• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیٹ ورٹ مارکیٹنگ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ماہرینِ اقتصادیات کی رائے:
چونکہ یہ نظام ”سودی نظام“ سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے کہ سودی نظام میں مخصوص محتاجوں اور سودی قرض لینے اور سودی معاملہ کرنے والوں کی دولت ساہوکاروں اور سودخوروں کے پاس آتی ہے، نیٹ ورک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اتنے مرتب اور وسیع پیمانے پر سود اکٹھا نہیں ہوتا۔
نیٹ ورکنگ کے اس نظام میں کافی بڑے پیمانے پر دولت سمٹتی ہوئی، چند اوپر کے ممبران کے پاس مربوط انداز اور مخروطی (Pyramid) شکل میں جمع ہوتی رہتی ہے، نیچے کے ممبران منافع سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ دولت کی ترکیز دونوں میں ہے مگر نیٹ ورک مارکیٹنگ میں سودی نظام کی بہ نسبت زیادہ ہے، اس لیے عالمی پیمانے پر نیٹ ورک مارکیٹنگ کو مسترد کیا جارہاہے۔
ماہرینِ اقتصادیات ومعاشیات نے نیٹ ورکنگ سسٹم کو ”کینسر کی سوجن“ سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کینسر آلود خلیہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے جسم کو مسموم کرکے جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے، اسی طرح نیٹ ورک مارکیٹنگ میں ممبرسازی کے ذریعہ پورا معاشرہ لپیٹ میں آکر اقتصادی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔
”سودی نظام“ میں چونکہ بنیادی خرابی ترکیزِ دولت (Collection of wealth) ہے، اس میں مال دار زیادہ مال دار اور غریب زیادہ غریب ہوجاتا ہے؛ اس لیے اسلام نے اسے مسترد کردیا، تو ظاہر ہے کہ کوئی ایسا نظام یا ایسی معاشری صورت جس میں ترکیزِ دولت سودی نظام سے بھی زیادہ مہلک ہو، تو اس کی تائید اسلام کیسے کرسکتا ہے؟ اور جب خود سودی نظام نے ”نیٹ ورکنگ“کو مسترد کردیا ہے، تو ”اسلامی نظامِ دولت“ اسے سینے سے لگالے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔
یہاں تک پوری گفتگو ”نیٹ ورک مارکیٹنگ“ کا تعارف، اس کے اقتصادی اور اخلاقی پہلو پر کی گئی، ماہرِ اقتصادیات کی آراء اور عالمی پیمانے پر اس طریقہٴ تجارت کی مخالفت کی وجوہات بیان کی گئیں، جن سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس طرز کی مارکیٹنگ کسی طرح بھی سرمایہ کاروں اور ملک کے حق میں مفید نہیں ہے، اس سے معاشرہ شدید مالی بحران کا شکار ہوگا، دولت سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں اکٹھی ہوجائے گی اور بس۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شرعی حیثیت:
اسلام نے ہر اس معاملہ کومسترد کردیا ہے، جس میں دغا فریب اور دھوکہ دھڑی پائی جاتی ہو؛ یا جس میں ملکی بدانتظامی اور لوگوں کی ضرررسانی کا عنصر پایا جائے، یا جس میں مفادِ عامہ کی چیزوں پر چند افراد کے قبضہ کی صورت پائی جائے، یا جس میں خرید وفروخت کے ساتھ کوئی شرط لگادی جائے، یا وہ معاملہ ایسا ہو کہ جس میں بیع کے ساتھ کسی دوسرے معاملہ کا قصد کیا جاتا ہو اور بیع کا صرف بہانہ ہو، اسی طرح وہ معاملہ بھی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں، جس میں نزاع اور لڑائی کا احتمال ہو، جس میں دو معاملہ کو ایک کردیاگیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة الله عليه نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں ایسے ”نو“ وجود بیان فرمائے ہیں، جن کی وجہ سے شریعت نے معاملات کو مکروہ و ناجائز قرار دیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے رحمة اللہ الواسعہ ج:۲/۵۶۲ تا ۵۸۴)
نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لیے مذکورہ بالا اقتباس کو پڑھ کر اگراس طرزِ تجارت پر نگاہ ڈالی جائے تو ادنیٰ تأمل کے بعد ہی اس کا عدمِ جواز کھل کر سامنے آجائے گا؛ اس لیے کہ اس میں عدمِ جواز کی متعدد وجوہ پائی جاتی ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ذیل میں مزید تفصیل سے عدم جواز کی وجوہ بیان کی جاتی ہیں:
(۱) نفع حاصل کرنے کے لیے شریعت نے جو اصول بتائے ہیں، ان میں یا تو سرمایہ اور محنت دونوں ہوتی ہیں، جیسے بیع وشرا؛ یا صرف محنت ہوتی ہے اور سرمایہ دوسرے کا ہوتا ہے، جیسے مضاربت وغیرہ، لیکن ایسی کوئی صورت شرعاً جائز نہیں ہے، جس میں نہ تو محنت ہو اور نہ ہی سرمایہ لگے۔
نیٹ ورٹ مارکیٹنگ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آدمی ممبر بنتا ہے تو کمپنی ممبری فیس لے لیتی ہے،اور اپنی مصنوعات دے کر ان کی قیمت الگ سے لیتی ہے، قانونی لحاظ سے کمپنی کے پاس ممبر کا کوئی رقمی مطالبہ نہیں رہ جاتا، گویا کمپنی میں رقم اور سرمایہ لگاہوا نہیں ہے۔
پھر جب ممبرسازی ہوتی ہے، تو پہلے مرحلہ میں مان لیا جائے کہ اپنے تحت ممبربنانے میں محنت ہوئی، صرف انھیں ممبران کی تشکیل کا معاوضہ اگر ملے تو اسے کسی درجہ میں جائز کہا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ سرمایہ نہیں لیکن محنت تو پائی گئی، لیکن دوسرے تیسرے اور بعد کے مراحل میں ممبرسازی میں اس کی کوئی محنت نہیں ہوئی تو بعد کے ممبران کا تشکیلی معاوضہ کس طرح جائز ہوگا، جب کہ وہاں نہ تو محنت ہے اور نہ ہی سرمایہ!
اس تجارت سے منسلک حضرات یہ کہتے ہیں کہ ”آئندہ مراحل میں بھی کارکنوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے، جیسے لوگوں کو سمجھانا، مال کی اہمیت بتانا، ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنا وغیرہ“ لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پہلا ممبر براہِ راست ممبر بنانے کے بعد اگر آئندہ مرحلوں میں کوئی تعاون نہ کرے تب بھی وہ کمپنی کے اصول کے مطابق کمیشن کا مستحق قرار پاتا ہے، حاصل یہ کہ آئندہ مراحل میں بلا سرمایہ اور بلا محنت کمیشن آنا اس طرزِ تجارت کی سب سے بڑی خرابی ہے۔
پہلے مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ بھی درست نہیں:
اس طرح کی کمپنیوں میں ہر مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ الگ الگ نہیں دیا جاتا؛ بلکہ اپنے تحت چند مراحل میں مخصوص تعداد پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً بعض کمپنیوں میں یہ شرط ہے کہ جب ممبران کی تعداد ”نو“ ہوجائے اور وہ بھی تین مراحل میں ہوں تب ان سب کی خریداری کا متعین کمیشن اوپر کے ممبر کو دی جائے گی، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اپنے ہی نہیں دوسروں کے بنائے ہوئے ممبران کا معاوضہ بھی ساتھ ہوکر ملے گا، اس لیے حلال و حرام میں اجتماع کی وجہ سے یہ معاوضہ لینا بھی حرام ہوگا۔
فقہ کا قاعدہ ہے: اذَا اجْتَمَعَ الْحَلاَلُ وَالْحَرَامُ غُلِّبَ الْحَرَامُ (الاشباہ والنظائر:۱/۳۳۵) ترجمہ: جب حلال وحرام جمع ہوجائیں تو حرام کو غالب مانا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۲) شریعت میں ”سود“ اس لیے حرام ہے کہ اس میں زر سے زر حاصل کرنے کا ذریعہ اور بہانہ بنایا جاتا ہے، اس میں نہ تو کوئی پیداوار سامنے آتی ہے اور نہ ہی محنت پائی جاتی ہے، اس طرح جب زر سے زر پیدا کرنے کی ریت چل پڑتی ہے، تو لوگ بنیادی ذرائع معاش مثلاً کھیتیاں اور کاریگریاں چھوڑ دیتے ہیں اوریہ مثل زبانِ حال سے دہرائی جانے لگتی ہے، ”جب روٹی ملے یوں، تو کھیتی کرے کیوں؟“ (رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۲)
نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی ممبری فیس کے طور پر تھوڑا سرمایہ لگاکر پیسوں سے پیسے حاصل کرنے کا حیلہ اختیار کیاجاتا ہے، ہر ممبر کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اپنے نیچے زیادہ سے زیادہ ممبران آجائیں تاکہ اچھی خاصی رقم کسی محنت ومشقت کے بغیر کمیشن کے طور پر ان کے پاس جمع ہوجائے؛ حالانکہ زر سے زر کشید کرنا سود ہے، اس طرز کی تجارت کو ربوا سے کافی مشابہت ہے، جسے قرآنِ پاک میں حرام فرمایاگیاہے:
”أَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا“ (بقرہ:۵۷۲)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قراردیا ہے“
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۳) شرعی لحاظ سے ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے، وہ یہ کہ اس کمپنی میں شریک ہونے والوں کا مقصد کمپنی کا سامان خریدنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور نفع کمانا ہی مدِنظر رہتا ہے، گویا مقصود کمیشن ہے سامان نہیں، سامان کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے؛ اس لیے شرعی حکم معلوم کرتے وقت مقصود اور غلبہ کا ہی اعتبار ہوگا، جیسا کہ فقہی قواعد اس کی طرف مشیر ہیں:
(الف) العِبْرَةُ فِیْ الْعُقُوْدِ لِلْمَقَاصِدِ وَالْمَعَانِیْ لاَ لِلْألْفَاظِ وَالْمَبَانِیْ . (قواعد الفقہ ص:۹۱)
ترجمہ: ”معاملات میں مقاصد ومعانی ہی کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ و عبارت کا نہیں“
(ب) اَلْعِبْرَةَ لِلْغَالِبِ الشَّائِعِ لاَ لِلنَّادِرِ. (ایضاً)
ترجمہ: ”رائج وغالب حیثیت کا ہی اعتبار ہوتا ہے، نادر و کم یاب کا نہیں“
(ج) التابِعُ لا یَتَقَدَّمُ عَلَی الْمَتْبُوْعِ . (الاشباہ والنظائرج:۱/۳۶۵)
ترجمہ: تابع کو متبوع پر مقدم نہیں کیا جاسکتا۔
نیٹ ورک سسٹم میں شمولیت کا اصلی مقصد چونکہ کمیشن اور نفع حاصل کرنا ہی ہے، یہی پہلو شریک ہونے والوں کے لیے باعثِ کشش ہے؛ اس لیے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ آدمی ممبر بننے کی فیس دے کر امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے، ہوسکتاہے کہ اس بہانے کافی منافع ہاتھ آجائیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لگایا تھا وہ بھی ڈوب جائے یہی حقیقت ہے جوئے اور قمار کی۔
”ہُوَ کُلُّ لَعِبٍ یُشْتَرَطُ فِیْہِ غَالِبًا أن یَّأخُذَ الْغَالِبُ شَیْئًا مِنَ الْمَغْلُوْبِ وَأصْلُہ أن یَّأخُذَ الْوَاحِدُ مِنْ صَاحِبِہ شَیْئًا فَشَیْئًا فِی اللَّعِبِ“ (ص:۴۳۴)
ترجمہ: قمار (ہار جیت کا) ہر وہ کھیل ہے جس میں اکثر یہ شرط ہوتی ہے کہ جو غالب ہوگا، وہ مغلوب سے کچھ لے گا، اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی سے کھیل میں تھوڑا تھوڑا کچھ لیتا رہتا ہے۔
اور قمار کی تعریف یوں لکھی ہے:
انَّہ تَعْلِیقُ الْمِلْکِ عَلَی الْخَطَرِ وَالْمَالُ فِی الْجَانِبَیْنِ (قواعد الفقہ ص:۴۳۴، فتاوی ابن تیمیہ ۱۹/۲۸۴)
ترجمہ: ملکیت کو جوکھم پر معلق کرنا، جب کہ دونوں جانب مال ہو۔
حاصل یہ کہ قمار (جوا) میں معاملہ نفع وضرر کے درمیان دائر ہوتا ہے؛ احتمال یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سا مال مل جائے گا، اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے،اسی کو ”مخاطرہ“ اور قرآن کی اصطلاح میں ”میسر“ کہتے ہیں۔
جوئے کا مدار لالچ، جھوٹی آرزو اور فریب خوردگی کی پیروی پر ہے،جوا کمزوروں کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لیتا ہے، ہارنے والااگر خاموش رہتاہے تو محرومی اور غصہ میں خون کا گھونٹ پی کر خاموش رہتا ہے،اور اگر دوسرے فریق سے لڑتا ہے، تو اس کی کوئی نہیں سنتا کیوں کہ ”خود کردہ را علاجے نیست“ جوئے کا تمدن اور باہمی تعاون میں کچھ حصہ نہیں۔ (مستفاد از رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۱)
مفتی بغداد، صاحبِ ”روح المعانی“ علامہ محمد آلوسی نے میسر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
المَیْسِرُ... امَّا من الیُسْرِ لأنہ أخذُ المال بِیُسْرٍ وَسُہُوْلَةٍ (روح المعانی: ۲/۱۱۳)
یعنی ”میسر“ یا تو یُسر سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں، کسی کا مال آسانی اور سہولت سے مارلینا، میسر (جوا) کے ذریعہ لوگوں کے اموال آسانی سے جھپٹ لیے جاتے ہیں۔
نیٹ ورک مارکیٹنگ کی موجودہ شکل اگرچہ نئی ہے، لیکن بہرحال اس میں جوئے کی حقیقت پائی جارہی ہے، جیساکہ غور کرنے والوں پر مخفی نہیں، جوئے کی حرمت سود کی طرح نص قطعی سے ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمنُوا انَّمَا الخمرُ وَالمَیْسِرُ والأنصابُ والأزلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . (مائدہ:۹۰)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔ (بیان القرآن)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۴) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں وہی آدمی کامیاب و بامراد ہوتا ہے، جو تیز طرار، باتونی اور لسّان ہو، سامنے والوں کو متأثر کرکے ممبر بنالیتا ہو، جو لوگ اس طرح کی شاطرانہ چال نہیں چلتے، یا یہ صلاحیت ان میں نہیں ہوتی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں، ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے اور وہ دھوکہ کھاکر مایوس ہوجاتے ہیں۔
ایسے دھوکہ کی بیع و شراء کو سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا ہے: نَہَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ. (سنن ترمذی:۱/۲۳۳)
مبسوط میں علامہ سرخسی رحمة الله عليه نے غرر کی تعریف اس طرح کی ہے۔ الغَرَرُ مَا یَکُوْنُ مَسْتُوْرَ الْعَاقِبَةِ . (المبسوط:۱۲/۱۹۴)
جس کاحاصل یہ ہے کہ غرر میں انجام معلوم نہیں ہوتا، مذکورہ طرزِ تجارت میں نفع ملنے اور نہ ملنے کا پتا نہیں ہوتا، گویا قمار (جوا) ہی کی دوسری تعبیر ”بیع غرر“ ہے۔
