محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
أَنْوَاعُ النِّکَاحِ
نکاح کی اقسام
نکاح کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں1نکاح مسنون2نکاح شغار 3 نکاح حلالہ 4نکاح متعہ ۔
(ا) أَلنِّکَاحُ الْمَسْنُوْنِ
(ا)نکاح مسنون
ولی کی سرپرستی میں عمر بھر رفاقت نبھانے کی نیت سے کیا گیا نکاح مسنون کہلاتاہے ،جو کہ جائز ہے۔
اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے مردوں سے اختلاط کی تمام قسمیں حرام ہیں۔
عورت کے لئے بیک وقت ایک سے زائد مردوں سے نکاح کرنے کا طریقہ اسلام نے حرام قرار دیاہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ ا قَالَتْ: اِنَّ النِّکَاحَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ کَانَ عَلٰی أَرْبَعَۃٍ اَنْحَائٍ : فَنکِاَحُ مِنْہَا نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ یَخْطُبُ الرَّجُلُ اِلَی الرَّجُلِ وَلِیَّتَہٗ اَوِ ابْنَتَہٗ فَیُصْدِقُہَا ثُمَّ یُنْکِحُہَا وَ نِکَاحٌ آخَرُ : کَانَ الرَّجُلُ یَقُوْلُ لِإِمْرَأَتِہٖ : اِذَا طَہُرَتْ مِنْ طَمْثِہَا اَرْسِلِیْ اِلٰی فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِیْ مِنْہُ وَ یَعْتَزِلُہَا زَوْجُہَا وَ لاَ یَمَسُّہَا اَبَدًا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ حَمْلُہَا مِنْ ذٰلِکَ الرَّجُلِ الَّذِیْ تَسْتَبْضِعُ مِنْہُ فَاِذَا تَبَیَّنَ حَمْلُہَا اَصَابَہَا زَوْجُہَا اِذَا اَحَبَّ وَ اِنَّمَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ رَغْبَۃً فِیْ نَجَابَۃِ الْوَلَدِ ، فَکَانَ ہٰذَا النِّکَاحُ نِکَاحُ الْاِسْتِبْضَاعِ وَ نِکَاحٌ آخَرُ : یَجْتَمِعُ الرَّہْطُ مَا دُوْنَ الْعَشَرَۃِ فَیَدْخُلُوْنَ الْمَرْأَۃَ کُلُّہُمْ یُصِیْبُہَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَ وَضَعَتْ وَ مَرَّ لِیَالٍ بَعْدَ اَنْ تَضَعَ حَمْلَہَا اَرْسَلَتْ اِلَیْہِمْ فَلَمْ یَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْہُمْ اَنْ یَمْتَنِعَ حَتّٰی یَجْتَمِعُوْہَا عِنْدَہَا ، تَقُوْلُ لَہُمْ : قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِیْ کَانَ مِنْ اَمْرِکُمْ وَ قَدْ وَلَدْتُ فَہُوْ اِبْنُکَ یَا فُلاَنُ ، تُسَمّٰی مَنْ اَحَبَّتْ بِاِسْمِہٖ فَیَلْحَقُ بِہٖ وَلَدُہَا ، لاَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَمْتَنِعَ بِہِ الرَّجُلُ ، وَ نِکَاحُ الرَّابِعُ : یَجْتَمِعُ النَّاسُ الْکَثِیْرُ فَیَدْخُلُوْنَ عَلَی الْمَرْأَۃِ لاَ تَمْنَعَ مَنْ جَائَ ہَا ، وَ ہُنَّ الْبَغَایَا کُنَّ یَنْصِبْنَ عَلٰی أَبْوَابِہِنَّ رَاْیَاتٍ تَکُوْنُ عَلَمًا لِمَنْ اَرَادَہُنَّ دَخَلَ عَلَیْہِنَّ فَاِذَا حَمَلَتْ اِحْدَاہُنَّ وَ وَضَعَتْ حَمْلَہَا جُمِعُوْا لَہَا وَ دَعَوْا لَہُمُ الْقَافَۃَ ثُمَّ الْحَقُوْا وَلَدَہَا بِالَّذِیْ یَرَوْنَ فَالْتَاطَتْہُ بِہٖ وَ دُعِیَ اِبْنُہٗ لاَ یَمْتَنِعُ مِنْ ذٰلِکَ ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌا بِالْحَقِّ ہَدَمَ نِکَاحَ الْجَاہِلِیَّۃِ کُلَّہٗ اِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْیَوْمَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عائشہ rسے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح کئے جاتے تھے ۔پہلا طریقہ وہی ہے جس طریقہ سے آج بھی لوگ کرتے ہیں ایک مرد، دوسرے مرد (ولی )کی طرف اس کی بیٹی یا رشتہ دار عورت کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ،وہ (ولی )مہر مقرر کرتا اور (اپنی بیٹی یا اپنی رشتہ دار عورت سے )نکاح کردیتا ۔دوسرا طریقہ یہ تھا کہ عورت جب حیض سے پاک ہوجاتی تو شوہر اسے کہتا کہ فلاں (خوبصورت ،بہادر اور خاندانی )مرد کو بلا کر اس سے زنا کروا ۔اس کے بعد جب تک حمل کا پتہ نہ چل جاتا عورت کا شوہر اس سے الگ رہتا حمل واضح ہونے کے بعد اگر شوہر چاہتا تو خود بھی اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ۔یہ اس لئے کیاجاتا کہ اعلی خاندان کی خوبصورت اولاد پیدا ہو ۔اس نکاح کو نکاح استبضاع کہا جاتا ہے ۔تیسرا طریقہ یہ تھا کہ دس کی تعداد سے کم آدمی مل کر ایک ہی عورت سے بدکاری کرتے ۔