• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کے مسائل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حُقُوْقُ الزَّوْجَۃِ​
بیوی کے حقوق

نان و نفقہ عورت کا حق ہے جسے برضا و رغبت ادا کرنا مرد پر واجب ہے۔
عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ عَنْ اَبِیْہِ ص اَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ ا مَا حَقُّ الْمَرْأَۃِ عَلَی الزَّوْجِ ؟ قَالَ (( اَنْ یَطْعَمَہَا اِذَا طَعِمَ وَ اَنْ یَکْسُوَہَا اِذَا اکْتَسٰی وَ لاَ یَضْرِبُ الْوَجْہَ وَ لاَ یُقَبِّحُ وَ لاَ یَہْجُرُ اِلاَّ فِی الْبَیْتِ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت حکیم بن معاویہ اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا ’’بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب تو خود کھائے تو اسے بھی کھلائے جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے ،چہرے پر نہ مارے ،گالی نہ دے( ،کبھی الگ کرنے کی ضرورت پڑے تو) اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ الگ نہ کرے۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
مہر عورت کا حق ہے جسے ادا کرنا شوہر کے ذمہ واجب ہے۔
وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر 77 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
والدین کے بعد سب سے زیادہ حسن سلوک کی حقدار بیوی ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلْقًا وَ خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِہِمْ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ایمان کے لحاظ سے کامل مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے اور تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لئے بہتر ہو۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( دِیْنَارٌ اَنْفَقْتَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ دِیْنَارٌ اَنْفَقْتَہٗ فِیْ رَقَبَۃٍ وَ دِیْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِہٖ عَلٰی مِسْکِیْنٍ وَ دِیْنَارٌ اَنْفَقْتَہٗ عَلٰی اَہْلِکَ ، اَعْظَمُہَا اَجْرًا اَلَّذِیْ اَنْفَقْتَہٗ عَلٰی اَہْلِکَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ (اگر!)ایک دینار تم نے اللہ کی راہ میں دیا ایک غلام آزاد کروانے میں دیا ایک دینار مسکین کو دیا اور ایک اپنے گھر والوں پر خرچ کیا ،ان سب میں سے ثواب کے اعتبار سے گھروالوں پر خرچ کیا گیا دینار سب سے افضل ہے۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ اُمَیَّۃَ الضَّمَرِیِّص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((مَا اَعْطَی الرَّجُلُ اِمْرَأَتَہٗ فَہُوَ صَدَقَۃٌ )) رَوَاہُ اَحْمَدُ (صحیح)
حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہﷺنے فرمایا’’شوہربیوی پر جوخرچ کرتاہے وہ بھی صدقہ ہے۔‘‘اسے احمد نے روایت کیاہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( لاَ یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَۃً اِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کوئی مومن شخص کسی مومن عورت سے بد گمانی نہ کرے اگر عورت کی ایک عادت ناپسند ہو گی تو کوئی دوسری عادت پسند بھی ہو گی۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَمْعَۃَ ص قَالَ : لاَ یَجْلِدْ اَحَدُکُمُ امْرَأَتَہٗ جِلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’کوئی آدمی اپنی بیوی کو لونڈی کی طرح نہ مارے اور پھر رات کو اس سے ہمبستری کرنے لگے۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
عورت کے جنسی حقوق ادا کرنا مرد پر واجب ہے۔
عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ رَحِمَہُ اللّٰہُ یَقُوْلُ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ اَبِیْ وَقَّاصٍص یَقُوْلُ : رَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا عَلٰی عُثْمَانَ ابْنِ مَظْعُوْنَ ص اَلتَّبَتُّلَ وَ لَوْ اَذِنَ لَہٗ لَاَخْتَصَیْنَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’رسول اکرم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو عورتوں سے الگ رہنے کی اجازت نہ دی اگر آپ ﷺ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دیتے تو ہم (کوئی دوا وغیرہ کھا کر)اپنے آپ کو نامرد کر لیتے۔‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : اس بارے میں مزید احکام جاننے کے لئے کتاب الطلاق میں ایلاء کے مسائل مسئلہ نمبر 127تا132کا ملاحظہ فرمائیں ۔
بیوی کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینا اور اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کرتے رہنا مرد پر واجب ہے۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ص اَنَّ النَّبِیَّ ا قَالَ ((اَنْفِقْ عَلٰی عَیَالِکَ مِنْ طَوْلِکَ وَ لاَ تَرْفَعْ عَنْہُمْ عَصَاکَ اَدَبًا وَ اَخْفِہِمْ فِی اللّٰہِ)) رَوَاہُ اَحْمَدُ
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو اور انہیں تعلیم دینے کے لئے چھڑی سے بے نیاز نہ رہو اور انہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتے رہو۔‘‘اسے احمد نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ص فِیْ قَوْلِہٖ عَزَّوَجَلَّ { قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا(6:66)} قَالَ : عَلِّمُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمُ الْخَیْرَ۔ رَوَاہُ الْحَاکِمُ
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد’’اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘(سور ہ تحریم، آیت نمبر6)کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خیر اور بھلائی کی باتیں خود بھی سیکھو اور اپنے اہل و عیال کو بھی سکھلائو ۔‘‘اسے حاکم نے روایت کیا ہے۔
بیوی کی عزت اور ناموس کی حفاظت کرنا مرد پر واجب ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((ثَلاَ ثَۃٌ لاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اَلْعَاقُ لِوَالِدَیْہِ وَالدَّیُّوْثُ وَ رَجْلَۃُ النِّسَائِ )) رَوَاہُ الْحَاکِمُ وَالْبَیْہَقِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عن کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے1والدین کا نافرمان2دیوث3عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مرد۔‘‘اسے حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : دیوث اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بیوی کے پاس غیرمحرم مرد آئیں اور اسے غیرت محسوس نہ ہو۔
قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ ص لَوْ رَأَیْتُ رَجُلاً مَعَ اِمْرَأَتِیْ لَضَرَبْتُہٗ بِالسَّیْفِ غَیْرَ مُصْفِحٍ ، فَقَالَ النَّبِیُّ ا ((أَ تَعْجَبُوْنَ مِنْ غَیْرَۃِ سَعْدٍص ؟ لَاَنَا اَغْیَرُ مِنْہُ وَ اللّٰہُ اَغْیَرُ مِنِّیْ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اگر میں اپنی بیوی کو کسی غیر محرم کے ساتھ دیکھ لوں تو تلوار کی دھار سے اس کی گردن اڑا دوں۔‘‘نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’کیا تم لوگ سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ (یعنی وہ بہت غیرت مند انسان ہے )لیکن میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہیں (اور اللہ تعالیٰ )کوئی حرام کام پسند نہیں کرتے ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان عدل کرنا مرد پر واجب ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ((مَنْ کَانَتْ لَہٗ اِمْرَأَتَانِ فَمَالَ اِلٰی اِحْدَاہُمَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ شِقُّہٗ مَائِلٌ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف جھک جائے (یعنی دونوں میں عدل سے کام نہ لے )وہ قیامت کے روز اس حال میں (قبر سے اٹھ کر )آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گرا ہوا (یعنی فالج زدہ )ہو گا۔‘‘اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
أَلْحُقُوْقُ الْمُشْتَرَکَۃُ بَیْنَ الزَّوْجَیْنِ​
میاں بیوی کے ایک دوسرے پر مشترک حقوق

