محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
حُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ
والدین کے حقوق
والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے والدین کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِا ((رِضَا الرَّبِّ فِیْ رِضَا الْوَالِدَیْنِ وَ سَخَطُہٗ فِیْ سَخَطِہِمَا )) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (صحیح)
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’رب کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ کا غصہ والدین کے غصے میں ہے۔‘‘اسے طبرانی نے روایت کیا ہے
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَلاَ اُحَدِّثُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ؟)) قَالُوْا : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَالَ ((اَلْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنَ )) قَالَ : وَ جَلَسَ وَ کَانَ مُتَّکِأً قَالَ ((وَ شَہَادَۃُ الزُّوْرِ اَوْ قَوْلُ الزُّوْرِ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
والدین کو ناراض کرنے والے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ بددعا فرمائی۔حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا ’’کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ!‘‘(ضرور بتائیے)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا ۔‘‘عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تکیہ لگائے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات کہنا ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص عَنِ النَّبِیِّ ا ((رَغِمَ اَنْفٌ ثُمَّ رَغِمَ اَنْفٌ ثُمَّ رَغِمَ اَنْفٌ مَنْ اَدْرَکَ اَبَوَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ اَحَدَہُمَا اَوْ کَلَیْہِمَا فَلَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
والد جنت کا بہترین دروازہ ہے جو چاہے اس کی حفاظت کرے جو چاہے اسے گرا دے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،رسوا اور ذلیل ہو،ہلاک ہو جس نے اپنے والدین میں سے دونوں کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ان کو راضی کر کے)جنت میں داخل نہ ہوا ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِص قَالَ : اَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّا یَقُوْلُ (( اَلْوَالِدُ اَوْسَطُ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَأَضِعْ ذٰلِکَ الْبَابَ اَوْ اِحْفَظْہُ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
والد کے حکم پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی محبوب بیوی کو طلاق دے دی۔حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ’’والد جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے جو شخص چاہے اسے محفوظ رکھے جو چاہے اسے گرا دے ۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَتْ تَحْتِیْ اِمْرَأَۃٌ اُحِبُّہَا وَ کَانَ اَبِیْ یَکْرَہُہَا فَأَمَرَنِیْ اَبِیْ اَنْ اُطَلِّقَہَا ، فَأَبِیْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ا فَقَالَ ((یَا عَبْدَ اللّٰہِ ابْنَ عُمَرَ ! طَلِّقْ اِمْرَأَتَکَ )) قَالَ : فَطَلَّقْتُہَا ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَاَحْمَدُ (حسن)
جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے نکاح میں ایک عورت تھی جسے میں بہت محبوب رکھتا تھا ، لیکن میرے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ )اسے ناپسند کرتے تھے چنانچہ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔میں نے طلاق دینے سے انکار کر دیا اور نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اے عبداللہ رضی اللہ عنہ !اپنی بیوی کو طلاق دے۔‘‘حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔اسے ابودائود،ترمذی ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
عَنْ جَاہِمَۃَ ص اَنَّہٗ جَائَ عَلَی النَّبِیِّ ا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! اَرَدْتُّ اَنْ اَغْزُوَ وَ قَدْ جِئْتُ اَسْتَشِیْرُکَ ۔ فَقَالَ ((ہَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ ؟)) قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ ((فَالْزَمْہَا ، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ رِجْلَیْہَا )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)
باپ کے مقابلے میں ماں کا درجہ تین گنا زیادہ ہے۔حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ !میں نے جہاد کا ارادہ کیا ہے اور آپ ﷺ سے مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کیا تیری والدہ زندہ ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ہاں!‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’پھر اس کی خدمت کر،جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَص قَالَ : جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا مَنْ اَحَقُّ صَحَابَتِیْ ؟ قَالَ ((اُمُّکَ)) قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ((اُمُّکَ)) قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ((اُمُّکَ)) قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ((اَبُوْکَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ!میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں۔‘‘اس نے دوبارہ عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں۔‘‘ اس نے(تیسری مرتبہ)عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں۔‘‘اس نے (چوتھی مرتبہ) پوچھا’’پھرکون؟‘‘آپﷺنے فرمایا’’تیراباپ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