• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کے مسائل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
أَنْوَاعُ النِّکَاحِ​
نکاح کی اقسام

نکاح کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں1نکاح مسنون2نکاح شغار 3 نکاح حلالہ 4نکاح متعہ ۔
(ا) أَلنِّکَاحُ الْمَسْنُوْنِ​
(ا)نکاح مسنون

ولی کی سرپرستی میں عمر بھر رفاقت نبھانے کی نیت سے کیا گیا نکاح مسنون کہلاتاہے ،جو کہ جائز ہے۔
اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے مردوں سے اختلاط کی تمام قسمیں حرام ہیں۔
عورت کے لئے بیک وقت ایک سے زائد مردوں سے نکاح کرنے کا طریقہ اسلام نے حرام قرار دیاہے۔

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ ا قَالَتْ: اِنَّ النِّکَاحَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ کَانَ عَلٰی أَرْبَعَۃٍ اَنْحَائٍ : فَنکِاَحُ مِنْہَا نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ یَخْطُبُ الرَّجُلُ اِلَی الرَّجُلِ وَلِیَّتَہٗ اَوِ ابْنَتَہٗ فَیُصْدِقُہَا ثُمَّ یُنْکِحُہَا وَ نِکَاحٌ آخَرُ : کَانَ الرَّجُلُ یَقُوْلُ لِإِمْرَأَتِہٖ : اِذَا طَہُرَتْ مِنْ طَمْثِہَا اَرْسِلِیْ اِلٰی فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِیْ مِنْہُ وَ یَعْتَزِلُہَا زَوْجُہَا وَ لاَ یَمَسُّہَا اَبَدًا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ حَمْلُہَا مِنْ ذٰلِکَ الرَّجُلِ الَّذِیْ تَسْتَبْضِعُ مِنْہُ فَاِذَا تَبَیَّنَ حَمْلُہَا اَصَابَہَا زَوْجُہَا اِذَا اَحَبَّ وَ اِنَّمَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ رَغْبَۃً فِیْ نَجَابَۃِ الْوَلَدِ ، فَکَانَ ہٰذَا النِّکَاحُ نِکَاحُ الْاِسْتِبْضَاعِ وَ نِکَاحٌ آخَرُ : یَجْتَمِعُ الرَّہْطُ مَا دُوْنَ الْعَشَرَۃِ فَیَدْخُلُوْنَ الْمَرْأَۃَ کُلُّہُمْ یُصِیْبُہَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَ وَضَعَتْ وَ مَرَّ لِیَالٍ بَعْدَ اَنْ تَضَعَ حَمْلَہَا اَرْسَلَتْ اِلَیْہِمْ فَلَمْ یَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْہُمْ اَنْ یَمْتَنِعَ حَتّٰی یَجْتَمِعُوْہَا عِنْدَہَا ، تَقُوْلُ لَہُمْ : قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِیْ کَانَ مِنْ اَمْرِکُمْ وَ قَدْ وَلَدْتُ فَہُوْ اِبْنُکَ یَا فُلاَنُ ، تُسَمّٰی مَنْ اَحَبَّتْ بِاِسْمِہٖ فَیَلْحَقُ بِہٖ وَلَدُہَا ، لاَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَمْتَنِعَ بِہِ الرَّجُلُ ، وَ نِکَاحُ الرَّابِعُ : یَجْتَمِعُ النَّاسُ الْکَثِیْرُ فَیَدْخُلُوْنَ عَلَی الْمَرْأَۃِ لاَ تَمْنَعَ مَنْ جَائَ ہَا ، وَ ہُنَّ الْبَغَایَا کُنَّ یَنْصِبْنَ عَلٰی أَبْوَابِہِنَّ رَاْیَاتٍ تَکُوْنُ عَلَمًا لِمَنْ اَرَادَہُنَّ دَخَلَ عَلَیْہِنَّ فَاِذَا حَمَلَتْ اِحْدَاہُنَّ وَ وَضَعَتْ حَمْلَہَا جُمِعُوْا لَہَا وَ دَعَوْا لَہُمُ الْقَافَۃَ ثُمَّ الْحَقُوْا وَلَدَہَا بِالَّذِیْ یَرَوْنَ فَالْتَاطَتْہُ بِہٖ وَ دُعِیَ اِبْنُہٗ لاَ یَمْتَنِعُ مِنْ ذٰلِکَ ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌا بِالْحَقِّ ہَدَمَ نِکَاحَ الْجَاہِلِیَّۃِ کُلَّہٗ اِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْیَوْمَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عائشہ rسے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں چار طرح سے نکاح کئے جاتے تھے ۔پہلا طریقہ وہی ہے جس طریقہ سے آج بھی لوگ کرتے ہیں ایک مرد، دوسرے مرد (ولی )کی طرف اس کی بیٹی یا رشتہ دار عورت کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ،وہ (ولی )مہر مقرر کرتا اور (اپنی بیٹی یا اپنی رشتہ دار عورت سے )نکاح کردیتا ۔دوسرا طریقہ یہ تھا کہ عورت جب حیض سے پاک ہوجاتی تو شوہر اسے کہتا کہ فلاں (خوبصورت ،بہادر اور خاندانی )مرد کو بلا کر اس سے زنا کروا ۔اس کے بعد جب تک حمل کا پتہ نہ چل جاتا عورت کا شوہر اس سے الگ رہتا حمل واضح ہونے کے بعد اگر شوہر چاہتا تو خود بھی اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ۔یہ اس لئے کیاجاتا کہ اعلی خاندان کی خوبصورت اولاد پیدا ہو ۔اس نکاح کو نکاح استبضاع کہا جاتا ہے ۔تیسرا طریقہ یہ تھا کہ دس کی تعداد سے کم آدمی مل کر ایک ہی عورت سے بدکاری کرتے ۔حمل کے بعد جب وہ بچہ جنتی تو چند دنوں کے بعد وہ عورت ان سب مردوں کو بلا بھیجتی اور کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ آنے سے انکار کرے جب وہ سارے مرد اکٹھے ہوجاتے تو عورت ان سے کہتی ’’جو کچھ تم نے کیا وہ خوب جانتے ہو اب میں نے یہ بچہ جناہے اور اے فلاں ! یہ تمہارا بیٹاہے ۔‘‘عورت جس کا چاہتی نام لے دیتی اور بچہ (قانونی طور پر )اسی مرد کا ہوجاتا جس کا عورت نام لیتی اور مرد کے لئے مجال انکار نہ ہوتی ۔نکاح کا چوتھا طریقہ یہ تھا کہ ایک عورت کے پاس بہت سے آدمی آتے جاتے ہر ایک اس سے بدکاری کرتا اور وہ عورت کسی کو منع نہ کرتی یہ طوائفیں ہوتیں جو (علامت کے طور پر) اپنے گھروں پر جھنڈے لگادیتیں جو چاہتا ان کے پاس (بدکاری کے لئے )آتا جاتا ۔جب ایسی عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن لیتی تو سارے مرد جو اس کے ساتھ بدکاری کرتے رہے تھے کس قیافہ شناس کو اس کے پاس بھیجتے وہ (اپنے علم قیافہ کی رو سے )جس مرد کو اس بچے کا باپ بتاتا بچہ اسی کا بیٹا قرار پاتا اور وہ مرد انکار نہ کرسکتا ۔جب حضرت محمد ﷺ دین اسلام لے کر آئے تو آپ ﷺ نے جاہلیت کے سارے نکاح حرام قرار دے دیئے صرف وہی نکاح باقی رکھا جو اب بھی رائج ہے ۔اسے بخاری نے روایت کیاہے۔
(ب) نِکَاحُ الشِّغَارِ
(ب)نکاح شغار

اپنی بیٹی یا بہن اس شرط پر کسی کے نکاح میں دینا کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن اس کے نکاح میں دے گا یا کسی کی بیٹی کو اس شرط پر اپنی بہو بنانا کہ وہ بھی اس کی بیٹی کو اپنی بہو بنائے گا،یہ نکاح شغار (وٹہ سٹہ )کہلاتا ہے ایسا نکاح کرنا منع ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا نَہٰی عَنِ الشِّغَارِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایاہے۔ اسے بخاری نے روایت کیاہے۔
(ج) نِکَاحُ الْحَلاَ لَۃِ​
(ج)نکاح حلالہ

اصغر اپنی بیوی اصغری کو طلاق دینے کے بعد دوبارہ اس (یعنی اصغری) سے نکاح کرنے کے لئے اکبر سے اس شرط پر نکاح کروا دے کہ اکبر ایک یا دو دن بعد اسے (یعنی اصغری کو)طلاق دے دے گا اور اصغر دوبارہ اپنی اور اکبر کی مطلقہ (اصغری )سے شادی کرے گا اس نکاح کو نکاح حلالہ کہتے ہیں ،یہ نکاح قطعی حرام ہے ۔
حلالہ نکلوانے والا (اصغر )اور حلالہ نکالنے والا (اکبر )دونوں ملعون ہیں۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا أَلْمُحَلِّلَ وَ الْمُحَلَّلَ لَہٗ ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ(صحیح)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔اسے ترمذی نے روایت کیاہے۔
(د) نِکَاحُ الْمُتْعَۃِ​
(د)نکاح متعہ

طلاق دینے کی نیت سے مختصر وقت (خواہ چند گھنٹے ہوں چند دن ہوں یا چند ہفتے ہوں یا چند مہینے) کے لئے کسی عورت سے مہر طے کر کے نکاح کرنا ،نکاح متعہ کہلاتا ہے جو کہ حرام ہے۔
عَنِ الرَّبِیْعِ ابْنِ سَبْرَۃَ الْجُہْنِیِّ ص اَنَّ اَبَاہُ حَدَّثَہٗ أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا فَقَالَ ((یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ قَدْ کُنْتُ آذِنْتُ لَکُمْ فِی الْاِسْتَمْتَاعِ مِنَ النِّسَائِ وَ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ ذٰلِکَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَمَنْ کَانَ عِنْدَہٗ مِنْہُنَّ شَیْئٌ فَلْیُخَلِّ سَبِیْلَہَا وَ لاَ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ربیع بن سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کے بیان میں کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا ’’اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ،لیکن اب اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن تک اسے حرام کردیا ہے، لہٰذا اگر اس قسم کی کوئی عورت کسی کے پاس ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور جو کچھ تم نے انہیں دیا ہے وہ ان سے واپس نہ لو‘‘۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : یاد رہے فتح مکہ سے پہلے تک نکاح متعہ جائز تھا جسے فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے حرام قرار دے دیا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنہیں رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کا علم نہ ہو سکا وہ اسے جائز سمجھتے تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جب سختی سے اس قانون پر عمل کروایا تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس کی حرمت کا علم ہو گیا اور اس کے بعد کسی نے اسے جائز نہیں سمجھا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اَلنِّکَاحُ فِیْ ضَوْئِ الْقُرْآنِ​
نکاح،قرآن مجید کی روشنی میں

پاکدامن عورتوں کا نکاح پاکدامن مردوں سے اور بدکار عورتوں کا نکاح بدکار مردوں سے کرنے کا حکم ہے۔

{ اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ}(26:24)
’’بدکار عورتیں بدکار مردوں کے لیے ہیں اور بدکار مرد بدکار عورتوں کے لیے ہیں۔‘‘(سورہ نور ،آیت نمبر26)
مطلقہ خاتون عدت کے بعد دوسرا نکاح کر لے اور دوسرا شوہر اپنی آزاد مرضی سے اسے طلاق دے دے تو مطلقہ خاتون عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔
وضاحت : آیت مسئلہ نمبر66کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
عورتوں کی وراثت زبردستی حاصل کرنا منع ہے ۔
شوہر کی وفات کے بعد بیوہ کو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے سے روکنا منع ہے۔
عورت کی ناپسندیدہ شکل و صورت یا گفتگو یا عادات وغیرہ کو دیکھ کر فورا علیحدگی کا فیصلہ کرنے کی بجائے حتی الامکان صبر و تحمل اور در گزر سے کام لے کر تعلق ازدواج نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔


{ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَائَ کَرْہًا وَ لاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضٍ مَا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اِلاَّ اَنْ یَّاتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْاشَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا }(19:4)
اے لوگو!جو ایمان والے ہو ! تمہارے لئے جائز نہیں کہ زبردستی (بیوہ )عورتوں کے وارث بن بیٹھو (اور انہیں دوسرا نکاح نہ کرنے دو )نہ ہی یہ جائز ہے کہ انہیں تنگ کر کے اس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو ہاں اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (تو بدچلنی کی سزا دے سکتے ہو )ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو ،اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہے۔‘‘ (سورہ نساء ،آیت نمبر 19)
خاندان کے نظم میں مرد سربراہ اور عورت ماتحت ،مرد حاکم اور عورت محکوم ،مرد مطاع اور عورت مطیع کا درجہ رکھتے ہیں۔
مرد گھر کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کی تمام ضروریات زندگی مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے۔
شوہر کی اطاعت گزاری اور وفاشعاری ،نیک خواتین کی صفات ہیں۔
مردوں کی عدم موجودگی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرنا مثالی بیویوں کی صفت ہے۔
سرکش عورتوں کو راہ راست پر لانے کے لئے پہلا اقدام انہیں سمجھانا بجھانا ہے۔دوسرا اقدام خواب گاہوں کے اندر ان کے بستر الگ کر دینا ہے اگر پھر بھی شوہر کی بات نہ مانیں تو آخری چارہ کار کے طور پر ہلکی مار مارنے کی اجازت ہے۔
عورت شوہر کی اطاعت گزار بن جائے تو پھر اس پر کسی قسم کی زیادتی کرنا منع ہے۔


{ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط فَالصّٰلِحَاتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نَشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا }(34:4)
مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الٰہی مردوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ ،خواب گاہوں میں ان کے بستر الگ کر دو اور مارو ،اگر وہ مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو یقین رکھو کہ اللہ بڑا اور بالاتر ہے۔‘‘(سورہ نساء ،آیت نمبر 34)
دلی محبت اور رغبت کے اعتبار سے تمام بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنا مرد کے بس کی بات نہیں البتہ نان و نفقہ اور دیگر حقوق کے معاملے میں تمام بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنا ضروری ہے۔
{ وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ ط وَ اِنْ تُصْلِحُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا }(129:4)
’’بیویوں کے درمیان پورا پور اعدل کرنا (محبت کے اعتبار سے )تمہارے بس میں نہیں ہے تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے لہٰذا قانون الٰہی کا تقاضا پورا کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ )ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جائو کہ دوسری کو درمیان میں لٹکتا چھوڑ دو (کہ وہ نہ شوہر والی ہو نہ مطلقہ )اگر تم اپنا طرز عمل درست رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو اللہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘(سورہ نسائ، آیت نمبر 129)
وضاحت : اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اپنی بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنے کی پوری کوشش کے باوجود غیر ارادی طور پر یا بشری تقاضوں کے باعث کمی بیشی کو اللہ معاف فرمائیں گے۔
شوہر کی وفات کے بعد عورت چار ماہ دس دن تک نہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے ،نہ زیب و زینت کر سکتی ہے نہ گھر سے باہر رات گزار سکتی ہے شرعی اصطلاح میں اسے ’’عدت ‘‘کہتے ہیں۔

{ وَالَّذِیْنَ یَتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَ عَشْرًا ج فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ }(234:2)
’’اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن روکے رکھیں پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو کریں تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘(سورہ بقرہ ،آیت نمبر 234)
وضاحت : نکاح کے بعد شوہر نے بیوی سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو دونوں صورتوں میں عدت چار ماہ دس دن ہے البتہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے ۔یادرہے جس عورت سے شوہر نے صحبت کی ہواسے مدخولہ اور جس سے ابھی صحبت نہ کی ہواسے غیر مدخولہ کہتے ہیں۔
مومن عورتوں کے نکاح مشرک مردوں کے ساتھ اور مومن مردوں کے نکاح مشرک عورتوں کے ساتھ کرنے منع ہیں۔
مومن لونڈی ،آزاد مشرک عورت سے بہتر ہے۔
مومن غلام ،آزاد مشرک مرد سے بہتر ہے ۔

{ وَ لاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ط وَ لَاَمَۃٌ مُؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَ لاَ تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکُمْ ط اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ج وَ اللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ وَ یُبَیِّنُ آیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ }(221:2)
تم مشرک عورتوں سے ہر گز نکاح نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن لونڈی مشرک سے بہتر ہے اگر چہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام ،مشرک مرد سے بہتر ہے اگر چہ وہ تمہیں بہت پسند ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے ۔اللہ تعالی اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے عیاں کرتا ہے توقع ہے کہ وہ سبق حاصل کریں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔‘‘(سورہ بقرہ ،آیت نمبر 221)
دوسرے کی منکوحہ سے نکاح کرنا حرام ہے۔
جنگ میں حاصل ہونے والی کافروں کی منکوحہ یا غیر منکوحہ عورتیں ان کے مالک مسلمانوں کے لئے نکاح کے بغیر حلال اور جائز ہیں۔
نکاح کا مقصد زنا ،بدکاری ،اور فحاشی کو ختم کر کے نا پاک ،صاف اور ستھری زندگی بسر کرنا ہے۔

’’ اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں البتہ ایسی (غیر مسلم منکوحہ) عورتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں یہ اللہ تعالی کاقانون ہے جس کی پابندی کرنا تم پر لازم ہے مذکورہ عورتوں کے علاوہ جتنی بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال (یعنی مہر )کے ذریعہ حاصل کرنا تمہارے لئے حلال کر دیا گیا ہے بشرطیکہ حصار نکاح میں ان کو محفوظ کرو نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔‘‘( سور ہ نساء آیت نمبر 24)
وضاحت : مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے لونڈیوں سے بغیر نکاح کے گھر میں منکوحہ بیویوں کی طرح رکھنے کی اجازت دی ہے ۔لونڈیوں کے بارے میں شریعت کے دیگر احکام یہ ہیں۔

1جنگ کے اختتام پر قیدی عورتوں کو صرف حکومت ہی سپاہیوں میں تقسیم کرنے کی مجاز ہے اس سے پہلے اگر کوئی سپاہی از خود کسی قیدی عورت سے صحبت کرے گا تو وہ زنا میں شمار ہو گا۔
2قیدی حاملہ عورت سے وضع حمل سے پہلے صحبت کرنا اس کے مالک کے لئے بھی منع ہے۔
3قیدی عورت خواہ کسی بھی مذہب سے (علاوہ اسلام )ہو اس سے صحبت کرنا اس کے مالک کے لئے بھی جائز ہو گا۔
4لونڈی کے مالک کے علاوہ دوسرا کوئی آدمی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
5لونڈی کے مالک سے پیدا ہونے والی اولاد کے حقوق وہی ہوں گے جو صلبی اولاد کے ہوتے ہیں اولاد پیدا ہونے کے بعد لونڈی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا اور مالک کے مرتے ہی لونڈی از خود آزاد تصور کی جائے گی۔
6لونڈی کا مالک اپنی لونڈی کو اولاد ہونے سے پہلے کسی دوسرے کے نکاح میں دے دے تو مالک کا شہوانی تعلق اس سے ختم ہو جائے گا۔
7کسی عورت کو حکومت کسی مرد کی ملکیت میں دے دے تو پھر حکومت اس عورت کو واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جس طرح ولی عورت کا نکاح کرنے کے بعد واپس لینے کا حقدار نہیں رہتا۔
8حکومت کی طرف سے کسی آدمی کو جنگی قیدی کافر کے حقوق ملکیت عطا کرنا ویسا ہی جائز قانونی عمل ہے جیسا کہ نکاح میں ایجاب و قبول کے بعد مرد عورت کا ایک دوسرے کے لئے حلال ہو جانا جائز اور قانونی عمل ہے ۔دونوں قانون ایک ہی شریعت اور ایک ہی شارع سبحانہ و تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔
9جنگی حالات کے عدم تعین کی بناء پر لونڈیوں کی بیک وقت ملکیت کی تعداد کا تعین بھی نہیں کیا گیا۔
10لونڈیوں کا قانون اور حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ حسب حالات اور ضرورت قیامت تک کے لئے باقی اورنافذالعمل ہے۔ (ملخصًا از تفہیم القرآن ،جلد اول ،صفحہ)(341-340)

اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح جائز ہے۔

{ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصِنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَ لاَ مُتَّخِذِیْ اَخْدَانٍ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَ ہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ }(5:5)
’’اور وہ پاکدامن عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں جو اہل ایمان کے گروہ سے ہیں یا ان قوموں میں سے ہیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے ان کے محافظ بنو نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو اور جس کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا اس کے سارے (نیک )اعمال ضائع ہو جائیں گے اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہو گا۔‘‘(سورہ مائدہ ،آیت نمبر 5)
وضاحت : 1اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن انہیں اپنی عورتیں نکاح میں دینے کی اجازت نہیں۔
2اہل کتاب کی عورتیں مشرک ہوں تو ان سے نکاح کرنا منع ہے ۔ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر46

جس بچے نے دو سال کی عمر تک یا اس سے پہلے پہلے کسی عورت کا دودھ پیا ہو اس کی حرمت رضاعت ثابت ہو گی دو سال کے بعد کسی عورت کا دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

{ وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنَ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُ }(14:31)
’’ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھوٹنے میں لگے کہ تم میری اور میرے ماں باپ کی شکرگزاری کر و ، تم سب کو میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔‘‘(سورہ لقمان ،آیت نمبر 14)
وضاحت : دودھ پینے میں پانچ گھونٹ کی شرط ہے۔اس سے کم ہوتورضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر227
منہ بولے رشتے سے حرمت نکاح ثابت نہیں ہوتی۔
{ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَکَہَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا ط وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً }(37:33)
’’پھر جب زید t اس سے (یعنی زینب rسے )اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون )کا نکاح تم سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم تو پورا ہونا ہی تھا۔‘‘(سورہ احزاب ،آیت نمبر 37)
رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا جائز ہے۔
میاں بیوی ایک دوسرے کے رازدان ہیں۔

{ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ ط ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ}(187:2)
’’تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو۔‘‘(سورہ بقرہ ،آیت نمبر 187)
نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے عورت کے ہاتھ میں نہیں۔
وضاحت : آیت مسئلہ نمبر82کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
نکاح انسان کے لئے باعث راحت و سکون ہے۔
نکاح کے بعد اللہ تعالی فریقین میں محبت اور رحمت کے جذبات پیدا کر دیتے ہیں۔

{ وَ مِنْ آیٰتِہٖ اَنَّ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْ ٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مُؤَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ }(21:30)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تا کہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رغبت پیدا کر دی یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘(سورہ روم ،آیت نمبر 21)
پاکدامن مرد یا عورت کا نکاح زانیہ عورت یا زانی مرد سے کرنا حرام ہے۔
{ اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً ز وَالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُہَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکٍ ج وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ }(3:24)
’’زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک ،اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔‘‘(سورہ نور ،آیت نمبر 3)
حیض آنے سے قبل کم سنی میں نکاح جائز ہے۔
{ وَالَّئِیْ لَمْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اَنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ وَّالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ ط وَ اُوْلاَتُ الْأَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا}(4:65)
’’اورتمہاری عورتوں میںسے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوںان کے معاملے میںاگر تمہیںکوئی شک ہے تو(معلوم ہونا چاہئے کہ)ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی ان کا حکم ہے جنہیںابھی حیض نہ آیا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے جو شخص اللہ سے ڈرے اسی کے معاملے میںوہ سہولت پیدا کردیتاہے۔‘‘(سورہ طلاق،آیت نمبر4)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اَحْکَامُ النِّکَاحِ

نکاح کے احکام

مرد و عورت کا ایجاب و قبول نکاح کا رکن ہے اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا جَائَ تْہُ اِمْرَأَة فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! اِنِّیْ قَدْ وَہَبْتُ نَفْسِیْ لَکَ فَقَامَتْ قِیَامًا طَوِیْلاً فَقَامَ رَجُل فَقَالَ زَوِّجْنِیْہَا اِنْ لَمْ یَکُنْ لَکَ بِہَا حَاجَة قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِا ((ہَلْ عِنْدَکَ شَیْئ؟)) قَالَ : مَا اَجِدُ شَیْئًا قَالَ (( ِلْتَمِسْ وَ لَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِیْدٍ )) فَالْتَمَسَ فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا ، فَقَالَ لَہ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((ہَلْ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْئ؟ )) قَالَ : نَعَمْ ! سُوْرَة کَذَا وَ سُوْرَة کَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاہَا ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((قَدْ زَوَّجْتُکَہَا عَلٰی مَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ(صحیح)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی میں اپنی جان آپ کو ہبہ کرتی ہوں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشکش قبول نہ کی اور خاموش رہے) وہ عورت دیر تک (جواب کے انتظار میں )کھڑی رہی (اتنے میں )ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اس کا نکاح مجھ سے کرا دیجئے (یعنی مجھے قبول ہے )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ''تیرے پاس کچھ ہے۔ ''اس نے عرض کیا ''میرے پاس تو کچھ نہیں ۔''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''کوئی چیز تلاش کر کے لائو ،خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو ۔''وہ آدمی گیا اور اسے کوئی چیز نہ ملی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ''کیا تجھے قرآن آتا ہے۔ ''اس نے عرض کیا ''ہاں ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں فلاں سورہ آتی ہے ۔''اس آدمی نے ان سورتوں کے نام لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''میں نے قرآن مجید کی سورتوں کے بدلے میں اس عورت کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا ۔''اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ رضی اللہ عنہ لِاُمِّ حَکِیْمٍ بِنْتِ قَارِظٍ أَ تَجْعَلِیْنَ اَمْرَکِ اِلَیَّ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ ! فَقَالَ قَدْ تَزَوَّجْتُکِ۔ ذَکَرَہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ام حکیم بنت قارظ سے پوچھا ''کیا تو مجھے اپنے نکاح کے بارے میں اختیار دیتی ہے۔ ''ام حکیم نے کہا ''ہاں! '' حضرت عبدالرحمٰن نے کہا ''میں نے تجھے قبول کیا۔''(اور نکاح ہوگیا )اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
قَالَ عَطَائ رَحِمَہُ اللّٰہُ : لِیَشْہَدْ اَنِّیْ قَدْ نَکَحْتُکِ ۔ ذَکَرَہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عطا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مرد کو گواہوں کے سامنے یوں کہنا چاہیے ''میں نے تجھ سے نکاح کیا۔'' (یعنی تجھے قبول کیا )بخاری نے اس کا ذکر کیا ہے۔
دینداری میں کفو کا لحاظ رکھنا واجب و فرض ہے
حسب و نسب شکل و صورت اور مال و دولت میں کفو کا لحاظ رکھنا منع نہیں۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ (( تُنْکِحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِہَا ، وَلِحَسْبِہَا وَ لِجَمَالِہَا وَلِدِیْنِہَا فَاظْفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''عورت سے چار چیزوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال ودولت کی وجہ سے یا اس کے حسب و نسب کی وجہ سے یا اسکی خوبصورتی کی وجہ سے یا اس کی دینداری کی وجہ سے۔(اے انسان! )تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ،دیندار عورت سے نکاح کرنے میں کامیابی حاصل کر ۔''اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
نکاح کے لئے کم از کم دو پرہیز گار اور عادل گواہوں کی شہادت و گواہی ضروری ہے۔
عَنْ عِمْرَانِ بْنِ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لاَ یَحِلُّ نِکَاح اِلاَّ بِوَلِیٍّ وَ صِدَاقٍ وَ شَاہِدَیْ عَدْلٍ )) رَوَاہُ الْبَیْہَقِیُّ (صحیح)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ولی ،حق مہر اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : لاَ نِکَاحَ اِلاَّ بِبَیِّنَةٍ۔رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں'' گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔''اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
نکاح کے بعد کسی جائز طریقے سے نکاح کا اعلان کرنا چاہئے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ الدَّفُ وَالصَّوْتُ فِیْ النِّکَاحِ ۔رَوَاہُ النِّسَائِیُّ
حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''حلال اور حرام نکاح کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف بجانا اور اس کا اعلان کرنا ہے ۔''اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
شب عروسی بیوی کو ہدیہ دینا مستحب ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا تَزَوَّجَ عَلِیّ فَاطِمَةَ قَالَ لَہ رَسُوْلُ اللّٰہِا (( اَعْطِہَا شَیْئًا )) قَالَ : مَا عِنْدِیْ شَیْئ ، قَالَ (( أَیْنَ دِرْعُکَ الْحَطَمِیَّةُ؟ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ rسے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا ''علی ! فاطمہ کو کوئی چیز (ہدیہ )دو ۔''حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ''میرے پاس تو کوئی چیز نہیں ۔''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟'' (یعنی وہی دے دو)۔''اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
نکاح سے قبل طے کی گئی جائز شرائط پر نکاح کے بعد عمل کرنا واجب ہے۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَحَقُّ الشُّرُوْطِ اَنْ تُوْفُوْا بِہ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجِ )) مُتَّفَق عَلَیْہِ
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جن شرائط پر تم نے شرم گاہوں کو حلال بنایا ہے انہیں پورا کرنا دیگر شرائط کی نسبت زیادہ ضروری ہے ۔''اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
غیر شرعی اور ناجائز شرائط طے کرنا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((لاَ یُحِلُّ لِِمْرَأَةٍ تَسْأَلُ طَلاَقَ اُخْتِہَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَہَا فَاِنَّمَا لَہَا مَا قُدِّرَلَہَا )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ (اپنے نکاح کے لئے )اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے اور اس کا برتن خالی کر دے اس کی قسمت میں جو کچھ ہے وہ اسے مل جائے گا ۔''اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
حد استطاعت سے باہر پوری نہ کرنے کی نیت سے شرائط تسلیم کرنا یا کرواناحرام ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا''جس نے دھوکہ دیاوہ ہم میں سے نہیں۔''اسے ترمذی نے روایت کیاہے۔
بیٹی کو گھربنانے کے لئے سامان مہیا کرنا (جہیز دینا)سنت سے ثابت نہیں۔واللہ اعلم بالصواب!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اَلْوَلِیُّ فِی النِّکَاحِ​
نکاح میں ولی کی موجودگی

نکاح کے لئے ولی کی موجودگی ضروری ہے۔
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لاَ نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
اگر اقرب ولی ،لڑکی کا واقعی خیرخواہ نہ ہو تو اس کا حق ولایت از خود ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اقرب رشتہ دار ولی بننے کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔
اقرب ولی نہ ہونے پر ابعد ولی یا سلطان (قاضی یا حاکم مجاز )ولی ہو گا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ (( لاَ نِکَاحَ اِلاَّ بِإِذْنِ وَلِیٍّ مُرْشِدٍ اَوْ سُلْطَانٍ)) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’خیرخواہ ولی یا سلطان کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔‘‘اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : یادرہے غیر مسلم جج یا کافر ملک کی عدالت مسلمان عورت کی ولی نہیں بن سکتی۔
(ا) حُقُوْقُ الْوَلِیِّ​
ولی کے حقوق

عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی۔
ولی کو عورت کی مرضی کے خلاف جبراً کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔

{ وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْہَرُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ }(232:2)
’’جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو پھر انہیں اپنے (پچھلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہر گز نہ کرنا اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو ،تمہارے لئے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘(سورہ بقرہ ،آیت نمبر 232)
وضاحت : آیت مذکورہ میں نکاح کے لئے خطاب عورت کو نہیں کیا گیابلکہ ولی کو کیاگیاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت (کنواری ہویامطلقہ)ازخودنکاح نہیں کرسکتی۔
ولی کی اجازت ورضاکے بغیر کیاگیا نکاح سراسر باطل ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((اَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ اِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ، فَاِنْ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الْمَہْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا فَاِنِ اشْتَجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِیٌّ مَنْ لاَ وَلِیَّ لَہَا )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیّ(صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ ﷺ نے فرمایا ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا وہ نکاح باطل ہے وہ نکاح باطل ہے وہ نکاح باطل ہے( ۔پھر ناجائز نکاح کے بعد )اگر مرد نے ہمبستری کی تو اس پر مہر ادا کرنا فرض ہے جس کے عوض اس نے عورت کی شرمگاہ (اپنے لئے )حلال کرنا چاہی ۔اگر ولی آپس میں اختلاف کریں تو یاد رکھو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی بادشاہ ہے ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : 1عورت کا باپ اس کا ولی ہے باپ نہ ہو تو بھائی یا چچا یا دادا یا نانا یا ماموں ولی بن سکتے ہیں ۔یاد رہے اقرب کی موجودگی میں ابعد ولی نہیں بن سکتا۔
2اولیاء میں اختلاف کی صورت یہ ہے کہ ولایت کاپہلا حق رکھنے والا (خواہ باپ ہو یا بھائی یا چچا ہو)بے دین ہو یا ظالم ہو اور وہ زبردستی کسی بے دین یا فاسق و فاجر سے نکاح کرناچاہتا ہو جبکہ ولایت کا دوسرا یا تیسرا حق رکھنے والے اسے ایسا نہ کرنے دیں ،ایسی صورت میں ظالم یا بے دین ولی کا حق ولایت از خود ختم ہو جاتا ہے اور گائوں کی پنچایت یا شہر کا دیندار حاکم یا شہر کی عدالت اپنا حق ولایت استعمال کر سکتی ہے۔
کنواری اور بیوہ دونوں کے نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّا قَالَ ((اَلْأَیِمُّ اَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِیِّہَا وَ الْبِکْرُ تُسْتَأْذَنُ فِیْ نَفْہِسَا وَاِذْنُہَا صَمَاتُہَا )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’بیوہ عورت اپنے نکاح (کے تمام معاملات مثلاً مہر،جہیز،ولیمہ وغیرہ )میں (فیصلہ کرنے کا )اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے ۔جبکہ کنواری عورت سے (اس کے ولی کے ذریعہ )اجازت لی جائے اور کنواری کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : بیوہ کا بیٹا اس کا ولی بن سکتاہے۔
عورت کسی دوسری عورت کی ولی نہیں بن سکتی۔
ولی کے بغیر عورت از خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی۔
ولی کے بغیر نکاح کرنے والی عورت زانیہ ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لاَ تَزَوَّجُ الْمَرْأَۃُ الْمَرْأَۃَ وَ لاَ تَزَوَّجُ الْمَرْأَۃُ نَفْسَہَا فَاِنَّ الزَّانِیَۃَ ہِیَ الَّتِیْ تَزَوِّجُ نَفْسَہَا )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرائے نہ کوئی عورت اپنا نکاح (ولی کے بغیر )خود کرے جو عورت اپنا نکاح خود کرے گی وہ زانیہ ہے۔‘‘ اسے ابن ما جہ نے روایت کیا ہے۔
(ب) مَا یَجِبُ عَلَی الْوَلِیِّ​
ولی کے فرائض

ولی کو عورت کی مرضی کے خلاف جبراًکوئی فیصلہ نہیں کرناچاہئے۔
وضاحت : آیت مسئلہ نمبر66کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
کنواری یا بیوہ کے ولی کو ان کی اجازت اور رضا کے بغیر نکاح نہیں کرناچاہئے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ا اَنَّ النَّبِیَّ ا قَالَ (( لاَ تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتّٰی تُسْتَاْمَرَ وَ لاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَاْذَنَ )) قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ کَیْفَ اِذْنُہَا ؟ قَالَ ((اَنْ تَسْکُتَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا’’ بیوہ کا پوچھے بغیر نکاح نہ کیا جائے اور کنواری عورت سے اجازت لئے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ !کنواری عورت کی اجازت کیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ خاموش رہے (اور انکار نہ کرے )تو یہی اس کی اجازت ہے۔‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
ولی کو عورت کی مرضی کے خلاف نکاح کرنے کے لئے زبردستی نہیں کرنی چاہئے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( تُسْتَاْمَرُ الْیَتِیْمَۃُ فِیْ نَفْسِہَا فَاِنْ سَکَتَتْ فَہُوَ اِذْنُہَا وَ اِنْ اَبَتْ فَلاَ جَوَازَ عَلَیْہَا )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (حسن)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’کنواری عورت اپنے نکاح کے لئے پوچھی جائے گی اگر (جواب میں )خاموش رہے تو یہی اس کی اجازت ہے اگر انکار کر دے تو اس پر زبر دستی نہ کی جائے ۔‘‘اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : لڑکا یا لڑکی اگر ناسمجھی کے باعث کوئی غلط فیصلہ کر رہے ہیں تو ولی ان کو غلط فیصلہ کے برے نتائج سے آگاہ کر کے فیصلہ بدلنے پر آمادہ کر سکتا ہے لیکن زبردستی نکاح نہیں کر سکتا۔
عورت چاہے تو اپنی مرضی کے برعکس زبردستی کیا گیا نکاح عدالت سے منسوخ کرا سکتی ہے۔
عَنْ خُنَسَائَ بِنْتِ حَزَامٍ الْاَنْصَارِیَّۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ اَبَاہَا زَوَّجَہَا وَہِیَ ثَیِّبٌ فَکَرِہَتْ ذٰلِکَ فَأَتَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا فَرَدَّ نِکَاحَہَا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت خنساء بنت حزام انصاریہ rسے روایت ہے کہ وہ بیوہ تھی اور اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا جب کہ وہ اسے ناپسند کرتی تھی چنانچہ وہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی (اور اس کا ذکر کیا )رسول اکرم ﷺ نے باپ کا (پڑھایا ہوا )نکاح توڑ دیا ۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : اِنَّ جَارِیَۃً بِکْرٌ اَتَتِ النَّبِیَّ ا فَذَکَرَتْ اَنَّ اَبَاہَا زَوَّجَہَا وَہِیَ کَارِہَۃٌ فَخَیَّرَہَا النَبِیُّ ا ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے حالانکہ وہ اسے ناپسند کرتی ہے نبی اکرم ﷺ نے اسے اختیار دے دیا (یعنی چاہے تو نکاح باقی رکھو چاہے تو ختم کر دو )۔اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
مرد اور عورت رجعی طلاق کے بعد عدت گزرنے پر دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہوں تو ولی کو روکنا نہیں چاہئے۔
عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ ص قَالَ : کَانَتْ لِیْ اُخْتٌ تَخْطِبُ اِلَیَّ فَأَتَانِیْ ابْنُ عَمٍّ لِیْ ، فَانْکَحْتُہَا اِیَّاہُ ثُمَّ طَلَّقَہَا طَلاَ قًا لَہٗ رَجْعَۃٌ ، ثُمَّ تَرَکَہَا حَتّٰی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا ، فَلَمَّا خَطَبَتْ اِلَیَّ اَتَاْنِیْ یَخْطُبُہَا فَقُلْتُ : لاَ وَاللّٰہِ ! لاَ اُنْکِحُہَا اَبَدًا ، قَالَ : فَفِیَّ نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃ ُ{ وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ …} قَالَ : فَکَفَّرْتُ عَنْ یَمِیْنِیْ فَانْکَحْتُہَا اِیَّاہُ ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میری ایک بہن تھی جس کے لئے نکاح کا پیغام آیا ،پھر میرا چچازاد بھائی آیا تو میں نے اپنی بہن کا نکاح اس سے کر دیا (کچھ دیر بعد )اس نے میری بہن کو (رجعی) طلاق دے دی اور چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس کی عدت گزر گئی جب میری بہن کے لئے (کسی دوسری جگہ سے )پیغام نکاح آیا تو چچازاد بھائی بھی نکاح کا پیغام لے کر آ گیا تو میں نے کہا ’’واللہ اب میں کبھی بھی تمہارے ساتھ اس کا نکاح نہیں کروں گا۔‘‘تب میرے معاملے میں یہ آیت نازل ہوئی ’’جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو پھر تم انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ معروف طریقہ سے باہم رضامند ہوں۔‘‘(سورہ بقرہ ،آیت نمبر232) حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (آیت نازل ہونے کے بعد )میں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور اپنی بہن کا نکاح چچازاد بھائی سے (دوبارہ )کر دیا۔اسے ابو دائود نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اَلصِّدَاقُ​
حق مہر کے مسائل