بعض لوگوں نے اس طرزِ تجارت کو لاٹری (Lottery) سے بھی بدتر بتایا ہے؛ اس لیے کہ لاٹری میں ٹکٹ خرید کر آدمی سکون سے انتظار کرتا ہے، لیکن اس میں ممبرشپ حاصل کرنے کے بعد ممبرسازی کے لیے خوب دوڑ دھوپ کرتا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے پھر بھی ممبر نہ بنانے کی صورت میں اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھولیتا ہے، اور کمپنی رُک جانے کے وقت نیچے کے تین درجوں کے لوگ یقینا محروم رہ جاتے ہیں، اس لیے اس میں نفع کا چانس لاٹری سے بھی کم ہے، اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہی سلسلہ کا آخری آدمی ہوگا، تو ہرگز سامان خرید کردہ ممبر نہیں بنے گا، حقیقت یہ ہے کہ اس میں ”غرر کثیر“ ہے، جس سے باز رہنے کی تلقین سرکار دوعالم … نے فرمائی ہے۔ (بحث ونظر ص:۱۷۲)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۵) اسلام نے اپنے تجارتی اصول میں ملکی مصلحت کا خیال رکھا ہے، مصنوعی رکاوٹ ملکی مصلحت کے لیے نہایت ہی مضر ثابت ہوتی ہے، اس سے اشیاء کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے، تجارت کا مال تمام شہریوں تک پہنچنے کے بجائے چند لوگوں کے پاس ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے۔
زمانہٴ جاہلیت میں جب کوئی دیہاتی سوداگر شہر میں اپنا سامانِ تجارت لے کر پہنچتا تھا، تو شہر کے بعض تُجّار اس سے کہتے کہ ابھی تم خود سے سامان نہ بیچو؛ اس لیے کہ ابھی بھاؤ کم ہے، سستا بک جائے گا؛ بلکہ تم ہمارے حوالے کردو! چند دنوں بعد تم کو ہم مہنگا بیچ کر دیں گے، اس میں بائع کا بھی ضرر ہوتاتھا؛ یہ تُجّار جھوٹی قیمت بتادیتے تھے، اور عوام کو بھی اشیاء مہنگی ملتی تھی،اس کو اصطلاح میں ”بیع الحاضر للبادی“ کہتے ہیں۔
سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے اس طرزِ تجارت سے منع فرمادیا تاکہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو، اور ”مصنوعی رکاوٹ“ کا رواج ختم ہوجائے۔ (سنن ترمذی:۱/۲۳۲، ابواب البیوع، رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۷۶، میں تفصیل ملاحظہ کیجیے)
زمانہٴ جاہلیت میں اسی سے ملتی جلتی یہ شکل بھی تھی کہ جب کوئی تاجر دیہات سے شہر میں آتا تھا تو شہر کے بعض تجار شہر سے باہر نکل کر ان سے پہلے ہی ملتے،اور سارا مال خرید لیتے تھے تاکہ یہ مال شہر میں نہ آسکے اور سارے لوگ ان سے خریدنے پر مجبور ہوں، اس کو اصطلاح میں ”تلقیِ جلب“ کہا جاتاہے، سرکارِ دوعالم … نے ان دونوں صورتوں کو اس لیے منع فرمایاہے، (سنن ترمذی: ۱/۲۳۲) اس لیے کہ دونوں میں اشیاء چند آدمیوں کے ہاتھوں میں جاکر عوام کے لیے مہنگی ہوجاتی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: الدرالمختار مع ردالمحتار: ۴/۱۴۸ رشیدیہ پاکستان)
نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی یہ خرابی ہے کہ ہر آدمی ان کمپنیوں کے سامان نہیں خرید سکتا، صرف ممبران ہی خریدسکتے ہیں؛ اس لیے بھی اشیاء نہایت ہی گراں ہوتی ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۶) اس طرح کی کمپنیوں میں اشیاء کی قیمت عام مارکیٹ ریٹ (Market rate) کے مقابلہ میں تین گنا بلکہ چھ گنا زیادہ ہوتی ہے، اشیاء کی جودت و عمدگی کا دعویٰ بھی فضول معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ اگر وہی اشیاء عام مارکیٹ میں رکھی جائیں، تو لوگ ہرگز اتنی قیمت میں نہیں خریدیں گے، دوسری کمپنیوں کی مصنوعات ہی کو ترجیح دیں گے۔
خلاصہ یہ کہ یہ گرانی فقہ کی اصطلاح میں ”غبن فاحش“ کہلاتی ہے، جو مکروہ ہے، حتیٰ کہ شریعت نے مشتری کو غبنِ فاحش کی وجہ سے مبیع (خریدی ہوئی چیز) کے واپس کرنے کا حق دیا ہے۔ (رد المحتار:۴/۱۷۸، رشیدیہ پاکستان)
(۷) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة الله عليه نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں ممنوع معاملات کی جملہ ”نو“ وجوہ میں سے چوتھی وجہ یہ بیان فرمائی ہے:
”وَمِنْہَا أن یُّقْصَدَ بِہٰذَا الْبَیْعِ مُعَامَلَةٌ أُخْریٰ یَتَرَقَّبُہَا فِیْ ضِمْنِہ أوْ مَعَہ “ الخ
ترجمہ: اور ممانعت کی انھیں وجوہ میں سے یہ ہے کہ اس بیع سے کسی ایسے دوسرے معاملے کا قصد ہو، جس کا وہ بیع کے ضمن میں یا بیع کے ساتھ انتظار کرتا ہو۔
خرید و فروخت کو خالص رکھنا ضروری ہے، اگر خرید وفروخت کے ساتھ کسی اور معاملہ کا قصد ہوجائے تو بیع فاسد ہوجاتی ہے۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بظاہر تو آدمی کمپنی کا سامان خریدتاہے؛ لیکن مقصد ممبرسازی کے ذریعہ کمیشن کمانا ہوتا ہے،اس وجہ سے بھی تجارت کی یہ شکل ناجائز معلوم ہوتی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۸) رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ”بیع بالشرط“ کو منع فرمایا ہے: أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَہٰی عَنْ بَیْعٍ وَشَرْطٍ . (مجمع الزوائد:۴/۸۵)
بیع اور شرط ایک ساتھ جمع کرناجائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ شرطوں کی وجہ سے آدمی معاملہ تو ضرورت کی وجہ سے کرتا ہے اور شرط نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیتا ہے، نیٹ ورک مارکیٹنگ میں کمپنی کا مال خریدنے کے ساتھ ہی یہ شرط ہوتی ہے، کہ مثلاً:
(الف) کمپنی کا مال بازار میں رکھ کر بیچ نہیں سکتے۔
(ب) کمپنی کے مال یا اس کے طریقہٴ کار کی خامیاں بیان نہیں کرسکتے۔
(ج) کمپنی کا سامان لینے کیلئے ایجنٹ اور ممبر بننا شرط ہے، ممبری فیس ضرور وصولی جائیگی۔
(د) بعض کمپنیوں میں رعایتی قیمت پر سامان لینے کے لیے ممبر ہونا اور ممبری فیس ادا کرنا ضروری ہے، بغیر ممبر بنے سامان خریدنے پر سامان مہنگا ملے گا۔
گویا اس طرزِ تجارت میں بیع کے ساتھ ایسی شرط؛ بلکہ چند شرطیں موجود ہوتی ہیں، جو مقتضائے عقد کے خلاف ہیں؛ اس لیے یہ معاملہ فاسد ہوگا، ہدایہ میں ہے: کُلُّ شَرْطٍ لاَیَقْتَضِیْہِ الْعَقْدُ وَفِیْہِ مَنْفَعَةٌ لِأَحَدٍ المُتَعَاقِدَیْنِ اَوْ لِلْمَعْقُوْدِ عَلَیْہِ وَہُوَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْتِحْقَاقِ فَیْفْسُدُ. (مع فتح القدیر:۳/۲۶، البحرالرائق: ۵/۱۸۲)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۹) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں خرید و فروخت کے معاملہ کے ساتھ اجارہ (یعنی ایجنٹ بننے کی ملازمت) مشروط ہے؛ اس لیے ایسے عقدِ بیع اور عقدِ اجارہ کو دومعاملوں کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں، اور یہ حدیث شریف کی رو سے ممنوع ہے، ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه کی ایک روایت ہے:
نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَةٍ . (ترمذی: ۱/۲۳۳، ابواب البیوع)
ترجمہ: ”آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایاہے“۔
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:
نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفَقَةٍ وَاحِدَةٍ . (مسند احمد حدیث نمبر:۳۷۷۴)
ترجمہ: ”آپ نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایا ہے“۔
(نوٹ: نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ناجائز ہونے کی شرعی وجوہات میں سے ساتویں، آٹھویں اور نویں وجوہات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔
 
Top