• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیک اور اچھے غیر مسلم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے آخری مراسلہ سے میں قدرے متفق ہوں، مگر اس سے قبل مراسلہ میں آپ نے صراحت سے غیر مسلم کا ذکر کیا ہے:
مطلب یہ کہ جو کوئی بھی ہو (مسلم یا غیر مسلم) اور اس نے حق کو پانے کی ہر ممکن کوشش نیک نیتی سے کی ہو- تو الله کے ہاں اس کا اجر بہرحال اس کو ضرور ملے گا- چاہے دنیاوی یا ظاہری طور پر کوئی انسان ہمارے نزدیک غیر مسلم ہی کیوں نہ رہا ہو- کیوں کہ کسی کہ ایمان دار ہونے یا کافر ہونے کا فتویٰ اس کے ظاہر پرلگایا جاتا ہے جب کہ آخرت کا فیصلہ باطن پر ہونا ہے - کسی مسلمان یا غیر مسلم کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے حق کو کتنا تلاش کیا اور جب اس نے اسے پا لیا تو آیا اس نے جان بوجھ کر اس کا انکار کردیا یا قبول کرلیا ؟؟۔ (واللہ اعلم)-
جو شخص خود اپنے مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا، اسے ہم مرنے کے بعد جہنمی ہی قرار دیں گے!
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے آخری مراسلہ سے میں قدرے متفق ہوں، مگر اس سے قبل مراسلہ میں آپ نے صراحت سے غیر مسلم کا ذکر کیا ہے:

جو شخص خود اپنے مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا، اسے ہم مرنے کے بعد جہنمی ہی قرار دیں گے!
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

محترم - مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ الله کی وحدانیت پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ طاغوت کا انکار بھی کیا جائے- کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں - لیکن طاغوت کا انکار نہیں کرتے - لیکن پھر بھی ان کے ساتھ معامله مسلمانوں والا ہی کیا جاتا ہے؟؟

آپ کی یہ بات کہ "جو شخص خود اپنے مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا، اسے ہم مرنے کے بعد جہنمی ہی قرار دیں گے" صحیح ہے- لیکن اس کا حتمی فیصلہ تو قیامت کے دن ہی ہونا ہے- ہم نہیں جانتے کہ کوئی انسان کن حالات میں پلا بڑھا - کیا اسے معلوم تھا کہ اقرار کے بغیر جنّت میں نہیں جا سکوں گا ؟؟ -کیا وہ اسلام کے صحیح معنی جانتا تھا وغیرہ؟؟

مطلب یہ کہ آخرت کے معاملے میں کسی کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ یہ ہم پر کسی کی حقیقت پوری طرح آشکار نہ ہو جائے کہ مرتے وقت اس کا کیا عقیدہ تھا -

