محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
جن امور میں مساوی درجہ دیا گیا ہے ، وہ درج ذیل ہیں:
ا- عزت اور آبرو کی حرمت :
اسلام میں عزت اور آبرو کے تحفظ کے لئے جو احکام مردوں کے لئے ہیں وہی احکام عورتوں کے لئے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں مردوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں وہیں عورتوں کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسری کا مذاق نہ اڑائیں۔ مردوں اور عورتوں کو مشترک حکم دیا گیا ہے ’’ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔‘‘ ’’ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کرو۔‘‘ ’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔‘‘رسول اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے ’’ہر مسلمان (مرد ہو یا عورت) کا خون ، مال اور عزت ایک دوسرے پر حرام ہے۔‘‘ (مسلم) عزت اور آبرو کے حوالے سے عورت کا معاملہ مرد کی نسبت زیادہ نازک ہے۔ اس لئے اسلام نے عورت کی عزت اور آبرو کے تحفظ کے لئے علیحدہ سخت احکام نازل فرمائے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ پاکدامن ، بے خبر مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیاو آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ دوسری آیت میںپاکدامن عورتوںپر تہمت لگانے کی سزا اسی کوڑے مقرر کی گئی ہے۔Ž جبکہ عورت کو بے آبرو کرنے کی سزا سو کوڑے ہے۔ اگر مرد شادی شدہ ہو تو اس کی سزا سنگسار کرنا ہے۔ (ابودائود)
عہد نبوی میں ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لئے نکلی ، راستے میں ایک شخص نے اس عورت کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ عورت کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا ، رسول اکرمﷺنے اسے سنگسار کروادیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی، ابودائود) عورت کی عزت اور آبرو کے معاملے میں قابل ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اس کاکوئی مادی یا مالی معاوضہ قبول کرنے کی اجازت نہیں دی نہ ہی اسے قابل ِراضی نامہ گناہ کا درجہ دیا ہے۔ رسول اللہﷺکے زمانہ مبارک میں ایک لڑکا کسی شخص کے ہاں کام کرتا تھا، لڑکے نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا تو لڑکے کے باپ نے بیوی کے شوہر کو سو بکریاں او رایک لونڈی دے کر راضی کر لیا، مقدمہ عدالت نبوی میںگیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’بکریاں اور لونڈی واپس لو۔‘‘ اور زانی پر حد جاری فرمادی۔ (بخاری و مسلم) عورت کی عزت اور آبرو کا یہ تصورنہ اسلام سے پہلے کبھی رہا ہے نہ اسلام آنے کے بعد کسی دوسرے مذہب یا معاشرے نے پیش کیا ہے۔ کہنا چاہئے کہ عورت کی عزت اور آبرو کے معاملے میں اسلام نے امتیازی احکام دے کر مرد کے معاملے میں عورت کو کہیں زیادہ اہم اور بلند مقام عطا فرمایا ہے۔
ب- حرمت ِجان :
بحیثیت انسانی جان کے مرد اور عورت دونوں کی جان کی حرمت مساوی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جو شخص کسی مومن (مرد یا عورت )کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے ۔‘‘ خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تم سب (مردوں اور عورتوں) کے خون اور مال ایک دوسرے پر حرام کردیئے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) عہد نبوی میں ایک یہودی نے ایک لڑکی کو قتل کردیا۔ رسول اللہﷺنے لڑکی کے بدلے میں یہودی کوقتل کروا دیا۔(بخاری، کتاب الدیات) یاد رہے قتل عمدمیں اسلام نے مرد اور عورت کی دیت میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ذمیوں کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا ’’جس نے کسی ذمی (مرد یا عورت) کو قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔‘‘ (نسائی) زمانہ جاہلیت میں عورت کی جان کی چو نکہ کوئی قدر و قیمت نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش کو نحوست کی علامت تصور کیا جاتا تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عورت کی جان کے تحفظ کی خاطر بڑے غضبناک لہجے میں آیات نازل فرمائیں ’’اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں قتل کی گئی۔‘‘
ج- نیکی کا اجرو ثواب:
نیک اعمال کے اجرو ثواب میں مرد و عورت بالکل یکساں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن ، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں انہیں بے حساب رزق دیاجائے گا۔‘‘ ایک دوسری آیت میں ارشاد مبارک ہے ’’مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقہ دینے و الے ہیں او رجنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ہے ان سب کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا اور ان کے لئے بہترین اجر ہے۔‘‘Žسورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔‘‘ (آیت نمبر 195) اسلام میںکوئی عمل ایسا نہیں جس کا اجر و ثواب مردوں کو محض اس لئے زیادہ دیا گیا ہو کہ وہ مرد ہیں اور عورتوں کو اس لئے کم دیا گیا ہوکہ وہ عورتیں ہیں بلکہ اسلام نے فضیلت کا معیار تقویٰ کو بنایا ہے ۔ اگر کوئی عورت مرد کے مقابلہ میں زیادہ متقی ہے تو یقینا عورت ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ہوگی۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ } اللہ کے نزدیک تم سب (مردوں اور عورتوں) میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (سورہ حجرات ، آیت نمبر13)
د-حصول علم:
اسلام نے حصول علم کے معاملے میں بھی عورت کو مرد کے مساوی درجہ دیا ہے۔ رسول اکرمﷺنے صحابیات کی تعلیم کے لئے ہفتہ میں ایک الگ دن مقرر فرما رکھا تھا جس میں آپ ﷺخواتین کو نصیحتیں فرماتے اور شریعت کے احکام بتلاتے۔ (بخاری ، کتاب العلم) حضرت عائشہrاور حضرت ام سلمہ rنے علم دین سیکھنے اور امت تک پہنچانے میں مثالی کردار ادا کیا۔ حضرت عائشہ rعلم دین حاصل کرنے والی خواتین کی زبردست حوصلہ افزائی فرمایا کرتیں۔ ایک موقع پر آپ فرماتی ہیں ’’انصاری عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دینی مسائل دریافت کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں۔‘‘ (مسلم) قرآن مجید کی بہت سی آیات اور رسول اکرمﷺکی احادیث ایسی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو مردوں کی طرح نہ صرف علم دین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے ضروری قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائو۔‘‘ ظاہر ہے جہنم کی آگ سے بچنے اور اولاد کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ خود بھی وہ تعلیم حاصل کی جائے اور اولاد کو بھی اس تعلیم سے آراستہ کیاجائے جو جہنم سے بچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ رسول اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے ’’ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔‘‘ (طبرانی) علماء کرام کے نزدیک اس حدیث شریف میں مسلمان سے مراد صرف مرد ہی نہیں بلکہ مسلمان مرد اور عورتیں دونوں ہیں۔
مذکورہ احکام سے یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں عورت کو بھی حصول علم کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مرد کو۔ جہاں تک دنیاوی تعلیم کا تعلق ہے ، شرعی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے ایسا علم جو خواتین کو ان کے مذہب او ر عقیدے کا باغی نہ بنائے اور عملی زندگی میں عورتوں کے لئے مفید بھی ہو، سیکھنے میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب !
ھـ -حق ملکیت:
جس طرح مردوں کے حق ملکیت کو تحفظ حاصل ہے،اسی طرح اسلام نے عورتوں کے حق ملکیت کو بھی تحفظ عطا کیا ہے۔ اگر عورت کسی جائیداد کی مالک ہے توکسی دوسرے کو اس میں تصرف کا کوئی حق نہیں۔ مثلاً ’’مہر ‘‘عورت کی ملکیت ہے جس میں اس کے باپ ، بھائی حتی کہ بیٹے یا شوہر کوبھی تصرف کا حق نہیں۔ اسلام نے جس طرح مردوں کے لئے وراثت کے حصے مقررکئے ہیں ویسے ہی عورتوں کے لئے بھی مقرر کئے ہیں۔ اسلام نے عورت کے حق ملکیت کو اس قدر تحفظ دیا ہے کہ عورت خواہ کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو اور شوہر کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو، بیوی کا نان نفقہ بہرحال مرد ہی کے ذمہ ہے۔ عورت اپنی ملکیت میں سے اگر ایک پیسہ بھی گھر پر خرچ نہ کرے تو شریعت کی طرف سے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہاں یہ مسئلہ واضح کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عورت سے خود کہہ کر ’’مہر‘‘ معاف کروانا جائزنہیں اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے برضا و رغبت معاف کردے تو جائز ہے ورنہ طے شدہ حق مہر ادا کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح کسی کا قرض ادا کرنا واجب ہوتا ہے ،جو لوگ محض اس نیت سے لاکھوں کا مہر مقرر کرلیتے ہیں کہ عورت سے معاف کروالیں گے وہ صریحاً گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
و-شوہر کا انتخاب :
جس طرح مرد کو اسلام نے اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس بھی مسلمان عورت سے نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے ، اسی طرح عورت کو بھی اسلام اس بات کا پورا پورا حق دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے شوہر کا انتخاب کرلے، لیکن کم عمری اور ناتجربہ کاری کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے شریعت نے نکاح میںولی کی رضامندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
ز-حق خلع :
جس طرح شریعت نے مرد کو ناپسندیدہ عورت سے علیحدگی کے لئے طلاق کا حق دیا ہے ، اسی طرح عورت کو ناپسندیدہ مرد سے الگ ہونے کے لئے خلع کا حق دیا ہے جسے عورت باہمی افہام و تفہیم یا عدالت کے ذریعے حاصل کر سکتی ہے۔ ایک عورت نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہرکی شکایت کی ۔ آپﷺنے اس سے پوچھا ’’کیا تم مہر میں دیا گیا باغ واپس کرسکتی ہو؟‘‘ عورت نے عرض کیا ’’ہاں ، یا رسول اللہﷺ!‘‘ آپ ﷺنے اس کے شوہر کو حکم دیا کہ اس سے اپنا مہر واپس لے لو اسے الگ کردو۔‘‘ (بخاری)
مذکورہ بالا سات امور میں اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطافرمائے ہیں،
ا- عزت اور آبرو کی حرمت :
اسلام میں عزت اور آبرو کے تحفظ کے لئے جو احکام مردوں کے لئے ہیں وہی احکام عورتوں کے لئے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں مردوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں وہیں عورتوں کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسری کا مذاق نہ اڑائیں۔ مردوں اور عورتوں کو مشترک حکم دیا گیا ہے ’’ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔‘‘ ’’ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کرو۔‘‘ ’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔‘‘رسول اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے ’’ہر مسلمان (مرد ہو یا عورت) کا خون ، مال اور عزت ایک دوسرے پر حرام ہے۔‘‘ (مسلم) عزت اور آبرو کے حوالے سے عورت کا معاملہ مرد کی نسبت زیادہ نازک ہے۔ اس لئے اسلام نے عورت کی عزت اور آبرو کے تحفظ کے لئے علیحدہ سخت احکام نازل فرمائے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ پاکدامن ، بے خبر مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیاو آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ دوسری آیت میںپاکدامن عورتوںپر تہمت لگانے کی سزا اسی کوڑے مقرر کی گئی ہے۔Ž جبکہ عورت کو بے آبرو کرنے کی سزا سو کوڑے ہے۔ اگر مرد شادی شدہ ہو تو اس کی سزا سنگسار کرنا ہے۔ (ابودائود)
عہد نبوی میں ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لئے نکلی ، راستے میں ایک شخص نے اس عورت کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ عورت کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا ، رسول اکرمﷺنے اسے سنگسار کروادیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی، ابودائود) عورت کی عزت اور آبرو کے معاملے میں قابل ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اس کاکوئی مادی یا مالی معاوضہ قبول کرنے کی اجازت نہیں دی نہ ہی اسے قابل ِراضی نامہ گناہ کا درجہ دیا ہے۔ رسول اللہﷺکے زمانہ مبارک میں ایک لڑکا کسی شخص کے ہاں کام کرتا تھا، لڑکے نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا تو لڑکے کے باپ نے بیوی کے شوہر کو سو بکریاں او رایک لونڈی دے کر راضی کر لیا، مقدمہ عدالت نبوی میںگیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’بکریاں اور لونڈی واپس لو۔‘‘ اور زانی پر حد جاری فرمادی۔ (بخاری و مسلم) عورت کی عزت اور آبرو کا یہ تصورنہ اسلام سے پہلے کبھی رہا ہے نہ اسلام آنے کے بعد کسی دوسرے مذہب یا معاشرے نے پیش کیا ہے۔ کہنا چاہئے کہ عورت کی عزت اور آبرو کے معاملے میں اسلام نے امتیازی احکام دے کر مرد کے معاملے میں عورت کو کہیں زیادہ اہم اور بلند مقام عطا فرمایا ہے۔
