• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نور جہاں ، فتورِ جہاں

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
”ملکہ ترنم“ کو ہمارے ایک خطیب صاحب ”ملکہ جہنم“ کہا کرتے تھے، اور خوب کہتے تھے۔ موصوفہ اور سعادت حسن منٹو مبینہ طور پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور دونوں کو ”بازار حسن“ سے خصوصی ”رغبت“ تھی۔
 
شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
نور جہاں ، فتورِ جہاں


محمدعطاء اللہ صدیقی


سعادت حسن منٹو جیسے ملحد جنس نگار ہی ہیں جنہیں اس طرح کی دروغ گوئی سے ذرّہ برابر خوفِ خدا نہیں رہتا۔ ایک لعوولعب، فسق و فجور، گانے بجانے اور جنسی آوارگی کا شکار عورت کو ’نور‘ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جن کے قلوب اِلحاد و زندیقیت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ وہ بدبخت طائفہ اُدباء ہے جس کو قرآن و سنت کا نور توکبھی نظر نہیں آیا، البتہ غناء اور موسیقی کے فتور کو ہی ’نور‘ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشادِ ربانی ہے :
ہمارے ہاں ایسے ہی بد بختوں کی تاریخ تدریسی نصاب میں شامل کرکے بچوں کے ذہن میں فحاشی اور بگاڑ پیدا کیا جارہا ہے،
جھوٹے فلسفوں کو نصاب میں شامل کرکے ایسے لوگوں کو ہیرو بنا کر بچوں کی تربیت کی جارہی ہے۔
یہ ہے پاکستان۔۔۔۔۔۔ زندہ باد پاکستان
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
۔۔ موصوفہ اور سعادت حسن منٹو مبینہ طور پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور دونوں کو ”بازار حسن“ سے خصوصی ”رغبت“ تھی۔
اس سے کیا ثابت ہوتا ہے بھائی جان ؟ کیا سنی مسلک کے ادیب اور فنکاروں پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے؟ :P
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اس سے کیا ثابت ہوتا ہے بھائی جان ؟ کیا سنی مسلک کے ادیب اور فنکاروں پر اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے؟ :P
جی نہیں یہ بات نہیں ہے۔
اصل میں ”کاروبار بازار حسن“ میں زیادہ تر اسی مسلک کے ”فنکار“ پائے جاتے ہیں، جہاں ”احترام محرم الحرام“ میں تو دس دنوں تک یہ کاروبار بند ہوتا ہے لیکن رمضان میں ایسا کوئی ”احترام“ نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ اس مسلک کے بعض عقائد اس کاروبار کو چلانے میں ”معاونت“ کرتے ہیں۔ اسی لئے ایسے تمام ”فنکاروں“ کے مسلک پر بھی روشنی ڈالتے رہنا چاہئے۔ تاکہپتہ چلے کہ کس عقائد کے زیادہ تر لوگ کس قسم کے غیر شرعی اور فحاشی کے کاروبار میں ملوث ہیں
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
جی نہیں یہ بات نہیں ہے۔
اصل میں ”کاروبار بازار حسن“ میں زیادہ تر اسی مسلک کے ”فنکار“ پائے جاتے ہیں، جہاں ”احترام محرم الحرام“ میں تو دس دنوں تک یہ کاروبار بند ہوتا ہے لیکن رمضان میں ایسا کوئی ”احترام“ نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ اس مسلک کے بعض عقائد اس کاروبار کو چلانے میں ”معاونت“ کرتے ہیں۔ اسی لئے ایسے تمام ”فنکاروں“ کے مسلک پر بھی روشنی ڈالتے رہنا چاہئے۔ تاکہپتہ چلے کہ کس عقائد کے زیادہ تر لوگ کس قسم کے غیر شرعی اور فحاشی کے کاروبار میں ملوث ہیں
محترم بھائیجان، ایک بات کی وضاحت پہلے کر دوں کہ میں آپ کو صرف یہاں نہیں پڑھتا بلکہ کچھ اور فورمز پر بھی جہاں آپ مشہور ہیں وہاں بھی پڑھتا ہوں۔ اور میری انفارمیشن کے مطابق آپ خاکسار کی طرح صحافتی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کا بالا مراسلہ حیرت ہی نہیں بلکہ شدید حیرت سے دوچار کرتا ہے۔ معاف فرمائیں ، اپنی پچھلی بات کے دفاع میں آپ کی دلیل نہایت بودی لگتی ہے۔ یہ صحافتی اقدار کے علاوہ مذہبی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اول تو مذہب میں "مسلک" کا کوئی تصور نہیں ، دوسرے ۔۔ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ بلامبالغہ نیٹ پر ہر فرقہ/مسلک کا آدمی دوسرے کے خلاف بلاروک ٹوک کر ہی رہا ہے!