کیا میں اپنے بارے میں جنّتی ہونے دعوی کر سکتا ہوں- جب کہ میں نے خود کو مسلمان گھرانے میں پیدا نہیں کیا ؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم - مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ الله کی وحدانیت پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ طاغوت کا انکار بھی کیا جائے- کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں - لیکن طاغوت کا انکار نہیں کرتے - لیکن پھر بھی ان کے ساتھ معامله مسلمانوں والا ہی کیا جاتا ہے؟؟
ہر مسلمان لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتا ہے، اور اس میں طاغوت کا انکار شامل ہے۔
آپ کی یہ بات کہ "جو شخص خود اپنے مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا، اسے ہم مرنے کے بعد جہنمی ہی قرار دیں گے" صحیح ہے- لیکن اس کا حتمی فیصلہ تو قیامت کے دن ہی ہونا ہے- ہم نہیں جانتے کہ کوئی انسان کن حالات میں پلا بڑھا - کیا اسے معلوم تھا کہ اقرار کے بغیر جنّت میں نہیں جا سکوں گا ؟؟ -کیا وہ اسلام کے صحیح معنی جانتا تھا وغیرہ؟؟
جب صحیح ہے تو مسئلہ کیا ہے؟
یہ بھی ایک معمہ ہی ہے، جو خود کو مسلمان کہہ رہا ہے، اس پر تو نجانے کیا کیا الزامات لگا کر بھی کافر قرار دیا جائے، کبھی یہ کہہ کر وہ ہمارے نظریہ کے مطابق'' طاغوت'' کا انکار نہیں کر تا، اور دوسری طرف جو خود کو مسلمان نہیں کہتا اس کے لئے تاویلیں تلاش کی جا ئیں!
مطلب یہ کہ آخرت کے معاملے میں کسی کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ یہ ہم پر کسی کی حقیقت پوری طرح آشکار نہ ہو جائے کہ مرتے وقت اس کا کیا عقیدہ تھا -
بھائی! یہ حتمی فیصلہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا ہے۔ مرتے وقت کےب کلمات اگر معلوم ہو تو اسی کے مطابق کہا جائے گا، اس کی جنازہ پڑھی جائے گی،وغیرہ ، وغیرہ!
صرف اس گمان پر کہ شاید ، اس نے مرت وقت کملہ پڑھا ہو؟ تو اس تخیل پر عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی! ہم اسی کافر ہی قرار دیں گے، نہ جنازہ پڑھیں گے، نہ اس کےلئے دعا کریں گے، اور اسے جہنمی ہی سمجھیں گے!
کیا میں اپنے بارے میں جنّتی ہونے دعوی کر سکتا ہوں- جب کہ میں نے خود کو مسلمان گھرانے میں پیدا نہیں کیا ؟؟
ان شاء اللہ! مگر دعوی نہیں کر سکتے ، دعا کر سکتے ہیں!
اللہ ہمیں جنت الفردوس سے نوازے!
محمد علی جواد بھائی! مسئلہ مسلمان کے جنت میں جانے کا نہیں، مسلمان سیدھا جنت میں بھی جا سکتا ہے اور براستہ جہنم بھی!
مسئلہ ہے غیر مسلم کے جنت میں جانے کا!!
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
دیکھیے جہاں تک اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات اہل سنت کے عقائد کے تمام متون میں موجود ہے۔اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ غیر مسلموں(کافروں)میں سے بعض لوگ جنت میں جا سکتے ہیں جن کا خدا ہی کو علم ہے؛واللہ اعلم بالصواب
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دیکھیے جہاں تک اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات اہل سنت کے عقائد کے تمام متون میں موجود ہے۔اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ غیر مسلموں(کافروں)میں سے بعض لوگ جنت میں جا سکتے ہیں جن کا خدا ہی کو علم ہے؛واللہ اعلم بالصواب
گفتگو اس پر ہے کہ جو کافر ہی مرا اسلام کا اقرار کئے بغیر!
ایسے شخص کو معین کرکے جہنمی کہنے کی ممانعت کن کتب میں ہے؟
اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ غیر مسلموں(کافروں)میں سے بعض لوگ جنت میں جا سکتے ہیں جن کا خدا ہی کو علم ہے
یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْبَخْتَرِيِّ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ أَبِي كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ ، وَكَانَ وَكَانَ فَأَيْنَ هُوَ ؟ ، قَالَ : " فِي النَّارِ " ، قَالَ : فَكَأَنَّهُ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَأَيْنَ أَبُوكَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ " ، قَالَ : فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ ، وَقَالَ : لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا ، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ
سنن ابن ماجه» كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ» بَاب مَا جَاءَ فِي زِيَارَةِ قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے صاحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور ایسے ایسے تھے (بھلائیاں گنوائیں) بتایئے وہ کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں۔ راوی کہتے ہیں شاید ان کو اس سے رنج ہوا۔ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! تو آپ کے والد کہاں ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں۔
قال الهيثمي في مجمع الزوائد: رواه البزار والطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْبَخْتَرِيِّ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ أَبِي كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ ، وَكَانَ وَكَانَ فَأَيْنَ هُوَ ؟ ، قَالَ : " فِي النَّارِ " ، قَالَ : فَكَأَنَّهُ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَأَيْنَ أَبُوكَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ " ، قَالَ : فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ ، وَقَالَ : لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا ، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ
سنن ابن ماجه» كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ» بَاب مَا جَاءَ فِي زِيَارَةِ قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے صاحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور ایسے ایسے تھے (بھلائیاں گنوائیں) بتایئے وہ کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں۔ راوی کہتے ہیں شاید ان کو اس سے رنج ہوا۔ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! تو آپ کے والد کہاں ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں۔
قال الهيثمي في مجمع الزوائد: رواه البزار والطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ سیوطی ؒ لکھتے ہیں :
’’ ان أبي كَانَ يصل الرَّحِم وَكَانَ وَكَانَ أَي عد مَنَاقِب أَبِيه من افعال الْبر وَالْخَيْر فَكَأَنَّهُ قَالَ وَكَانَ يطعم الْمِسْكِين وَكَانَ يفك الرَّقَبَة مثلا فَسَأَلَ عَن النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ان أَبَاهُ مَعَ هَذِه الْأَوْصَاف الجميلة أَيْن مدخله أَي فِي الْجنَّة أم فِي النَّار فَأَجَابَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنَّهُ فِي النَّار ثمَّ فسره وَرفع حزنه بِأَن الْمُشرك لَا يَنْفَعهُ شَيْء من الصَّدقَات والمبرات وَأما وَالِد النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ففيهما أَقْوَال المتقدمون بأجمعهم على أَنَّهُمَا مَاتَا على الْكفْر وَهُوَ مَرْوِيّ عَن أبي حنيفَة وتمسكوا بِحَدِيث الْبَاب وَغَيره ۔۔الخ
یعنی اس صحابی نے اپنے والد کے اچھے خصائل ،اور نیک اعمال ۔رسول اللہ ﷺ کو بتا کر پوچھا ،کہ ان اوصاف جمیلہ کے ساتھ میرا والد
کہاں ہے ۔۔جنت میں ۔۔یا۔۔جہنم میں؟۔۔۔تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بتایا کہ تمہارا والد تو جہنم میں ہے ۔
اور پھر اسکے دکھ کو کم کرنے کیلئے اسے اللہ کے قانون سے آگاہ کیا کہ مشرک کا کوئی عمل۔۔صدقہ ،اور احسان ۔۔اسے فائدہ نہیں دے سکتا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
دیکھیے جہاں تک اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات اہل سنت کے عقائد کے تمام متون میں موجود ہے۔اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ غیر مسلموں(کافروں)میں سے بعض لوگ جنت میں جا سکتے ہیں جن کا خدا ہی کو علم ہے؛واللہ اعلم بالصواب
جزاک الله - متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہر مسلمان لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتا ہے، اور اس میں طاغوت کا انکار شامل ہے۔

