- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یوسف ثانی بھائی! آپ کی تحریر میں دو باتوں پر آپ کے حضور سخت احتجاج رقم کروانا چاہتا ہوں!
جس مؤقف کو آپ نے ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا قرار دیا ہے، در حقیقت یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا کا مؤقف ہے! یا تو آپ نے ان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کے مؤقف کو ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' کا مؤقف قرار دے کر غلطی ہے، یا پھر انہیں ''اسلام کا ٹھیکیدار'' قرار دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کی توہین کی ہے!
یوسف ثانی بھائی! اب آپ نے چونکہ اسی تحریر میں بڑی جرأت اور بے باکی سے ''اسلام کے ٹھیکداروں'' کے الفاظ رقم کئے ہیں، تو امید کرتا ہوں کہ میرے الفاظ بھی آپ برداشت کر یں گے!
یوسف ثانی بھائی! جنہیں آپ نے ''اسلام کا ٹھیکیدار'' قرار دیا ہے، ان کا دعویٰ بالکل درست ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے '' ذاتی کے معاملات'' میں دخل اندازی قطعاً نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی گئی شریعت کا حکم ہے!
البتہ آپ نے اس معاملہ میں محض اٹکل کی بنیاد پر ''اسلام کے ٹھیکیداروں'' جو کہ در اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےورثاء ہیں، ان کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے، ایک نیا نکتہ کشید کیا ہے کہ کسی ''غیر مسلمین'' کو جہنمی قرار دینا اللہ تعالیٰ کے ''ذاتی معاملات'' میں مداخلت ہے!
کل کو کئی منچلا آکر یہ کہہ دے کہ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی نیا نبی نہیں بھیجے گا، یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ''ذاتی معاملات'' میں مداخلت ہے!
یوسف ثانی بھائی! اسلامی احکامات میں اس اٹکل کو پرے کیجئے، اور ماثور سے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کیجئے!
اللہ تعالیٰ مجھے بھی، آپ کو بھی ، اور تمام کو اس کی توفیق دے، آمین!
جزاک اللہ خیرا ابن داؤد بھائی!
سب سے پہلے تو میں اللہ کے حضور ان تمام غلطیوں کی معافی مانگتا ہوں، جو اس مراسلہ میں میری کم علمی کی وجہ سے تحریر ہو گئی ہیں۔ آپ سے بھی درخواست ہے کہ میرے لئے دعا کیجئے۔
دوسری بات یہ سمجھ لیجئے کہ یہ کوئی باقاعدہ مضمون یا میری کوئی ”ریگولر تحریر“ نہیں ہے ۔ یہ ایک ”فیس بک“ کی پوسٹ پر لکھی گئی ایک ”جوابی تحریر“ ہے، جسے فیس بک پر اپنی ٹائم لائن اور یہاں ایک ”پوسٹ“ کی طرح کاپی پیسٹ کی ہے۔
”ایک خاتون کے اوریجنل پوسٹ میں اس ”تصور“ کو پیش کیا گیا تھا کہ کافروں میں جو نیک اور اچھے لوگ ہیں، اللہ ان کی مغفرت ضرور کرے گا کیونکہ وہ عادل ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس تصور کی حمایت میں اور بھی بہت سے فیس بکی لوگ ہاں میں ہاں ملانے کو آگئے تھے۔
میں جب کسی آن لائن جگہ جب لکھتا ہوں تو ”اپنا عقیدہ“ بیان نہیں کرتا بلکہ خود کو ”غیر جانبدار“ رکھتے ہوئے، انہی لوگوں کی زبان میں باتیں کرکے اُن تک ”حق“ بات پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میری تحریر کو اسی پس منظر میں پڑھئے۔ آپ یقیناً اس بات سے باخبر ہوں گے کہ اردو زبان و بیان میں جب کسی لفظ یا اصطلاح کو واوین (”۔۔