• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیٹو سپلائی بحال ۔ گرافکس

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
بلاشبہ حکومت و ریاست کی غلط پالیسوں پر نقد ہونی چاہیے اور یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں پرنٹ میڈیا میں عرفان صدیقی، جاوید چوہدری، عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان وغیرہ بہت خوبصورت نقد کرتے ہیں اور اہل پاکستان کی ایک بڑی تعداد میں ان کا اثر ورسوخ بھی ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا میں سہیل احمد عزیزی بہت ہی لائٹ اور کامیڈین اسلوب میں حکمرانوں کو شدید نقد کا نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح کامران خان، حامد میر اور لقمان مبشر نے بھی اچھی تنقیدیں کی ہیں۔

لیکن تنقید کا جو ایک انداز ہمارے ہاں عسکری تنظیموں سے پیدا ہوا ہے کہ کفر کے فتوے لگائیں تو اس سے لوگوں کو مذہبی طبقات ہی سے چڑ پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے کہ اہل مذہب کے پاس تو سوائے فتوی کے اصلاح کا کوئی طریق کار موجود ہی نہیں ہے۔ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ اگر اہل مذہب اسلامی معاشروں کی حقیقی بنیادوں پر اصلاح چاہتے ہیں تو انہیں اصلاح کے متشددانہ رویوں کو یکسر ترک کرتے ہوئے معاصر و جدید اسالیب نقد و اصلاح کو اپنانا ہو گا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس معاصر دنیا میں وہ مذہبی اصلاحی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے جو جدید اسلوب کلام و مکالمہ کو اختیار کرے۔

آج پاکستانی قوم اخباری کالم نگاروں اور ٹیلی ویژن اینکرز کی حکومت و ریاست پر شدید نقد کو نہ صرف سنتی ہے بلکہ اسے قبول بھی کرتی ہے اور اور اس کی بنیاد پر معاشرے کی ذہن سازی ہوتی ہے لیکن جو مذہبی تحریکیں متشددانہ رویوں کو اختیار کرتے ہوئے بزور فتوی اس معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں، خود ان کے اپنے مذہبی بھائی یا جماعتیں ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔

اعجاز علی شاہ صاحب کا یہ انداز اسی طرح کا لائٹ انداز ہے جیسا کہ عطاء الحق قاسمی یا سہیل احمد عزیزی نقد کرتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا بھائی! اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
بلاشبہ حکومت و ریاست کی غلط پالیسوں پر نقد ہونی چاہیے اور یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں پرنٹ میڈیا میں عرفان صدیقی، جاوید چوہدری، عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان وغیرہ بہت خوبصورت نقد کرتے ہیں اور اہل پاکستان کی ایک بڑی تعداد میں ان کا اثر ورسوخ بھی ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا میں سہیل احمد عزیزی بہت ہی لائٹ اور کامیڈین اسلوب میں حکمرانوں کو شدید نقد کا نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح کامران خان، حامد میر اور لقمان مبشر نے بھی اچھی تنقیدیں کی ہیں۔

لیکن تنقید کا جو ایک انداز ہمارے ہاں عسکری تنظیموں سے پیدا ہوا ہے کہ کفر کے فتوے لگائیں تو اس سے لوگوں کو مذہبی طبقات ہی سے چڑ پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے کہ اہل مذہب کے پاس تو سوائے فتوی کے اصلاح کا کوئی طریق کار موجود ہی نہیں ہے۔ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے کہ اگر اہل مذہب اسلامی معاشروں کی حقیقی بنیادوں پر اصلاح چاہتے ہیں تو انہیں اصلاح کے متشددانہ رویوں کو یکسر ترک کرتے ہوئے معاصر و جدید اسالیب نقد و اصلاح کو اپنانا ہو گا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس معاصر دنیا میں وہ مذہبی اصلاحی تحریک کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے جو جدید اسلوب کلام و مکالمہ کو اختیار کرے۔

