• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کے مسائل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جن امور میں مساوی درجہ دیا گیا ہے ، وہ درج ذیل ہیں:
ا- عزت اور آبرو کی حرمت :
اسلام میں عزت اور آبرو کے تحفظ کے لئے جو احکام مردوں کے لئے ہیں وہی احکام عورتوں کے لئے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں مردوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں وہیں عورتوں کو بھی یہ حکم ہے کہ وہ ایک دوسری کا مذاق نہ اڑائیں۔ مردوں اور عورتوں کو مشترک حکم دیا گیا ہے ’’ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔‘‘ ’’ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کرو۔‘‘ ’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔‘‘رسول اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے ’’ہر مسلمان (مرد ہو یا عورت) کا خون ، مال اور عزت ایک دوسرے پر حرام ہے۔‘‘ (مسلم) عزت اور آبرو کے حوالے سے عورت کا معاملہ مرد کی نسبت زیادہ نازک ہے۔ اس لئے اسلام نے عورت کی عزت اور آبرو کے تحفظ کے لئے علیحدہ سخت احکام نازل فرمائے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ پاکدامن ، بے خبر مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیاو آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ دوسری آیت میںپاکدامن عورتوںپر تہمت لگانے کی سزا اسی کوڑے مقرر کی گئی ہے۔Ž جبکہ عورت کو بے آبرو کرنے کی سزا سو کوڑے ہے۔ اگر مرد شادی شدہ ہو تو اس کی سزا سنگسار کرنا ہے۔ (ابودائود)
عہد نبوی میں ایک عورت اندھیرے میں نماز کے لئے نکلی ، راستے میں ایک شخص نے اس عورت کو گرا لیا اور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ عورت کے شور مچانے پر لوگ آگئے اور زانی پکڑا گیا ، رسول اکرمﷺنے اسے سنگسار کروادیا اور عورت کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی، ابودائود) عورت کی عزت اور آبرو کے معاملے میں قابل ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اس کاکوئی مادی یا مالی معاوضہ قبول کرنے کی اجازت نہیں دی نہ ہی اسے قابل ِراضی نامہ گناہ کا درجہ دیا ہے۔ رسول اللہﷺکے زمانہ مبارک میں ایک لڑکا کسی شخص کے ہاں کام کرتا تھا، لڑکے نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا تو لڑکے کے باپ نے بیوی کے شوہر کو سو بکریاں او رایک لونڈی دے کر راضی کر لیا، مقدمہ عدالت نبوی میںگیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’بکریاں اور لونڈی واپس لو۔‘‘ اور زانی پر حد جاری فرمادی۔ (بخاری و مسلم) عورت کی عزت اور آبرو کا یہ تصورنہ اسلام سے پہلے کبھی رہا ہے نہ اسلام آنے کے بعد کسی دوسرے مذہب یا معاشرے نے پیش کیا ہے۔ کہنا چاہئے کہ عورت کی عزت اور آبرو کے معاملے میں اسلام نے امتیازی احکام دے کر مرد کے معاملے میں عورت کو کہیں زیادہ اہم اور بلند مقام عطا فرمایا ہے۔
ب- حرمت ِجان :
بحیثیت انسانی جان کے مرد اور عورت دونوں کی جان کی حرمت مساوی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جو شخص کسی مومن (مرد یا عورت )کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے ۔‘‘ خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تم سب (مردوں اور عورتوں) کے خون اور مال ایک دوسرے پر حرام کردیئے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) عہد نبوی میں ایک یہودی نے ایک لڑکی کو قتل کردیا۔ رسول اللہﷺنے لڑکی کے بدلے میں یہودی کوقتل کروا دیا۔(بخاری، کتاب الدیات) یاد رہے قتل عمدمیں اسلام نے مرد اور عورت کی دیت میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ذمیوں کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایا ’’جس نے کسی ذمی (مرد یا عورت) کو قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔‘‘ (نسائی) زمانہ جاہلیت میں عورت کی جان کی چو نکہ کوئی قدر و قیمت نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش کو نحوست کی علامت تصور کیا جاتا تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے عورت کی جان کے تحفظ کی خاطر بڑے غضبناک لہجے میں آیات نازل فرمائیں ’’اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں قتل کی گئی۔‘‘
ج- نیکی کا اجرو ثواب:
نیک اعمال کے اجرو ثواب میں مرد و عورت بالکل یکساں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن ، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں انہیں بے حساب رزق دیاجائے گا۔‘‘ ایک دوسری آیت میں ارشاد مبارک ہے ’’مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقہ دینے و الے ہیں او رجنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ہے ان سب کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا اور ان کے لئے بہترین اجر ہے۔‘‘Žسورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔‘‘ (آیت نمبر 195) اسلام میںکوئی عمل ایسا نہیں جس کا اجر و ثواب مردوں کو محض اس لئے زیادہ دیا گیا ہو کہ وہ مرد ہیں اور عورتوں کو اس لئے کم دیا گیا ہوکہ وہ عورتیں ہیں بلکہ اسلام نے فضیلت کا معیار تقویٰ کو بنایا ہے ۔ اگر کوئی عورت مرد کے مقابلہ میں زیادہ متقی ہے تو یقینا عورت ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ہوگی۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ } اللہ کے نزدیک تم سب (مردوں اور عورتوں) میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (سورہ حجرات ، آیت نمبر13)
د-حصول علم:
اسلام نے حصول علم کے معاملے میں بھی عورت کو مرد کے مساوی درجہ دیا ہے۔ رسول اکرمﷺنے صحابیات کی تعلیم کے لئے ہفتہ میں ایک الگ دن مقرر فرما رکھا تھا جس میں آپ ﷺخواتین کو نصیحتیں فرماتے اور شریعت کے احکام بتلاتے۔ (بخاری ، کتاب العلم) حضرت عائشہrاور حضرت ام سلمہ rنے علم دین سیکھنے اور امت تک پہنچانے میں مثالی کردار ادا کیا۔ حضرت عائشہ rعلم دین حاصل کرنے والی خواتین کی زبردست حوصلہ افزائی فرمایا کرتیں۔ ایک موقع پر آپ فرماتی ہیں ’’انصاری عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دینی مسائل دریافت کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں۔‘‘ (مسلم) قرآن مجید کی بہت سی آیات اور رسول اکرمﷺکی احادیث ایسی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو مردوں کی طرح نہ صرف علم دین حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اسے ضروری قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائو۔‘‘ ظاہر ہے جہنم کی آگ سے بچنے اور اولاد کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ خود بھی وہ تعلیم حاصل کی جائے اور اولاد کو بھی اس تعلیم سے آراستہ کیاجائے جو جہنم سے بچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ رسول اکرم ﷺکا ارشاد مبارک ہے ’’ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔‘‘ (طبرانی) علماء کرام کے نزدیک اس حدیث شریف میں مسلمان سے مراد صرف مرد ہی نہیں بلکہ مسلمان مرد اور عورتیں دونوں ہیں۔
مذکورہ احکام سے یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں عورت کو بھی حصول علم کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا مرد کو۔ جہاں تک دنیاوی تعلیم کا تعلق ہے ، شرعی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے ایسا علم جو خواتین کو ان کے مذہب او ر عقیدے کا باغی نہ بنائے اور عملی زندگی میں عورتوں کے لئے مفید بھی ہو، سیکھنے میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب !
ھـ -حق ملکیت:
جس طرح مردوں کے حق ملکیت کو تحفظ حاصل ہے،اسی طرح اسلام نے عورتوں کے حق ملکیت کو بھی تحفظ عطا کیا ہے۔ اگر عورت کسی جائیداد کی مالک ہے توکسی دوسرے کو اس میں تصرف کا کوئی حق نہیں۔ مثلاً ’’مہر ‘‘عورت کی ملکیت ہے جس میں اس کے باپ ، بھائی حتی کہ بیٹے یا شوہر کوبھی تصرف کا حق نہیں۔ اسلام نے جس طرح مردوں کے لئے وراثت کے حصے مقررکئے ہیں ویسے ہی عورتوں کے لئے بھی مقرر کئے ہیں۔ اسلام نے عورت کے حق ملکیت کو اس قدر تحفظ دیا ہے کہ عورت خواہ کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو اور شوہر کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو، بیوی کا نان نفقہ بہرحال مرد ہی کے ذمہ ہے۔ عورت اپنی ملکیت میں سے اگر ایک پیسہ بھی گھر پر خرچ نہ کرے تو شریعت کی طرف سے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہاں یہ مسئلہ واضح کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عورت سے خود کہہ کر ’’مہر‘‘ معاف کروانا جائزنہیں اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے برضا و رغبت معاف کردے تو جائز ہے ورنہ طے شدہ حق مہر ادا کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح کسی کا قرض ادا کرنا واجب ہوتا ہے ،جو لوگ محض اس نیت سے لاکھوں کا مہر مقرر کرلیتے ہیں کہ عورت سے معاف کروالیں گے وہ صریحاً گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
و-شوہر کا انتخاب :
جس طرح مرد کو اسلام نے اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے جس بھی مسلمان عورت سے نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے ، اسی طرح عورت کو بھی اسلام اس بات کا پورا پورا حق دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے شوہر کا انتخاب کرلے، لیکن کم عمری اور ناتجربہ کاری کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے شریعت نے نکاح میںولی کی رضامندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
ز-حق خلع :
جس طرح شریعت نے مرد کو ناپسندیدہ عورت سے علیحدگی کے لئے طلاق کا حق دیا ہے ، اسی طرح عورت کو ناپسندیدہ مرد سے الگ ہونے کے لئے خلع کا حق دیا ہے جسے عورت باہمی افہام و تفہیم یا عدالت کے ذریعے حاصل کر سکتی ہے۔ ایک عورت نبی اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہرکی شکایت کی ۔ آپﷺنے اس سے پوچھا ’’کیا تم مہر میں دیا گیا باغ واپس کرسکتی ہو؟‘‘ عورت نے عرض کیا ’’ہاں ، یا رسول اللہﷺ!‘‘ آپ ﷺنے اس کے شوہر کو حکم دیا کہ اس سے اپنا مہر واپس لے لو اسے الگ کردو۔‘‘ (بخاری)
مذکورہ بالا سات امور میں اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطافرمائے ہیں،