بیوی کو حق مہر ادا کرنا فرض ہے۔
{ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً } (24:4)
’’ پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھائو اس کے بدلے میں ان کے مہر بطور فرض کے ادا کرو۔‘‘(سور ہ نساء ،آیت نمبر 24)
عورت اپنی خوشی سے سارا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔
{ آتُو النِّسَآئَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْئًا مَّرِیْئًا } (4:4)
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے)اداکرو،البتہ اگروہ اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیںمعاف کردیںتو تم اسے مزے سے کھاسکتے ہو۔‘‘(سورہ نسائ،آیت نمبر4)
فریقین کی باہمی رضامندی سے عورت کا حق مہر نکاح کے وقت ادا کرنا (مہر معجل )یا موخر کرنا (مہر مؤجل )دونوں جائز ہیں ۔
نکاح سے پہلے فریقین مہر طے نہ کر سکیں تو نکاح کے بعد بھی طے کیا جا سکتا ہے۔
نکاح کے بعد ،اگرصحبت کرنے سے پہلے جبکہ مہربھی ابھی ادانہ ہوا ہو، کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے تو اس پر مہرادا کرناواجب نہیںالبتہ اپنی استطاعت کے مطابق عورت کو کچھ نہ کچھ ہدیہ دینا چاہئے۔
نکاح کے بعد ،اگر صحبت کرنے سے پہلے جبکہ مہرطے ہو چکاہو،کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس پر نصف مہر اداکرنا واجب ہے۔

{ لاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ مَا لَمْ تَمَسُّوْہُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً ج وَ مَتِّعُوْہُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ مَتَاعًا م بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ¡ وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلاَّ اَنْ یَعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃَ النِّکَاحِ وَ اَنْ تَعْفُوْا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ لاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ } (237-236:2)
’’تم پر کوئی گناہ نہیں اگرتم اپنی عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے یا مہر مقررکرنے سے پہلے طلاق دے دو ،اس صورت میںانہیں کچھ نہ کچھ دینا ضرورچاہئے خوش حال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی استطاعت کے مطابق معروف طریقہ سے دے ۔یہ حق ہے نیک آدمیوں پر اور اگرتم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہولیکن حق مہرمقررکیاجاچکاہوتو اس صورت میں نصف حق مہردیناہوگایہ اور بات ہے کہ عورت درگزرسے کام لے(اور مہرنہ لے)یا وہ مردجس کے اختیار میںعقدنکاح ہے درگزرسے کام لے (اورپورامہردے )اور تم (یعنی مرد)درگزرسے کام لو تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہاہے۔‘‘(سورہ بقرہ،آیت نمبر237-236)
حق مہر کی مقدار مقررنہیں۔
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ص اَنَّ النَّبِیَّ ا قَالَ ((لِرَجُلٍ تَزَوَّجْ وَ لَوْ بِخَاتِمٍ مِنْ حَدِیْدٍ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا’’ نکاح کر خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی دے کر ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ رَحِمَہُ اللّٰہُ اَنَّہٗ قَالَ : سُئِلَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ ا کَمْ کَانَ صِدَاقُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا ؟ قَالَتْ : کَانَ صِدَاقُہٗ لِاَزْوَاجِہٖ اثْنَتَیْ عَشَرَۃَ اُوْقِیَۃً وَ نِشًّا قَالَتْ : أَ تَدْرِیْ مَا النِّشُّ ؟ قَالَ : قُلْتُ لاَ ! قَالَتْ : نِصْفُ اُوْقِیَۃٍ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَۃَ دِرْہَمٍ فَہٰذَا صِدَاقُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا لِاَزْوَاجِہٖ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ’’رسول اللہ ﷺ (کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا )کا حق مہر کیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بارہ اوقیہ اور ایک نش پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ’’جانتے ہو نش کتنا ہوتا ہے۔ ‘‘ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’نہیں!‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’نصف اوقیہ اور یہ سارا (یعنی ساڑھے بارہ اوقیہ )پانچ سو درہم بنتا ہے یہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کا حق مہر تھا ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی یا پانچ سو درہم موجودہ حساب سے ساڑھے دس ہزار روپے بنتا ہے۔
عَنْ اُمِّ حَبِیْبَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَانَتْ تَحْتَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ جَحْشٍص فَمَاتَ بِاَرْضِ الْحَبَشَۃِ فَزَوَّجَہَا النَّجَاشِیُّ النَّبِیَّ ا وَ أَمْہَرَہَا عَنْہُ اَرْبَعَۃَ آلاَفٍ وَ بَعَثَ بِہَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ مَعَ شَرَحْبِیْلِ ابْنِ حَسَنَۃَ ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا عبیداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں عبیداللہ (ہجرت مدینہ کے بعد )حبشہ میں فوت ہو گئے نجاشی نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نبی اکرم ﷺ سے نکاح کر دیا اور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے چار ہزار (درہم )مہر مقرر کیا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں روانہ کر دیا ۔اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
کم مہر مقرر کرنا افضل ہے
نبی اکرم ﷺ کی بیویوں اور بیٹیوں کا مہر بارہ اوقیہ(تقریباًدس ہزار روپے)تھا۔
عَنْ اَبِی الْعَجْفَائِ السَّلَمِیِّ ص قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرَ بْنُ الْخَطَّابِ ص فَقَالَ : أَلاَ لاَ تَغَالُوْا بِصُدُقِ النِّسَآئِ فَاِنَّہَا لَوْ کَانَتْ مَکْرَمَۃً فِی الدُّنْیَا أَوْ تَقْوِیَ عِنْدَ اللّٰہِ لَکَانَ اَوْلاَکُمْ بِہَا النَّبِیَّ ا مَا اَصْدَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا اِمْرَأَۃً مِنْ نِسَآئِ ہٖ وَ لاَ اَصْدَقَ امْرَأَۃً مِنْ بَنَاتِہٖ اَکْثَرُ مِنْ ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ اُوْقِیَۃً ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ
حضرت ابوعجفاء سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا’’ لوگو !سنو ،عورتوں کا مہر زیادہ مقرر نہ کرو اگر زیادہ مہر مقرر کرنا دنیا میں عزت کا باعث ہوتا اوراللہ کے ہاں تقوے کا موجب ہوتاتو نبی اکرم ﷺ ایسا کرنے کے سب سے زیادہ حقدار تھے نبی اکرمﷺنے اپنی بیویوں کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا نہ ہی اپنی بیٹیوں کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر فرمایا ۔‘‘اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((خَیْرُ النِّکَاحِ اَیْسَرُہٗ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا’’(حق مہرکے اعتبار سے) بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو۔‘‘اسے ابوداؤد نے روایت کیاہے۔
مہر کے لئے کوئی چیز بھی مقرر کی جا سکتی ہے حتیٰ کہ مرد کا اسلام قبول کرنایا عورت کو کتاب و سنت کی تعلیم دینا یا اسے آزاد کرنا بھی مہر مقرر کیا جا سکتا ہے۔
عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ : تَزَوَّجَ اَبُوْ طَلْحَۃَ اُمَّ سُلَیْمٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فَکَانَ صِدَاقُ مَا بَیْنَہُمَا الْاِسْلاَمُ ، اَسْلَمَتْ اُمُّ سُلَیْمٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَبْلَ اَبِیْ طَلْحَۃَ ص فَخَطَبَہَا فَقَالَتْ : اِنْی قَدْ اَسْلَمْتُ فَاِنْ اَسْلَمْتَ نَکَحْتُکَ فَأَسْلَمَ فَکَانَ صِدَاقُ مَا بَیْنَہُمَا۔ رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا تو ان کا مہر اسلام تھا حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام لائیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پیغام نکاح بھیجا تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا میں اسلام لا چکی ہوں اگر تم بھی اسلام لے آئو تو میں تم سے نکاح کر لوں گی چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے اور اسلام ہی ان دونوں کے درمیان حق مہر تھا ۔اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : دوسری حدیث مسئلہ نمبر52کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
اگر شوہر نکاح کے بعد اور ہمبستری سے پہلے فوت ہو جائے تو عورت پورے حق مہر کی مستحق ہو گی اور وراثت سے بھی اسے پورا حصہ ملے گا۔
حق مہر نکاح کے وقت ادا کرنا ضروری نہیں۔
نکاح کے وقت فریقین حق مہر طے نہ کر سکیں تو نکاح کے بعد بھی طے کیا جا سکتا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ) ص فِیْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً فَمَاتَ عَنْہَا وَ لَمْ یَدْخُلْ بِہَا وَ لَمْ یَفْرِضْ لَہَا الصِّدَاقَ ۔ فَقَالَ : لَہَا الصِّدَاقُ کَامِلاً وَ عَلَیْہَا الْعِدَّۃُ وَ لَہَا الْمِیْرَاثُ ، فَقَالَ مَعْقِلُ بْنُ سَنَانٍص : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَضٰی بِہٖ فِیْ بِرْوَعِ بِنْتِ وَاشِقٍ ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کیا اور مر گیا۔ عورت سے ہمبستری کی نہ حق مہر طے کیا ۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ عورت کے لئے پورا حق مہر ہے اس پر عدت (گزارنا بھی واجب )ہے اور وراثت میں بھی اس کا حصہ ہے۔ حضرت معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺکو بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرماتے ہوئے سنا ہے ۔اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
بتیس (32)روپے حق مہر مقرر کرنا سنت سے ثابت نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
خُطْبَۃُ النِّکَاحِ​
خطبہ نکاح کے مسائل