حمل کے بعد جب وہ بچہ جنتی تو چند دنوں کے بعد وہ عورت ان سب مردوں کو بلا بھیجتی اور کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ آنے سے انکار کرے جب وہ سارے مرد اکٹھے ہوجاتے تو عورت ان سے کہتی ’’جو کچھ تم نے کیا وہ خوب جانتے ہو اب میں نے یہ بچہ جناہے اور اے فلاں ! یہ تمہارا بیٹاہے ۔‘‘عورت جس کا چاہتی نام لے دیتی اور بچہ (قانونی طور پر )اسی مرد کا ہوجاتا جس کا عورت نام لیتی اور مرد کے لئے مجال انکار نہ ہوتی ۔نکاح کا چوتھا طریقہ یہ تھا کہ ایک عورت کے پاس بہت سے آدمی آتے جاتے ہر ایک اس سے بدکاری کرتا اور وہ عورت کسی کو منع نہ کرتی یہ طوائفیں ہوتیں جو (علامت کے طور پر) اپنے گھروں پر جھنڈے لگادیتیں جو چاہتا ان کے پاس (بدکاری کے لئے )آتا جاتا ۔جب ایسی عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن لیتی تو سارے مرد جو اس کے ساتھ بدکاری کرتے رہے تھے کس قیافہ شناس کو اس کے پاس بھیجتے وہ (اپنے علم قیافہ کی رو سے )جس مرد کو اس بچے کا باپ بتاتا بچہ اسی کا بیٹا قرار پاتا اور وہ مرد انکار نہ کرسکتا ۔جب حضرت محمد ﷺ دین اسلام لے کر آئے تو آپ ﷺ نے جاہلیت کے سارے نکاح حرام قرار دے دیئے صرف وہی نکاح باقی رکھا جو اب بھی رائج ہے ۔اسے بخاری نے روایت کیاہے۔
(ب) نِکَاحُ الشِّغَارِ
(ب)نکاح شغار
اپنی بیٹی یا بہن اس شرط پر کسی کے نکاح میں دینا کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن اس کے نکاح میں دے گا یا کسی کی بیٹی کو اس شرط پر اپنی بہو بنانا کہ وہ بھی اس کی بیٹی کو اپنی بہو بنائے گا،یہ نکاح شغار (وٹہ سٹہ )کہلاتا ہے ایسا نکاح کرنا منع ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا نَہٰی عَنِ الشِّغَارِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایاہے۔ اسے بخاری نے روایت کیاہے۔
(ج) نِکَاحُ الْحَلاَ لَۃِ
(ج)نکاح حلالہ
اصغر اپنی بیوی اصغری کو طلاق دینے کے بعد دوبارہ اس (یعنی اصغری) سے نکاح کرنے کے لئے اکبر سے اس شرط پر نکاح کروا دے کہ اکبر ایک یا دو دن بعد اسے (یعنی اصغری کو)طلاق دے دے گا اور اصغر دوبارہ اپنی اور اکبر کی مطلقہ (اصغری )سے شادی کرے گا اس نکاح کو نکاح حلالہ کہتے ہیں ،یہ نکاح قطعی حرام ہے ۔
حلالہ نکلوانے والا (اصغر )اور حلالہ نکالنے والا (اکبر )دونوں ملعون ہیں۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا أَلْمُحَلِّلَ وَ الْمُحَلَّلَ لَہٗ ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ(صحیح)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔اسے ترمذی نے روایت کیاہے۔
(د) نِکَاحُ الْمُتْعَۃِ
(د)نکاح متعہ
طلاق دینے کی نیت سے مختصر وقت (خواہ چند گھنٹے ہوں چند دن ہوں یا چند ہفتے ہوں یا چند مہینے) کے لئے کسی عورت سے مہر طے کر کے نکاح کرنا ،نکاح متعہ کہلاتا ہے جو کہ حرام ہے۔
عَنِ الرَّبِیْعِ ابْنِ سَبْرَۃَ الْجُہْنِیِّ ص اَنَّ اَبَاہُ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا فَقَالَ ((یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ قَدْ کُنْتُ آذِنْتُ لَکُمْ فِی الْاِسْتَمْتَاعِ مِنَ النِّسَائِ وَ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَمَنْ کَانَ عِنْدَہٗ مِنْہُنَّ شَیْئٌ فَلْیُخَلِّ سَبِیْلَہَا وَ لاَ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
وضاحت : یاد رہے فتح مکہ سے پہلے تک نکاح متعہ جائز تھا جسے فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے حرام قرار دے دیا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنہیں رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کا علم نہ ہو سکا وہ اسے جائز سمجھتے تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جب سختی سے اس قانون پر عمل کروایا تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس کی حرمت کا علم ہو گیا اور اس کے بعد کسی نے اسے جائز نہیں سمجھا۔حضرت ربیع بن سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کے بیان میں کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا ’’اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ،لیکن اب اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن تک اسے حرام کردیا ہے، لہٰذا اگر اس قسم کی کوئی عورت کسی کے پاس ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور جو کچھ تم نے انہیں دیا ہے وہ ان سے واپس نہ لو‘‘۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