خیر اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کو تاکید کرتے رہنا دونوں پر واجب ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلاً قَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلّٰی وَ اَیْقَظَ اِمْرَأَتَہٗ فَصَلَّتْ فَاِنْ اَبَتْ رَشَّ فِیْ وَجْہِہَا الْمَائَ ، رَحِمَ اللّٰہُ اِمْرَأَۃً قَامَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّتْ وَ اَیْقَظَتْ زَوْجَہَا فَصَلّٰی فَاِنْ اَبٰی رَشَّتْ فِیْ وَجْہِہِ الْمَائَ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اس مرد پر اللہ رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نوافل ادا کرے اپنی بیوی کو جگائے اور وہ بھی نوافل ادا کرے اور اگر بیوی اٹھنے میں سستی کرے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑک کر اسے جگائے ۔اللہ رحم فرمائے اس عورت پر جو رات کے وقت اٹھے اور نفل پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے اور وہ بھی نفل پڑھے اور اگر شوہر اٹھنے میں سستی کرے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑک کر اسے جگائے۔‘‘اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
ازدواجی زندگی کے راز افشا نہ کرنا دونوں پر واجب ہے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( اِنَّ مِنْ اَشِرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الرَّجُلُ یُفْضِیْ اِلٰی اِمْرَأَتِہٖ وَ تُفْضِیْ اِلَیْہِ ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّہَا)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ برا شخص وہ ہو گا ،جو اپنی بیوی کے پاس جائے اور بیوی اس کے پاس آئے اور پھر وہ اپنی بیوی کی راز کی باتیں لوگوں کو بتائے۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا دونوں پر واجب ہیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ، وَالْاَمِیْرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَہْلِ بَیْتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَ وَلَدِہٖ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر حاکم ہے پس ہر شخص حاکم ہے اور اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اِسْلاَمُ اَحَدِ الزَّوْجَیْنِ

غیر مسلم میاں،بیوی میں سے کسی ایک کا مسلمان ہونا

کافر میاں بیوی میں سے جب کوئی ایک فریق مسلمان ہو جائے تو ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے مسلمان عورت کافر شوہر کے لئے حلال نہیں رہتی اور مسلمان مرد کے لئے کافر عورت حلال نہیں رہتی۔
جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دارالکفرسے دار الاسلام میں ہجرت کر آئے اس کا نکاح اپنے آپ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ جب چاہے عدت گزارے بغیر دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
دارالکفر سے آنے والی منکوحہ عورتیں جو مسلمان ہو کر آئیں ،اسلامی حکومت کو ان عورتوں کے مہر کافر شوہروں کو واپس کرنے چاہئیں اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں جو دارالکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار سے واپس لینے چاہیں۔

{ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ ط اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ ج فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ ط لاَ ہُنَّ حِلٌّ لَہُمْ وَ لاَ ہُمْ یُحِلُّوْنَ لَہُنَّ وَ اٰتُوْہُمْ مَا اَنْفَقُوْا ط وَ لاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ط وَ لاَ تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَاسْئَلُوْا مَا اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَا اَنْفَقُوْا ط ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِ ط یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ،}(10:60)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی )جانچ پڑتال کرو اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ جانتا ہے ،پھر جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو ،نہ وہ کفار کے لئے حلال ہیں نہ کفار ان کے لئے حلال ہیں۔ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دئیے تھے وہ انہیں واپس کر دو اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ تم ان کو ان کے مہر ادا کر دو تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رکھو اور جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دئیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی بیویوں کو (جو مسلمان ہو چکی ہیں) کو دئیے انہیں وہ واپس مانگ لیں یہ اللہ کا حکم ہے وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔‘‘ (سورہ الممتحنہ،آیت نمبر 10)
وضاحت :1دار الکفر سے آنے والی مسلمان خواتین کو نکاح کے وقت اس مہر سے الگ مہر ادا کرنا ہو گا جو اسلامی حکومت دارالکفر کے کافر شوہروں کو واپس کرے گی۔
2اگر مسلمان ہونے والے شوہر کی بیوی عیسائی یا یہودی (یعنی اہل کتاب میں سے )ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے تب بھی میاں بیوی کا نکاح باقی رہے گا۔
مشرک یا کافر میاں بیوی بیک وقت دونوں مسلمان ہو جائیں یا آگے پیچھے کچھ وقفے سے مسلمان ہوں تو ان کا ازدواجی تعلق ایام جاہلیت کے نکاح پر ہی قائم رہتا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا رَدَّ اِبْنَتَہٗ عَلٰی اَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیْعِ بَعْدَ سَنَتَیْنِ بِنِکَاحِہَا الْاَوَّلِ ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی (حضرت زینب رضی اللہ عنہا ) کو (ان کے شوہر )حضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس دو سال کے بعد (جب وہ مسلمان ہوئے) پہلے نکاح کی بنیاد پر ہی واپس لوٹایا ۔اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
أَلنِّکَاحُ الثَّانِیْ