آج پاکستانی قوم اخباری کالم نگاروں اور ٹیلی ویژن اینکرز کی حکومت و ریاست پر شدید نقد کو نہ صرف سنتی ہے بلکہ اسے قبول بھی کرتی ہے اور اور اس کی بنیاد پر معاشرے کی ذہن سازی ہوتی ہے لیکن جو مذہبی تحریکیں متشددانہ رویوں کو اختیار کرتے ہوئے بزور فتوی اس معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں، خود ان کے اپنے مذہبی بھائی یا جماعتیں ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔

اعجاز علی شاہ صاحب کا یہ انداز اسی طرح کا لائٹ انداز ہے جیسا کہ عطاء الحق قاسمی یا سہیل احمد عزیزی نقد کرتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا بھائی! اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
کیا طائفہ منصورہ کا معاشرے کی اصلاح کا طریقہ نوائے وقت،جنگ،جیو،دنیا ٹی وی،ایکسپریس،سما ٹی وی، پی ٹی وی جیسا ہو گا ِ؟
کیا طائفہ منصورہ کا معاشرے کی اصلاح کا طریقہ عرفان صدیقی، جاوید چوہدری، عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان جیسا ہو گا ؟
کیا طائفہ منصورہ کا معاشرے کی اصلاح کا طریقہ سہیل احمد عزیزی، کامران خان، حامد میر اور لقمان مبشر جیسا ہو گا ؟

عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا ، حتی کہ ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائ کریگا )
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دین اسلام کے غلبہ اور نفاذ کا منہج کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ اہل ایمان اور یہاں تک کہ اہل علم بھی اس سے خار کھائیں۔ شریعت کبھی ایسا حکم نہیں دیتی جو فطرت سلیمہ کے خلاف ہو۔ آپ نے آدھی روایت بیان کی ہے جبکہ مکمل روایت کا صحیح معنی و مفہوم کیا ہے؟ اس بارے اپنے ایک مضمون کا ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں۔ جس منہج کا آپ دفاع کر رہے ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ وہ بلبلے اور جھاگ کی مانند پانی کی سطح پر ابھر کر اپنی ناکامی لکھ چکا ہے۔ طائفہ منصورہ ہر دور میں موجود رہے گا لیکن ہر دور میں اس کی خاصیت قتال نہیں ہے بلکہ اس کی خاصیت جہاد ہے۔ کبھی یہ طائفہ علما و فقہا کی صورت میں ہو گا اور دین کے نظریاتی غلبہ کے جدوجہد کرے گا اور کبھی یہ طائفہ منصورہ میدان جنگ میں ہو گا اور دین کے سیاسی غلبہ کے لیے جدوجہد کرے گا۔ اگر طائفہ منصورہ کی صفت صرف قتال ہی قرار پائے تو باطنی شیعہ جیسے فاطمی خلفا اور اکبر جیسے مغل حکمران بھی طائفہ منصور قرار پائیں گے اور اگر نہیں تو امت کی تاریخ میں ہر صدی میں آپ کو القاعدہ یا طالبان جیسی جہادی جماعتیں خورد بین سے بھی شاید تاریخ کے صفحات پر نظر نہ آئیں کہ جنہیں آپ طائفہ منصورہ کا مصداق قرار دے سکیں۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
''لاتزال طائفة من أمتی یقاتلون علی الحق ظاھرین علی من ناوأھم حتی یقاتل آخرھم المسیح الدجال.'' (أبو داؤد سلیمان ابن الأشعث، سنن أبی داؤد، کتاب الجھاد، باب فی دوام الجھاد، المکتبة العصریة، بیروت،٤٣)
'' میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی اور اپنے مخالفین پر حاوی رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری حصہ مسیح دجال سے قتال کرے گا۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو' صحیح' کہا ہے۔(ایضاً) امام ابو داؤدرحمہ اللہ نے اس روایت پر'دوام جہاد' کے نام سے باب باندھا ہے جو جہاد کے دائمی ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔
یہ واضح رہے کہ ان روایات میں جہاد سے مراد سے علماء ومجاہدین دونوں کا جہاد ہیں۔ علماء دین کے 'فکری غلبہ' کے لیے جہاد کرتے ہیں تو مجاہدین اس کے 'عملی غلبہ' کے لیے۔ اسلام کا تفوق جس قدر دلیل وبرہان کی سطح پر مطلوب ہے، اسی نسبت سے سیاسی غلبہ بھی مقصود ہے۔ ان روایات میں دائمی جہاد سے مراد اہل علم کی جماعت کا جہاد بھی ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم کی ایک روایت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
''من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین ولاتزال عصابة من المسلمین یقاتلون علی الحق .'' (صحیح المسلم، کتاب المارة، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتزال طائفة من امتی ظاھرین علی الحق، دار حیاء التراث العربی، بیروت، ١٥٢٤٣)
'' اللہ تعالیٰ جس سے خیر کا ارادہ رکھتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتے ہیں اور میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی۔''
اس حدیث میں قتال سے پہلے تفقہ فی الدین کے لفظ آئے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ یہاں قتال سے مراد میدان جنگ کی لڑائی نہیں ہے بلکہ نظریاتی لڑائی مراد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری اور ان کے استاذ علی بن مدینی رحمہما اللہ کے نزدیک اس جماعت سے مراد محدثین کی جماعت ہے۔(الترمذی محمد بن عیسیٰ، سنن الترمذی،أبواب الفتن، باب ماجاء فی الشام، دار الغرب السلامی، بیروت، ١٩٩٨ئ، ٥٥٤)

