• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیک اور اچھے غیر مسلم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یوسف ثانی بھائی! آپ کی تحریر میں دو باتوں پر آپ کے حضور سخت احتجاج رقم کروانا چاہتا ہوں!

جس مؤقف کو آپ نے ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا قرار دیا ہے، در حقیقت یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا کا مؤقف ہے! یا تو آپ نے ان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کے مؤقف کو ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا مؤقف قرار دے کر غلطی ہے، یا پھر انہیں ''اسلام کا ٹھیکیدار'' قرار دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کی توہین کی ہے!


یوسف ثانی بھائی! اب آپ نے چونکہ اسی تحریر میں بڑی جرأت اور بے باکی سے ''اسلام کے ٹھیکداروں'' کے الفاظ رقم کئے ہیں، تو امید کرتا ہوں کہ میرے الفاظ بھی آپ برداشت کر یں گے!
یوسف ثانی بھائی! جنہیں آپ نے ''اسلام کا ٹھیکیدار'' قرار دیا ہے، ان کا دعویٰ بالکل درست ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے '' ذاتی کے معاملات'' میں دخل اندازی قطعاً نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی گئی شریعت کا حکم ہے!
البتہ آپ نے اس معاملہ میں محض اٹکل کی بنیاد پر ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' جو کہ در اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےورثاء ہیں، ان کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے، ایک نیا نکتہ کشید کیا ہے کہ کسی ''غیر مسلمین'' کو جہنمی قرار دینا اللہ تعالیٰ کے ''ذاتی معاملات'' میں مداخلت ہے!
کل کو کئی منچلا آکر یہ کہہ دے کہ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی نیا نبی نہیں بھیجے گا، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ''ذاتی معاملات'' میں مداخلت ہے!

یوسف ثانی بھائی! اسلامی احکامات میں اس اٹکل کو پرے کیجئے، اور ماثور سے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کیجئے!
اللہ تعالیٰ مجھے بھی، آپ کو بھی ، اور تمام کو اس کی توفیق دے، آمین!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جزاک اللہ خیرا ابن داؤد بھائی!
سب سے پہلے تو میں اللہ کے حضور ان تمام غلطیوں کی معافی مانگتا ہوں، جو اس مراسلہ میں میری کم علمی کی وجہ سے تحریر ہو گئی ہیں۔ آپ سے بھی درخواست ہے کہ میرے لئے دعا کیجئے۔

دوسری بات یہ سمجھ لیجئے کہ یہ کوئی باقاعدہ مضمون یا میری کوئی ”ریگولر تحریر“ نہیں ہے ۔ یہ ایک ”فیس بک“ کی پوسٹ پر لکھی گئی ایک ”جوابی تحریر“ ہے، جسے فیس بک پر اپنی ٹائم لائن اور یہاں ایک ”پوسٹ“ کی طرح کاپی پیسٹ کی ہے۔

”ایک خاتون کے اوریجنل پوسٹ میں اس ”تصور“ کو پیش کیا گیا تھا کہ کافروں میں جو نیک اور اچھے لوگ ہیں، اللہ ان کی مغفرت ضرور کرے گا کیونکہ وہ عادل ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس تصور کی حمایت میں اور بھی بہت سے فیس بکی لوگ ہاں میں ہاں ملانے کو آگئے تھے۔

میں جب کسی آن لائن جگہ جب لکھتا ہوں تو ”اپنا عقیدہ“ بیان نہیں کرتا بلکہ خود کو ”غیر جانبدار“ رکھتے ہوئے، انہی لوگوں کی زبان میں باتیں کرکے اُن تک ”حق“ بات پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری تحریر کو اسی پس منظر میں پڑھئے۔ آپ یقیناً اس بات سے باخبر ہوں گے کہ اردو زبان و بیان میں جب کسی لفظ یا اصطلاح کو واوین (”۔۔“) میں لکھا جاتا ہے تو اس لفظ یا اصطلاح کے لغوی اور مروجہ معنی میں ”وسعت“ پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس لفظ کو دیگر مفہوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جب میں نے ”اسلام کے ٹھیکیدار“ لکھا تو یہ ان سیکولر لوگوں کی ترجمانی کی جو علماء اور مولوی حضرات کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کے ”ذاتی معاملات میں مداخلت“ میں بھی پنہاں ہے۔ یہاں بھی میں نے واوین سے یہی کام لیا۔ اور زیر بحث موضوع کو اس جانب لے آیا کہ اچھے کافر جنت میں جائیں گے یا جہنم میں اس کا فیصلہ نہ ہم کر سکتے ہیں نہ کوئی مولوی۔ اس بات پر سیکولر حضرات نیم رضامند ہوگئے۔ پھر میں انہیں اس طرف لے آیا کہ آئیے ہم خود اللہ (قرآن) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح احادیث) سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں۔ اس طرح کا مکالمہ ایک طرح سے ”مناظرہ“ ہی ہوتا ہے جس میں شریک مناظرہ ہی کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ علمی اسکالرز یا علمائے کرام کا علمی انداز نہیں اپنایا جاتا۔