ب- حرمت ِجان :
بحیثیت انسانی جان کے مرد اور عورت دونوں کی جان کی حرمت مساوی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جو شخص کسی مومن (مرد یا عورت )کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے ۔‘‘ خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تم سب (مردوں اور عورتوں) کے خون اور مال ایک دوسرے پر حرام کردیئے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) عہد نبوی میں ایک یہودی نے ایک لڑکی کو قتل کردیا۔ رسول اللہﷺنے لڑکی کے بدلے میں یہودی کوقتل کروا دیا۔(بخاری، کتاب الدیات) یاد رہے قتل عمدمیں اسلام نے مرد اور عورت کی دیت میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ذمیوں کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا ’’جس نے کسی ذمی (مرد یا عورت) کو قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔‘‘ (نسائی) زمانہ جاہلیت میں عورت کی جان کی چو نکہ کوئی قدر و قیمت نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش کو نحوست کی علامت تصور کیا جاتا تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عورت کی جان کے تحفظ کی خاطر بڑے غضبناک لہجے میں آیات نازل فرمائیں ’’اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں قتل کی گئی۔‘‘
ج- نیکی کا اجرو ثواب:
نیک اعمال کے اجرو ثواب میں مرد و عورت بالکل یکساں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن ، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں انہیں بے حساب رزق دیاجائے گا۔‘‘ ایک دوسری آیت میں ارشاد مبارک ہے ’’مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقہ دینے و الے ہیں او رجنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ہے ان سب کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا اور ان کے لئے بہترین اجر ہے۔‘‘Žسورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔‘‘ (آیت نمبر 195) اسلام میںکوئی عمل ایسا نہیں جس کا اجر و ثواب مردوں کو محض اس لئے زیادہ دیا گیا ہو کہ وہ مرد ہیں اور عورتوں کو اس لئے کم دیا گیا ہوکہ وہ عورتیں ہیں بلکہ اسلام نے فضیلت کا معیار تقویٰ کو بنایا ہے ۔ اگر کوئی عورت مرد کے مقابلہ میں زیادہ متقی ہے تو یقینا عورت ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ہوگی۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ } اللہ کے نزدیک تم سب (مردوں اور عورتوں) میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (سورہ حجرات ، آیت نمبر13)
د-حصول علم:
اسلام نے حصول علم کے معاملے میں بھی عورت کو مرد کے مساوی درجہ دیا ہے۔ رسول اکرمﷺنے صحابیات کی تعلیم کے لئے ہفتہ میں ایک الگ دن مقرر فرما رکھا تھا جس میں آپ ﷺخواتین کو نصیحتیں فرماتے اور شریعت کے احکام بتلاتے۔ (بخاری ، کتاب العلم) حضرت عائشہrاور حضرت ام سلمہ rنے علم دین سیکھنے اور امت تک پہنچانے میں مثالی کردار ادا کیا۔ حضرت عائشہ rعلم دین حاصل کرنے والی خواتین کی زبردست حوصلہ افزائی فرمایا کرتیں۔ ایک موقع پر آپ فرماتی ہیں ’’انصاری عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دینی مسائل دریافت کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں۔‘‘ (مسلم) قرآن مجید کی بہت سی آیات اور رسول اکرمﷺکی احادیث ایسی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو مردوں کی طرح نہ صرف علم دین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے ضروری قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائو۔‘‘ ظاہر ہے جہنم کی آگ سے بچنے اور اولاد کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ خود بھی وہ تعلیم حاصل کی جائے اور اولاد کو بھی اس تعلیم سے آراستہ کیاجائے جو جہنم سے بچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ رسول اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے ’’ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔‘‘ (طبرانی) علماء کرام کے نزدیک اس حدیث شریف میں مسلمان سے مراد صرف مرد ہی نہیں بلکہ مسلمان مرد اور عورتیں دونوں ہیں۔
مذکورہ احکام سے یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں عورت کو بھی حصول علم کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مرد کو۔ جہاں تک دنیاوی تعلیم کا تعلق ہے ، شرعی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے ایسا علم جو خواتین کو ان کے مذہب او ر عقیدے کا باغی نہ بنائے اور عملی زندگی میں عورتوں کے لئے مفید بھی ہو، سیکھنے میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب !
ھـ -حق ملکیت:
جس طرح مردوں کے حق ملکیت کو تحفظ حاصل ہے،اسی طرح اسلام نے عورتوں کے حق ملکیت کو بھی تحفظ عطا کیا ہے۔ اگر عورت کسی جائیداد کی مالک ہے توکسی دوسرے کو اس میں تصرف کا کوئی حق نہیں۔ مثلاً ’’مہر ‘‘عورت کی ملکیت ہے جس میں اس کے باپ ، بھائی حتی کہ بیٹے یا شوہر کوبھی تصرف کا حق نہیں۔ اسلام نے جس طرح مردوں کے لئے وراثت کے حصے مقررکئے ہیں ویسے ہی عورتوں کے لئے بھی مقرر کئے ہیں۔ اسلام نے عورت کے حق ملکیت کو اس قدر تحفظ دیا ہے کہ عورت خواہ کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو اور شوہر کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو، بیوی کا نان نفقہ بہرحال مرد ہی کے ذمہ ہے۔ عورت اپنی ملکیت میں سے اگر ایک پیسہ بھی گھر پر خرچ نہ کرے تو شریعت کی طرف سے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہاں یہ مسئلہ واضح کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عورت سے خود کہہ کر ’’مہر‘‘ معاف کروانا جائزنہیں اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے برضا و رغبت معاف کردے تو جائز ہے ورنہ طے شدہ حق مہر ادا کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح کسی کا قرض ادا کرنا واجب ہوتا ہے ،جو لوگ محض اس نیت سے لاکھوں کا مہر مقرر کرلیتے ہیں کہ عورت سے معاف کروالیں گے وہ صریحاً گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
و-شوہر کا انتخاب :
جس طرح مرد کو اسلام نے اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس بھی مسلمان عورت سے نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے ، اسی طرح عورت کو بھی اسلام اس بات کا پورا پورا حق دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے شوہر کا انتخاب کرلے، لیکن کم عمری اور ناتجربہ کاری کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے شریعت نے نکاح میںولی کی رضامندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
ز-حق خلع :
جس طرح شریعت نے مرد کو ناپسندیدہ عورت سے علیحدگی کے لئے طلاق کا حق دیا ہے ، اسی طرح عورت کو ناپسندیدہ مرد سے الگ ہونے کے لئے خلع کا حق دیا ہے جسے عورت باہمی افہام و تفہیم یا عدالت کے ذریعے حاصل کر سکتی ہے۔ ایک عورت نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہرکی شکایت کی ۔ آپﷺنے اس سے پوچھا ’’کیا تم مہر میں دیا گیا باغ واپس کرسکتی ہو؟‘‘ عورت نے عرض کیا ’’ہاں ، یا رسول اللہﷺ!‘‘ آپ ﷺنے اس کے شوہر کو حکم دیا کہ اس سے اپنا مہر واپس لے لو اسے الگ کردو۔‘‘ (بخاری)
مذکورہ بالا سات امور میں اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطافرمائے ہیں،