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جن امور میں عورتوں کو مردوں کے غیر مساوری (یعنی کم) حقوق دیئے ہیں، وہ یہ ہیں:
ا-خاندان کی سربراہی:
اسلام ،مرداور عورت دونوں کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے۔ اسلام کا موقف یہ ہے کہ مرد اور عورت اپنی اپنی جسمانی ساخت اور طبعی اوصاف کی بنیاد پر الگ الگ مقصد کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ جسمانی ساخت کے اعتبار سے بلوغت کے بعد مردوں کے اندر کوئی جسمانی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ،سوائے اس کے کہ چہرے پر داڑھی اور مونچھ کے بال ظاہر ہونے لگتے ہیں اور ان کے اندر جنسی جذبات بیدار ہونے لگتے ہیں جبکہ عورت کے اندر بلوغت کے بعد جنسی بیداری کے علاوہ بڑی نمایاں تبدیلی یہ واقع ہوتی ہے کہ عورت کو ہر ماہ حیض کا خون آنے لگتا ہے جس سے اس کے جسمانی نظام میں کچھ تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ عورت کا نظام تنفس ، نظام ہضم ، نظام عضلات، گردش خون، ذہنی و جسمانی صلاحیتیں گویا پورا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے۔ بالغ مرد وخواتین اچھی طرح جانتے ہیں کہ عورت کو قدرت ہر ماہ اس تکلیف دہ صورت حال سے محض اس لئے دوچارکرتی ہے کہ اسے نوع انسانی کی بقاء جیسے عظیم مقصد کے لئے تیار کیا جاتا ہے ، عورت کا بلوغت کے بعد ہر ماہ ہفتہ عشرہ اس تکلیف دہ صورت حال سے دوچار رہنا ، پھر زمانہ حمل میں سختیوں پر سختیاں برداشت کرنا، وضع حمل کے بعد متعددجسمانی بیماریوں کے باعث نیم جانی کی کیفیت سے دوچار ہونا ، اس کے بعد حالت ضعف میںدو سال تک اپنے جسم کا خون نچوڑ کر بچے کی رضاعت کا بوجھ اٹھانا او رپھر ایک طویل مدت تک راتوں کی نیند حرام کرکے بچے کی پرورش ، نگہداشت اور تربیت کی ذمہ داریاں پوری کرنا، کیا یہ سارے محنت اورمشقت طلب کام عورت کو واقعی اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ گھر کی چار دیواری سے باہر نکلے اور اس مرد کے دوش بدوش زندگی کی دوڑ میں حصہ لے جسے نوع انسانی کی بقاء میں قدرت نے سوائے تخم ریزی کرنے اورنان و نفقہ ادا کرنے کے کوئی ذمہ داری تفویض ہی نہیں کی ۔ طبعی اوصاف کے اعتبار سے مرد کو اللہ تعالیٰ نے حاکمیت ، قیادت ، سیادت ، مزاحمت ، مشقت ، جنگجوئی اور خطرات کو انگیخت کرنے جیسی صفات سے متصف کیا ہے جبکہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے ایثار، قربانی، خلوص ، بے پناہ قوت برداشت ، لچک ، نرمی ، حسن ، دلکشی اور دل لبھانے کی صفات سے متصف کیا ہے۔
مرد اور عورت کی جسمانی ساخت اوردونوں کو الگ الگ ودیعت کی گئی صفات ،کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ عورت کا دائرہ کار گھر کے اندر بنی نوع انسان کی بقاء ، بچوں کی پرورش ، تربیت ، خانہ داری اور گھر کے دیگر امور کی دیکھ بھال پر مشتمل ہے جبکہ مرد کا دائرہ کار اپنے بیوی بچوں کے لئے روزی کمانا ، اپنے خاندان کو معاشرے کے مفسدات سے تحفظ مہیا کرنا ، ملکی معاملات میں حصہ لینا اور ایسے ہی دیگر امور پر مشتمل ہے۔
مرد اور عورت کے فطری دائرہ کار کا تعین کرنے کے بعد اسلام دونوں کے حقوق کا تعین بھی کرتا ہے۔ چنانچہ گھر کے نظم میں مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام کا درجہ عطا فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ (34:4)} ’’
مرد، عورتوں پر قوام ہیں اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ نساء ، آیت نمبر 34) جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کو اللہ تعالیٰ نے اس کے طبعی اوصاف کی بناء پر گھر کا محافظ اور نگران بنایا ہے جبکہ عورت کو اس کے طبعی اوصاف کی بناء پر مرد کی حفاظت اور نگہبانی کا محتاج بنایا ہے۔
مرد کو خاندان کا محافظ یا سربراہ مقرر کرنے کے بعد اس پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے نان نفقہ کا بوجھ اٹھائے ، ان کی تمام ضرورتیں پوری کرے ، ان کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرے جبکہ عورت پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ مرد کی خدمت خاطر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔اس کے مال اور عزت کی حفاظت کرے اور ہر جائز کام میں اس کی اطاعت کرے۔

ب-قتل خطاء میں نصف دیت:
کارگہ حیات میں اسلام مرد کی ذمہ داریوںکو عورت کی ذمہ داریوں کی نسبت زیادہ اہم سمجھتا ہے ۔ خاندان کا مالی بوجھ برداشت کرنا ، بیوی بچوں کو سماجی مفسدات سے تحفظ مہیا کرنا ، معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ، اس مقصد کے لئے آزمائشیں اور تکلیفیں برداشت کرنا حتی کہ جان کی بازی تک لگا دینا ملک اور قوم کا دشمنوں سے تحفظ کرنا وغیرہ یہ سارے کا م شریعت نے مردوں کے ذمہ ہی لگائے ہیں ۔ ذمہ داریوں کے اسی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے شریعت نے مرد اور عورت کی قدر (Value)میں بھی فرق رکھا ہے ، لہٰذا قتل خطا میں عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ قتل عمد میں مرداور عورت کی دیت برابر ہے لیکن دیت کے نصف ہونے کا مطلب یہ نہیںکہ بحیثیت انسانی جان کے دونوں میں فرق ہے ، بحیثیت انسانی جان کے اسلام نے دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا (اس کی وضاحت ہم گزشتہ صفحات میں کر آئے ہیں) دیت کے فرق کو ہم اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ دو فوجوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے آخر میں فریقین جب قیدیوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو سپاہی کے بدلے میں سپاہی کا تبادلہ ہوتا ہے لیکن جرنیل کے بدلے میں سپاہی کا تبادلہ کبھی نہیں ہوتا حالانکہ بحیثیت انسانی جان کے ایک سپاہی اور جرنیل برابر ہیں لیکن میدان جنگ میں دونوں کی قدر (Value)ایک جیسی نہیں، لہٰذا ایک جرنیل کا تبادلہ بعض اوقات کئی صد یا کئی ہزار سپاہیوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہی فرق شریعت میں مرد اور عورت کے دائرہ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہے جو سراسر عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
ج-وراثت:
شریعت نے عورت کوہر حال میں مالی تحفظ مہیا کیا ہے اگر وہ بیوی ہے تو اس کا سارا خرچ شوہر کے ذمہ ہے ، ماں ہے تو بیٹے کے ذمہ ہے ، بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ہے ، بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ ہے ، بیوی ہوتے ہوئے وہ نہ صرف ’’مہر‘‘ کی حق دار ہے بلکہ اگر کوئی عورت جاگیرکی مالک ہو اور شوہر فاقہ کش ، تب بھی شرعاً بیوی گھر پر ایک پیسہ تک خرچ کرنے کی پابند نہیں، مرد کی ان ذمہ داریوں اور عورت کے ان حقوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے عورت کو وراثت میں مرد کے مقابلے میں نصف حصہ دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے { لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (11:4)} ’’مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے۔ ‘‘ (سورہ نساء ، آیت نمبر11)
د-یادداشت اور نمازوں میں کمی:
ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺنے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’عورتو! صدقہ کیا کرو اور استغفار کیا کرو میں نے جہنم میں (مردوں کی نسبت) عورتوں کو زیادہ دیکھا ہے۔‘‘ ایک عورت نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ!اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’تم لعنت زیادہ بھیجتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، ناقص العقل اور ناقص الدین ہونے کے باوجود مردوں کی مت مار دیتی ہو۔‘‘ اس عورت نے پھر عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! عورت کی عقل اور اس کے دین میں کمی کس لحاظ سے ہے؟‘‘ آپﷺنے ارشاد فرمایا ’’اس کی عقل (یادداشت) میں کمی کا ثبوت تو یہی ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین میں کمی (کاثبوت) یہ ہے کہ (ہرماہ) تم چند دن نماز نہیں پڑھ سکتیں اور رمضان میں (چند دن) روزے بھی نہیں رکھ سکتیں۔‘‘ (صحیح مسلم ، کتا ب الزکاۃ ، باب الترغیب فی الصدقۃ) حدیث شریف میں عورتوں کی عقل (یعنی یادداشت) اور دین میں کمی کی جو دلیل دی گئی ہے اس سے کسی کو مجال انکار نہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خالق کائنات نے قرآن مجید میں جابجا انسان کی فطری کمزوریوں کا ذکر فرمایا ہے مثلاً { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ} ’’انسان بڑا ہی ظالم اور ناشکرا ہے۔‘‘ (سورہ ابراہیم ، آیت نمبر34) { کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلاً} ’’انسان بڑا جلد باز ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل ، آیت نمبر11) { اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا} ’’انسان تھڑ دلا پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (سورہ معارج ، آیت نمبر 19) { اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلاً} ’’بے شک انسان بڑا ظالم او رجاہل ہے۔‘‘ (سورہ احزاب ، آیت نمبر72) ان آیتوں میں انسان کا استخفاف یا استحقار مطلوب نہیں بلکہ اس کی فطری کمزوریوں کا بیان مقصود ہے ۔ اسی طرح عورت کے بھولنے کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے استخفاف کے لئے نہیں کیا بلکہ اس کی فطری کمزوری بتلانے کے لئے کیا ہے۔
مذکورہ حدیث سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ عورت کو مجموعی طور پر تمام پہلوئوں سے ناقص العقل اور ناقص الدین کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہﷺنے اس کی وضاحت فرمادی ہے کہ ناقص العقل صرف یادداشت کے معاملہ میں ہے اور ناقص الدین صرف نمازوں کے معاملے میں ہے ورنہ کتنی خواتین ایسی ہیں جو شریعت کے احکام سمجھنے میں مردوں سے زیادہ ذہین اور فطین ہوتی ہیں اور کتنی خواتین ایسی ہیں جن کا دین ایمان ، نیکی اور تقویٰ ہزاروں مردوں کے دین ، ایمان، نیکی اور تقویٰ پر بھاری ہے۔ عہد ِنبوی میں ازواج مطہرات اور صحابیات کی مثالیں اس کا واضح ثبوت ہیں۔
ھ-عقیقہ :
عقیقہ کے معاملہ میں بھی اسلام نے مرد اور عورت میں فرق رکھا ہے ۔ اغلب گمان یہی ہے کہ یہ فرق بھی مرد اور عورت کی قدر(Value)کے پیش نظر رکھا گیا ہے جیسا کہ اس سے پہلے ہم دیت کے تحت مفصل بحث کرچکے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب !
ارشاد نبوی ہے :
’’لڑکے کی طرف سے( عقیقہ میں) دو بکریاں ذبح کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔‘‘ (ترمذی)
و-نکاح میں حق ولایت
عورت کو شریعت نے نہ تو از خود نکاح کرنے کی اجازت دی ہے نہ ہی عورت کو کسی دوسری عورت کے نکاح میں ولی بننے کی اجازت دی ہے۔ ارشاد نبوی ﷺہے ’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے نہ ہی کوئی عورت اپنا نکاح خود کرے جو عورت اپنا نکاح خود کرے گی وہ زانیہ ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
ز-حق طلاق:
اسلام نے طلاق دینے کا حق مردوں کو دیا ہے عورتوں کو نہیں (ملاحظہ ہو سورہ احزاب ، آیت نمبر 49) شریعت کے ہر حکم میں کس قدر حکمت ہے اس کا اندازہ مغربی طرز معاشرت سے لگایا جاسکتا ہے ، جہاں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی حق طلاق حاصل ہے ۔ وہاں طلاقیں اس کثرت سے واقع ہونے لگی ہیں کہ لوگوں نے سرے سے نکاح کو ہی ترک کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی نظام مکمل طورپر تباہ ہو چکا ہے ۔ خاندانی نظام کو تحفظ دینے کے لئے ضروری تھا کہ طلاق کا حق فریقین میں سے کسی ایک کو ہی دیا جاتا خواہ مرد کو یا عورت کو ، مرد کو اس کی ذمہ داریوں اور طبعی اوصاف کی بناء پر اس بات کا زیادہ مستحق سمجھا گیا ہے کہ طلاق کا حق صرف اسی کو دیا جائے البتہ حسب ضرورت عورت کو شریعت نے خلع کا حق دیا ہے۔
ح-نبوت ، جہاد، امامت کبریٰ ، امامت صغریٰ وغیرہ:۔
کار نبوت ، جہاد بالسیف اور ملکی قیادت و سیادت (امامت کبریٰ) تینوں کام زبردست مشکلات ، مصائب اور ابتلا و آزمائش کے متقاضی ہیں جس کے لئے زبردست قوت، جرأت ، استقامت اور آہنی اعصاب کی ضرورت ہے ، چنانچہ شریعت نے یہ تینوں کام صرف مردوں کے ذمہ لگائے ہیں ، عورتوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ حتی کہ نماز میں مردوں کی امامت (امامت صغریٰ) سے بھی عورتوں کو مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا آٹھ امور میں اسلام نے مرد کو عورت پر برتری (نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کی قدرتی صلاحیتوں اور طبعی اوصاف کے اعتبارسے) عطا فرمائی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مرد کے مقابلے میں عورت کو جس معاملے میں فضیلت عطا فرمائی ہے اس کا تذکرہ بھی یہاں کردیاجائے ، جو کہ درج ذیل ہے۔
4عورت بحیثیت ماں :
ایک صحابی حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘ آپﷺنے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں ۔‘‘ اس نے دوبارہ عرض کیا ’’پھرکون ؟‘‘ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں ۔‘‘ اس نے تیسری مرتبہ عرض کیا’’پھرکون؟‘‘ آپ ﷺنے سہ بارارشاد فرمایا ’’تیری ماں ۔‘‘ اس نے چوتھی بار عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘ آپﷺنے ارشاد فرمایا ’’تیرا باپ۔‘‘ (بخاری)
خاندانی نظام میں عورت کو مرد پر تین درجہ کی یہ فضیلت ، اسلام کا عطا کردہ وہ باعزت اور باوقار مقام ہے کہ دنیابھر کی ’’حقوق نسواں ‘‘ کی تنظیمیں صدیوں جدوجہد کرتی رہیں تب بھی انہیں دنیا کا کوئی ملک ، کوئی مذہب اور کوئی قانون یہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔ مسلمان گھرانے میں عورت نکاح کے بندھن میں بندھ کر اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے تو اسے مرد کا مضبوط سہار ا میسر آجاتا ہے ، اس کی اولاد ہوتی ہے تو اس کی عزت اور وقار میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور جب پوتے دوھتے ہوجاتے ہیںتو وہ صحیح معنوں میں ایک مملکت کی ’’ملکہ‘‘ بن جاتی ہے ۔ ایک طرف اپنے شوہر کی نگاہوں میں اس کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف چالیس یا پچاس سالہ بیٹا بھی اپنی امی جان کے سامنے بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا ۔ گھر کے بڑے بڑے معاملات کے فیصلے مصلّے پر بیٹھی ’’بڑی امی‘‘ کے اشارہ ابرو سے طے ہوجاتے ہیں ۔ نواسے ، پوتے ہر وقت خدمت گاروں کی طرح دادی امی اور نانی امی کی دلجوئی پر کمربستہ رہتے ہیں کہیں بڑی امی ناراض نہ ہوجائیں اور بڑی امی بھی اپنے گلشن کے پھولوں اور کلیوںکو دیکھ دیکھ کر صدقے اور واری جاتی ہیں کہ ان کی زندگی بے مقصد اور بے عبث نہیں تھی۔ فطرت کی عطا کردہ ذمہ داریوں کو انہوں نے پورا کیا اپنے سامنے زندگی کا تسلسل دیکھ کر بڑی امی کے چہرہ پرطمانیت اور سکون کا نور برسنے لگتا ہے۔ کاش ! حقوق نسواں کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کو اسلام کی طرف سے عورت کو عطا کئے گئے اس مقام و مرتبہ کے بارے میں سوچنے کی فرصت نصیب ہو؟
ہم نہ تو یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں ، مرد پر تین گنا برتری عطا فرمائی ہے نہ یہ لکھنے میں کوئی تامل ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت پر آٹھ امور پر اس کے طبعی اوصاف کی بناء پر برتری عطا فرمائی ہے ۔ جہاں تک ان حضرات کا تعلق ہے ، جنہیں اسلام کے حوالے سے ہر قیمت پر عورت کو مرد کے مساوی ثابت کرنے کا مرض لاحق ہے ان سے ہم یہ دریافت کرناچاہتے ہیں کہ آخر دنیا کے کون سے مذہب اور کون سے قانون میں عورت کو عملاً مرد کے مساوی حقوق حاصل ہیں؟ اگر ایسا نہیں (اور واقعی نہیں) تو پھر ہم ان سے یہ گزارش کریں گے کہ دنیا کے دیگر مذاہب کی طرح اگر اسلام نے بھی عورت کو مرد کے مساوی درجہ نہیں دیا تو اس میں ندامت یا خفت کی آخر بات ہی کیا ہے۔ مرد اور عورت کے حقوق کے بارے میں اسلام کی تقسیم دیگر تمام مذاہب کے مقابلے میں کہیں زیادہ عدل اور اعتدال پر مبنی ہے۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل عورت کو جو حقوق از خود عنایت فرمادیئے ہیں دیگر مذاہب اور قوانین ہزار کوششوں کے باوجود وہ حقوق آج بھی عورت کو دینے کے لئے تیار نہیں۔
5سسر اور ساس کے حقوق:
ہمارے ملک کی نوے فیصد آبادی(یا اس سے بھی زائد ) ان گھرانوں پر مشتمل ہے جو شادی کے فوراً بعد اپنے بیٹے اور بہو کو الگ گھر بنا کر دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کچھ نہ کچھ عرصہ اور بعض صورتوں میں طویل عرصہ تک بہو بیٹے کو اپنے سسرال (یا والدین) کے ہاں رہ کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہمارے معاشرے میں عام ہیں کہ بیٹے کی شادی محض اس مقصد کے لئے کی جاتی ہے کہ گھر میں بوڑھے والدین کی خدمت کرنے والا کوئی دوسرا فرد موجود نہیں، بہو کی صورت میں گھر کو ایک سہارا مل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے تک اگلی وضع قطع کے بزرگ لوگ اپنے بچوں کے رشتے طے کرتے وقت قرابت داری اور رشتہ داری کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ عموماً خالہ ، پھوپھی ، چچا ، ماموں وغیرہ اپنی اولادوں کو باہمی مناکحت کی لڑی میںپرونے کی کوشش کرتے ، ماں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت نصیحت کرتے ’’بیٹی ! جس گھر میں تمہاری ڈولی جارہی ہے ، اسی گھر سے تمہارا جنازہ اٹھنا چاہئے۔‘‘ مطلب یہ ہوتا کہ اب عمر بھر کے لئے تمہارا جینا مرنا ، دکھ سکھ، خوشی اور غمی اسی گھرکے ساتھ وابستہ ہے ۔اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلتا کہ بہو اپنے شوہر کے والدین کو اپنے ماں باپ جیسا احترام دیتی اور ان کی خدمت میں کوئی عار محسوس نہ کرتی اور یوں ساس بہو کی روایتی نوک جھونک کے باوجود لوگ پُر سکون اور مطمئن زندگی بسر کرتے تھے۔ جب سے تہذیب مغرب کی تقلید کا ذوق وشوق عام ہوا ہے تب سے ایک نئی سوچ نے جنم لینا شروع کیا ہے ، وہ یہ کہ شرعاًعورت پر سسرال کی خدمت واجب نہیں نیز یہ کہ شوہر کے لئے کھانا پکانا ، کپڑے دھونااور دیگر گھریلو کام کرنا بھی بیوی پر واجب نہیں ، نہ ہی شوہر ان باتوں کا مطالبہ کر سکتا ہے۔کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ آئیے نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں جائزہ لیں کہ یہ ’’فتویٰ‘‘ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا شریعت کے نام پر تہذیب مغرب کی تقلید کا شوق فراواں؟
جہاں تک شوہر کی خدمت کا تعلق ہے ۔ اس بارے میں رسول اکرم ﷺکے ارشادات اس قدر واضح اور کثیر تعداد میں ہیں کہ اس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم یہاں صرف تین احادیث اختصار کے ساتھ نقل کررہے ہیں:
1 شوہر ، بیوی کی جنت اور جہنم ہے ۔ (احمد، طبرانی ، حاکم اور بیہقی)
2 اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا توعورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی)
3 عورتوں کی جہنم میں کثرت اس لئے ہوگی کہ وہ اپنے شوہرو ں کی ناشکری کرتی ہیں۔ (بخاری)
یہ بات معلوم ہے کہ ازواج مطہرات رسول اکرمﷺکے لئے کھانا پکاتیں ، آپ ﷺکے لئے بستر بچھاتیں ، آپﷺکے کپڑے دھوتیں ، حتی کہ آپﷺکے سرمبارک پر کنگھی کرتیں، رسول اکرم ﷺکے اقوال اور ازواج مطہرات کے تعامل کے بعد آخر وہ کون سی شریعت ہے جس سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ شوہر کے لئے کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر گھریلوکام کرنا بیوی پر واجب نہیں؟ { فَبِأَیِّ حَدِیْثٍ بَّعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ¡ (185:7)}
جہاں تک سسرال (سسر اور ساس) کی خدمت کرنے کا تعلق ہے اس بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دین اسلام سراسر اخوت ، مؤدت ، محبت ، رافت ، رحمت ، شفقت اور عزت و احترام کا دین ہے۔ ایک ضعیف العمر شخص رسول اللہﷺسے ملاقات کی غرض سے حاضر خدمت ہوا ، حاضرین مجلس نے اس بوڑھے شخص کو راستہ دینے میں کچھ تاخیر کردی تو رسول رحمت ﷺنے فرمایا :
((مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَ یَعْرَفْ حَقَّ کَبِیْرِنَا فَلَیْسَ مِنَّا ))
’’جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا حق نہیں پہچانتا ، وہ ہم سے نہیں۔‘‘ (ابودائود)