یہاں اس دھاگہ کے جوابی مراسلات میں پیش کردہ قرآنی آیات اور احادیث کو پھر میں نے وہاں باری باری پیش کیا کہ اس ”موضوع“ پر قرآن کیا کہتا ہے۔ خود صاحبہ پوسٹ اور دیگر متحرک سیکولر حضرات میری اس حکمت عملی کے سامنے خاموش سے ہوگئے اور یوں وہ بھولے بھالے فیس بکینز اور خاموش قاری کو گمراہ کرنے سے قاصر رہے، (اگر وہ خود مطمئن نہ بھی ہوئے ہوں تو )۔ میں اس قسم کے مناظرہ، مکالمہ اور بحث مباحثہ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے آن لائن فورمز پر کرتا چلا آرہا ہوں۔ اور ملحدین، منافقین، شیعہ، قادیانی، کفار اور مشرکین کی محفلوں میں ”انہی کی زبان“ استعمال کرتے ہوئے انہیں ”خاموش“ کراتا رہا ہوں تاکہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ نہ کرسکیں۔ واضح رہے کہ نیٹ ورلڈ میں موجود پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت اپنے دین سے بے بہرہ ہے اور یہ لوگ ایسے سادہ نوجوانوں کو بہت آسانی سے گمراہ کرلیتے ہیں۔

میری اس فورم میں بھی ایسی بہت سی تحریریں پوسٹ ہوتی رہتی ہیں۔ اور اس کے جواب میں جو ”علمی مراسلے“ سامنے آتے ہیں، ان سے میں دیگر فورمز میں خوب خوب استفادہ کرتا ہوں۔ اکثر و بیشتر میں اسلام کے حوالے سے ”اعتراضات“ کرتا ہوا بھی نظر آتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے علامہ اقبال اپنی نظم ”شکوہ“ میں کرتے ہیں۔ جس طرح شکوہ کے اشعار علامہ کے ذاتی ”افکار و ایمان“ کے ترجمان نہیں ہیں۔ اسی طرح میرے مراسلوں میں موجود ”اعتراضات“ بھی میرے افکار و ایمان کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ یہ سیکولر اور غیر مسلمین کے اعتراضات ہوتے ہیں، جن کے مجھے ”علمی اور مستند جوابات“ درکار ہوتے ہیں تاکہ میں انہیں متعلقہ فورمز میں استعمال کرسکوں۔

پس تحریر: شاید آپ کو معلوم ہو کہ میں گذشتہ چار عشروں سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیم میں لکھتا چلا آرہا ہوں اور مروجہ زبان میں ایک صحافی بھی ہوں۔ جنگ اخبار اور پی پی آئی نیوز ایجنسی سمیت متعدد اخبارات وجرائد سے وابستگی بھی رہی ہے۔ پیغام قرآن ڈاٹ کام اور پیغام حدیث ڈاٹ کام کا مدیر بھی ہوں۔ اور قرآن و حدیث پر مبنی کتب (بلا تبصرہ و تشریح) کی اشاعت کے پروجیکٹ سے بھی وابستہ ہوں۔ واضح رہے کہ لکھنا لکھانا میرا بنیادی ذریعہ روزگار نہیں ہے۔ اس تعارف کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مجھے میری کسی ”ضمنی تحریروں، مراسلوں“ سے نہ ”پہچانا“ جائے۔

@اسحاق سلفی
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کیا ابو طالب نیک اور اچھے کافر نہیں تھے؟
========================
رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب زندگی بھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے مصائب و آلام برداشت کرتے رہے مگر افسوس کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہزاروں کوششوں کے باوجود ایمان نہ لائے. بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ابوطالب کی وفات کے وقت آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یا عم قل لا الہ الا اﷲ . چچاجان پڑھئے لا الہ الااﷲ .نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ابوطالب کی آخری سانس تک بڑی ہی آس امید کے ساتھ مشفق چچا کو مسلمان ہونے کی تلقین کرتے رہے مگر اس وقت ابوجہل اور امیہ وغیرہ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے. یہ برابر بہکاتے رہے یہاں تک کہ جب آپ پر آخری وقت تھا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : چچا جان اس وقت بھی اگر آپ لا الہ الااﷲ پڑھ لیں تو مجھے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کیلئے سفارش کا موقع مل جائے گا. مگر ابوطالب نے کہا کہ میں عبدالمطلب کے طریقہ پر دنیا کو چھوڑتاہوں. چچا کے بے دین فوت ہونے پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سخت صدمہ ہوا . شدت غم سے رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور زبان اقداس سے ارشاد فرمایا: چچا کے لئے اﷲ تعالیٰ سے اس وقت تک مغفرت مانگتا رہوں گا جب تک اﷲ تعالیٰ مجھ کو اس سے منع نہ کردے.