جب صحیح ہے تو مسئلہ کیا ہے؟
یہ بھی ایک معمہ ہی ہے، جو خود کو مسلمان کہہ رہا ہے، اس پر تو نجانے کیا کیا الزامات لگا کر بھی کافر قرار دیا جائے، کبھی یہ کہہ کر وہ ہمارے نظریہ کے مطابق'' طاغوت'' کا انکار نہیں کر تا، اور دوسری طرف جو خود کو مسلمان نہیں کہتا اس کے لئے تاویلیں تلاش کی جا ئیں!

بھائی! یہ حتمی فیصلہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلا دیا ہے۔ مرتے وقت کےب کلمات اگر معلوم ہو تو اسی کے مطابق کہا جائے گا، اس کی جنازہ پڑھی جائے گی،وغیرہ ، وغیرہ!
صرف اس گمان پر کہ شاید ، اس نے مرت وقت کملہ پڑھا ہو؟ تو اس تخیل پر عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی! ہم اسی کافر ہی قرار دیں گے، نہ جنازہ پڑھیں گے، نہ اس کےلئے دعا کریں گے، اور اسے جہنمی ہی سمجھیں گے!

ان شاء اللہ! مگر دعوی نہیں کر سکتے ، دعا کر سکتے ہیں!
اللہ ہمیں جنت الفردوس سے نوازے!
محمد علی جواد بھائی! مسئلہ مسلمان کے جنت میں جانے کا نہیں، مسلمان سیدھا جنت میں بھی جا سکتا ہے اور براستہ جہنم بھی!
مسئلہ ہے غیر مسلم کے جنت میں جانے کا!!
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم ابن داؤد صاحب - یا تو آپ میری بات سمجھ نہیں پا رہے یا میں آپ کو صحیح سمجھا نہیں پایا-

مسلہ کسی کو دنیا میں مسلم یا غیر مسلم قرار دینے کا نہیں - میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ فتویٰ ظاہر پر ہی لگتا ہے -اگر کسی نے الله کی وحدانیت کا اقرار اور طاغوت کا انکار نہیں کیا تو وہ "غیرمسلم" ہی کی صف میں شامل ہو گا-

مسلہ اصل میں کسی غیر مسلم کو حتمی یا یقینی طور پر جہنمی قرار دینے کا ہے- جیسا کہ @ طاہر اسلام صاحب نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ "اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛ لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا"

آخرت کے معاملے کے بارے میں صرف الله ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟؟ نبی کریم صل الله علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے میں ہماری آخر کیا خوبی ہے۔ ہماری غالب ترین اکثریت صرف اس وجہ سے مسلمان ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوگئی ہے۔ دین کبھی ہماری معرفت نہیں بنتا، ذاتی دریافت نہیں بنتا بلکہ تاعمر ہمارا تعصب بنا رہتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگر کسی یہودی یا ہندو کے ہاں پیدا ہوجاتے تو ساری زندگی ہندو اور یہودی بنے رہتے۔