مجھے پاکستانی صحافت کی تاریخ کا زیادہ علم نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آج سے 20/25 سال قبل جو باوقار انداز کی صحافت قائم تھی وہ ہند و پاک میں یکساں اقدار کی حامل تھی۔ ان دنوں جرم/جرائم کی تفصیل سے گریز کیا جاتا تھا اور ملزم/مجرم کے مذہب یا مسلک کو جہاں تک ممکن ہو پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔ شاید آپ کو بھی یاد ہو۔ موجودہ دور کے میڈیا کی بھلا کیا بات کی جائے ، اس کا سب سے زبردست احتساب صحافی آصف محمود نے اپنے مضمون (حیرت ہے ، میڈیا کو بھی افسوس ہے!) کے ذریعے کیا ہے۔ ذرا اس مضمون کو آئینہ سمجھ کر دیکھنے کی کوشش کیجیے میرے محترم!
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کی طعن طرازی (چاہے وہ کتنی سچ یا برحق ہو!) بین المسلکی معاشروں میں زہر کے بیج بونے کا سبب بنتی ہے اور جس کے باعث ہی آج امت مسلمہ انتشار کا شکار ہو کر غیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ کیا آپ کو اپنے ملک کی مساجد اور دیگر عبادتگاہوں میں ہو رہے روزانہ کے بم دھماکے نظر نہیں آتے؟
افسوس ! اس کے باوجود آپ کا نقطہ نظر ہے کہ ایک دوسرے کی "کردار کشی" کرتے رہنا چاہیے!!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
محترم بھائیجان، ایک بات کی وضاحت پہلے کر دوں کہ میں آپ کو صرف یہاں نہیں پڑھتا بلکہ کچھ اور فورمز پر بھی جہاں آپ مشہور ہیں وہاں بھی پڑھتا ہوں۔ اور میری انفارمیشن کے مطابق آپ خاکسار کی طرح صحافتی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
آپ کا بالا مراسلہ حیرت ہی نہیں بلکہ شدید حیرت سے دوچار کرتا ہے۔ معاف فرمائیں ، اپنی پچھلی بات کے دفاع میں آپ کی دلیل نہایت بودی لگتی ہے۔ یہ صحافتی اقدار کے علاوہ مذہبی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اول تو مذہب میں "مسلک" کا کوئی تصور نہیں ، دوسرے ۔۔ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ بلامبالغہ نیٹ پر ہر فرقہ/مسلک کا آدمی دوسرے کے خلاف بلاروک ٹوک کر ہی رہا ہے!
مجھے پاکستانی صحافت کی تاریخ کا زیادہ علم نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آج سے 20/25 سال قبل جو باوقار انداز کی صحافت قائم تھی وہ ہند و پاک میں یکساں اقدار کی حامل تھی۔ ان دنوں جرم/جرائم کی تفصیل سے گریز کیا جاتا تھا اور ملزم/مجرم کے مذہب یا مسلک کو جہاں تک ممکن ہو پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔ شاید آپ کو بھی یاد ہو۔ موجودہ دور کے میڈیا کی بھلا کیا بات کی جائے ، اس کا سب سے زبردست احتساب صحافی آصف محمود نے اپنے مضمون (حیرت ہے ، میڈیا کو بھی افسوس ہے!) کے ذریعے کیا ہے۔ ذرا اس مضمون کو آئینہ سمجھ کر دیکھنے کی کوشش کیجیے میرے محترم!