امام ترمذی نے اپنی سنن میں ایک حدیث روایت کی ہے کہ حضرت کبشہ بنت کعب بن مالک رضی اللہ عنہا اپنے سسرحضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے لئے وضو کا پانی لائیں تاکہ انہیں وضو کرائیں ، حضرت کبشہ رضی اللہ عنہا نے وضو کروانا شروع کیا تو ایک بلی آئی برتن سے پانی پینے لگی ۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے برتن بلی کے آگے کردیا او ر کہا : رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’بلی نجس نہیں ہے۔‘‘ (ترمذی) اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ صحابیات میں سسرال کی خدمت کا تصور موجود تھا۔
سسرال کی خدمت کا ایک نہایت نازک اور اہم پہلو یہ ہے کہ رسول اکرمﷺنے اولاد کے لئے اس کے ماں باپ کو اس کی جنت یا جہنم قرار دیا ہے۔(ابن ماجہ) جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد پر والدین کی خدمت کرنا ، اطاعت کرنااور ہر حال میں انہیں راضی رکھنا واجب ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عورت کے لئے اس کے شوہر کو اس کی جنت یا جہنم قرار دے دیا ، گویا پورے خاندان ، والدین (سسر اور ساس) ، بیٹا(شوہر) ، بیوی (بہو) کو باہم اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کردیا گیا ہے کہ ان کے دنیاوی اور اخروی معاملات ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن ہی نہیں۔ بیٹا اپنے والدین کی خدمت کرنے کا پابند ہے ، بیوی اپنے شوہر کی خدمت کرنے کی پابند ہے ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بیٹا تو دن رات والدین کی خدمت پر کمربستہ رہے اور بیوی ’’شرعاً سسرال کی خدمت واجب نہیں ‘‘ کے فتوے کی چادر اوڑھ کر مزے کی نیند کرتی رہے؟ اگر یہ فرض کر لیاجائے کہ چونکہ شریعت اسلامیہ میں سسر اور ساس کے الگ حقوق کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا ، لہٰذا بہو پر سسر اور ساس کی خدمت کرنا واجب نہیں تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ فلسفہ خاندان کو برباد کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کرے گا۔اس کا سب سے پہلا ردِّعمل یہ ہوگا کہ شوہر اپنے سسر ساس (یعنی بیوی کے والدین) کو نظر انداز کرے گا اور بالآخر دونوں گھروں میں باہمی محبت ، مؤدت ،رافت، رحمت، عزت اور احترام کی بجائے گستاخی ، ناگواری ، بے ادبی ، بیزاری اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اس سے نہ صرف بزرگوں کی زندگی تلخ ہوگی بلکہ خود میاں بیوی کے درمیان ایک مستقل جھگڑے کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ مغربی طرز معاشرت میں تو قابل عمل ہوسکتا ہے ، جہاں اولاد کو اولاً اپنے ماں باپ کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ ثانیاً اگر علم ہو بھی تو بیٹا بھی اپنے والدین سے اسی قدر لا تعلق ہوتا ہے جس قدر بہو، لیکن اسلامی طرز معاشرت میں اس فلسفہ کے قابل عمل ہونے کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اسلام کا نظام تربیت

افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے اور فرد معاشرے کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسلام معاشرے کی اصلاح کا آغاز فرد سے کرتا ہے تاکہ صالح اور نیک سیرت افراد تیار ہو کر ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ فرد کی اصلاح کے لئے اسلام کے نظام تربیت کو سمجھنے کے لئے انسانی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1 پہلا دور … قرار حمل سے لے کر پیدائش تک
2 دوسرا دور … پیدائش سے لے کر بلوغت تک
3 تیسرا دور … بلوغت سے لے کر نکاح تک
4 چوتھا دور … نکاح کے بعد تادم ِ آخر
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
1 پہلا دور… قرار حمل سے لے کر پیدائش تک :
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اولاد کی سعادت یا شقاوت کا انحصار بڑی حد تک والدین کی دینداری ، تقویٰ ، صالحیت ، اخلاق و کردار اور عادات و اطوار پر ہوتا ہے۔ والدین میں سے بھی والدہ کے نظریات ، جذبات ، ذہانت ، عادات اور اخلاق کی چھاپ اولاد پر والد کی نسبت زیادہ گہری ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے نکاح کے وقت عورت کی دینداری کو بہت اہمیت دی ہے۔ارشاد نبوی ﷺہے:
’’عورت سے چار چیزوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے ١) مال و دولت ٢) حسب و نسب ٣) خوب صورتی ٤) دینداری ، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں تمہیں دیندار عورت سے نکاح کرنے میں کامیابی حاصل کرنی چاہئے۔‘‘ (بخاری)
ہم یہاں حضرت عمرtکا سبق آموز واقعہ بیان کرنا چاہتے ہیں جو رسول اللہﷺکے اس ارشاد مبارک کی بہترین عملی تفسیر ہے۔ حضرت عمرtکا معمول مبارک تھا کہ رات کو شہر میں رعایا کا حال معلوم کرنے کے لئے گشت کیا کرتے ۔ ایک رات گشت کرتے کرتے تھک گئے اورایک مکان کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اتنے میں مکان کے اندر سے ایک عورت کی آواز آئی جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی ’’اٹھو اور دودھ میں تھوڑاسا پانی ڈال دو۔‘‘ لڑکی نے کہا ’’ماں ! امیر المؤمنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کر رکھا ہے۔‘‘ ماں نے جواب دیا ’’یہاں کون سا امیر المؤمنین دیکھ رہے ہیں، اٹھ کر پانی ملادو۔‘‘ بیٹی نے کہا ’’ماں ! امیر المؤمنین تو نہیں دیکھ رہے ، اللہ تو دیکھ رہا ہے۔‘‘ صبح ہوتے ہی حضرت عمرtنے بیوی سے کہا ’’جلدی سے فلاں گھر جائو اور دیکھو ان کی بیٹی شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ۔‘‘ معلوم ہوا کہ بیٹی بیوہ ہے۔ آپ نے بلا تامل اپنے بیٹے حضرت عاصم tسے اس کی شادی کردی ۔ اسی لڑکی کی اولاد سے پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز پیدا ہوئے۔
دوران حمل والدہ کے نظریات اور عادات کے علاوہ والدہ کے روز مرہ کے معمولات مثلاً زیر بحث رہنے والی گفتگو ، زیر مطالعہ رہنے والے رسائل ، جرائد ، کتب ، زیر سماعت رہنے والی کیسٹس یا دیگر پسندیدہ یا ناپسندیدہ آوازیں ، زیر نظر رہنے والی اشیاء ، خاکے ، تصویریں وغیرہ سب کچھ زمانہ حمل میں بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ اسلام روز اول سے ہی اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو صنفی جذبات کے امڈتے طوفانوں میں بھی شیطان کے غلبہ سے محفوظ رکھا جائے اور رحمان سے تعلق اور رشتہ کسی بھی لمحے ٹوٹنے نہ پائے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺہے ’’شب عروسی میں پہلی ملاقات پر شوہر کو بیوی کے لئے یہ دعا مانگنی چاہئے ’’اے اللہ ! میں تجھ سے اس (بیوی) کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور جس فطرت پر تو نے اسے پیدا کیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور تجھ سے اس (بیوی) کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور جس فطرت پر تو نے اس کو پیدا کیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (ابودائود) صحبت سے قبل میاں بیوی جذبات کی دنیا میں ہر چیز سے بے نیاز اور بے خبر ہوتے ہیں ۔ اس وقت بھی اسلام یہ چاہتا ہے کہ ان کے جذبات اور خواہشات بے لگام نہ ہوں اور وظیفہ زوجیت کو محض ایک جنسی لذت کے حصول کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ ان کی نظر وظیفہ زوجیت کے اصل مقصد نیک اور صالح اولاد پر ہونی چاہئے۔ چنانچہ رسول اکرمﷺنے ہدایت فرمائی ہے ۔ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو اسے یہ دعا مانگنی چاہئے ’’اللہ کے نام سے ، اے اللہ ! ہمیںشیطان سے دور رکھ اور اس چیز سے بھی شیطان کو دور رکھ جو تو ہمیں عطا فرمائے۔‘‘ (بخاری و مسلم)قرار ِحمل سے پہلے ہی میاں بیوی کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے، اللہ سے نیکی طلب کرنے اور شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دے کر اسلام دونوں میاں بیوی کے جذبات ، خیالات اور خواہشات کو شر سے خیر کی طرف ، گناہ سے نیکی کی طرف اور برائی سے اچھائی کی طرف موڑ دینا چاہتا ہے تاکہ دوران حمل میاں بیوی کے معمولات پر نیکی اور خیر غالب رہے اور آنے والی روح نیکی اور خیر کی صفات لے کر اس دنیا میں آئے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
2دوسرا دور…پیدائش سے لے کر بلوغت تک :
بچے کی پیدا ئش پر سب سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنے کی ہدایت دی گئی ہے اور پھر کسی نیک اور علم دین شخص سے تحنیک اور برکت کی دعا کروانا مسنون ہے ۔ ساتویں روز بچے کی طرف سے اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا(عقیقہ کرنا)اور اچھا نام رکھنا مسنون ہے۔
یہ سارے اقدام بچے کو ایک پاکیزہ ، باسعادت اور صالح زندگی عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ارشاد نبویﷺ ہے ’’جب بچہ سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو ، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھے تو اسے مار کر نماز پڑھائواور ان کے سونے کی جگہ (یعنی بستر یا کمرہ) الگ الگ کرو۔‘‘ (بخاری)غور فرمائیے ! رسول اکرم ﷺکے اس ایک مختصر سے حکم میں بچہ کی تربیت کے کتنے اہم نکات شامل ہیں۔ نماز پڑھنے سے پہلے بچے کو رفع حاجت ، غسل اور وضوکی ابتدائی باتیں بتائی جائیں گی۔ کپڑوں کی پاکیزگی اور پاک جگہ کا تصور دیاجائے گا ، مسجد اور مصلی کا تعارف کروایا جائے گا ، امامت اور جماعت کی تعلیم دی جائے گی، ان ساری باتوں سے قدرتی طور پر بچے کے اندر صاف ستھری اورنظم و ضبط والی زندگی بسرکرنے کا شعور پیدا ہوگا۔
