضا کیا کہ اگر آپ پسند کریں تو لوگوں کو موطا کا پابند بنا دیا جائے۔ تو امام صاحب نے کمال علم وانصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا: إن الناس قد جمعوا واطلعوا على أشياء لم نطلع عليها کہ ’’ممکن ہے دیگر علماء ایسا علم حاصل کرلیں اور (اپنی کتب میں) جمع کر دیں جو ہمارے پاس نہیں۔ (لہٰذا لوگوں کو موطا پر کیونکر مجبور کیا جا سکتا ہے؟‘‘
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاک اللہ خیرا محترم بھائی۔
تو اگر کوئی عامی شخص نواب صاحب کے اجتہاد پر عمل کرتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
انہیں متعین کیے بغیر ان کے اجتہاد پر عمل کر سکتا ہے۔ فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون بشرطیکہ انہیں معصوم نہ سمجھ لے کہ اگر فوری یا آئندہ کبھی ان کے اجتہاد کے خلاف قرآن وحدیث کا علم ہوجائے تو پھر بھی ان کی رائے پر جما رہے!

(ظاہراً باطناً نافذ کے مسئلے میں ذرا سا فرق ہے۔ یہ ہر جگہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اس روایت میں بھی نہیں ہو رہا۔ یہ صرف املاک غیرمرسلہ غیر اموال میں ہوتا ہے۔ جملہ معترضہ)
میرا مقصود صرف اہل الرائے کے موقف کو واضح کرنا ہے کہ وہ اجتہاد کو ایک رائے کی نہیں بلکہ شریعت کی حیثیت دیتے ہیں، اسی لئے وہ صریح حدیث نبوی کے برخلاف قضاء کو باطناً نافذ مانتے ہیں۔
 
Top