طبقات ابن سعد میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابوطالب کی وفات کی خبر دی تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم زار و قطار رونے لگے اور فرمایا: علی! جاؤ جاکر(ابوطالب کو) غسل دے کر کفن پہناؤ اور دفن کر دو. اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے اور اس پر رحم کرے.
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کی تکمیل کی پھر سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کئی دن تک باہر نہ نکلے. چچا کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہے تاآنکہ جبریل علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے :

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ(التوبہ: 113)
نبی ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کو اور ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ایسا کرنا سزاوار نہیں کہ جب واضح ہوگیا یہ لوگ جہنمی ہیں پھر بھی مشرکوں کی بخشش کے طلب گار ہوں اگرچہ وہ ان کے اغزہ و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔

(نوٹ: اردو مجلس سے منقول یہ مراسلہ بھی فیس بُک کے اسی پوسٹ میں شامل کیا گیا ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@یوسف ثانی بھائی! اللہ آپ کو جزائے خیر دے! میرا مقصد اسی تساہل کی طرف اشارہ کرنا تھا!
آپ کے ساتھ یہ دیرنہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ، آپ کی تحریر سے میں کچھ باتیں آپ کا مؤقف معلوم ہوتی ہیں، میں نے آپ کی تحریر کو دو بار پڑھا کہ یہ کسی اور کا مؤقف تو بیان نہیں کیا! پھر دیکھاکہ یہ آپ نے فیس بک پر جواب لکھا ہے!
خیر آپ بھی میرا مدعا سمجھ گئے ہیں! اور میں بھی آپ کا مدعا سمجھ گیا ہوں، میں آپ کی باقی باتوں سے بالکل متفق ہوں!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وسری بات یہ سمجھ لیجئے کہ یہ کوئی باقاعدہ مضمون یا میری کوئی ”ریگولر تحریر“ نہیں ہے ۔ یہ ایک ”فیس بک“ کی پوسٹ پر لکھی گئی ایک ”جوابی تحریر“ ہے، جسے فیس بک پر اپنی ٹائم لائن اور یہاں ایک ”پوسٹ“ کی طرح کاپی پیسٹ کی ہے۔

”ایک خاتون کے اوریجنل پوسٹ میں اس ”تصور“ کو پیش کیا گیا تھا کہ کافروں میں جو نیک اور اچھے لوگ ہیں، اللہ ان کی مغفرت ضرور کرے گا کیونکہ وہ عادل ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس تصور کی حمایت میں اور بھی بہت سے فیس بکی لوگ ہاں میں ہاں ملانے کو آگئے تھے۔

میں جب کسی آن لائن جگہ جب لکھتا ہوں تو ”اپنا عقیدہ“ بیان نہیں کرتا بلکہ خود کو ”غیر جانبدار“ رکھتے ہوئے، انہی لوگوں کی زبان میں باتیں کرکے اُن تک ”حق“ بات پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری تحریر کو اسی پس منظر میں پڑھئے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ؛
میرا تو پہلے ہی اسی بات پر یقین تھا ۔کہ آپ اس پوسٹ میں ۔۔اپنا نہیں ،بلکہ ’’دوسروں ‘‘ کا موقف
نقل کر رہے ہیں ،اسلئے میری جوابی پوسٹ بھی میرے اسی نقطہ نظر کے مطابق ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یوسف ثانی بھائی! آپ کی تحریر میں دو باتوں پر آپ کے حضور سخت احتجاج رقم کروانا چاہتا ہوں!

جس مؤقف کو آپ نے ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا قرار دیا ہے، در حقیقت یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا کا مؤقف ہے! یا تو آپ نے ان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کے مؤقف کو ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا مؤقف قرار دے کر غلطی ہے، یا پھر انہیں ''اسلام کا ٹھیکیدار'' قرار دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کی توہین کی ہے!


یوسف ثانی بھائی! اب آپ نے چونکہ اسی تحریر میں بڑی جرأت اور بے باکی سے ''اسلام کے ٹھیکداروں'' کے الفاظ رقم کئے ہیں، تو امید کرتا ہوں کہ میرے الفاظ بھی آپ برداشت کر یں گے!
یوسف ثانی بھائی! جنہیں آپ نے ''اسلام کا ٹھیکیدار'' قرار دیا ہے، ان کا دعویٰ بالکل درست ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے '' ذاتی کے معاملات'' میں دخل اندازی قطعاً نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی گئی شریعت کا حکم ہے!
البتہ آپ نے اس معاملہ میں محض اٹکل کی بنیاد پر ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' جو کہ در اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےورثاء ہیں، ان کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے، ایک نیا نکتہ کشید کیا ہے کہ کسی ''غیر مسلمین'' کو جہنمی قرار دینا اللہ تعالیٰ کے ''ذاتی معاملات'' میں مداخلت ہے!
کل کو کوئی منچلا آکر یہ کہہ دے کہ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی نیا نبی نہیں بھیجے گا، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ''ذاتی معاملات'' میں مداخلت ہے!

یوسف ثانی بھائی! اسلامی احکامات میں اس اٹکل کو پرے کیجئے، اور ماثور سے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کیجئے!
اللہ تعالیٰ مجھے بھی، آپ کو بھی ، اور تمام کو اس کی توفیق دے، آمین!
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم ابن داؤد صاحب - اگر برا نہ مانیں تو آپ @یوسف ثانی صاحب کی تحریر جس کو آپ ان کا موقف قرار دے رہے ہیں اس پر تھوڑے سے جذباتی نظرآ رہے ہیں- پہلی بات تو یہ کہ یہ @یوسف ثانی صاحب کا اپنا موقف نہیں ہے بلکہ فیس بک پر کسی کی جوابی تحریر ہے جس پر یوسف صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب مانگا ہے -

ان کا سوال یہ ہے کہ "
اہل علم سے جواب کی درخواست ہے۔
کیا قرآن و حدیث میں اس سوال کا واضح جواب موجود ہے یا قرآن و حدیث اس بارے میں خاموش ہیں؟
اگر جواب موجود ہے تو (بلا تبصرہ و تشریح) اُن آیات اور احادیث اللہ کو یہاں پیش کیجئے، جن سے یہ واضح ہوسکے کہ ”نیک غیر مسلم“ جہنم یا جنت میں جائیں گے
۔

دوم یہ کہ : اس بات میں بھی وزن ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہرحال "اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا وجود موجود ہے - کم یا زیادہ لیکن ہے ضرور- مسلمانوں کی اکثریتی فرقوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے- ہر ایک اپنے آپ کو "ناجی" فرقہ ثابت کرنے کی سعی میں لگا ہوا ہے اور دوسروں پر بغیر دلیل کے کفر کے فتوے صادر کرنے پر تلا ہوا ہے- اس صورت میں ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء قرار دینا کہاں کی دانشمندی ہے ؟؟

قرآن میں تو الله کا واضح فرمان ہے کہ :
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ۔
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو پارہ پار کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، (اے نبی مکرم) آپ کا کسی معاملے ان سے تعلق نہیں- انکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرمادے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی ورثاء تو وہ ہیں جو ہر قسم کے تفرقے سے پاک ہیں- جو ما انا عليه اليوم و اصحابى کی صفات کے حامل ہیں یا اس صفت کو پانے کے لئے کوشاں ہیں -

الله ہم سب کو اپنے سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جزاک اللہ خیرا ابن داؤد بھائی!
سب سے پہلے تو میں اللہ کے حضور ان تمام غلطیوں کی معافی مانگتا ہوں، جو اس مراسلہ میں میری کم علمی کی وجہ سے تحریر ہو گئی ہیں۔ آپ سے بھی درخواست ہے کہ میرے لئے دعا کیجئے۔

دوسری بات یہ سمجھ لیجئے کہ یہ کوئی باقاعدہ مضمون یا میری کوئی ”ریگولر تحریر“ نہیں ہے ۔ یہ ایک ”فیس بک“ کی پوسٹ پر لکھی گئی ایک ”جوابی تحریر“ ہے، جسے فیس بک پر اپنی ٹائم لائن اور یہاں ایک ”پوسٹ“ کی طرح کاپی پیسٹ کی ہے۔

”ایک خاتون کے اوریجنل پوسٹ میں اس ”تصور“ کو پیش کیا گیا تھا کہ کافروں میں جو نیک اور اچھے لوگ ہیں، اللہ ان کی مغفرت ضرور کرے گا کیونکہ وہ عادل ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس تصور کی حمایت میں اور بھی بہت سے فیس بکی لوگ ہاں میں ہاں ملانے کو آگئے تھے۔

میں جب کسی آن لائن جگہ جب لکھتا ہوں تو ”اپنا عقیدہ“ بیان نہیں کرتا بلکہ خود کو ”غیر جانبدار“ رکھتے ہوئے، انہی لوگوں کی زبان میں باتیں کرکے اُن تک ”حق“ بات پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری تحریر کو اسی پس منظر میں پڑھئے۔ آپ یقیناً اس بات سے باخبر ہوں گے کہ اردو زبان و بیان میں جب کسی لفظ یا اصطلاح کو واوین (”۔۔“) میں لکھا جاتا ہے تو اس لفظ یا اصطلاح کے لغوی اور مروجہ معنی میں ”وسعت“ پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس لفظ کو دیگر مفہوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جب میں نے ”اسلام کے ٹھیکیدار“ لکھا تو یہ ان سیکولر لوگوں کی ترجمانی کی جو علماء اور مولوی حضرات کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کے ”ذاتی معاملات میں مداخلت“ میں بھی پنہاں ہے۔ یہاں بھی میں نے واوین سے یہی کام لیا۔ اور زیر بحث موضوع کو اس جانب لے آیا کہ اچھے کافر جنت میں جائیں گے یا جہنم میں اس کا فیصلہ نہ ہم کر سکتے ہیں نہ کوئی مولوی۔ اس بات پر سیکولر حضرات نیم رضامند ہوگئے۔ پھر میں انہیں اس طرف لے آیا کہ آئیے ہم خود اللہ (قرآن) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح احادیث) سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں۔ اس طرح کا مکالمہ ایک طرح سے ”مناظرہ“ ہی ہوتا ہے جس میں شریک مناظرہ ہی کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ علمی اسکالرز یا علمائے کرام کا علمی انداز نہیں اپنایا جاتا۔

یہاں اس دھاگہ کے جوابی مراسلات میں پیش کردہ قرآنی آیات اور احادیث کو پھر میں نے وہاں باری باری پیش کیا کہ اس ”موضوع“ پر قرآن کیا کہتا ہے۔ خود صاحبہ پوسٹ اور دیگر متحرک سیکولر حضرات میری اس حکمت عملی کے سامنے خاموش سے ہوگئے اور یوں وہ بھولے بھالے فیس بکینز اور خاموش قاری کو گمراہ کرنے سے قاصر رہے، (اگر وہ خود مطمئن نہ بھی ہوئے ہوں تو )۔ میں اس قسم کے مناظرہ، مکالمہ اور بحث مباحثہ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے آن لائن فورمز پر کرتا چلا آرہا ہوں۔ اور ملحدین، منافقین، شیعہ، قادیانی، کفار اور مشرکین کی محفلوں میں ”انہی کی زبان“ استعمال کرتے ہوئے انہیں ”خاموش“ کراتا رہا ہوں تاکہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ نہ کرسکیں۔ واضح رہے کہ نیٹ ورلڈ میں موجود پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت اپنے دین سے بے بہرہ ہے اور یہ لوگ ایسے سادہ نوجوانوں کو بہت آسانی سے گمراہ کرلیتے ہیں۔

میری اس فورم میں بھی ایسی بہت سی تحریریں پوسٹ ہوتی رہتی ہیں۔ اور اس کے جواب میں جو ”علمی مراسلے“ سامنے آتے ہیں، ان سے میں دیگر فورمز میں خوب خوب استفادہ کرتا ہوں۔ اکثر و بیشتر میں اسلام کے حوالے سے ”اعتراضات“ کرتا ہوا بھی نظر آتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے علامہ اقبال اپنی نظم ”شکوہ“ میں کرتے ہیں۔ جس طرح شکوہ کے اشعار علامہ کے ذاتی ”افکار و ایمان“ کے ترجمان نہیں ہیں۔ اسی طرح میرے مراسلوں میں موجود ”اعتراضات“ بھی میرے افکار و ایمان کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ یہ سیکولر اور غیر مسلمین کے اعتراضات ہوتے ہیں، جن کے مجھے ”علمی اور مستند جوابات“ درکار ہوتے ہیں تاکہ میں انہیں متعلقہ فورمز میں استعمال کرسکوں۔

پس تحریر: شاید آپ کو معلوم ہو کہ میں گذشتہ چار عشروں سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیم میں لکھتا چلا آرہا ہوں اور مروجہ زبان میں ایک صحافی بھی ہوں۔ جنگ اخبار اور پی پی آئی نیوز ایجنسی سمیت متعدد اخبارات وجرائد سے وابستگی بھی رہی ہے۔ پیغام قرآن ڈاٹ کام اور پیغام حدیث ڈاٹ کام کا مدیر بھی ہوں۔ اور قرآن و حدیث پر مبنی کتب (بلا تبصرہ و تشریح) کی اشاعت کے پروجیکٹ سے بھی وابستہ ہوں۔ واضح رہے کہ لکھنا لکھانا میرا بنیادی ذریعہ روزگار نہیں ہے۔ اس تعارف کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مجھے میری کسی ”ضمنی تحریروں، مراسلوں“ سے نہ ”پہچانا“ جائے۔

@اسحاق سلفی
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

جہاں تک جنّت اور جہنم میں دخول کا معامله ہے - کسی خاص گروہ یا شخص کے بارے میں کوئی حتمی راے دینا کہ فلاں گروہ یا شخص جنّتی ہے یا جہنمی- نہ تو اس دنیا میں ممکن ہے اور نہ ہی یہ جائز ہے -یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا- باخبر ان کے کہ جن لوگوں یا گروہوں کے بارے میں قرآن یا احادیث نبوی میں صراحت سے یہ بتا دیا گیا کہ فلاں گروہ یا شخص جنّتی یا دوزخی ہے - جیسے قوم نوح، قوم عاد و ثمود، قوم لوط ،فرعون وآل فرعون ، ہامان ، قارون ، ابولہب ، ابو جہل وغیرہ قرآن و احادیث کی رو سے جہنّمی ثابت ہیں- اس کے علاوہ تمام انبیاء کرام، صحابہ کرام صحابیات رضوان الله آجمعین، بشمول عشرہ مبشرہ، حضرت مریم علیہ سلام ، (فرعون کی بیوی) حضرت آسیہ علیہ سلام وغیرہ قران و احادیث سے جنّتی ثابت ہیں- اوراس پرایمان رکھنا ہم مسلمانوں پر واجب ہے-

جہاں تک معامله ہے کہ نیک اور اچھے غیر مسلم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟؟ تو قرآن کریم میں الله رب العزت کا واضح ارشاد ہے کہ :

لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا سوره النساء
(انجام کار) نہ تو تمہاری آرزؤں پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر- جو کوئی برائی کا کام کرے گا وہ اس کی سزا بھگتے گا اور الله کے سوا اپنا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں پائے گا-

آخرت میں انسان کی کامیابی کا سارا دارو مدار انسان کی کوشش اور نیت پر ہے- مطلب یہ کہ انسان ہمیشہ حق کی تلاش میں رہے اور دوسرے یہ کہ جب حق اس پر واضح ہوجائے تو وہ اسے فوراً قبول کرنے میں تامل نہ کرے۔ اگر ہم بہت سے مسلمان کہلانے والوں کے طرزعمل کا جائزہ لیں تو وہ ان شرائط پر پورا اترتے نظر نہیں آتے۔ بلکہ اکثر اس معاملے میں مسلم و غیر مسلم برابر نظر آتے ہیں۔ ان میں سے جو بھی حق کی تلاش میں رہا اور اس نے حق کو پہچاننے کے بعد اسے قبول کرنے میں دیر نہ لگائی، وہ یقیناً کامیاب ہوگا۔ جس نے جان بوجھ کر حق کا انکار کر دیا وہ ناکام رہا۔ البتہ ایسے لوگ جنہوں نے حق کی تلاش کی خواہ وہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہوں یا غیر مسلموں کے، اور ان پر تلاش کے باوجود حق واضح نہ ہوسکا ، تو ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ہر انسان صرف اسی بات کے لئے مسؤل ہوگا جو کہ اس تک پہنچی ہے-

قرآن کریم میں الله رب العزت کا فرمان ہے کہ:

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ -ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ سوره النجم ٣٩-٤١
اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی- اورعنقریب (قیامت کے دن) اس کی یہ کوشش پرکھی جائے گی- پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا-

مطلب یہ کہ جو کوئی بھی ہو (مسلم یا غیر مسلم) اور اس نے حق کو پانے کی ہر ممکن کوشش نیک نیتی سے کی ہو- تو الله کے ہاں اس کا اجر بہرحال اس کو ضرور ملے گا- چاہے دنیاوی یا ظاہری طور پر کوئی انسان ہمارے نزدیک غیر مسلم ہی کیوں نہ رہا ہو- کیوں کہ کسی کہ ایمان دار ہونے یا کافر ہونے کا فتویٰ اس کے ظاہر پرلگایا جاتا ہے جب کہ آخرت کا فیصلہ باطن پر ہونا ہے - کسی مسلمان یا غیر مسلم کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے حق کو کتنا تلاش کیا اور جب اس نے اسے پا لیا تو آیا اس نے جان بوجھ کر اس کا انکار کردیا یا قبول کرلیا ؟؟۔ (واللہ اعلم)-

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ابن داؤد صاحب - اگر برا نہ مانیں تو آپ @یوسف ثانی صاحب کی تحریر جس کو آپ ان کا موقف قرار دے رہے ہیں اس پر تھوڑے سے جذباتی نظرآ رہے ہیں- پہلی بات تو یہ کہ یہ @یوسف ثانی صاحب کا اپنا موقف نہیں ہے بلکہ فیس بک پر کسی کی جوابی تحریر ہے جس پر یوسف صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب مانگا ہے -
جواد بھائی! اس معاملہ کی تو خلاصی ہو چکی ہے، لیکن جسے آپ فیس بک پر کسی کی جوابی تحریر سمجھ رہے ہیں ، وہ کسی کی جوابی تحریر نہیں بلکہ یوسف ثانی بھائی کی تحریر ہے
(فیس بک پر احقر کی ایک جوابی تحریر)
دوم یہ کہ : اس بات میں بھی وزن ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہرحال "اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا وجود موجود ہے - کم یا زیادہ لیکن ہے ضرور- مسلمانوں کی اکثریتی فرقوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے- ہر ایک اپنے آپ کو "ناجی" فرقہ ثابت کرنے کی سعی میں لگا ہوا ہے اور دوسروں پر بغیر دلیل کے کفر کے فتوے صادر کرنے پر تلا ہوا ہے- اس صورت میں ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء قرار دینا کہاں کی دانشمندی ہے ؟؟

قرآن میں تو الله کا واضح فرمان ہے کہ :
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ۔
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو پارہ پار کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، (اے نبی مکرم) آپ کا کسی معاملے ان سے تعلق نہیں- انکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرمادے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی ورثاء تو وہ ہیں جو ہر قسم کے تفرقے سے پاک ہیں- جو ما انا عليه اليوم و اصحابى کی صفات کے حامل ہیں یا اس صفت کو پانے کے لئے کوشاں ہیں -
محمد علی جواد بھائی! جس مسئلہ میں اتفاق ہو ، یعنی کہ فرقہ ناجیہ کا بھی وہی موقف ہو ، یہ مؤقف اختیار کرنے والوں کو اگر ''اسلام کا ٹھیکیدار '' کہا جائے، تو ان الفاظ کی زد میں فرقہ ناجیہ بھی آ جائے گا۔
الله ہم سب کو اپنے سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
آمین!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جہاں تک معامله ہے کہ نیک اور اچھے غیر مسلم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟؟ تو قرآن کریم میں الله رب العزت کا واضح ارشاد ہے کہ :
لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا سوره النساء
(انجام کار) نہ تو تمہاری آرزؤں پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر- جو کوئی برائی کا کام کرے گا وہ اس کی سزا بھگتے گا اور الله کے سوا اپنا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں پائے گا-
آخرت میں انسان کی کامیابی کا سارا دارو مدار انسان کی کوشش اور نیت پر ہے- مطلب یہ کہ انسان ہمیشہ حق کی تلاش میں رہے اور دوسرے یہ کہ جب حق اس پر واضح ہوجائے تو وہ اسے فوراً قبول کرنے میں تامل نہ کرے۔ اگر ہم بہت سے مسلمان کہلانے والوں کے طرزعمل کا جائزہ لیں تو وہ ان شرائط پر پورا اترتے نظر نہیں آتے۔ بلکہ اکثر اس معاملے میں مسلم و غیر مسلم برابر نظر آتے ہیں۔ ان میں سے جو بھی حق کی تلاش میں رہا اور اس نے حق کو پہچاننے کے بعد اسے قبول کرنے میں دیر نہ لگائی، وہ یقیناً کامیاب ہوگا۔ جس نے جان بوجھ کر حق کا انکار کر دیا وہ ناکام رہا۔ البتہ ایسے لوگ جنہوں نے حق کی تلاش کی خواہ وہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہوں یا غیر مسلموں کے، اور ان پر تلاش کے باوجود حق واضح نہ ہوسکا ، تو ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ہر انسان صرف اسی بات کے لئے مسؤل ہوگا جو کہ اس تک پہنچی ہے-
قرآن کریم میں الله رب العزت کا فرمان ہے کہ:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ -ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ سوره النجم ٣٩-٤١
اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی- اورعنقریب (قیامت کے دن) اس کی یہ کوشش پرکھی جائے گی- پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا-
مطلب یہ کہ جو کوئی بھی ہو (مسلم یا غیر مسلم) اور اس نے حق کو پانے کی ہر ممکن کوشش نیک نیتی سے کی ہو- تو الله کے ہاں اس کا اجر بہرحال اس کو ضرور ملے گا- چاہے دنیاوی یا ظاہری طور پر کوئی انسان ہمارے نزدیک غیر مسلم ہی کیوں نہ رہا ہو- کیوں کہ کسی کہ ایمان دار ہونے یا کافر ہونے کا فتویٰ اس کے ظاہر پرلگایا جاتا ہے جب کہ آخرت کا فیصلہ باطن پر ہونا ہے - کسی مسلمان یا غیر مسلم کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے حق کو کتنا تلاش کیا اور جب اس نے اسے پا لیا تو آیا اس نے جان بوجھ کر اس کا انکار کردیا یا قبول کرلیا ؟؟۔ (واللہ اعلم)-
محمد علی جواد بھائی! آپ کا بیان کردہ نکتہ قرآن کی آیات، احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، منقول اجماع اور فہم فقہاء ومحدثین کے خلاف ہے:
قرآن کی آیت:
( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هََذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ) البقرة/ 126
ترجمہ: اور جب ابراہیم نے یہ دعا کی کہ : ''اے میرے پروردگار! اس جگہ کو امن کا شہر بنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔'' اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ''اور جو کوئی کفر کرے گا تو اس چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسےبھی دوں گا مگر آخرت میں اسے دوزخ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے''
حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا عَمِلَ حَسَنَةً أُطْعِمَ بِهَا طُعْمَةً مِنْ الدُّنْيَا ، وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَإِنَّ اللَّهَ يَدَّخِرُ لَهُ حَسَنَاتِهِ فِي الْآخِرَةِ ، وَيُعْقِبُهُ رِزْقًا فِي الدُّنْيَا عَلَى طَاعَتِهِ ) . رواه مسلم ( 2808 ) .
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک جب کافر کوئی بھی نیکی کا عمل کرتے تو اسے دنیا کی نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں، جبکہ مؤمن کیلئے اسکی نیکیاں آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کی جاتی ہیں، اور دنیا میں اطاعت گزاری کی وجہ سے اسے رزق بھی عنائت کیا جاتاہے) مسلم ( 2808 )
اوردوسری روایت میں ہے :
( إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً ، يُعْطَى بِهَا فِي الدُّنْيَا ، وَيُجْزَى بِهَا فِي الْآخِرَةِ ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا ، حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا ) .
(اللہ تعالی کسی مؤمن کی ایک نیکی کوبھی کم نہیں کریگا اور اسکے بدلے میں دنیا میں بھی دیگا اور آخرت میں اسکی جزا عنائت کریگا، جبکہ کافر کو دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے کھلا پلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اسکے لئے کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی جس پر اسے جزا بھی دی جائے)
منقول اجماع:
وقال الحافظ ابن حجر – رحمه الله - :
وقال القاضي عياض : انعقد الإجماع على أن الكفار لا تنفعهم أعمالهم ، ولا يثابون عليها بنعيم ، ولا تخفيف عذاب ، وإن كان بعضهم أشد عذاباً من بعض .
" الفتح " ( 9 / 48 ) .
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ : "اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ کفار کو انکے اعمال فائدہ نہیں دینگے، اور نہ ہی ان اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا، اور نہ ہی انکی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی، اگرچہ کچھ کفار کو دیگر کفار کی بہ نسبت کم یا زیادہ عذاب ملے گا"
" فتح الباری " ( 9 / 48 )
فہم فقہاء ومحدثین:
قال النووي – رحمه الله - :
وصرَّح في هذا الحديث بأن يطعم في الدنيا بما عمله من الحسنات أي : بما فعله متقرباً به إلى الله تعالى مما لا يفتقر صحته إلى النية ، كصلة الرحم ، والصدقة ، والعتق ، والضيافة ، وتسهيل الخيرات ، ونحوها .
" شرح مسلم " ( 17 / 150 ) .
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اسے دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے میں کھلا پلا دیا جاتا ہے، یعنی: وہ کام جو اس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے کئے، اور انکی درستگی کیلئے نیت کرنے کی ضرورت نہیں، جیسے : صلہ رحمی، صدقہ، غلام آزاد کرنا، ضیافت کرنا، اور دیگر خیرات وغیرہ کرنا۔۔۔" شرح مسلم " ( 17 / 150 )
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