نکاح کے وقت درج ذیل خطبہ پڑھنا مسنون ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ) ص قَالَ عَلَّمْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ا خُطْبَۃَ الْحَاجَۃِ ((اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نَعُوْذُ بِہٖ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا مَنْ یَہْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہٗ ، وَ مَنْ یُضْلِلْ فَلاَ ہَادِیَ لَہٗ ، وَ اَشْہَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا وَ رَسُوْلُہٗ { یٰـٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَ خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَ بَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامُ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ¡} {یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ¡} { یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا یُصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا¡ })) رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤٗدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَالدَّارِمِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ )کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ہمیں (درج ذیل)خطبہ حاجت سکھایا’’بے شک حمد اللہ ہی کے لئے ہے ہم اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ،اسی سے مغفرت چاہتے ہیں اپنے نفس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ،محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو ڈرو اس اللہ سے جس کے نام سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور ڈرو رحم کے رشتے توڑنے سے بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر نگہبان ہے۔‘‘(سورہ نساء ،آیت نمبر1)’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ڈرو اللہ سے جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اس کے مطیع و فرماں بردار ہو۔‘‘(سورہ آل عمران ،آیت نمبر 102 )’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ڈرو اللہ سے اور بات سیدھی سیدھی کہو ،اس طرح وہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دے گا ،تمہارے گناہ معاف کر دے گا ،جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘(سورہ احزاب ،آیت نمبر71-70) اسے احمد،ابو دائود، ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اَلْوَلِیْمَۃُ​
ولیمہ کے مسائل

ولیمہ کی دعوت کرنا سنت ہے۔
عَنْ اَنَسٍ ص اَنَّ النَّبِیَّ ا رَآیَ عَلٰی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ ص اَثَرَ صُفْرَۃٍ قَالَ ((مَا ہٰذَا ؟)) قَالَ : اِنِّیْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً عَلٰی وَزْنِ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ ، قَالَ ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ اُوْلِمْ وَ لَوْ بِشَاۃٍ )) مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (کے کپڑوں پر )زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا’’یہ کیا ہے؟ ‘‘حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’میں نے ایک نوات سونے کے بدلے عورت سے شادی کی ہے ۔‘‘آپ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تجھے برکت دے ولیمہ کر خواہ ایک بکری سے ہی ہو ۔‘‘اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : نوا ۃکی مقدارتقریباً3گرام کے برابر ہے۔
دعوت ولیمہ کو قبول کرنا واجب ہے۔
عَنْ جَابِرٍ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِذَا دُعِیَ اَحَدُکُمْ اِلٰی طَعَامٍ فَلْیَجِبْ فَاِنْ شَائَ طَعِمَ وَ اِنْ شَائَ تَرَکَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرے ،چاہے تو کھانا کھائے چاہے نہ کھائے ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
جس دعوت ولیمہ میں عام آدمیوں کو نہ بلایا جائے خواص کی دعوت کی جائے وہ بدترین ولیمہ ہے۔
بلا عذر دعوت قبول نہ کرنے والا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نافرمان ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص اَنَّ النَّبِیَّ ا قَالَ ((شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِیْمَۃِ یُمْنَعُہَا مَنْ یَاْتِیْہَا وَ یُدْعٰی اِلَیْہَا مِنْ بَابِہَا وَ مَنْ لَمْ یُجِبِ الدَّعْوَۃِ فَقَدَ عَصَی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلَہٗ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ولیمہ کے کھانوں میں سے سب سے بدترین کھانا وہ ہے جس میں آنے کے خواہشمندوںکو نہ بلایا جائے اور انکار کرنے والوں کو بلایا جائے اور جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے گویا اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
جس دعوت میں حرام کام (ناچ گانا وغیرہ)یا حرام اشیاء (مثلاً شراب وغیرہ )کا اہتمام کیا گیا ہو اس میں شرکت کرنا منع ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ فَلاَ یَقْعُدُ عَلٰی مَائِدَۃٍ یُدَارُ عَلَیْہَا الْخَمْرُ)) رَوَاہُ اَحْمَدُ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب رکھی گئی ہو ۔‘‘اسے احمد نے روایت کیا ہے۔
دَعَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَبَا اَیُّوْبَ فَرَاٰی فِی الْبَیْتِ سِتْرًا عَلَی الْجِدَارِ فَقَالَ ابِنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا غَلَبَنَا عَلَیْہِ النِّسَآئُ مَنْ کُنْتُ اَخْشٰی عَلَیْہِ فَلَمْ اَکُنْ اَخْشٰی عَلَیْکَ وَاللّٰہِ لاَ اَطْعَمُ لَکُمْ طَعَامًا فَرَجَعَ ۔ ذَکَرَہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو کھانے کی دعوت پر بلایا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے گھر میں دیوار پر تصویر والا پردہ دیکھا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’عورتوں نے ہمیں (یہ پردہ لگانے پر )مجبور کر دیا‘‘ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ’’مجھے خدشہ تھا شاید یہ کوئی دوسرا شخص ایسا کام کرے گا لیکن تم سے یہ توقع نہ تھی واللہ !میں تمہارا کھانا نہیں کھائوں گا‘‘ اور (یہ کہہ کر کھانا کھائے بغیر )واپس پلٹ گئے ۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
ریا،تکبر ،فخر اور بڑائی ظاہر کرنے والے لوگوں کی دعوت میں شرکت کرنا منع ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : اَنَّ النَّبِیَّ ا نَہٰی عَنِ الطَّعَامِ الْمُتَبَارِیِیّـْنَ اَنْ یُؤْکَلَ ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں’’ نبی اکرم ﷺ نے باہم فخر جتلانے والوں کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اَلنَّظْرُ اِلَی الْمَخْطُوْبَۃِ​
منگیتر کو دیکھنے کے مسائل