نکاح ثانی کے مسائل

بیک وقت زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔
چار بیویوں کی اجازت عدل کے ساتھ مشروط ہے ،عدل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہ ہوتو پھر صرف ایک بیوی رکھنے کا حکم ہے۔

{ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَلاَّ تَعُوْلُوْا} (3:4)
’’اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ،تین تین یا چار چار سے نکاح کرو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان لونڈیوں پرقناعت کرو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں یہ زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ تم ناانصافی نہ کرو۔‘‘(سورہ نساء ،آیت نمبر3)
کنواری عورت کے ساتھ دوسرا نکاح کیا ہو تو اس کے ساتھ مسلسل سات دن رات رہنے کی اجازت ہے اس کے بعد دونوں کی مساوی باری مقرر کرنی چاہئے۔
بیوہ عورت سے دوسرا نکاح کیا ہو تو اس کے پاس مسلسل تین دن رات رہنے کی اجازت ہے اس کے بعد دونوں کی مساوی باری مقرر کرنی چاہئے۔

عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ : مِنَ السُّنَّۃِ اِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِکْرَ عَلَی الثَّیِّبِ اَقَامَ عِنْدَہَا سَبْعًا وَ قَسَمَ وَ اِذَا تَزَوَّجَ الثَّیِّبَ عَلَی الْبِکْرِ اَقَامَ عِنْدَہَا ثَلاَ ثًا ثُمَّ قَسَمَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سنت یہ ہے کہ جب آدمی بیوہ سے نکاح کرنے کے بعد (اس کی موجودگی میں )کنواری سے نکاح کرے تو کنواری کے پاس مسلسل سات دن رات رہے اور پھر باری مقرر کرے اور جب کنواری کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح بیوہ سے کرے تو اس کے پاس مسلسل تین دن رات قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے ۔بخاری نے روایت کیا ہے۔
اپنی سوکن کو جلانے کے لئے کوئی ایسی بات کہنا جو خلاف حقیقت ہو جائز نہیں۔
عَنْ اَسْمَائَ (بِنْتِ اَبِیْ بَکْرٍ ) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا اِنَّ لِیْ ضَرَّۃً فَہَلْ عَلَیَّ جُنَاحٌ اَنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِیْ غَیْرَ الَّذِیْ یُعْطِیْنِیْ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((أَلْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ یُعْطِ کَلاَ بِسِ ثَوْبِیْ زُوْرٍ)) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’میری ایک سوکن ہے اگر میں اس کا دل جلانے کے لئے جھوٹ موٹ کہوں کہ میرے خاوند نے مجھے فلاں فلاں چیزیں دیں ہیں؟‘‘ تو کیا مجھ پر گناہ ہو گاآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جوشخص ایسی چیزیں ملنے کا دعوی کرے جو درحقیقت اسے نہیں ملیں وہ شخص جھوٹ کا لباس اوڑھنے والا ہے۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
اگر ایک بیوی باہمی افہام و تفہیم کی خاطر از خود اپنا کوئی حق شوہر کو معاف کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ سَوْدَۃَ بِنْتِ زَمْعَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَہَبَتْ یَوْمَہَا لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَ کَانَ النَّبِیُّ ا یُقْسِمُ لِعَائِشَۃَ بِیَوْمِہَا وَ یَوْمِ سَوْدَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا تھا چنانچہ نبی اکرم ﷺحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا دونوں کی باری کا دن قیام فرماتے ۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
مساویانہ حقوق والے معاملہ میں کسی ایک بیوی کے حق میں فیصلہ کرنا مشکل ہو تو تمام بیویوں کی رضامندی سے بذریعہ قرعہ فیصلہ کرنا چاہئے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ ا کَانَ اِذَا اَرَادَ سَفْرًا اَقْرَعَ بَیْنَ نِسَائِہٖ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تواپنی بیویوں کے درمیان (کسی ایک کو ساتھ لے جانے کے لئے )قرعہ ڈالتے۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
کسی ایک بیوی کے ساتھ زیادہ محبت ہونا قابل مذمت نہیں جب تک تمام بیویوں کے باقی حقوق (مثلًا رہناسہنا ،کھانا، پہنانا، خرچ دینا ، مقررہ باری پر قیام کرنا وغیرہ )مساویانہ طریقے سے ادا ہوتے رہیں۔
عَنْ عُمَرَص دَخَلَ عَلٰی حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فَقَالَ : یَا بُنَیَّۃُ ! لاَ یَغُرَّنَّکِ ہٰذِہِ الَّتِیْ اَعْجَبَہَا حُسْنُہَا وَ حُبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا اِیَّاہَا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (اپنی بیٹی اور ام المومنین )حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا ’’اے میری بیٹی!اس خاتون (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے بارے میں بھول میں نہ رہنا جسے اپنے حسن و جمال اور رسول اکرم ﷺ کی محبت پر فخر ہے۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
نکاح ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینا سنت سے ثابت نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ​
تمہارے لئے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے

رسول اکرم ﷺ اور ازواج مطہرات کے باہمی پیار و محبت کا ایک دلچسپ واقعہ۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ ا کَانَ اِذَا خَرَجَ اَقْرَعَ بَیْنَ نِسَائِہٖ فَطَارَتِ الْقُرْعَۃُ لِعَائِشَۃَ وَ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَ کَانَ النَّبِیُّ ا اِذَا کَانَ بِاللَّیْلِ سَارَ مَعَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا یَتَحَدَّثُ ، فَقَالَتْ حَفْصَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا : اَلاَ تَرْکَبِیْنَ اللَّّیْلَۃَ بَعِیْرِیْ وَ اَرْکَبُ بَعِیْرَکِ تَنْظُرِیْنَ وَ اَنْظُرُ ، فَقَالَتْ : بَلٰی ، فَرَکِبَتْ ، فَجَائَ النَّبِیُّ ا اِلٰی جَمَلِ عَائِشَۃَ وَ عَلَیْہِ حَفْصَۃُ ، فَسَلَّمَ عَلَیْہَا ثُمَّ سَارَ حَتّٰی نَزَلُوْا وَ افْتَقَدَتْہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، فَلَمَّا نَزَلُوْا جَعَلَتْ رِجْلَیْہَا بَیْنَ الْإِذْخِرِ وَ تَقُوْلُ : یَا رَبِّ ! سَلِّطْ عَلَیَّ عَقْرَبًا اَوْ حَیَّۃً تَلْدَغُنِیْ ، وَ لاَ اَسْتَطِیْعُ اَنْ اَقُوْلَ لَہٗ شَیْئًا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہھم میں قرعہ ڈالتے ایک بار قرعہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا دونوں کا نام نکلا (تو دونوں ساتھ ہو گئیں )دوران سفر رسول اکرم ﷺ (کا معمول مبارک تھا کہ )رات کے وقت چلتے چلتے(زوجہ محترمہ سے)باتیں کیا کرتے (اس سفر میں )حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے (از راہ مذاق )کہا ’’آج رات تم میرے اونٹ پر سوار ہو جائو اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہو جاتی ہوں ذرا تم بھی دیکھو (کیا ہوتا ہے )اور میں بھی دیکھتی ہوں ،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ رسول اکرم ﷺ رات کے وقت (حسب ِمعمول )حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی طرف تشریف لائے حالانکہ اس پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں آپ ﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو سلام کہا (لیکن پہچان نہ پائے )اور چلتے گئے حتی کہ اپنی منزل پر پہنچ گئے اور یوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ( اس رات )آپ ﷺ کی رفاقت سے محروم رہ گئیں چنانچہ جب منزل پر پڑاؤ کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دونوں پائوں اذخر گھاس میں ڈالے اور فرمانے لگیں ’’یا اللہ!کوئی سانپ یا بچھو بھیج دے جو مجھے کاٹ کھائے انہیں (یعنی رسول اکرم ﷺ کو )تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
میاں بیوی کے راز کی بات۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اِذَا کُنْتِ عَنِّیْ رَاضِیَۃً ، وَ اِذَا کُنْتِ عَلَیَّ غَاضِبَۃً )) قَالَتْ : فَقُلْتُ : مِنْ اَیْنَ تَعْرِفُ ذٰلِکَ ؟ فَقَالَ ((اَمَّا اِذَا کُنْتِ عَنِّیْ رَاضِیَۃً فَاِنَّکَ تَقُوْلِیْنَ لاَ وَ رَبِّ مُحَمَّدٍ ا ، وَاِذَا کُنْتِ عَلَیَّ غَاضِبَۃً قُلْتِ لاَ وَ رَبِّ اِبْرَاہِیْمَ )) قَالَتْ : قُلْتُ : اَجَلْ وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا مَا أَہْجُرُ اِلاَّ اسْمَکَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا ’’جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تب بھی مجھے پتہ چل جاتا ہے اور جب ناراض ہوتی ہو تب بھی پتہ چل جاتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’وہ کیسے؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو مجھ سے یوں بات کرتی ہو ’’محمد ﷺ کے رب کی قسم!اورجب ناراض ہوتی ہو تو یوں کہتی ہو ’’ابراہیمعلیہ السلامکے رب کی قسم!حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’ہاں یا رسول اللہ ﷺ !واللہ میں صرف آپ کانام ہی چھوڑتی ہوں (ناراضگی کی حالت میں)۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
اظہار محبت کا ایک انوکھاانداز ۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : رَجَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا مِنَ الْبَقِیْعِ فَوَجَدَنِیْ وَ اَنَا اَجِدُ صُدَاعًا فِیْ رَأْسِیْ وَ اَنَا اَقُوْلُ : وَ رَأْسَاہُ ، فَقَالَ (( بَلْ اَنَا ، یَا عَائِشَۃُ ! وَرَأْسَاہُ ، ثُمَّ قَالَ : مَا ضَرَّکِ لَوْ مِتِّ قَبْلِیْ فَقُمْتُ عَلَیْکِ فَغَسَّلْتُکِ وَ کَفَّنْتُکِ وَ صَلَّیْتُ عَلَیْکِ وَدَفَّنْتُکِ)) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (حسن)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ قبرستان بقیع سے (ایک جنازہ پڑھ کر )واپس تشریف لائے تو میرے سر میں شدید درد تھا میں نے کہا ’’ہائے میرا سر پھٹا جا رہا ہے۔‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارا نہیں بلکہ میرا سر پھٹا جارہاہے۔‘‘پھر فرمایا ’’عائشہ ( رضی اللہ عنہا )! اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو تمہارے سارے کام میں خود کروں گا تجھے غسل دوں گا تجھے کفن پہناوں گاتمہاری نمازجنازہ پڑھاؤں گا اور خود تمہاری تدفین کروں گا۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : کُنْتُ اَشْرَبُ وَ اَنَا حَائِضٌ ثُمَّ اُنَاوِلُہُ النَّبِیَّ ا فَیَضَعُ فَاہُ عَلٰی مَوْضِعِ فِیَّ فَیَشْرَبُ وَ اَتَعَرَّقُ الْعَرْقَ وَ اَنَا حَائِضٌ ثُمَّ اُنَاوِلُہُ النَّبِیَّ ا فَیَضَعُ فَاہُ عَلٰی مَوْضِعِ فِیَّ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں پانی پیتی اور برتن نبی اکرم ﷺ کو دے دیتی ،آپ ﷺ برتن سے اسی جگہ منہ رکھ کر پانی پیتے جہاں سے میں نے منہ رکھ کر پیا ہوتا ،ہڈی سے گوشت کھا کر نبی اکرم ﷺکو دیتی تو آپ ﷺ اسی جگہ سے کھاتے تھے جہاں سے میں نے کھایا ہوتا ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
کاشانہ نبوی ﷺ میں سوکناپے کی نازبرداری۔
عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ ا عِنْدَ بَعْضِ نِسَائِہٖ فَاَرْسَلَتْ اِحْدَی اُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِصَفْحَۃٍ فِیْہَا طَعَامٌ ، فَضَرَبَتِ الَّتِیْ النَّبِیُّ ا فِیْ بَیْتِہَا یَدَ الْخَادِمِ فَسَقِطَتِ الصَّفْحَۃُ فَانْفَلَقَتْ ، فَجَمَعَ النَّبِیُّ ا فِلَقَ الصَّفْحَۃِ ثُمَّ جَعَلَ یَجْمَعُ فِیْہَا الطَّعَامَ الَّذِیْ کَانَ فِی الصَّفْحَۃِ وَ یَقُوْلُ : غَارَتْ اُمُّکُمْ ثُمَّ حَبَسَ الْخَادِمَ حَتّٰی أَتٰی بِصَفْحَۃٍ مِنْ عِنْدِ النَّبِیِّ ا ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا ، فَدَفَعَ الصَّفْحَۃَ الصَّحِیْحَۃَ اِلَی الَّتِیْ کُسِرَتْ صَفْحَتُہَا وَ اَمْسَکَ الْمَکْسُوْرَۃَ فِیْ بَیْتِ الَّتِیْ کُسِرَتْ فِیْہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی (باری کے مطابق )ایک زوجہ محترمہ کے ہاں مقیم تھے اتنے میں ایک دوسری زوجہ محترمہ نے ایک برتن میں کھانا بھیجا ۔گھر والی بیوی صاحبہ نے (کھانا لانے والے )خادم کے ہاتھ پر چوٹ ماری اور برتن نیچے گر گیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ،نبی اکرم ﷺ نے برتن کے ٹکڑے جمع کئے اور پھر کھانا اکٹھا کرنے لگے اور (وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کر کے) فرمایا ’’تمہاری ماں کو (سوکناپے کی )غیرت آ گئی پھر آپ ﷺ نے خادم کو روکا اور برتن توڑنے والی بیوی کے گھر سے نیا برتن لے کر خادم کے حوالے کیا اور ٹوٹا ہوا برتن اسی گھر میں رہنے دیا جہاں وہ ٹوٹا تھا۔‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : رسول اکرم ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن انہیں کے ہاں مقیم تھے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ابھی کھانا پکار رہی تھیں کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا یا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کھانا پکا کر بھجوا دیا جو حضرت عائشہ کو ناگوار گزرا۔
عَنْ اَنَسٍص قَالَ : بَلَغَ صَفِیَّۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ، قَالَتْ : اِنَّہَا بِنْتُ یَہُوْدِیٍّ فَبَکَتْ فَدَخَلَ عَلَیْہَا النَّبِیُّ ا وَ ہِیَ تَبْکِیْ فَقَالَ ((مَا یُبْکِیْکِ ؟)) قَالَتْ: قَالَتْ لِیْ حَفْصَۃُ اِنِّیْ اِبْنَۃُ یَہُوْدِیٍّ ، فَقَالَ النَّبِیُّ ا (( اِنَّکِ لَاِبْنَۃُ نَبِیٍّ وَ اِنَّ عَمَّکِ لَنَبِیٌّ وَ اِنَّکِ لَتَحْتَ نَبِیٍّ فَفِیْمَ تَفْخَرُ عَلَیْکِ ؟ ثُمَّ قَالَ : اِتَّقِی اللّٰہَ یَا حَفْصَۃُ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (ام المومنین )حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا کہ (ام المومنین )حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہودی کی بیٹی کہا ہے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ( یہ سن کر )رونے لگیں نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی تھیں آپ ﷺ نے پوچھا ’’صفیہ !کیوں رو رہی ہو؟‘‘حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’حفصہ نے مجھے کہا ہے کہ میں یہودی کی بیٹی ہوں۔‘‘نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم تو نبی کی بیٹی ہو (مراد ہیں حضرت موسی علیہ السلام) اور تمہارے چچانبی ہیں (مراد ہیں حضرت ہارون علیہ السلام) اور تم نبی کی بیوی ہو (مراد ہیں خود حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اس قدر فضلیت کے باوجود )آخر وہ (یعنی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ) کسی بات پر تم سے فخر جتلاتی ہے پھر آپ ﷺ نے (حضرت حفصہ کو مخاطب کر کے )فرمایا ’’حفصہ! اللہ سے ڈرو (آئندہ ایسی بات مت کہنا )۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : یاد رہے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا یہودی سردار حیی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہھم کی نازک مزاجی کا لحاظ۔
عَنْ اَنَسٍ ص اَنَّ النَّبِیَّ ا اَتٰی عَلٰی اَزْوَاجِہٖ وَ سَوَّاقٌ یَّسُوْقُ بِہِنَّ یُقَالُ لَہٗ اَنْجِشَۃُ ، فَقَالَ (( وَیْحَکَ یَا اَنْجِشَۃُ ! رُوَیْدًا سُوْقَکَ بِالْقَوَارِیْرِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ(دوران سفر)اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہھمکے پاس تشریف لائے۔اونٹوںکو ہانکنے والا شخص اونٹوںکو(تیزتیز)ہانک رہاتھاجس کا نام انجشہ تھا آپﷺ نے فرمایا’’انجشہ!تیرے لئے خرابی ہو،اونٹوںکو آہستہ آہستہ چلا(سوار خواتین کو)آبگینے سمجھ کر (کہیں ٹوٹ نہ جائیں)۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیاہے۔
رضی اللہ عنہھم رضی اللہ عنہھم رضی اللہ عنہھم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اَلْمُحْرَّمَاتُ​
حرام رشتے