مذکورہ حدیث شریف کے آخری حصہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر (یا ممکن ہو تو کمرے) الگ الگ کردو، ہر آدمی جانتا ہے کہ دوران نیند میں انسان کی کیفیات کیا ہوتی ہیں ،کمرے الگ کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بچوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے فطری حیاکا جو جذبہ ودیعت فرمایا ہے وہ نہ صرف قائم و دائم رہے بلکہ مزید پروان چڑھے ۔ آرام کے اوقات میں نابالغ بچوں کو بھی اپنے والدین کے پاس اجازت لے کر آنے کا حکم دے کر اسلام نے عصمت و عفت اور شرم و حیا کاایک ایسا بلند معیار مقرر فرمادیا ہے جس کا کسی دوسرے مذہب میں تصور تک نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! ضروری ہے کہ تمہارے غلام اور نابالغ بچے تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آئیں صبح کی نماز سے پہلے دوپہر کو ، جب تم (آرام کے لئے ) کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو عشاء کی نماز کے بعد (جب تم سونے کے لئے بستر پر چلے جائو) ‘‘ (سورہ نور، آیت نمبر 59)
بلوغت کی عمر سے پہلے یہ تمام احکام بچے کے اندر صنفی جذبات پیدا ہونے کے مواقع کم سے کم کردیتے ہیں اور بچہ قدرتی طورپر ایک پاکیزہ صاف ستھرے ماحول کا عادی بن جاتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
3تیسرا دور…بلوغت سے نکاح تک:
بلوغت کی حدود میں داخل ہوتے ہی مرد عورت پر وہ تمام قوانین نافذ ہوجاتے ہیں جو اس سے پہلے نابالغ ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں تھے۔ بلوغت کے بعد مرد اور عورت میں صنفی جذبات بیدار ہونے لگتے ہیں ۔ صنف مخالف کے لئے قدرتی طور پر کشش کااحساس ہونے لگتا ہے ۔ اسلام ان جذبات کو بتدریج مختلف احکام کے ذریعے کمال حسن تدبیر اور حکمت کے ساتھ نکاح کے مرحلے تک جنسی آلائشوں سے پاک اور صاف رکھنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اس سلسلے میں دیئے گئے احکام درج ذیل ہیں:
محرم اور غیر محرم رشتوں کی تقسیم:
مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولنے والا بچہ شعور کی عمر تک پہنچنے سے پہلے یہ جان چکا ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ گھر کے اندر رہنے والے تمام افراد مثلاً دادا ، دادی ، والدین اور بہن بھائی ایسے مقدس اور محترم رشتے ہیں جہاں صنفی جذبات کا تصور بھی گناہ ہے، والدین اور بہن بھائیوں کے بعد کچھ دوسرے اعزہ و اقارب جن سے زندگی میں بکثرت میل جول رہتا ہے اور کسی حد تک انسان ان کے ساتھ گھل مل کررہنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ مثلاً چچا، ماموں، پھوپھی ،خالہ وغیرہ ۔ ان کو بھی حرام رشتے قرار دے کر شریعت نے ہر مرد و عورت کے گرد اعزہ و اقارب کا ایک ایسا حلقہ بنا دیا ہے جس میں انسان کے صنفی جذبات میں ہیجان پیدا ہونے کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ حرام رشتوں کے اس حلقہ سے باہر غیر محرم رشتہ داروں یا اجنبیوں کے لئے جہاں صنفی جذبات میں ہیجان پیدا ہونے کے مواقع ہر آن موجود رہتے ہیں ، وہاں شریعت نے بعض دوسری تدابیر اختیار کی ہیں ، جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔
ساتر لباس پہننے کا حکم:
گھر کی عام چوبیس گھنٹے کی زندگی میں اسلام نے مردوں اور عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ایسا لباس استعمال کریں کہ جس سے ان کا ستر ظاہر نہ ہو ۔ یاد رہے کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھنٹوں تک ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺہے : ’’مرد کا ناف کے نیچے اور گھٹنے سے اوپر(کا حصہ) سب چھپانے کے لائق ہے۔ (دار قطنی) جبکہ عورتوں کا ستر ہاتھ پائوں او رچہرے کے علاوہ سارا جسم ہے ۔ عورتوں کو رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا ہے ’’جب عورت بالغ ہوجائے تو ا س کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہئے، سوائے چہرے اور کلائی کے جوڑ تک ۔‘‘ (ابودائود) ساتر لباس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ لباس ایسا باریک ، تنگ یا مختصر نہ ہو جس سے ستر کے اعضاء ظاہر ہورہے ہوں۔ ارشاد نبوی ﷺہے ’’ایسی عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی رہتی ہیں ، جنت میں داخل نہ ہوں گی نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی۔‘‘ (مسلم)
یاد رہے ساتر لباس کا یہ حکم گھر کے ا ندر محرم رشتہ داروں (دادا ، باپ یا بھائی وغیرہ) کے لئے ہے۔ غیر محرم رشتہ داروں یا اجنبیوں سے حجاب کا حکم دیا گیا ہے جس کا ذکر آئندہ صفحات میں آئے گا۔
گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کا حکم:
بالغ ہونے کے بعد گھر کے مردوں (باپ یا بھائی یا بیٹے) کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوں تو اجازت لے کر داخل ہوں۔ خاموشی کے ساتھ اچانک داخل نہ ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ گھر کی عورتیں (بیوی کے علاوہ) ایسی حالت میں ہوں جس میں انہیں دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں تو انہیں چاہئے کہ گھر میں اسی طرح اجازت لے کر آئیں جس طرح ان سے پہلے (گھر کے دوسرے بالغ) لوگ اجازت لے کر آتے ہیں۔‘‘ (سورہ نور ، آیت نمبر59) اپنے ہی گھر کی خواتین سے اس قدر ’’پر تکلف‘‘ طرز زندگی کا حکم دے کر شریعت مردوں اور عورتوں میں شرم و حیا کا جذبہ پختہ کردینا چاہتی ہے تاکہ گھر سے باہر غیر محرم عورتوں اور مردوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلف گفتگو اور بے باکانہ میل ملاپ کا مزاج ہی نہ بننے پائے۔
حجاب کا حکم:
گھر کے اندر خواتین کو حکم یہ ہے کہ وہ اپنے ستر کے حصوں (ہاتھ پائوں اور چہرے کے علاوہ باقی سارا جسم) کو مکمل طورپر چھپا کر رکھیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے چہرے کو بھی ڈھانپ کر رکھیں۔ رسول اکرمﷺکے زمانہ مبارک میں صحابیات رضی اللہ عنھا اس حکم پر سختی سے عمل کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھااپنے حج کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں کہ دوران حج قافلے ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم اپنی چادریں منہ پر لٹکا لیتیں جب وہ گزر جاتے تو چادریں منہ سے ہٹا لیتیں۔ (احمد ، ابودائود، ابن ماجہ) یاد رہے حالت احرام میں عورتوں کو چہرے کا پردہ نہ کرنے کا حکم ہے جو کہ بذات خود چہرے کے پردے کا بڑا واضح ثبوت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکی روایت کردہ حدیث میں ’’نَحْنُ‘‘ (یعنی ہم صحابیات رضی اللہ عنھا) کے الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ عہد نبوی ﷺمیں چہرے کا پردہ صرف ازواج مطہرات میں ہی نہیں بلکہ تمام صحابیات میں مکمل طور پررائج ہو چکا تھا۔
تہذیب مغرب کے دلدادہ حضرات نے چہرہ کے پردہ سے جان چھڑانے کے لئے قرآنی اور احادیث مبارکہ پربڑی بڑی لمبی بحثیں کی ہیں ۔ ہمارے نزدیک اصل مسئلہ دلائل کا نہیں بلکہ ایمان کا ہے، لہٰذا ہم علمی بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہاں ایک جاپانی نومسلمہ ’’خولہ لکاتا‘‘ جو کہ جاپان میں پیدا ہوئی ، فرانس میں تعلیم حاصل کی اور وہیں مسلمان ہوئی، مصر سعودی عرب کے مطالعاتی دورے کئے ، حجاب کے موضوع پراس کے شائع شدہ تاثرات کے بعض حصے من و عن نقل کررہے ہیں۔
’’قبول ِ اسلام سے قبل میں چست پینٹ اور منی اسکرٹ پہنتی تھی لیکن اب میری لمبی پوشاک نے مجھے مسرور کردیا ۔مجھے یوں لگا جیسے میں ایک شہزادی ہوں، پہلی مرتبہ میں نے حجاب پہننے کے بعد اپنے آپ کو پاکیزہ اور محفوظ سمجھا ، مجھے احساس ہوا کہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے زیادہ قریب ہوگئی ہوں ، میرا حجاب صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی نہیں تھا بلکہ میرے عقیدے کا برملا اظہار بھی تھا۔ حجاب پہننے والی مسلمان عورت جم غفیر میں بھی قابل شناخت ہوتی ہے (کہ وہ مسلمان ہے) جبکہ غیر مسلم کا عقیدہ صرف الفاظ کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتا ہے۔‘‘
’’منی اسکرٹ کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو مجھے لے جا سکتے ہیں، حجاب صاف طور پر بتاتا ہے کہ میں آپ کے لئے ممنوع ہوں۔‘‘
’’موسم گرما میں ہر شخص گرمی محسوس کرتا ہے لیکن میں نے حجاب کو اپنے سر اور گردن پر براہ راست پڑنے والی سورج کی کرنوں سے بچنے کا موثر ذریعہ پایا۔
’’پہلے پہلے مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مسلم بہنیں برقعے کے اندر کیسے آسانی سے سانس لے سکتی ہیں ، اس کا انحصار عادت پر ہے جب عورت اس کی عادی ہوجاتی ہے تو کوئی دقت نہیں رہتی۔ پہلے بار میں نے نقاب لگایا تو مجھے بڑا اچھا لگا، انتہائی حیرت انگیز ، ایسا محسوس ہوا گویا میں ایک اہم شخصیت ہوں مجھے ایک ایسے شاہکار کی مالکہ ہونے کا احساس ہوا جو اپنی پوشیدہ مسرتوں سے لطف اندوز ہو میرے پاس ایک خزانہ تھا جس کے بارے میں کسی کومعلوم نہ تھا ، جسے اجنبیوں کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔‘‘
’’جب میں نے سردیوں کا برقعہ بنایا تو اس میں آنکھوں کا باریک نقاب بھی شامل کر لیا اب میرا پردہ مکمل تھا ۔ اس سے مجھے یک گونہ آرام ملا اب مجھے بھیڑ میں کوئی پریشانی نہ تھی ۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں مردوں کے لئے غیر مرئی ہوگئی ہوں ۔ آنکھوں کے پردے سے قبل مجھے اس وقت بڑی پریشانی ہوتی تھی جب اتفاقیہ طور پر میری نظریں کسی مرد کی نظروں سے ٹکراتی تھیں ۔ اس نئے نقاب نے سیاہ عینک کی طرح مجھے اجنبیوں کی گھورتی نگاہوں سے محفوظ کردیا۔‘‘
قابل احترام جاپانی نو مسلمہ خاتون کے مذکورہ بالا خیالات میں جہاں مقلدین مغرب کے اعتراضات کے جواب موجود ہیں وہاں ان مسلم خواتین کے لئے درس نصیحت بھی ہے، جنہیں دوپٹے کا بوجھ اٹھانا بھی کسی بلائے جان سے کم نظر نہیں آتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا سرطان پھیلانے ، صنف مخالف کے اندر جنسی ہیجان برپا کرنے اور جذبات میں آگ لگانے کا سب سے بڑا سبب بے پردگی اور بے حجابی ہی ہے جبکہ حجاب نہ صرف مسلم معاشرے کے کلچر کا اہم ترین جزوہے بلکہ چوری چھپے آشنائیوں سے لے کر کھلے عام معاشقوں تک ہر فتنے کا موثر ترین سد باب بھی ہے لیکن افسوس وطن عزیز میں خواص سے لے کر عوام تک بے حجابی کا مرض اس قدر عام ہوچکا ہے کہ باحجاب خواتین اب ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ اِلاَّ من شا ء اللہ !