نکاح سے قبل منگیتر کو دیکھنا جائزہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِذَا خَطَبَ اَحَدُکُمُ الْمَرْأَۃَ فَاِنِ اسْتَطَاعَ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی مَا یَدْعُوْہُ اِلٰی نِکَاحِہَا فَلْیَفْعَلْ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (حسن)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی شخص عورت سے نکاح کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو عورت کو ایک نظر دیکھ لے ۔‘‘اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
گھر کی روز مرہ زندگی میں آپ سے آپ ظاہر ہونے والے اعضاء یعنی ہاتھ اور چہرہ کے علاوہ منگیتر کے باقی کسی حصہ کو دیکھنا یا دکھانا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ النَّبِیِّ ا فَاَتَاہُ رَجُلٌ فَاَخْبَرَہٗ اَنَّہٗ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً مِنَ الْاَنْصَارِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((أَ نَظَرْتَ اِلَیْہَا؟)) فَقَالَ : لاَ ، قَالَ ((فَاذْہَبْ فَانْظُرْ فَاِنَّ فِیْ اَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْئًا )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی میری موجودگی میں نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو بتایا کہ اس نے انصار کی ایک عورت سے نکاح کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’کیا تو نے اسے دیکھاہے؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’نہیں !‘‘ تو آپﷺنے فرمایا ’’جا اور اسے دیکھ انصار کی عورتوں میں کچھ (نقص )ہوتا ہے ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
غیرمحرم عورت( منگیتر)سے تنہائی میں ملاقات کرنا، گفتگو کرنا یا پاس بیٹھنا منع ہے۔
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ (( اِیَّاکُمْ وَالدَّخُوْلَ عَلَی النِّسَائِ)) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ ((أَلْحَمْوُ الْمَوْتُ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’عورتوں کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کرنے سے باز رہو ۔‘‘ایک انصاری نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! دیور (یا جیٹھ )کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا ’’وہ موت ہے ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : عربی زبان میں ’’حمو ‘‘کا لفظ شوہر کے تمام قریبی اعزہ کے لئے بولا جاتا ہے ۔جیسا کہ شوہر کے حقیقی بھائی ،چچازاد بھائی ، ماموں زاد بھائی وغیرہ۔
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍص قَالَ : لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ اِلاَّ کَانَ ثَالِثَہُمَا الشَّیْطَانُ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ جمع نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
غیر محرم عورت(منگیتر)سے ہاتھ ملانامنع ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : مَا مَسَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا بِیَدِہِ امْرَأَۃً قَطُّ اِلاَّ اَنْ یَاْخُذُ عَلَیْہَا فَاِذَا اَخَذَ عَلَیْہَا فَأَعْطَتْہُ ، قَالَ (( اِذْہَبِیْ فَقَدْ بَایَعْتُکِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ مبارک کبھی کسی عورت سے نہیں لگا البتہ آپ زبان سے عورتوں سے بات کرتے جب عورتیں زبان سے (قبول اسلام کا )قول واقرار کر لیتیں تو آپ ﷺ فرماتے ’’جائو میں نے تم سے بیعت لے لی ہے ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
جب عورت بناؤ سنگھار کرکے بے پردہ مردوں کے سامنے آتی ہے تو شیطان کے لئے فتنہ پیداکرنا آسان ہوجاتاہے۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ) ص عَنِ النَّبِِیِّ ا قَالَ : اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ فَاِذَا خَرَجَتْ اِسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’عورت (پوری کی پوری )ستر ہے جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اسے اچھا (حسین و جمیل )کر کے دکھاتا ہے ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مُبَاحَاتُ النِّکَاحِ​
نکاح میں جائز امور

عید کے مہینوں میں نکاح کرنا جائز ہے۔
نکاح اور رخصتی الگ الگ کرنا جائز ہے۔

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : تَزَوَّجَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا فِیْ شَوَّالٍ وَ بَنٰی بِیْ فِیْ شَوَّالٍ فَأَیُّ نِسَآئِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا کَانَ أَحْظٰی عِنْدَہٗ مِنِّیْ قَالَ وَکَانَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نَسْتَحِبُّ اَنْ تُدْخِلَ نِسَآئَ ہَا فِیْ شَوَّالٍ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی اکرم ﷺ نے میرے ساتھ شوال کے مہینہ میں نکاح کیا اور شوال کے مہینہ میں میرے ساتھ صحبت کی (یعنی رخصتی ہوئی )اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج رضی اللہ عنہا میں سے کون سی مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ ان کے قبیلہ کی عورتوں کی شادی شوال میں ہی ہو ۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
بلوغت سے قبل بیٹی کا نکاح کرنا جائز ہے۔
بڑی عمر کے آدمی کا چھوٹی عمر کی عورت سے یا چھوٹی عمر کے مرد کا بڑی عمر کی عورت سے نکاح کرنا جائز ہے۔

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ ا تَزَوَّجَہَا وَ ہِیَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَ زُفَّتْ اِلَیْہِ وَ ہِیَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِیْنَ وَ لُعَبُہَا مَعَہَا وَ مَاتَ عَنْہَا وَہِیَ بِنْتُ ثَمَانِ عَشْرَۃَ ۔رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے نکاح کیا جب وہ سات برس کی تھیں اور صحبت کی جب وہ نو برس کی تھیں اور (رخصتی کے وقت )ان کی گڑیاں ان کے ساتھ تھیں ۔جب رسول اکرم ﷺ کی وفات ہوئی اس وقت وہ اٹھارہ برس کی تھیں ۔اسے مسلم نے روایت کیاہے۔
وضاحت : یاد رہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے وقت رسول اکرم ﷺ کی عمر مبارک 54 برس تھی۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مَمْنُوْعَاتُ فِی النِّکَاحِ​
نکاح میں ممنوع امور

جس عورت کو نکاح کا پیغام دیا گیا اوراس نے اسے قبول کر لیا ہوتو اسے کسی دوسرے شخص کی طرف سے نکاح کا پیغام بھجوانا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( لاَ یَبِیْعُ الرَّجُلُ عَلَی بَیْعِ اَخِیْہِ ، وَلاَ یَخْطُبُ عَلٰی خِطْبَۃِ اَخِیْہِ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کوئی شخص اپنے بھائی کی فروخت شدہ چیز پر اپنی چیز نہ بیچے اور کوئی شخص ایسی عورت کو نکاح کا پیغام نہ بھیجے جسے کسی دوسرے شخص نے نکاح کا پیغام بھیجا ہو اوراس نے اسے قبول کر لیا ہو ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
حالت احرام میں نکاح کرنا یا نکاح کروانا یا نکاح کا پیغام بھجوانا منع ہے۔
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لاَ یَنْکِحُ الْمُحْرِمُ وَ لاَ یُنْکَحُ وَ لاَ یَخْطُبُ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’محرم نکاح کرے نہ نکاح کروایا جائے اور نہ ہی نکاح کا پیغام بھیجے ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
 
Top