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کی طعن طرازی (چاہے وہ کتنی سچ یا برحق ہو!) بین المسلکی معاشروں میں زہر کے بیج بونے کا سبب بنتی ہے اور جس کے باعث ہی آج امت مسلمہ انتشار کا شکار ہو کر غیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ کیا آپ کو اپنے ملک کی مساجد اور دیگر عبادتگاہوں میں ہو رہے روزانہ کے بم دھماکے نظر نہیں آتے؟
افسوس ! اس کے باوجود آپ کا نقطہ نظر ہے کہ ایک دوسرے کی "کردار کشی" کرتے رہنا چاہیے!!
سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ مجھے دیگر فورمز میں بھی پڑھتے رہتے ہیں۔
اگر آپ برصغیر پاک و ہند کے مشہور و معروف ادیبوں، شعراء، صحافیوں، فلم اسٹیج، ٹی وی کے جملہ اقسام کے فنکاروں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں تو ”شاید“ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ
  1. ان میں شیعہ برادری سے منسلک افراد بھاری تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اسی معاشرے کی آبادی میں ان کی تعداد نہایت قلیل ہے۔ گویا ”میڈیا“ (ادب و شاعری، اخبارات و جرائد،ریڈیو، ٹی وی، اسٹیج اور فلم وغیرہ) میں شیعہ برادری کا تناسب، معاشرتی آبادی میں ان کے تناسب سے ”حیرت انگیز“ طور پر بہت زیادہ ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ محض ”اتفاق“ ہے۔ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو مجھے آپ سے اتفاق نہیں ہے۔ یہ پس پردہ ایک بہت ”طویل المیعاد منصوبہ بندی“ کا نتیجہ ہے۔
  2. ”میڈیا ہاؤسز“ میں ان کی بھاری اکثریت کی ”کارکردگی“ کا ایک نمونہ آپ کو محرم الحرام کے دس دنوں میں پاکستان+بنگلہ دیش+ بھارت میں ”صاف صاف نظر“ آئے گا۔ ایسا لگے گا کہ یہ ممالک کوئی شیعہ اکثریتی ممالک ہیں۔ یہ میڈیا (کے شیعہ وابستگان) ہی کا تو کمال ہے کہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر دکھاتے ہیں
  3. ”میڈیا ہاؤسز“ پر ان کی ”گرفت“ کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آج اگر کوئی (نسبتاً ) اسلامی اخبار یا ٹی وی چینل چلانا چاہتا ہے تو وہ بھی عملاً ”شیعہ اسٹاف“ کو شامل کئے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔
  4. مشہور و معروف اور مستند ادیب ہوں، شاعر ہوں، صحافی ہوں یا اداکار ۔۔۔ اگر یہ اپنے ”فن“ کے ذریعہ ”غیر اسلامی سوچ و فکر“ کو پروان چڑھاتے ہوئے ”نظر“ آجائیں (جی ہاں! اگر ۔۔۔ کہ ایسا دیکھنے کے لئے صرف بصارت نہیں بلکہ گہری بصیرت بھی درکار ہوتی ہے، ابتسامہ) تو آپ کو 80 بلکہ 90 فیصد ایسے ”فنکار“ شیعہ ہی ملیں گے
  5. برصغیر کے میڈیا میں کوئی ”نو وارد“، کسی مشہور و معروف اور مستند ”نام“ کا دامن تھامے بغیر اپنے آپ کو منوا نہیں سکتا، الا یہ کہ اس میں ایکسٹرا آڑڈینری صلاحیت موجود ہو، اور اس کے ”کام“ کو کوئی نظر انداز ہی نہ کر سکے (نو واردوں میں ایسے کم کم ہی ہوتے ہیں)۔ اور ایسے ”نام“ جا بجا صرف شیعہ ہی کے ملتے ہیں۔ اسی لئے میڈیا میں آنے یا یہاں آگے بڑھنے کے خواہشمند غیر شیعہ افراد ، شیعہ کمیونٹی سے ”ہم آہنگ“ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہ اتحاد بین المسالک کے نام پر یا کسی اور نام پر۔