غض بصر:
معاشرے کو جنسی ہیجان اور انتشار سے پاک صاف رکھنے کے لئے حجاب ایک ظاہر ی تدبیر ہے جبکہ ’’غض بصر‘‘کا حکم ایک باطنی تدبیر ہے جس پر تمام مرد اور عورتیں اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔’’ غض ِبصر‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مرد ، عورتوں سے اور عورتیں مردوں سے آنکھیں ملائیں نہ لڑائیں۔ ایک دوسرے کو تاڑیں نہ تانکیں نہ جھانکیں۔ کہا جاتا ہے آنکھیں شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔ عشق و محبت کی داستانوں میں نگاہوں کے ملاپ ، نگاہوں میں ، اشاروں کنایوں اور نگاہوں ہی نگاہوں میں پیغام رسانی اور بول چال کی لذت کا اندازہ ہر بالغ مرد اور عورت کو ہو سکتا ہے۔ نگاہوں کے اسی ملاپ کی لذت کو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺنے آنکھ کا زنا قرار دیا ہے جس سے بچنے کے لئے مردوں کو یہ حکم دیا گیا ہے ’’(اے محمد!) مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں (عورتوں کو دیکھنے سے) بچا کر رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں(یعنی شرمگاہوں کو عریاں نہ ہونے دیں اور زنانہ کریں) یہی طریقہ پاکیزگی والا ہے۔‘‘ (سورہ نور آیت نمبر30) عورتوں کو غض بصر کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے ’’اے نبی ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں (مردوں کو دیکھنے) سے بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘ (سورہ نور، آیت نمبر31) یاد رہے اچانک ، غیر ارادی طور پر پڑنے والی نظر کو شریعت نے معاف رکھا ہے ۔ دوبارہ ارادے سے دیکھنا منع فرمایا ہے ۔ رسول اللہﷺنے حضرت علی tکو نصیحت فرمائی ’’اے علی! عورت پر پہلی نظر (یعنی غیرارادی) کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا ، کیونکہ پہلی معاف ہے ، دوسری نہیں۔‘‘ (ابودائود)
اختلاط مردوزن کی ممانعت :
اختلاط مردوزن ، دونوں صنفوں میں آرائش حسن، جذبہ نمائش او رجلوہ آرائی جیسی فطری کمزوریوں کو بیدار کرنے کا بہت بڑا محرک ہے۔ خصوصاً بلوغت کی عمر میں داخل ہونے کے بعد مخلوط محفلوں اور پروگراموں میں پر کشش چہرے نظروں ہی نظروں میں کتنی منزلیں طے کر لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد چوری چھپے نامہ و پیام ، خفیہ ملاقاتوں اور عشق و محبت کے وعدوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو گھر سے فرار ، اغوا، مقدمہ بازی ، کورٹ میرج سے ہوتا ہوا انتقام اور قتل و غارت تک جا پہنچتا ہے۔ یہ ساری فتنہ سامانیاں ، بے پردگی اور مخلوط محفلوں کی پیدا کردہ ہیں لہٰذا اسلام معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانے اور سوسائٹی کا سکون درہم برہم کرنے والے اس محرک کو زندگی کے ہر شغبہ میں ممنوع قرار دیتا ہے۔
اختلاط مردو زن کو روکنے کے لئے شریعت نے خواتین کے لئے بعض اسلامی احکام تک بدل ڈالے ہیں۔ مثلاً مردوں کے لئے نماز باجماعت واجب ہے ، عورتوں سے یہ وجوب ساقط کردیا گیا ہے۔ مردوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے جبکہ عورتوں کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ مردوں کے لئے نماز جمعہ واجب ہے ، عورتوں کے لئے واجب نہیں۔ مردوں پر جہاد واجب ہے ، عورتوں پر نہیں۔ نماز جنازہ مردوں کے لئے فرض (کفایہ) ہے ، عورتوں کے لئے نہیں۔ اسلام کے ان احکام کو سامنے رکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جو شریعت معاشرے کو صنفی ہیجان اور جنسی انتشار سے بچانے کے لئے مخلوط عبادت کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں وہ شریعت مخلوط محفلوں ، مخلوط ڈراموں ، مخلوط کھیلوں ،مخلوط تعلیم ، مخلوط ملازمتوں او رمخلوط سیاست کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں زندگی کے تمام شعبوں میں جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے حکومت اورغیر حکومتی سطح پر شریعت کے اس حکم کی نافرمانی کی جارہی ہے وہ ساری قوم کو اللہ کے عذاب میں مبتلا کردینے کے لئے کافی ہے۔ اختلاط مردوزن کی برائی معاشرے میں اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ مرض کا علاج کرنے والے خود اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ تنزل اور انحطاط کے اس مقام سے قوم کی واپسی کا دور دور تک کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
بعض دیگر ہیجان انگیز اسباب کی ممانعت :
اسلام چونکہ معاشرے کو حتی الامکان صنفی ہیجان اور جنسی انتشارسے پاک اور صاف رکھنا چاہتا ہے لہٰذا جہاں شریعت فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے بڑے بڑے اسباب کا قلع قمع کرتی ہے وہاں بظاہر چھوٹے چھوٹے لیکن انتہائی خطرناک اسباب پر پابندیاں لگا کر ہر طرح کے چور دروازوں کو بند کردیتا ہے۔ ذیل میں ہم ایسے ہی بعض اسباب کا ذکر کررہے ہیں :
(ا)خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت:
ارشاد نبوی ہے : ’’جو عورت نماز کے لئے مسجد جاناچاہے وہ خوشبو (کا اثر ختم کرنے کے لئے اسی طرح) غسل کرے جس طرح جنابت سے غسل کرتی ہے۔‘‘ (نسائی)
(ب) غیر محرم کے ساتھ ملنے کی ممانعت :
ارشاد نبوی ﷺہے : ’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہائی میں نہ ملے الا یہ کہ اس کا محرم ساتھ ہو نہ ہی عورت محرم کے بغیر سفرکرے۔‘‘ (مسلم)
ارشاد ِ نبوی ﷺہے : شوہروں کی غیر موجودگی میں عورتوں کے پاس نہ جائو کیونکہ تم میں سے ہر کسی کے اندر شیطان اس طرح گردش کررہا ہے جس طرح خون کرتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
(ج) غیر محرم کو چھونے کی ممانعت :
ارشاد نبویﷺہے : ’’ غیر محرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے کہ وہ مرد اپنے سرمیں لوہے کی سیخ چبھو لے۔‘‘ (طبرانی)
(د) ایک دوسرے کا ستر دیکھنے کی ممانعت:
ارشا د ِ نبوی ﷺہے ’’کوئی مرد دوسرے مرد کا اور کوئی عورت کسی دوسری عورت کا ستر نہ دیکھے۔‘‘ (مسلم)
(ھـ) اکٹھا سونے کی ممانعت :
ارشاد نبوی ﷺہے : ’’کوئی مرد ،دوسرے مرد کے ساتھ یا کوئی عورت ، دوسری عورت کے ساتھ ایک چادر میں نہ سوئے۔ ‘‘ (مسلم)
(و) غیر محرموں کے سامنے اظہار زینت کی ممانعت :
ارشاد ِ نبویﷺہے : ’’اے نبی ﷺ! مومن عورتوں سے کہو اپنی نگاہیں (مردوں کی نگاہوں میں ڈالنے سے) بچا کے رکھیں، اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خوو بخود ظاہر ہوجائے ۔‘‘ ’’اور اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں ایسا نہ ہو کہ وہ زینت جو انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔‘‘ (سورہ نور ، آیت نمبر31)
یاد رہے سوائے ہاتھوں اور چہرے کے جو از خود ظاہر ہونے والے حصے ہیں ، عورت کا باقی سارا جسم سر سے لے کر پائوں تک ستر ہے ۔ جسے گھر کے اندر محرموں سے بھی (سوائے شوہر کے) چھپانا ضروری ہے۔ زینت سے مراد گھر کے اندرروزمرہ کے وہ معمولات ہیں ، جن میں کنگھی کرنا ، خوشبو، سرمہ ، مہندی لگانا یا اچھے ملبوسات اور زیور وغیرہ پہننا شامل ہیں جس کا اظہا ر صرف محرموں کے سامنے جائز ہے۔ غیر محرموں کے علاوہ شریعت نے بے حیا اور اخلاق باختہ عورتوں کے سامنے بھی اظہار زینت کی اجازت نہیں دی تاکہ وہ سوسائٹی میں فتنے برپا نہ کرتی پھریں۔
(ذ) غیر محرم مردوں کو بلا ضرورت آواز سنانے کی ممانعت :
ارشاد ِ نبویﷺہے : ’’ دوران نماز کسی ضرورت کے لئے (مثلاً امام کی بھول وغیرہ) مرد سبحان اللہ کہیں لیکن عورتیں تالی بجائیں۔‘‘ (بخاری و مسلم) اسی وجہ سے عورت کو اذان دینے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
(ح) گانے بجانے کی ممانعت :
مردوں اور عورتوں کے صنفی جذبات کو بھڑکانے کا سب سے موثر ذریعہ گانا بجانا اور موسیقی ہے ۔ اگر اس گانے کے ساتھ متحرک تصویریں بھی ہوں تو یہ ایک ایسا دود ھارا شیطانی ہتھیا ر بن جاتا ہے جو صنفی جذبات میں آگ لگا کر انسان کو حیوان بنا دینے کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ رسول اکرمﷺنے ہر طرح کی موسیقی اور گانا سننے سے منع فرما دیا ہے اور ایساکرنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ ارشاد ِ نبوی ﷺہے : ’’اس امت کے لوگوں پر زمین میں دھنسنے ، شکلیں مسخ ہونے اور (آسمان سے( پتھروں کی بارش برسنے کا عذاب آئے گا ۔‘‘ کسی صحابی نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! یہ کب ہوگا؟‘‘ آپﷺنے ارشاد فرمایا ’’جب گانے ، بجانے والی عورتیں ظاہر ہوں گی ، آلات موسیقی عام استعمال ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔‘‘ (ترمذی)