محمد علی جواد بھائی! آپ کا بیان کردہ نکتہ قرآن کی آیات، احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، منقول اجماع اور فہم فقہاء ومحدثین کے خلاف ہے:
قرآن کی آیت:

حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم:

منقول اجماع:

فہم فقہاء ومحدثین:
و علیکم السلام و رحمت الله -

محترم آپ نے میرے مراسلے کو بغور پڑھا ہی نہیں- میں نے کب کہا ہے کہ کافر فاسق یا غیر مسلم جنّتی ہے ؟؟ میرا تو صرف یہ کہنا ہے کہ دنیاوی طور پرکسی خاص گروہ یا شخص کے بارے میں کوئی حتمی راے دینا کہ فلاں گروہ یا شخص جنّتی ہے یا جہنمی- نہ تو اس دنیا میں ممکن ہے اور نہ ہی یہ جائز ہے-

ساتھ میں نے یہ بھی کہا کہ کسی کہ ایمان دار ہونے یا کافر ہونے کا فتویٰ اس کے ظاہر پرلگایا جاتا ہے جب کہ آخرت کا فیصلہ باطن پر ہونا ہے- کیوں کہ یہ تو صرف الله رب العزت ہی جانتے ہیں کہ کس انسان تک حق کی آواز پہنچی اور کس انسان تک نہیں پہنچی اور کس نے اس کو قبول کیا اور کس نے اس کو رد کیا ؟؟ - ہمارے ہاں عمومآ یہ عام تصور قائم ہے کہ جو انسان مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہو وہ مسلمان ہے اور جو کسی ہندو یا عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی ہو وہ کافر ہے - ظاہر میں تو ایسا ہی ہے - لیکن قیامت کے دن معاملہ اس طرح نہیں ہوگا جیسا ہمارا گمان ہے - اس دن ہر شخص کے عقائد اور اعمال کی پرکھ ہو گی - کہ کس نے کن حالات میں کیا عمل سرانجام دیا یا کس نے حق کو پانے کی کوشش کی - اور اسی کی بنیاد پر الله رب العزت کی طرف حتمی اور منصفانہ فیصلہ کیا جائے گا -
 
Top