اسی طرح ان روایات میں جہاد و قتال سے مراد مجاہدین کاجہاد و قتال بھی ہے جیسا کہ سنن النسائی کی روایت کے الفاظ ہیں:
''فقال رجل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أذال الناس الخیل ووضعوا السلاح وقالوا لا جھاد قد وضعت الحرب أوزارھا فأقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوجھہ کذبوا الآن الآن جاء القتال ولایزال من أمتی أمة یقاتلون علی الحق ویزیغ اللہ لھم قلوب أقوام ویرزقھم منھم حتی تقوم الساعة وحتی یأتی وعد اللہ والخیل معقود فی نواصیھا الخیر لی یوم القیامة.'' (النسائی أحمد بن شعیب الخراسانی، سنن النسائی، کتاب الخیل، مکتب المطبوعات السلامیة، حلب، الطبعة الثانیة،١٩٨٦ئ، ٢١٤٦)
ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں نے اپنے گھوڑوں کوبے قیمت بنا دیا ہے۔ ہتھیار رکھ دیے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی جہاد نہیں ہے۔ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قائل کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جنگ تو اب شروع ہوئی ہے۔ اور میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قتال کرتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے لوگوں کے دلوںکو جھکا دے گا اور انہیں ان کے سبب سے رزق دے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے اور اللہ کا وعدہ آ جائے اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت کے دن تک کے لیے خیر باندھ دی گئی ہے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو' صحیح' قرار دیا ہے۔(ایضاً)

پس جہاد وقتال ایک شرعی حکم کے طور پر قیامت تک باقی ہے اور اس کی منسوخی کا دعوی ایک باطل دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل عقل ونقل میں موجود نہیں ہے۔ اس کے خلاف عقل ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ دنیا کی ہر ریاست، چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، فوجی وعسکری طاقت کی حامل ہے۔

ہمارے ہاں دو انتہائیں پیدا ہوئی ہیں۔ ایک انتہاتو یہ ہے کہ جہاد وقتال کی آیات سے دعوت وتبلیغ کا منہج منسوخ ہو چکا ہے اور اب قیامت تک مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل جنگ ہی ہے۔ یہ متشددین کا نقطہ نظر ہے۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ جہاد وقتال کا منہج منسوخ ہو چکا اور اب قیامت تک اسلام کے نفوذ ونفاذ کا واحد منہج دعوت وتبلیغ اور منت وسماجت ہی ہے۔ یہ متجددین کا نقطہ نظر ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے مابین کتاب وسنت کا معتدل موقف یہ ہے یہ دونوں مناہج تاقیامت باقی ہیں اور اپنے اپنے زمانے میں مسلمان اپنے حالات ، اہلیت اور اسباب ووسائل کے اعتبار سے ان میں سے جو بھی منہج زیادہ مناسب حال ،مفید اور نتیجہ خیز ہو، اسے اختیار کر سکتے ہیں۔
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
دین اسلام کے غلبہ اور نفاذ کا منہج کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ اہل ایمان اور یہاں تک کہ اہل علم بھی اس سے خار کھائیں۔ شریعت کبھی ایسا حکم نہیں دیتی جو فطرت سلیمہ کے خلاف ہو۔
الحمد للہ علمائے صادقین توحید و جھاد کے منھج کے حامی ہیں مخالف نہیں
دین اسلام کے غلبہ اور نفاذ کا منہج کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ اہل ایمان اور یہاں تک کہ اہل علم بھی اس سے خار کھائیں۔ شریعت کبھی ایسا حکم نہیں دیتی جو فطرت سلیمہ کے خلاف ہو۔
الحمد للہ توحید اور جھاد کا منھج فطرت سلیمہ کے خلاف نہیں
جس منہج کا آپ دفاع کر رہے ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ وہ بلبلے اور جھاگ کی مانند پانی کی سطح پر ابھر کر اپنی ناکامی لکھ چکا ہے۔
پتہ نہیں آپ کے ذہن میں کیا منہج ہے ورنہ توحید و جہاد کا منہج آج افغانستان، فلسطین، شام، یمن، پاکستان، مالی، صومالیہ، عراق میں اپنی بہاریں دکھا رہا ہے اور مزید ملکوں میں یہ منہج اپنی بہاریں
عنقریب لانے کو ہے- ان شاء اللہ
جس منہج کا آپ دفاع کر رہے ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ وہ بلبلے اور جھاگ کی مانند پانی کی سطح پر ابھر کر اپنی ناکامی لکھ چکا ہے۔
اور آپکے منہج جسکی تعبیر "کانفرنسوں کی سیر، اسلام آباد میں دھرنے، ٹی وی پر ٹاک شوز اور اخباروں میں بیانات" سے ہو سکتی ہے اس نے ١٩٤٧ سے ابتک کیا حاصل کیا ؟
طائفہ منصورہ ہر دور میں موجود رہے گا لیکن ہر دور میں اس کی خاصیت قتال نہیں ہے بلکہ اس کی خاصیت جہاد ہے۔ کبھی یہ طائفہ علما و فقہا کی صورت میں ہو گا اور دین کے نظریاتی غلبہ کے جدوجہد کرے گا اور کبھی یہ طائفہ منصورہ میدان جنگ میں ہو گا اور دین کے سیاسی غلبہ کے لیے جدوجہد کرے گا۔
اگر یہ مان بھی لیا جاے تو
طائفہ منصورہ میں نوائے وقت،جنگ،جیو،دنیا ٹی وی،ایکسپریس،سما ٹی وی، پی ٹی وی کیسے شامل ہو گئے ؟
طائفہ منصورہ میں عرفان صدیقی، جاوید چوہدری، عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان کیسے شامل ہو گئے ؟
طائفہ منصورہ میں کامران خان، حامد میر اور لقمان مبشر کیسے شامل ہو گئے ؟
طائفہ منصورہ میں سہیل احمد عزیزی کیسے شامل ہو گیا ؟
اور میرا خیال ہے آپ ببّو برال کو بھول گئے تھے ؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اگر یہ مان بھی لیا جاے تو
طائفہ منصورہ میں نوائے وقت،جنگ،جیو،دنیا ٹی وی،ایکسپریس،سما ٹی وی، پی ٹی وی کیسے شامل ہو گئے ؟
