جہیز کی رسم
جہیز کا مادہ ’’جہز‘‘ ہے جس کا مطلب ہے سامان کی تیاری، اسی مادہ سے تجہیز کا لفظ بنا ہے جو میت کے لئے تکفین کے اضافے کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہے میت کو قبر میں پہنچانے کے لئے سامان تیار کرنا۔ جہیز اس سامان کو کہا جاتا ہے جو دلہن کو نیا گھر بنانے یا بسانے کے لئے والدین کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ خاندانی نظم میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوام یا محافظ بنانے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ مرد اپنے خاندان (یعنی بیوی بچوں) پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سورہ نساء ، آیت نمبر33) جس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے بعد اول روز سے ہی گھر بنانے اور چلانے کے تمام اخراجات مرد کے ذمہ ہیں۔رسول اکرمﷺنے میاں بیوی کے حقوق متعین کرتے ہوئے یہ بات بیوی کے حقوق میں شامل فرمائی ہے کہ ان کا نان نفقہ ہر صورت میں مرد کے ذمہ ہے ، خواہ عورت کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو (ملاحظہ ہو کتاب ہذا ’’بیوی کے حقوق‘‘) نکاح کے وقت شریعت نے مرد پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ حسب استطاعت عورت کو ’’مہر‘‘ ادا کرے یہ بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کی نظر میں مرد عورت پر خرچ کرنے کا پابند ہے، عورت خرچ کرنے کی پابند نہیں۔
زکاۃ کی ادائیگی میں بھی شریعت نے اسی اصول کو پیش نظر رکھا ہے ۔شوہر چونکہ قانونی طور پر بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہے ،لہٰذا مالدار شوہر اپنی بیوی کو زکاۃ نہیں دے سکتا جبکہ مالدار بیوی اپنے شوہر کو اس لئے زکاۃ دے سکتی ہے کہ وہ قانونی طور پر مرد کے اخراجات کی ذمہ دار نہیں۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری ، باب الزکاۃ علی الزوج)
رسول اکرمﷺنے اپنی چار صاحبزادیوں کی شادی کی ۔ ا ن میں سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھااور حضرت رقیہ رضی اللہ عنھاکو کسی قسم کا جہیز دینا ثابت نہیں ، البتہ حضرت زینب رضی اللہ عنھاکو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھانے اپنا ایک ہار دیا تھا جو جنگ بدر میں حضرت زینب رضی اللہ عنھانے اپنے شوہر حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو چھڑوانے کے لئے بطور فدیہ بھجوایا تھا جسے رسول اکرم ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ کے بعد واپس بھجوا دیا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاکو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مہر میں ایک ڈھال دی تھی جسے فروخت کرکے رسول اکرم ﷺنے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاکو گھر کا ضروری سامان ، پانی کی مشک، تکیہ ، ایک چادرو غیرہ بنا کر دیا ۔ آپ ﷺکے اس اسوہ حسنہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص نادار اور غریب ہو تو عورت کے والدین حسب استطاعت اپنے داماد سے تعاون کرنے کے لئے گھر کا بنیادی اور ضروری سامان دے سکتے ہیں۔
آج کل جس طرح نکاح سے قبل جہیز کے لئے مطالبات ہوتے ہیں اور پھر نکاح کے موقع پر جس اہتمام کے ساتھ اس کی نمائش ہوتی ہے ، شرعاً حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے اور فخر کرنے والے آدمی کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ لقمان ، آیت نمبر8)حدیث شریف میں رسول اکرم ﷺنے ایک بڑا عبرتناک واقعہ بیان فرمایا ہے ، جسے امام مسلم aنے روایت کیا ہے ۔ رسول اللہﷺفرماتے ہیں ایک آدمی دو چادریں پہن کر اکڑ کر چل رہا تھا اور جی ہی جی میں (اپنے لباس پر) اِترارہا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جارہا ہے۔والدین کی اپنی رغبت اور مرضی کے بغیر محبوراً ان سے جہیز بنوانایقینا باطل طریقے سے مال کھانے کے ضمن میں آتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔‘‘(سورہ نساء ، آیت نمبر 29) لہٰذا اگر کسی نے زبردستی جہیز حاصل کیا تو اس آیت کی رُو سے وہ قطعی حرام ہے ، جسے واپس لوٹانا چاہئے یا معاف کروانا چاہئے۔ ایک حدیث شریف میں رسول اکرمﷺنے واضح طو رپر یہ ارشاد فرمایا ہے ہے کہ ایک مسلمان کا خون اس کا مال ، اس کی عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔ (مسلم) ایک روایت میں ارشاد مبارک ہے ’’ظلم ، قیامت کے روز اندھیرا بن کر آئے گا۔‘‘ (بخاری) بیٹی کے والدین سے زبردستی جہیز حاصل کرنا صریحاً ظلم ہے ایسا ظلم کرنے والوں کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں دنیا کے اس معمولی لالچ کے بدلے میں آخرت کا عظیم خسارہ مول نہ لینا پڑ جائے ، جہاں حقوق کی ادائیگی مال سے نہیں اعمال سے ہوگی۔ قرآن و حدیث کے ان احکام کے علاوہ ایسے جہیز کے دنیاوی مفسدات اس قدر ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ غریب والدین جو ایک بیٹی کا جہیز بنانے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ، ان کے ہاں اگر تین یا چار بیٹیاں پیدا ہوجائیں تو ان کے لئے باعث عذاب بن جاتی ہیں ، ماں باپ کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ والدین قرض لے کر جہیز بنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور وہی نکاح ، جسے شریعت دو خاندانوں کے درمیان محبت ، مؤدت اور رحمت کا ذریعہ بنانا چاہتی ہے، باہمی نفرت ، عداوت اور دشمنی کا باعث بن جاتا ہے ۔وہی بیٹیاں جن کی پرورش اور نکاح پر جہنم سے رکاوٹ کی خوشخبری دی گئی ہے ، معاشرے کی اس مذموم رسم کی وجہ سے نحوست کی علامت بن جاتی ہیں۔ بیٹیاں الگ ذہنی اذیت اور احساس کمتری کا شکار رہتی ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ جن میں سے 40لاکھ لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے ۔ والدین اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں بوڑھے ہو چکے ہیں۔
جو لوگ زیادہ جہیز دینے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ زیادہ جہیز دینے کے عوض شوہر سے اس کی استطاعت سے کہیں زیادہ حق مہر لکھوا لیتے ہیں او ریہ سمجھتے ہیں کہ ا س طرح ان کی بیٹی کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا حالانکہ میاں بیوی کے رشتے کی اصل بنیاد باہمی خلوص ، وفاداری اور اعتماد ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو کروڑوں کے زرو جواہر بھی اس کا متبادل نہیں بن سکتے اور اگر یہ چیز موجود ہو تو فاقہ کشی بھی اس نازک رشتے کو متزلزل نہیں کرسکتی۔ زیادہ جہیز دینا اور پھر زیادہ حق مہر لکھوانا میاں بیوی کے باہمی رشتے کو مضبوط تو نہیں بناتا البتہ دونوںکے تعلقات میں بال ضرور آجاتا ہے جو بسا اوقات مستقبل میں پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
جہیز کی اس مذموم رسم پر مسلمانوں کو اس پہلو سے بھی غور کرنا چاہئے کہ ہندوئوں کے ہاں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کا قانون نہیں ، لہٰذا وہ شادی کے موقع پر جہیز کی شکل میں بھی اپنی بیٹیوں کو زیادہ سے زیادہ سامان دے کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہندوئوں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی نہ صرف جہیزکے معاملے میں بلکہ وراثت کے معاملے میں بھی ہندوئوں جیسا طرز عمل اپنا نا شروع کردیا ہے بہت سے لوگ بیٹیوں کوجہیز دینے کے بعد یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کاحق وراثت بھی ادا کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ سراسر شریعت کی خلاف ورزی اور کفار کی اتباع ہے جس سے مسلمانوں کو ہر حال میں بچنا چاہئے۔
ہم لڑکوں کے والدین سے گزارش کرناچاہتے ہیں کہ معاشرے میں اس خطرناک ناسور کو ختم کرنے کے لئے پہلا قدم وہی اٹھا سکتے ہیں اور انہیں ہی اٹھانا چاہئے ۔ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جہیز کی رسم کے خلاف جہاد کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے دنیاو آخرت میں بے پناہ انعامات سے نواز دے اور بعیدنہیں کہ ظلم سے جہیز حاصل کرنے والوں کو کل کلاں خود اپنی ہی بیٹیوں کے معاملے میں بہت زیادہ پریشان کن اور تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔ { وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ} ’’یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں ، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔‘‘ (سورہ آل عمران ، آیت نمبر140)
نکاح کے مسائل ہماری عملی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں ہم نے امکانی حد تک مسائل اور صحت ِ احادیث کے سلسلے میں مختلف علمائے کرام سے راہنمائی حاصل کرنے کا پورا پورا اہتمام کیا ہے تاہم اگر کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اس کی نشاندہی پر ہم ممنون ہوں گے۔ ابتدأً کتاب دوحصوں پر مشتمل تھی Ý نکاح کے مسائل اور Þ طلاق کے مسائل ۔ کتاب کے صفحات زیادہ ہونے کی وجہ سے دونوں حصوں کو الگ الگ کرنا پڑا ۔ امید ہے کہ اس سے کتاب کی افادیت پر ان شاء اللہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
واجب الاحترام علمائے کرام اور دیگر حضرات ، جنہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے کتاب کی تیاری میں تعاون فرمایا ہے ، ان سب کا تہ دل سے شکرگزار ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات سے نوازے۔ آمین !
{
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ }
اے ہمارے پروردگار! ہماری اس خدمت کو قبول فرما تو یقینا خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے۔
محمد اقبال کیلانی،عفی اللہ عنہ
جامعہ ملک سعود،الریاض
المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
11 ذیقعدہ،1497ہـ