(ط) مخرب اخلاق لٹریچر:
عورتوں کی عریاں اور نیم عریاں رنگین تصاویر پر مشتمل روزنامے ، ہفت روزے اور ماہنامے نیز ادب کے نام پر فحش گندے اور غلیظ ناول اور دیگر مخرب اخلاق لٹریچر معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کا ایک بہت بڑا شیطانی ہتھیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مخرب اخلاق لٹریچر کی اشاعت پر قرآن مجید میں عذاب الیم کی خبر دی ہے ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں فحاشی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔‘‘ (سورہ نور، آیت نمبر19)
نکاح کا حکم:
فرد کے تزکیہ نفس اور اصلاح کی مختلف تدبیریں اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نکاح کرنے کا حکم بھی دیتا ہے جو کہ نہ صرف خاندانی نظام کی مضبوط اور مستحکم بنیاد بنتا ہے بلکہ انسان کے اندر شرم وحیا اور عصمت و عفت کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ ارشا دنبویﷺہے ’’نکاح آنکھوں کو نیچا کرتا ہے اور شرمگاہ کو بچاتا ہے۔‘‘ (مسلم) نیز آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ہے ’’نکاح آدھادین ہے۔‘‘ (بیہقی ) نکاح کی اہمیت کے پیش نظر اسلام نے نکاح کا طریقہ بڑا سہل اور آسان رکھا ہے، نہ مہر کی حد نہ جہیز کی پابندی نہ بارات کا تکلف، نہ زبان ، رنگ و نسل ، قوم او رقبیلہ کی قید صرف مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف tنے مدینہ منورہ میں شادی کی اور رسول اکرمﷺکو خبر تک نہ ہوئی ۔ آپ ﷺنے حضرت عبدالرحمنtکے کپڑوں پر زعفران کا رنگ دیکھ کر پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفtنے عرض کیا ’’میں نے انصاری عورت سے نکاح کیا ہے۔‘‘ (بخاری) حضرت جابر tنے ایک غزوہ سے واپسی پر نبی اکرمﷺکو بتایا ’’یا رسول اللہﷺ! میں نے نئی نئی شادی کی ہے ۔‘‘ پوچھا:’’کنواری سے یا بیوہ سے؟‘‘ حضرت جابرtنے عرض کیا ’’بیوہ سے۔‘‘ آپ ﷺنے فرمایا ’’کنواری سے شادی کیوں نہیں کی ، وہ تجھ سے کھیلتی اور تو اُس سے کھیلتا۔‘‘ (مسلم) گویا نہ تو صحابہ کرام yاپنے نکاح کی بروقت خبردینا رسول اکرمﷺکو ضروری سمجھتے تھے نہ رسول اکرمﷺنے کبھی اس بات پر اظہار ناراضگی فرمایا کہ مجھے دعوت کیوں نہیں دی گئی؟ ایک صحابی کے پاس نکاح کے لئے کچھ بھی نہیں تھا حتی کہ مہر میں دینے کے لئے لوہے کی انگوٹھی بھی میسر نہیں تھی۔ آپﷺنے اس کا نکاح قرآن مجید کی آیات پر ہی کردیا۔ (بخاری) نہ مہر ، نہ جہیز ، نہ بارات ، ان تمام سہولتوں کے باوجود اگر کوئی نکاح نہ کرے تو اس کے بارے میں ارشاد مبارک ہے ۔’’وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (مسلم)
روزہ… نکاح کا متبادل:
جب تک نکاح کے لئے حالات ساز گار نہ ہوں اس وقت تک رسول اکرم ﷺ نے (حسب استطاعت ) روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے روزے کا مقصد یہ بتایا ہے ’’تاکہ تم لوگ پرہیز گار بن جائو۔‘‘ (سورہ بقرہ، آیت نمبر 183) رسول اکرم ﷺنے بھی روزہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ’’روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ بیہودہ اور فحش کاموں سے رکنے کانام ہے۔‘‘ (ابن خزیمہ) جس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کے اندر موجود شہوانی اور حیوانی جذبات کی شدت کو ختم کردیتاہے۔ چنانچہ ارشاد نبویﷺہے ’’جو شخص نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہوں ، اسے روزے رکھنے چاہئیں، روزہ اس کی خواہش نفس ختم کردے گا۔‘‘ (مسلم) یاد رہے کہ بلوغت سے قبل اسلام بچوں کو سختی سے نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ’’نماز برائی اور فحش کاموں سے روکتی ہے۔‘‘ (سورہ عنکبوت ، آیت نمبر 45) نماز کے ان فوائد کے ساتھ روزہ کے حکم کا اضافہ گویا انسان کو صنفی انتشار سے محفوظ رکھنے کے لئے دوہری معاونت مہیا کرتا ہے۔
آخری چارہ کار:
اصلاح نفس اور تزکیہ نفس کی تمام ظاہری اور باطنی تدابیر کے باوجود اگر کوئی شخص اپنے شہوانی جذبات کو کنٹرول نہیں کرتااور وہ کچھ کر گزرتا ہے جسے اسلام ہر صورت میں روکنا چاہتاہے یعنی زنا ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرد یا عورت اسلامی معاشرہ میں رہنے کے قابل نہیں۔ ان پر انسانیت کی بجائے حیوانیت عالب ہے ۔ ایسے مجرموں کو راہ راست پر لانے کے لئے اسلام نے آخری چارہ کار کے طور پر مجمع عام میں بلا رو رعایت سو کوڑے مارنے کا حکم دیا ہے۔
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ’’زنا کار عورت اور زنا کار مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سوکوڑے مارو اور قانون الٰہی (نافذ کرتے وقت) تمہیں ان پر ہر گز ترس نہیں کھانا چاہئے۔ اگر تم واقعی اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو او رجب ان کو سزا دی جائے تو مسلمانون میں سے ایک جماعت ان کو دیکھنے کے لئے موجود رہے۔‘‘ (سورہ نور آیت نمبر1) زنا کے علاوہ کسی بے گناہ عورت پر زنا کی تہمت لگانے والے کے لئے بھی شریعت نے اَسّی کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے ، جسے حد قذف کہا جاتا ہے۔ایسے مفسد اور فتنہ پرور لوگوں کو مزید بے توقیر کرنے کے لئے یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ آئندہ ان کی کسی بھی معاملے میں گواہی تسلیم نہ کی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر (بدکاری) کا الزام لگائیں اور پھر چار گواہ پیش نہ کریں انہیں اَسّی کوڑے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ایسے لوگ خود ہی بدکار ہیں۔‘‘ (سورہ نور ، آیت نمبر 1)
وضاحت : نکاح کے بعد زنا کی سزا سنگسار کرنا ہے جس کا ذکر اگلے صفحات میں آئے گا۔ ان شاء اللہ !
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
4چوتھا دور… نکاح کے بعد تادم ِ آخر:
نکاح کے بعد صنفی اعتبار سے انسان کے اندر سکون ، قرار اور اسودگی کی کیفیت پیدا ہوجانی چاہئے تاہم اس کا انحصار بھی میاں بیوی کے باہمی روّیوں پر ہے ۔ اس لئے اس مرحلہ پر بھی اسلام فریقین کے جنسی جذبات کو بے راہ رو ہونے سے بچانے کے لئے پوری پوری راہنمائی کرتا ہے۔ نکاح کے بعد میاں بیوی کے لئے اسلامی تعلیمات حسب ذیل ہیں:
شوہر کے جنسی جذبات کا احترام:
عورت کویہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے جنسی جذبات کا امکانی حد تک احترام کرے اور اس کی خواہش نفس پوری کرے۔ ارشاد ِ نبوی ﷺہے ’’اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، جب شوہر ، بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے تو وہ ذات جو آسمانوں میں ہے، ناراض رہتی ہے۔حتی کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہوجائے۔‘‘ (مسلم) اسلام نے عورت کو شوہر کے جنسی جذبات کا خیال رکھنے کی اس حد تک تاکید کی ہے کہ اگر عورت نفلی روزہ رکھنا چاہے تو وہ بھی شوہر سے اجازت لے کر رکھے۔(بخاری)
چار شادیوں کی اجازت :
اسلام چونکہ ہر قیمت پرمعاشرے سے جنسی انارکی اور جنسی انتشار روکنا چاہتا ہے ، لہٰذا اس نے مردوں کو حسب خواہش ایک سے زائد بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ’’اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو ، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان (بیویوں) کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کرو۔‘‘ (سورہ نسائ، آیت نمبر3) گویا اسلام کو یہ تو گوارا ہے کہ عدل وانصاف رکھتے ہوئے کوئی شخص دو یا تین حتی کہ چار عورتوں سے نکاح کرکے لطف اندوز ہو لے لیکن یہ قطعاً گوارا نہیں کیا کہ مرد حضرات غیر محرم عورتوں سے چوری چھپے آشنائیاں کرتے پھریں۔ غیر محرم عورتوں سے دل بہلائیں یا ان سے آنکھیں لڑائیں۔ نہ ہی یہ گوارا ہے کہ مرد خواتین بیوٹی پارلروں ، سلمنگ سنٹروں، مینا بازاروں اور ناچ گھروں کی رونقیں بڑھائیں ، نہ ہی یہ گوارا ہے کہ مرد حضرات نائٹ کلبوں ، قحبہ خانوں اور طوائفوں کے ڈیروں کو آباد کریں ، نہ ہی یہ گوارا ہے کہ معاشرے میں نابالغ بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہوں ، زنا کی کثرت ہو اور ایسے حرامی بچے پیدا ہوں ، جنہیں اپنی ماں کا پتہ ہو نہ باپ کا!