“) میں لکھا جاتا ہے تو اس لفظ یا اصطلاح کے لغوی اور مروجہ معنی میں ”وسعت“ پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس لفظ کو دیگر مفہوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جب میں نے ”اسلام کے ٹھیکیدار“ لکھا تو یہ ان سیکولر لوگوں کی ترجمانی کی جو علماء اور مولوی حضرات کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کے ”ذاتی معاملات میں مداخلت“ میں بھی پنہاں ہے۔ یہاں بھی میں نے واوین سے یہی کام لیا۔ اور زیر بحث موضوع کو اس جانب لے آیا کہ اچھے کافر جنت میں جائیں گے یا جہنم میں اس کا فیصلہ نہ ہم کر سکتے ہیں نہ کوئی مولوی۔ اس بات پر سیکولر حضرات نیم رضامند ہوگئے۔ پھر میں انہیں اس طرف لے آیا کہ آئیے ہم خود اللہ (قرآن) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح احادیث) سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں۔ اس طرح کا مکالمہ ایک طرح سے ”مناظرہ“ ہی ہوتا ہے جس میں شریک مناظرہ ہی کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ علمی اسکالرز یا علمائے کرام کا علمی انداز نہیں اپنایا جاتا۔
یہاں اس دھاگہ کے جوابی مراسلات میں پیش کردہ قرآنی آیات اور احادیث کو پھر میں نے وہاں باری باری پیش کیا کہ اس ”موضوع“ پر قرآن کیا کہتا ہے۔ خود صاحبہ پوسٹ اور دیگر متحرک سیکولر حضرات میری اس حکمت عملی کے سامنے خاموش سے ہوگئے اور یوں وہ بھولے بھالے فیس بکینز اور خاموش قاری کو گمراہ کرنے سے قاصر رہے، (اگر وہ خود مطمئن نہ بھی ہوئے ہوں تو )۔ میں اس قسم کے مناظرہ، مکالمہ اور بحث مباحثہ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے آن لائن فورمز پر کرتا چلا آرہا ہوں۔ اور ملحدین، منافقین، شیعہ، قادیانی، کفار اور مشرکین کی محفلوں میں ”انہی کی زبان“ استعمال کرتے ہوئے انہیں ”خاموش“ کراتا رہا ہوں تاکہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ نہ کرسکیں۔ واضح رہے کہ نیٹ ورلڈ میں موجود پڑھے لکھے نوجوانوں کی اکثریت اپنے دین سے بے بہرہ ہے اور یہ لوگ ایسے سادہ نوجوانوں کو بہت آسانی سے گمراہ کرلیتے ہیں۔
میری اس فورم میں بھی ایسی بہت سی تحریریں پوسٹ ہوتی رہتی ہیں۔ اور اس کے جواب میں جو ”علمی مراسلے“ سامنے آتے ہیں، ان سے میں دیگر فورمز میں خوب خوب استفادہ کرتا ہوں۔ اکثر و بیشتر میں اسلام کے حوالے سے ”اعتراضات“ کرتا ہوا بھی نظر آتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے علامہ اقبال اپنی نظم ”شکوہ“ میں کرتے ہیں۔ جس طرح شکوہ کے اشعار علامہ کے ذاتی ”افکار و ایمان“ کے ترجمان نہیں ہیں۔ اسی طرح میرے مراسلوں میں موجود ”اعتراضات“ بھی میرے افکار و ایمان کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ یہ سیکولر اور غیر مسلمین کے اعتراضات ہوتے ہیں، جن کے مجھے ”علمی اور مستند جوابات“ درکار ہوتے ہیں تاکہ میں انہیں متعلقہ فورمز میں استعمال کرسکوں۔
پس تحریر: شاید آپ کو معلوم ہو کہ میں گذشتہ چار عشروں سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیم میں لکھتا چلا آرہا ہوں اور مروجہ زبان میں ایک صحافی بھی ہوں۔ جنگ اخبار اور پی پی آئی نیوز ایجنسی سمیت متعدد اخبارات وجرائد سے وابستگی بھی رہی ہے۔ پیغام قرآن ڈاٹ کام اور پیغام حدیث ڈاٹ کام کا مدیر بھی ہوں۔ اور قرآن و حدیث پر مبنی کتب (بلا تبصرہ و تشریح) کی اشاعت کے پروجیکٹ سے بھی وابستہ ہوں۔ واضح رہے کہ لکھنا لکھانا میرا بنیادی ذریعہ روزگار نہیں ہے۔ اس تعارف کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مجھے میری کسی ”ضمنی تحریروں، مراسلوں“ سے نہ ”پہچانا“ جائے۔
@اسحاق سلفی
Last edited: