محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
ماہرینِ اقتصادیات کی رائے:
چونکہ یہ نظام ”سودی نظام“ سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے کہ سودی نظام میں مخصوص محتاجوں اور سودی قرض لینے اور سودی معاملہ کرنے والوں کی دولت ساہوکاروں اور سودخوروں کے پاس آتی ہے، نیٹ ورک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اتنے مرتب اور وسیع پیمانے پر سود اکٹھا نہیں ہوتا۔
نیٹ ورکنگ کے اس نظام میں کافی بڑے پیمانے پر دولت سمٹتی ہوئی، چند اوپر کے ممبران کے پاس مربوط انداز اور مخروطی (Pyramid) شکل میں جمع ہوتی رہتی ہے، نیچے کے ممبران منافع سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ دولت کی ترکیز دونوں میں ہے مگر نیٹ ورک مارکیٹنگ میں سودی نظام کی بہ نسبت زیادہ ہے، اس لیے عالمی پیمانے پر نیٹ ورک مارکیٹنگ کو مسترد کیا جارہاہے۔
ماہرینِ اقتصادیات ومعاشیات نے نیٹ ورکنگ سسٹم کو ”کینسر کی سوجن“ سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کینسر آلود خلیہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے جسم کو مسموم کرکے جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے، اسی طرح نیٹ ورک مارکیٹنگ میں ممبرسازی کے ذریعہ پورا معاشرہ لپیٹ میں آکر اقتصادی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔
”سودی نظام“ میں چونکہ بنیادی خرابی ترکیزِ دولت (Collection of wealth) ہے، اس میں مال دار زیادہ مال دار اور غریب زیادہ غریب ہوجاتا ہے؛ اس لیے اسلام نے اسے مسترد کردیا، تو ظاہر ہے کہ کوئی ایسا نظام یا ایسی معاشری صورت جس میں ترکیزِ دولت سودی نظام سے بھی زیادہ مہلک ہو، تو اس کی تائید اسلام کیسے کرسکتا ہے؟ اور جب خود سودی نظام نے ”نیٹ ورکنگ“کو مسترد کردیا ہے، تو ”اسلامی نظامِ دولت“ اسے سینے سے لگالے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔
یہاں تک پوری گفتگو ”نیٹ ورک مارکیٹنگ“ کا تعارف، اس کے اقتصادی اور اخلاقی پہلو پر کی گئی، ماہرِ اقتصادیات کی آراء اور عالمی پیمانے پر اس طریقہٴ تجارت کی مخالفت کی وجوہات بیان کی گئیں، جن سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس طرز کی مارکیٹنگ کسی طرح بھی سرمایہ کاروں اور ملک کے حق میں مفید نہیں ہے، اس سے معاشرہ شدید مالی بحران کا شکار ہوگا، دولت سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں اکٹھی ہوجائے گی اور بس۔
چونکہ یہ نظام ”سودی نظام“ سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے کہ سودی نظام میں مخصوص محتاجوں اور سودی قرض لینے اور سودی معاملہ کرنے والوں کی دولت ساہوکاروں اور سودخوروں کے پاس آتی ہے، نیٹ ورک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اتنے مرتب اور وسیع پیمانے پر سود اکٹھا نہیں ہوتا۔
نیٹ ورکنگ کے اس نظام میں کافی بڑے پیمانے پر دولت سمٹتی ہوئی، چند اوپر کے ممبران کے پاس مربوط انداز اور مخروطی (Pyramid) شکل میں جمع ہوتی رہتی ہے، نیچے کے ممبران منافع سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ دولت کی ترکیز دونوں میں ہے مگر نیٹ ورک مارکیٹنگ میں سودی نظام کی بہ نسبت زیادہ ہے، اس لیے عالمی پیمانے پر نیٹ ورک مارکیٹنگ کو مسترد کیا جارہاہے۔
ماہرینِ اقتصادیات ومعاشیات نے نیٹ ورکنگ سسٹم کو ”کینسر کی سوجن“ سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کینسر آلود خلیہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے جسم کو مسموم کرکے جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے، اسی طرح نیٹ ورک مارکیٹنگ میں ممبرسازی کے ذریعہ پورا معاشرہ لپیٹ میں آکر اقتصادی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔
”سودی نظام“ میں چونکہ بنیادی خرابی ترکیزِ دولت (Collection of wealth) ہے، اس میں مال دار زیادہ مال دار اور غریب زیادہ غریب ہوجاتا ہے؛ اس لیے اسلام نے اسے مسترد کردیا، تو ظاہر ہے کہ کوئی ایسا نظام یا ایسی معاشری صورت جس میں ترکیزِ دولت سودی نظام سے بھی زیادہ مہلک ہو، تو اس کی تائید اسلام کیسے کرسکتا ہے؟ اور جب خود سودی نظام نے ”نیٹ ورکنگ“کو مسترد کردیا ہے، تو ”اسلامی نظامِ دولت“ اسے سینے سے لگالے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔
یہاں تک پوری گفتگو ”نیٹ ورک مارکیٹنگ“ کا تعارف، اس کے اقتصادی اور اخلاقی پہلو پر کی گئی، ماہرِ اقتصادیات کی آراء اور عالمی پیمانے پر اس طریقہٴ تجارت کی مخالفت کی وجوہات بیان کی گئیں، جن سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس طرز کی مارکیٹنگ کسی طرح بھی سرمایہ کاروں اور ملک کے حق میں مفید نہیں ہے، اس سے معاشرہ شدید مالی بحران کا شکار ہوگا، دولت سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں اکٹھی ہوجائے گی اور بس۔