ایک سے زائد شادیوں کے حوالے سے ہم یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ برصغیر ہندوپاک کے قدیم رسم و رواج اور طرز معاشرت کے مطابق ہمارے ہاں آج بھی نکاح ثانی کے بارے میں شدید نفرت اور کراہت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ حتی کہ بعض اوقات معقول وجہ ـ( مثلاً عورت کی مستقل بیماری یا اولاد نہ ہونا وغیرہ) کے باوجود مرد کے نکاح ثانی کو قابل مذمت اور قابل ملامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی رسم و رواج کے پیش نظر حکومت پاکستان نے یہ قانون نافذ کررکھا ہے کہ مرد کے لئے نکاح ثانی سے قبل پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے ، جو کہ سراسر غیر اسلامی ہے۔ اسلام میں دوسری ، تیسری یا چوتھی شادی کے لئے عدل کی شرط کے علاوہ کوئی دوسری شرط نہیں اور اس کی مصلحت اور حکمت کا ذکر گزشتہ سطور میں ہو چکا ہے۔ یہاں ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے بارے میں دل میں کراہت یا ناپسندیدگی محسوس کرتے ہوئے سوبار ڈرنا چاہئے کہیں اس وجہ سے عمر بھر کی ساری محنت اور کمائی ضائع نہ ہوجائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَرِہُوْا مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ (9:47) }
’’چونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے ، لہٰذا اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کردیئے۔‘‘ (سورہ محمد، آیت نمبر9)
شوہر کے سامنے غیر محرم عورتوں کا تذکرہ کرنے کی ممانعت:
ارشاد نبوی ﷺہے : ’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ اس طرح (رازونیاز کے ساتھ) نہ رہے کہ پھر(جا کر) اپنے شوہر سے اس کا حال یوں بیان کرے جیسے وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ (بخاری)
جنسی زندگی کے راز افشا کرنے کی ممانعت :
ارشاد نبوی ﷺہے : ’’قیامت کے روز اللہ کے نزدیک سب سے برا شخص وہ ہوگا جو اپنی بیوی کے پاس جائے اور بیوی اس کے پاس آئے اور پھر وہ اپنی بیوی کی راز کی باتیں دوسروں کو بتائے۔‘‘ (مسلم)
شوہر کے رشتہ داروں سے پردہ کا حکم :
ایک بار رسول اکرمﷺنے صحابہ کرام yکو نصیحت فرمائی ’’عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جائو۔‘‘ ایک صحابی نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺخاوند کے رشتہ داروں کے بارے میں کیا حکم ہے؟‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا ’’وہ تو موت ہے۔‘‘ (ترمذی)
یاد رہے کہ خاوند کے رشتہ داروں سے مراد اس کے حقیقی بھائیوں کے علاوہ قریبی اعزہ بھی ہیں ۔ مثلاً چچا زاد ، پھوپھی زاد، خالہ زاد، ماموں زاد، وغیرہ۔
آخری چارہ کار:
جو شخص نکاح ثانی کے باوجود زناجیسے قبیح جرم کا ارتکاب کرے اس کے لئے شریعت نے واقعتا ایسی کڑی سزا رکھی ہے کہ وہ دوسروں کے لئے نشان عبرت بن جاتا ہے۔ دیکھنے والے زنا کے تصور سے ہی کانپنے لگتے ہیں۔ دراصل شریعت نے اتنی کڑی سزا (سنگسار کرنا) مقررہی اس لئے کی ہے کہ ایک آدھ مجرم کو سزا دے کر پورے معاشرے کو اس گندگی اور غلاظت سے مکمل طور پر پاک اور صاف کردیا جائے۔
معاشرتی زندگی کے بارے میں اسلام کے یہ ہیں وہ احکام جن پر عمل کرکے معاشرے کو نہ صرف جنسی ہیجان اور صنفی انتشار سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ عورت پر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کوختم کرکے عزت اورعظمت کا مقام بھی دلایا جا سکتا ہے۔ جب تک ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر خلوص دل سے کتاب و سنت کے ان احکام پر عمل نہیں کرتے ، ہمارا معاشرہ لا ینحل مسائل کی آگ میں مسلسل جلتا رہے گا ۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ پوری عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے آگے سرتسلیم خم کردیاجائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قارئین کرام ! گزشتہ صفحات میں ہم مغربی طرز معاشرت او راسلامی طرز معاشرت کا مفصل جائزہ لے چکے ہیں۔ ایک طائرانہ نظر میں دونوں تہذیبوں کا تقابل درج ذیل جدول میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
نمبر شمار
طرز معاشرت
مغرب
اسلام
1
نکاح
مردوں کی غلامی
سنت رسول (ﷺ)/خاندانی نظام کی بنیاد
2
شوہر کی اطاعت
آزادی نسواں میں رکاوٹ
واجب ہے
3
خاندان میں مرد کی حیثیت
عورت کے برابر
سربراہ خاندان
4
گھر داری
آیاؤں کے ذمہ
عورت کے ذمہ
5
معاشی ذمہ داری
مرد کی طرح عورت بھی ذمہ دار ہے
صرف مرد ذمہ دار ہے
6
عورت کا دائرہ کار
مرد کے دوش بدوش
صرف گھر کے اندر
7
تعداد ازواج
مضحکہ خیر تصور
چار تک اجازت ہے
8
گرل فرینڈ / بوائے فرینڈ
جزو زندگی
قطعی حرام
9
گھر کے اندر ستر
تصور ہی بارگراں ہے
سر سے پاؤں تک سوائے ہاتھ اور چہرہ کے
10
گھر سے باہر حجاب
تاریک خیالی
عصمت و عفت کی علامت
11
عریانی
روشن خیالی
جہالت کی رسم
12
اختلاط مرد و زن
جزو معاشرت
قطعی حرام
13
زنا
تفریح طبع اور دل لگی کا مشغلہ
قطعی حرام
14
شراب
جزو حیات
قطعی حرام
15
بن بیاہی اولاد
قانونی اولاد کے مقابلے میں قابل ترجیح
زندگی بھر کے لیے باعث ندامت و ملامت
16
اولاد کی پرورش
لذات حیات میں سب سے بڑی رکاوٹ
والدین کے ذمہ ہے
17
والدین کی خدمت
بارگراں
عین عبادت و سعادت ہے
18
طلاق
مرد کی طرح عورت بھی دے سکتی ہے
صرف مرد دے سکتا ہے
جدول کو دیکھ کر یہ اندزہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ دونوں میں بُعد المشرقین ہے جو بات ایک تہذیب میں اچھی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے وہی بات دوسری تہذیب میں بُری نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ جو چیز ایک تہذیب میں روشن خیال تصور کی جاتی ہے ، دوسری تہذیب میں وہ سراسر جہالت ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اہل مغرب کی شہادتیں:

مسلمانوں کا اسلامی طرز معاشرت کے بارے میں مثبت رائے رکھنا ایک فطری امر ہے کہ یہ ان کے ایمان اور عقیدے میںشامل ہے ۔ ذیل میں ہم بعض ایسی شخصیتوں کے رائے پیش کررہے ہیں ، جنہوں نے مغربی طرز معاشرت میں آنکھ کھولی ، پرورش پائی ، اسی طرز معاشرت میں تعلیم حاصل کی اور برسوں اسی طرز معاشرت کا حصہ بن کر رہے ۔ لیکن جب اسلامی طرز معاشرت کا سنجیدگی سے جائزہ لیا تواس نتیجہ پر پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کہ اسلامی طرز معاشرت ہی دراصل وہ طرز معاشرت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے راہ نجات ہے۔
1 ’’شہزادہ چارلس ، ان دنوں قرآن پاک کی تفسیر و ترجمہ کے علاوہ دیگر اسلامی کتب کے مطالعہ میں مصروف ہیں اور اکثر مسلمانوں کے دینی پروگراموں میں بھی شرکت کررہے ہیں۔ ان پروگراموں میں وہ مسلمانوں سے اپیل کررہے ہیں کہ دین اسلام کی لازوال تعلیمات کو عام کیاجائے اور دیگر اہل مذاہب میں اس کے متعلق موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے کاکام جنگی پیمانہ پر کیاجائے۔ 19مارچ 1996ء کو محمدی پارک لندن کی مسجد کی ایک تقریب میں انہوں نے ڈیڑھ گھنٹہ مسلمانوں کے درمیان گزارا ۔ یادرہے شہزادہ چارلس 1993ء سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز سنٹر کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔
2 آکسفورڈ کے اسلامک سٹڈیز سنٹر میں سائوتھ افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلانے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’اسلام مکمل راہنمائی کرنے والا واحد فلسفہ حیات ہے۔ براعظم افریقہ میں لوگ جوں جوں اسلام کا عمیق نظر سے مطالعہ کریں گے تو ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق پائی جانے والی بدگمانیوں کا ازالہ نا گزیر ہوگا۔ میں دعویٰ سے کہہ رہا ہوں کہ اب یہاں (مغرب میں) بھی اسلام کا بتدریج فروغ یقینی ہو گیا ہے۔‘‘
3 مراکش میں متعین جرمن سفیر ولفریڈ ہوف مین نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلامی تعزیرات پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں چوری کی سزا ، ہاتھ کاٹنا ، قتل کا بدلہ قتل اور زنا کی سزا سنگسار کرنے پر بطور خاص روشنی ڈالی ہے اور ثابت کیا ہے کہ انسانیت کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ان سزائوں کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
4 صدر نکسن کے سابق سیاسی مشری ڈینس کلارک نے ایک مرتبہ صدر نکسن کو مشورہ دیا کہ امریکہ کو اسلام کے بارے میں اپنی رائے میں خوشگوار تبدیلی لانا ہوگی۔ صدر نکسن کے کہنے پر مسٹر ڈینس کو ہی یہ خوشگوار تبدیلی لانے کے لئے اسلام کا مطالعہ کرنا پڑا جس کے بعد ڈینس کلارک مسلمان ہوگئے۔Ž
5 سابق امریکی صدر جارج واشنگٹن کے پڑپوتے جارج اشفون کو صحافتی امور سرانجام دینے کے لئے بیروت ، مراکش ، اریٹریا، افغانستان اور بوسنیا جانا پڑا ، جہاں ان کی ملاقاتیں مسلمان ڈاکٹروں اور صحافیوں سے ہوئیں۔ اسلام کے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے بعد جارج اشفون نے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کردیا۔ مطالعہ کے بعد اس نے اعتراف کیا کہ ’’قرآن مجید پڑھنے کے بعد مجھے اپنے ان تمام سوالوں کا تسلی بخش جواب مل گیا ہے ، جن کے لئے میں برسوں پریشان تھا او رجن کے لئے مجھے انجیل اورا س کے عالموں نے مایوس کردیا تھا۔‘‘ چند دنوں بعد جارج اشفون مریکہ میں ہی ایک مسلمان کی وفات پر اس کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لئے گیا ، تجہیز وتکفین کے عمل سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ میت کے غسل کے دوران ہی اس نے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اعلان کردیا۔
6 امریکن کانگریس کمیٹی کے رکن جیم مورن کا کہنا ہے کہ میں اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کی ہدایت کرتارہتا ہوں۔ دین اسلام کے داعی حضرت محمدeایک ایسی عظیم شخصیت تھے کہ تاریخ میں ان جیسی کوئی مثال نہیں ملتی مگر افسوس کہ ان کی تعلیمات کو نہ پڑھنے کی دو وجوہات ہیں۔ اولاً مسلمانوں کی ہٹ دھرمی ، ثانیاً مسلمانوں کی کوتاہی۔
7 امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے اپنے ایک انٹرویومیں اعتراف کیا ہے کہ اسلام دنیا کی ایک انتہائی موثر روحانی اور اخلاقی قوت ہے۔ امریکی جیلوں میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے بچے ہیں جن کے گھر بار ہیں ، نہ ماں باپ ، تعلیم سے بے بہرہ ، منشیات کے عادی ، بدعنوانیاں اور جرائم ان کی زندگیوں کا اوڑھنا بچھوناہیں لیکن ان قیدیوں نے جب اسلام کی دعوت قبول کر لی تو اچانک ان کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں ۔ روزانہ پانچ وقت نماز پڑھنے لگے ، ذہنی و جسمانی خود نظمی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگی۔ جیل میں ہنگامے ہوتے ہیں تو یہی لوگ دوسروں کی جانیں بچاتے نظر آتے ہیں۔
8 جاپانی نو مسلمہ ’’خولہ لکاتا‘‘ جاپان میں اسلام کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’اب زیادہ سے زیادہ جاپانی عورتیں اسلام قبول کررہی ہیں ۔ مشکل حالات کے باوجود سروں تک کو چھپارہی ہیں۔ وہ سب یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ اپنے حجاب پر نازاں ہیں اور اسی سے ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے۔ میں پیدائشی طور پر مسلمہ نہیں ہوں ،میں نے نام نہاد آزادی (نسواں) اور جدید طرز حیات کی دلفریبیوں او رلذتوں کو خیر باد کہہ کر اسلام کا انتخاب کیا ہے اگر یہ درست ہے کہ اسلام ایسامذہب ہے جو عورتوں پر ظلم کررہا ہے تو آج یورپ، امریکہ ، جاپان اور دوسرے ممالک میں بہت سی خواتین اسلام کیوں قبول کررہی ہیں۔ کاش! لوگ اس پر روشنی ڈالتے؟
مذکورہ بالا مثالوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام کی آفاقی تعلیمات انسان کے مزاج اور فطرت کے عین مطابق ہیں ان میں اذہان و قلوب کو مسخر کرنے کی بدرجہ اتم قوت موجود ہے۔ اہل مغرب کی ان اعترافات اور شہادتوں میں اہل ایمان کے لئے بڑا سامان عبرت ہے۔ ہمیں غورکرنا چاہئے کہ جب غیر مسلم اقوام صدیوں تک کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بعد نجات کے لئے اسلام کی طرف پلٹ رہی ہیں تو پھر ہمیں بدرجہ اولیٰ شرح صدر کے ساتھ اسلام کی طرف پلٹ آنا چاہئے۔ کاش ! ہمارے ارباب حل و عقد اور دانشور طبقہ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنے کی توفیق نصیب ہو!
 
Top