  6. میڈیا ہاؤسز سے بھی زیادہ خراب تر صورتحال برصغیر کے ”کوٹھا ہاؤسز“ کی ہے۔ یہاں کے بھی ”کرتا دھرتا“ شیعہ کمیونٹی سے منسلک ہیں۔ لکھنو کے کوٹھے اور یہاں کی طوائفیں تو اتنی زیادہ ”اسٹیبلشڈ اور مہذب“ ہوتی تھیں (اب کا پتہ نہیں) کہ شہر کے ”شرفاء“ اپنے بچوں کو ”تہزیب“ سکھلانے کوٹھے پر بھیجا کرتے تھے۔ اور شہر کے ”معززین“ بھی کوٹھے کی محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ذرا یہ ”تحقیق“ تو کیجئے کہ ان ”شرفاء“ اور ”معززین“ کی بھاری اکثریت کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا یا نہیں
  7. میں یہ باتیں صرف اسی فورم پر پہلی مرتبہ نہیں لکھ رہا۔ یہاں آئے ہوئے تو مجھے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں۔ جب کہ میں صحافت میں ساڑھے تین دہائیوں سے اور نیٹ فورمز میں تقریباً دو دہائیوں سے عملی طور پر ”متحرک“ ہوں۔ اور میں یہ باتیں ہر جگہ موقع محل کے مطابق کرتا رہا ہوں اور ان شاء اللہ کرتا رہوں گا۔
  8. ان ”حقائق“ سے تو میرے ذاتی مراسم میں موجود ”شیعہ احباب“ بھی ”انکار“ نہیں کرتے۔ہاں البتہ شیعہ مسلک کی حقیقت سے نا آشنا غیر شیعہ احباب کو میرا یہ طرز عمل بُرا یا ”نامناسب“ لگتا ہے تو لگا کرے۔ مجھے تو اپنی قبر میں اپنا جواب خود دینا ہے۔ اور دیگر سوالوں کے ساتھ ایک اہم ترین سوال مجھ سے یقیناً یہ بھی ہوگا کہ جب اللہ نے مجھے ”تحریر“ کی صلاحیت دی تھی، میڈیا کا ایک رکن فعال بنایا تھا اور حق و باطل کا علم بھی دیا تھا تو میں نے باطل اور ان کے عزائم کو ایکسپوز کرنے کے لئے اپنے قلم (یا کی بورڈ) کو کتنا استعمال کیا تھا اور کیا بھی تھا یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی سوال دیگر ”اہل قلم مسلمانوں“ سے بھی ضرور کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم جملہ مسلمان اہل قلم کو اپنا یہ دینی فریضہ احسن طریقہ سے انجام دینے کی توفیق عطا کرے آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کالم نگاروں کا ایک گروہ تو بے حد اصرار کے ساتھ یہ فتویٰ صادر کرچکا ہے کہ نورجہاں مرنے کے بعد سیدھی جنت میں چلی گئی ہے۔ اس فتویٰ کی بنیاد وہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ ۲۷ رمضان المبارک کی رات قبر میں اُتری، لہٰذا اب اس کے لئے ’جنت‘ میں جانا یقینی ہوگیا ہے۔
آج کل ایک خاصے مقبول و مشہور مولوی جنہیں ایوان سیاست تک رسائی حاصل ہے ، اور مشاہیر کے جنازے اور فاتحہ درود میں ان کی شرکت
’’ بخشش ‘‘ کا سرٹیفکیٹ سمجھی جاتی ہے ،
سنا ہے ان مولوی صیب کا بھی ۔۔ نو جہان ۔۔ کے بارے یہی سائیس رمضان کی فضیلت حاصل کرنے کا قول ہے؛
واللہ اعلم بحقیقۃ المولوی و عاقبۃ المراۃ
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
اللہ رب العزت کسی کی بھی بخشش کر نے پر قادر ہے۔ جب ایک فاحشہ کتے کو پانی پلانے پر بخشی جاسکتی ہے تو ہم مرنے کے بعد کسی کی کر دار کشی کیوں کریں۔ہمیں کیا پتہ اللہ نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اللہ رب العزت کسی کی بھی بخشش کر نے پر قادر ہے۔ جب ایک فاحشہ کتے کو پانی پلانے پر بخشی جاسکتی ہے تو ہم مرنے کے بعد کسی کی کر دار کشی کیوں کریں۔ہمیں کیا پتہ اللہ نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔
ظاہر کو دیکھ کر بات کی جاتی ہے ۔
’ جنت ‘ یا ’ جہنم ‘ دونوں قسم کے ٹکٹس دنیا والوں میں سے کسی کے پاس نہیں ہیں ۔
 
Top