الله رب العزت تو ایمان کے دعوی داروں سے فرماتا ہے -

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ سوره الحجرات ١٤
یہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور تم الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو الله تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بےشک الله بخشنے والا مہربان ہے -

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ سوره آل عمران ١٤٢
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل کردیے جاؤ گے جب کہ ابھی تک الله نے نہیں ظاہرکیا ان لوگوں کو جو جہاد کرنے والے ہیں اور ابھی صبر کرنے والوں کو بھی ظاہر نہیں کیا-

میرا موقف ہرگز یہ نہیں کہ غیر مسلم کسی نہ کسی وقت جنّت میں جائیں گے اورمسلمان جہنم ہی کی وادی میں جھونکے جائیں گے - بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کے بارے میں فیصلہ الله اپنی رحمت اور عدل کی بنیاد پر کریں گے-

آپ خود فرما رہے ہیں کہ "ہر مسلمان لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتا ہے، اور اس میں طاغوت کا انکار شامل ہے۔" تو کیا آج کا مسلمان واقعی کلمہ طیبہ کا مطلب صحیح طور سمجھتا ہے ؟؟ کیا اسے پتا ہے کہ طاغوت کس کو کہتے ہیں؟؟ یا اس نے کبھی اس سے بچنے کی کوشش کی ہے ؟؟ - معاف کیجیے گا !! آج کے نام نہاد مسلمانوں سے تو بہتر ابو جہل و ابو لہب اس کلمے کا مطلب جانتے تھے - تب ہی تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کافر ٹہرے- اور ہم صرف اس لئے اس کلمہ کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے آباءو اجداد ایسا کرتے رہے ہیں-

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْبَخْتَرِيِّ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ أَبِي كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ ، وَكَانَ وَكَانَ فَأَيْنَ هُوَ ؟ ، قَالَ : " فِي النَّارِ " ، قَالَ : فَكَأَنَّهُ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَأَيْنَ أَبُوكَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ " ، قَالَ : فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ ، وَقَالَ : لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا ، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ
سنن ابن ماجه» كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ» بَاب مَا جَاءَ فِي زِيَارَةِ قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے صاحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور ایسے ایسے تھے (بھلائیاں گنوائیں) بتایئے وہ کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں۔ راوی کہتے ہیں شاید ان کو اس سے رنج ہوا۔ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! تو آپ کے والد کہاں ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں۔
قال الهيثمي في مجمع الزوائد: رواه البزار والطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

اول- صحیح مسلم میں یہی حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے-
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ» [ صحيح مسلم ، 1 - كِتَابُ الْإِيمَانَ ، 88 -]
سیدنا انس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: آگ میں۔جب وہ واپس جانے کے لئے مڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔

مسلم کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں -
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ " ، قَالَ : فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ ، وَقَالَ : لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا ، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ سنن ابن ماجه»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں-

دوم - جہاں تک ابن ماجه کی اس حدیث میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے مذکورہ حکم کا تعلق ہے (آیا صحیح یا غیر صحیح؟؟ ) تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ -زمانہ نبوت میں یہ معلوم کرنا آسان تھا کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم اور وہ کس عقیدے پر فوت ہوا ؟؟ - نبی کریم صل الله علیہ پر ایمان اور آپ پر نازل کردہ احکمات کو تسلیم کرنا ہی ایک آدمی کے ایمان کی کسوٹی تھی- جو انکار کرتا تھا یا پہلو تہی کرتا تھا وہ کافر ٹھہرتا تھا -نیز اکثر و بیشتر آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم صاحب قبر کی کیفیت بھی صحابہ کرام کو بتا دیتے تھے-کہ کس صاحب قبرکو عذاب ہو رہا ہے اور کس کو نعمت خداوندی مل رہی ہے-

دور جدید میں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی وفات کے بعد اب کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ کسی مرنے والے پر جہنمی یا جنّتی ہونے یا اس پر عذاب قبر ہونے کا حتمی فیصلہ صادر کیا جا سکے- زیادہ سے زیادہ ہم کسی بھی مرنے والے کے بارے میں یا تو نیک گمان کرسکتے ہیں یا برا گمان کرسکتے ہیں (باقی عالم الغیب الله کی ذات ہے) -

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 
Top