حرام رشتے دو طرح کے ہیں(ا)مستقل حرام رشتے(ب)عارضی حرام رشتے ۔
(ا) اَلْمُحَرَّمَاتُ الدَّائِمَۃُ
(ا)مستقل حرام رشتے

مستقل حرام رشتوں کے اسباب تین ہیں
1نسب(خونی تعلق) 2 مصاہرت (سسرالی تعلق)3رضاعت (دودھ پلانا)
نسبی (خونی تعلق کے باعث )حرام ہونے والے رشتے سات ہیں ، مصاہرت (شادی کے باعث )حرام ہونے والے رشتے بھی سات ہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حُرِّمَ مِنَ النَّسَبِ سَبْعٌ وَ مِنَ الصَّہْرِ سَبْعٌ ثُمَّ قَرَئَ {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہَاتُکُمْ … (اَ لْاٰیَۃُ )} رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نسب کی وجہ سے سات رشتے حرام ہیں اور صہر (سسرال)کی وجہ سے بھی سات رشتے حرام ہیں پھرآپﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’حرام کی گئیں تم پر مائیں…آخر تک۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
ماں(بشمول دادی و نانی سگی ہویاسوتیلی)بیٹی(بشمول پوتی و نواسی) بہن (سگی ہویاسوتیلی)پھوپھی(سگی ہویاسوتیلی)خالہ(سگی ہویا سوتیلی) بھتیجی (سگی ہویاسوتیلی)بھانجی (سگی ہو یا سوتیلی) سے نکاح کرنا حرام ہے۔
باپ ،دادا اور نانا کی منکوحہ ،بیوی کی ماں ،دادی اور نانی ،مدخولہ بیوی کی پہلے شوہر سے بیٹیوں ،حقیقی بیٹے ،پوتے اور نواسے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔
دودھ پلانے والی عورت (رضاعی ماں )اور اس کی بیٹی (رضاعی بہن (بشمول رضاعی بہن کی بیٹی )سے نکاح حرام ہے۔

{ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَ اَخَوَاتُکُمْ وَ عَمّٰتُکُمْ وَ خٰلٰتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْأَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّہٰتُکُمُ الَّتِیْ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّہٰتُ نِسَائِکُمْ وَ رَبَائِبُکُمُ الَّتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِنْ نِّسَائِکُمُ الَّتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ ز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَ حَلاَ ئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ لا وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا، } (23:4)
’’تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں،بہنیں ،بیٹیاں ،پھوپھیاں ،خالائیں ،بھتیجیاں ،بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری پروردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان بیویوں سے جن سے تمہارا تعلق زن و شوہر ہو چکا ہو اور اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور )تعلق زن و شوہر نہ ہوا ہو تو (انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں )تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘(سورہ نساء ،آیت نمبر 23)
دودھ پلانے سے ویسے ہی حرام رشتے قائم ہو جاتے ہیں جیسے ولادت سے قائم ہوتے ہیں لہٰذا جو رشتے ولادت کے بعد حرام ہیں وہی رشتے رضاعت کے بعد بھی حرام ہیں۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الْوِلاَدَۃِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو رشتہ ولادت سے حرام ہوتا ہے وہی رضاعت (دودھ پلانے )سے حرام ہوتا ہے۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : مذکورہ حدیث شریف کی روشنی میں درج ذیل رشتے حرام ہیں1رضاعی ماں2رضاعی بیٹی3رضاعی بہن4رضاعی پھوپھی5رضاعی خالہ6رضاعی بھتیجی7رضاعی بھانجی۔
کم از کم پانچ مرتبہ پستان چوسنے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے،اس سے کم ہوتو رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا قَالَتْ : نَزَلَ فِی الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضْعَاتٍ مَعْلُوْمَاتٍ ثُمَّ نَزَلَ اَیْضًا خَمْسٌ مَعْلُوْمَاتٌ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں قرآن مجید میں(حرمت رضاعت سے پہلے)دس بار(پستان) چوسنے کا حکم نازل ہوا(جو بعد میں منسو خ ہوگیا)پھر پانچ مرتبہ چوسنے کا حکم نازل ہوا(اس کی قرأت منسوخ ہو گئی لیکن حکم باقی ہے)۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیاہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّۃُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ایک یا دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : یادرہے کہ بچہ کا پستان منہ میں لیکر چوسنااور پستان سے منہ ہٹا کر وقفہ کرنا ایک مرتبہ شمار ہوتاہے اس طرح وقفے وقفے سے پانچ مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوگی،ایک یا دو مرتبہ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
دو سال کی عمر تک دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اس کے بعد نہیں۔
عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لاَ یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ اِلاَّ مَا فَتَقَ الْأَمْعَائَ فِی الثَّدْیِ وَ کَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب تک بچہ اتنا دودھ نہ پئے جو آنتوں کو بھر دے رضاعت ثابت نہیں ہوتی اسی طرح جب تک بچہ دودھ چھڑانے سے پہلے پہلے دودھ نہ پئے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : رضاعت سے صرف دودھ پینے والے آدمی پر نکاح حرام ہوتا ہے دودھ پینے والے کا بھائی دودھ پلانے والی یا اس کی ماں یا اس کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے ۔اسی طرح دودھ پینے والے کی بہن دودھ پلانے والی عورت کے خاوند یا اس کے باپ یا اس کے بیٹے سے نکاح کر سکتی ہے۔
(ب) اَلْمُحَرَّمَاتُ الْمُؤَقَّتَۃُ
(ب)عارضی حرام رشتے

بیوی کی حقیقی(یا سوتیلی)بہن کو ایک نکاح میں جمع کرنا منع ہے۔
عَنِ الضَّحَاکِ بْنِ فَیْرُوْزَ الدَّیْلَمِیِّ رَحِمَہُ اللّٰہُ یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ اَتَیْتُ النَّبِیَّ ا فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا اِنِّیْ أَسْلَمْتُ وَ تَحْتِیْ اُخْتَانِ ، قَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ ا لِیْ (( طَلِّقْ اَیَّتُہُمَا شِئْتَ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ وَابْنُ مَاجَۃَ (حسن)
حضرت ضحاک بن فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا باپ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ !میں اسلام لایا ہوں اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں۔‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دونوں میں سے ایک جو چاہتے ہو پسند کر لو اور دوسری کو طلاق دے دو۔‘‘اسے ابودائود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : بہن کی وفات یا طلاق کے بعد دوسری بہن سے نکاح کرنا جائز ہے۔
بیوی اور اس کی پھوپھی یا خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔
عَنْ جَابِرٍ ص قَالَ : نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَنْ تُنْکِحَ الْمَرْأَۃُ عَلٰی عَمَّتِہَا اَوْ خَالَتِہَا)) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت جابر t کہتے ہیں کہ’’ رسول اللہ ﷺ نے عورت اور اس کی پھوپھی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : بھتیجی یا بھانجی کی وفات یا طلاق کے بعد اس کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح کرنا جائز ہے۔
منکوحہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔
وضاحت : 1آیت مسئلہ نمبر39کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
منکوحہ عورت کو طلاق ہو جائے تو عدت گزرنے کے بعد اس سے نکاح جائز ہے۔
عدت کے دوران مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کرنا حرام ہے۔
وضاحت : 1آیت مسئلہ نمبر35کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
2عدت گزر جانے کے بعدمطلقہ یا بیوہ سے نکاح جائز ہے۔
تین طلاقیں جدا جدا مجلسوں میں دینے کے بعد اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع اور دوبارہ نکاح کرنا حرام ہے۔
وضاحت : 1آیت مسئلہ نمبر66کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
2مطلقہ خاتون کسی دوسرے آدمی سے حلالہ نہیں صحیح نکاح کر لے اور وہ آدمی از خود اسے طلاق دے دے یا مرجائے تو پھر مطلقہ خاتون بعد از عدت دوبارہ اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔
پاکدامن مرد یا عورت کا زانیہ عورت یا زانی مرد سے نکاح حرام ہے۔
وضاحت : 1آیت مسئلہ نمبر23کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
2زانیہ عورت یا زانی مرد تائب ہو جائے تو اس سے پاکدامن مرد یا پاکدامن عورت کا نکاح جائز ہو گا۔
3زانیہ عورت کو تائب ہونے کے بعد عدت گزرنے کا انتظار کرنا ضروری ہے۔
مومن مرد یا عورت کا مشرک عورت یا مرد سے نکاح کرنا حرام ہے۔
وضاحت : 1آیت مسئلہ نمبر36کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
2مشرک عورت یا مرد تائب ہو جائے تو ان کا باہمی نکاح کرنا جائز ہو جائے گا۔
منہ بولے بیٹے سے دائمی یا عارضی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
وضاحت : آیت مسئلہ نمبر44کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حُقُوْقُ الْمَوَالِیْدِ​
نومولود کے حقوق

لڑکے کی پیدائش پر غیر فطری خوشی اور بچی کی پیدائش پر رنج کا اظہار کرنا درست نہیں۔
عَنْ صَعْصَۃَ عَمِّ الْاَحْنَفِ رَحِمَہُ اللّٰہُ قَالَ : دَخَلَتْ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اِمْرَأَۃٌ مَعَہَا اِبْنَتَانِ لَہَا فَأَعْطَتْہَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَأَعْطَتْ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا تَمْرَۃً ، ثُمَّ صَدَعَتِ الْبَاقِیَۃَ بَیْنَہُمَا قَالَتْ : فَأَتَی النَّبِیُّا فَحَدَّثْتُہٗ ، فَقَالَ (( مَا عَجَبَکِ ؟ لَقَدْ دَخَلَتْ بِہِ الْجَنَّۃَ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت احنف رحمہ اللہ کے چچا حضرت صعصہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت کو چند کھجوریں دیں تو اس عورت نے دو کھجوریں اپنی دونوں بیٹیوں کو ایک ایک دے دی اور پھر تیسری بھی دونوں کو آدھی آدھی بانٹ دی نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے )یہ واقعہ آپ ﷺ کو بتایا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کیا تم اس پر تعجب کر رہی ہو یہ عورت (اپنی بیٹیوں سے )اس (حسن سلوک کی وجہ سے )جنت میں داخل ہو گی۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ص قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا یَقُوْلُ ((مَنْ کَانَ لَہٗ ثَلاَثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ وَ سَقَاہُنَّ وَ کَسَاہُنَّ مِنْ جِدَّتِہٖ کُنَّ لَہٗ حِجَابًا مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے انہیں کھلائے پلائے اور اپنی طاقت کے مطابق پہنائے ،قیامت کے دن وہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے رکاوٹ بنیں گی ۔اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَنَا وَ ہُوَ وَ ضَمَّ اَصَابِعَہٗ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے دو لڑکیوں کو بالغ ہونے تک پالا پوسا(ان کی تعلیم و تربیت کی،نکاح وغیرہ کیا )قیامت ،کے دن میں اور وہ اس طرح (اکٹھے) آئیں گے اور آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو باہم ملایا۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
پیدائش کے بعد بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہئے۔
عَنْ اَبِیْ رَافِعٍ ص قَالَ : رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا اَذَّنَ فِیْ اُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا حِیْنَ وَلَدَتْہُ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِالصَّلاَۃِ ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (حسن)
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں’’میں نے رسول اللہﷺ کو حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے کان میں نماز والی اذان دیتے ہوئے دیکھا ہے جب وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں پیداہوئے۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
پیدائش کے ساتویں دن بچہ کے نام کا اعلان کرنا چاہئے،اس کے سر کے بال منڈوانے چاہئیں اور اس کا عقیقہ کرنا چاہئے۔
عَنْ سَمُرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( أَلْغُلاَمُ مُرْتَہَنٌ بِعَقِیْقَتِہٖ یُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ السَّابِعِ وَ یُسَمّٰی وَ یُحْلَقُ رَأْسُہٗ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بچہ عقیقہ کے بدلے رہن ہوتا ہے لہٰذا اس کی طرف سے ساتویں روز جانور ذبح کیا جائے۔اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
لڑکے کے عقیقہ میں دوجانور(بھیڑ یابکری) لڑکی کے عقیقہ میں ایک جانور ذبح کرنا چاہئے۔
عَنْ اُمِّ کَرْزٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا سَأَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا عَنِ الْعَقِیْقَۃِ فَقَالَ ((عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ وَ عَنِ الْجَارِیَۃِ وَاحِدَۃٌ لاَ یَضُرُّکُمْ ذُکْرَانًا اَمْ اِنَاثًا ))رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے خواہ نر ہو یا مادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیاہے۔
عقیقہ ساتویں ،چودھویں یا اکیسویں دن کرنا مسنون ہے۔
عَنْ بُرَیْدَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَلْعَقِیْقَۃُ لِسَبْعٍ اَوْ لِاَرْبَعٍ عَشْرَۃَ اَوْ لِاَحْدٰی وَ عِشْرِیْنَ )) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (صحیح)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’عقیقہ ساتویں ،چودھویں یااکیسویں روز کرناچاہئے۔‘‘اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : اگر کسی وجہ سے ساتویں ،چوہودیں یا اکیسویں روز عقیقہ نہ کیا جا سکا ہو تو پھر عمر بھر میں کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب!
پیدائش کے بعد کسی نیک آدمی سے کوئی میٹھی چیز چبوا کر بچہ کے منہ میں ڈالنی چاہئے۔
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی ص قَالَ : وُلِدَ لِیْ غُلاَمٌ فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ا فَسَمَّاہُ اِبْرَاہِیْمَ فَحَنَّکَہٗ بِتَمْرَۃٍ وَ دَعَا لَہٗ بِالْبَرَکَۃِ وَ دَفَعُہٗ اِلَیَّ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور ایک کھجور چبا کر اس کے منہ میں ڈالی اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی اور بچہ مجھے واپس کر دیا ۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
پیدائش کے بعد لڑکے کا ختنہ کرنا بھی مسنون ہے۔
عَنْ اَبِیُ ہُرَیْرَۃَص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَۃِ اَلْخِتَانُ وَالْاِسْتِحْدَادُ وَ نَتْفُ الْاِبِطِ وَ تَقْلِیْمُ الْاَظْفَارِ وَ قُصُّ الشَّوَارِبَ )) مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’پانچ باتیں فطرت سے ہیں1 ختنہ کرنا2زیر ناف بال صاف کرنا3 بغل کے بال اکھاڑنا4ناخن کاٹنا اور5 مونچھیں کتروانا۔‘‘ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
عبداللہ اور عبدالرحمن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام ہیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِنَّ اَحَبَّ اَسْمَائِکُمْ اِلَی اللّٰہِ عَبْدُاللّٰہِ وَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تمہارے ناموں میں سے اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
برے نام بدل دینے چاہئیں۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اِنَّ ابْنَۃً لِعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَتْ یُقَالُ لَہٗ عَاصِیَۃُ فَسَمَّاہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ا جَمِیْلَۃً۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا آپ ﷺ نے اس کا نام جمیلہ (نیک سیرت اور خوبصورت )رکھ دیا ۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
اولاد کو دینی تعلیم دینا واجب ہے۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہا ((طَلَبُ الْعِلْمُ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد ہو یا عورت )پر فرض ہے۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیاہے
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَ اَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا’’ہرپیداہونے والا بچہ فطرت(اسلام) پر پیداہوتاہے اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی یا آتش پرست بنادیتے ہیں۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیاہے۔
 
Top