طائفہ منصورہ میں عرفان صدیقی، جاوید چوہدری، عطاء الحق قاسمی اور اوریا مقبول جان کیسے شامل ہو گئے ؟
طائفہ منصورہ میں کامران خان، حامد میر اور لقمان مبشر کیسے شامل ہو گئے ؟
طائفہ منصورہ میں سہیل احمد عزیزی کیسے شامل ہو گیا ؟
ففي الصحيحين عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، فقال لرجل ممن يدعي الإسلام: هذا من أهل النار، فلما حضر القتال قاتل الرجل قتالاً شديداً، فأصابته جراحة، فقيل: يا رسول الله، الذي قلت إنه من أهل النار، فإنه قد قاتل اليوم قتالاً شديداً، وقد مات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إلى النار. قال: فكاد بعض الناس أن يرتاب! فبينما هم على ذلك إذ قيل إنه لم يمت، ولكن به جراحاً شديداً، فلما كان من الليل لم يصبر على الجراح فقتل نفسه، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فقال: الله أكبر، أشهد أني عبد الله ورسوله، ثم أمر بلالاً فنادى بالناس إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر.
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
ففي الصحيحين عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، فقال لرجل ممن يدعي الإسلام: هذا من أهل النار، فلما حضر القتال قاتل الرجل قتالاً شديداً، فأصابته جراحة، فقيل: يا رسول الله، الذي قلت إنه من أهل النار، فإنه قد قاتل اليوم قتالاً شديداً، وقد مات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إلى النار. قال: فكاد بعض الناس أن يرتاب! فبينما هم على ذلك إذ قيل إنه لم يمت، ولكن به جراحاً شديداً، فلما كان من الليل لم يصبر على الجراح فقتل نفسه، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فقال: الله أكبر، أشهد أني عبد الله ورسوله، ثم أمر بلالاً فنادى بالناس إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر.
جی ہاں اللہ اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے کرا دیتا ہے
اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ طائفہ منصورہ میں شامل ہے کیونکہ
لاتزال طائفة من امتی ظاھرین علی الحق، دار حیاء التراث العربی، بیروت، ١٥٢٤٣)
"لا تزال طائفۃ من أمتی قائمۃ بأمر اللہ، لا یضرہم من خذلہم أو خالفہم حتی یأتی أمر اللہ وہم ظاہرون علی الناس".
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
طائفہ منصورہ میں سہیل احمد عزیزی کیسے شامل ہو گیا ؟
اور میرا خیال ہے آپ ببّو برال کو بھول گئے تھے ؟
ما شاء اللہ اب تو عزیزی بھی اسلامی داعیین کی صف میں شامل ہو گیا ہے !
کج فکری اور دوسروں کے الفاظ میں اپنا مفہوم ٹھونسنا غالباً اسی کو کہتے ہیں۔
انداز تنقید کو کسی سے مشابہ قرار دینے سے یا کسی کےا نداز تنقید کی تعریف کر دینے سے اس کا طائفہ منصورہ اور اسلامی داعیین کی صف میں شامل ہونا لازم آتا ہے، تو منطق کے یہ اسرار ہمیں بھی سکھا دیں۔
ہمہ وقت دوسروں کی غیراصولی معین تکفیر میں مبتلا رہنے والوں کے مقابلے میں عام گناہ گار انسان بہرحال زیادہ مستحق ہے کہ اسے حق کے قریب سمجھا جائے۔ اسلام اور جہاد کا نام لے کر، اپنی جہاد کی تعریف سے اختلاف رکھنے والے اپنے ہی کلمہ گو مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں سے، کوئی بھی عام مسلمان بدرجہا بہتر ہے۔ واللہ اعلم۔
 
Top