- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
طاہر الاسلام بھائی کا بیان کردہ مؤقف بالکل غلط ہے ، اس بیان سے قبل بھی اس طرح کے مؤقف کا بطلان اسحاق سلفی بھائی نے قرآن کی آیات، احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم، منقول اجماع اور فہم محدثین و فقہا سے بیان کر دیا تھا، اور اس مؤقف کے بیان کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کر کے طاہر الاسلام بھائی کے مؤقف کا بطلان واضح کر دیا گیا!
نکتہ اختلاف یہ ہے کہ آیا آخرت میں اللہ کی یہ رحمت کفار ہے لئے بھی ہوگی!
اگر آپ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (سورة الأحزاب43) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں تو یہاں سے بھی آپ کو یہ نکتہ واضح ہو جائے گا! ان شاء اللہ!
لیکن اکثر لوگ جو ہر دوسرے تیسرے جملہ میں طاغوت کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی طاغوت کے لفظ اور اصطلاح کا درست استعمال نہیں معلوم! وہ بھی اس کا اطلاق درست نہیں کرتے! اور اپنے تئیں خوامخواہ ہر کسی کو طاغوت گردانتے پھرتے ہیں!
یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ دور حاضر کے فتنوں کا ایک امام ، جاوید احمد غامدی کہتا ہے کہ نزول عیسی علیہ السلام کی حدیث موطا مالک میں نہیں ہے۔ اور پھر یہاں سے انکار حدیث کی عمارت کھڑی کرتا ہے!
جواد بھائی! ایک تخصیص اس میں موجود ہے کہ یہ حکم صرف انہیں اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ کو تھا، کہ وہ جس کافر کی قبر سے گذریں اسے یہ بشارت دے دیں! ان اعرابی صحابی نے اسے اپنے لئے حکم ہی سمجھا، اور اگر حکم نہ بھی تھا، اور نہ بھی سمجھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا انہوں نے اپنے اوپر لازم ٹھہرایا، گو کہ وہ خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ مشقت کا کام ہے۔
بہر حال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر کافر کے لئے یہ بتلا دیا ہے کہ وہ جہنمی ہے!
جواد بھائی! جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ معجزے سے متعلق نہیں، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کفار کے لئے جو اسلام کا اقرار کئے بغیر مر چکے انہیں جہنمی قرار دیا ہے۔
یہ بھی انکار حدیث کا فتنہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق صرف نبی صلی علیہ وسلم کے زمانے تک تھا، آج اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
جب کہ مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق ہر دور میں کیا جائے گا، الا یہ کی اس کا منسوخ ہونا یا کسی زمانہ سے خاص ہونا ثابت ہو!
جواد بھائی! میں وہی سمجھ رہا ہوں جو آپ تحریر فرمارہے ہیں، آپ نے در اصل ایسا مؤقف اختیار کیا ہوا ہے جس کی بناء پر آپ کی باتیں متضاد ہو رہی ہیں، اور یہی آپ کے مؤقف کے ابطال کو سمجھنے کے لئے کافی ہو سکتی ہیں!محترم ابن داؤد صاحب - یا تو آپ میری بات سمجھ نہیں پا رہے یا میں آپ کو صحیح سمجھا نہیں پایا-
بھائی! بالکل یہ مسئلہ نہیں، یہ تو بنیاد ہے کہ جو ''غیر مسلم'' ہے ان کا آخرت میں کیا معاملہ ہے! کیونکہ جب کوئی شخص خود مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا تو وہ غیر مسلم ہی ہے، اس پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے!مسلہ کسی کو دنیا میں مسلم یا غیر مسلم قرار دینے کا نہیں - میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ فتویٰ ظاہر پر ہی لگتا ہے -اگر کسی نے الله کی وحدانیت کا اقرار اور طاغوت کا انکار نہیں کیا تو وہ "غیرمسلم" ہی کی صف میں شامل ہو گا-
مجھے اندازہ ہے کہ طاہر الاسلام بھائی، کو ان کے بیان کردہ مؤقف کا نقص سمجھ آگیا ہو گا!مسلہ اصل میں کسی غیر مسلم کو حتمی یا یقینی طور پر جہنمی قرار دینے کا ہے- جیسا کہ @ طاہر اسلام صاحب نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ "اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛ لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا"
طاہر الاسلام بھائی کا بیان کردہ مؤقف بالکل غلط ہے ، اس بیان سے قبل بھی اس طرح کے مؤقف کا بطلان اسحاق سلفی بھائی نے قرآن کی آیات، احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم، منقول اجماع اور فہم محدثین و فقہا سے بیان کر دیا تھا، اور اس مؤقف کے بیان کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کر کے طاہر الاسلام بھائی کے مؤقف کا بطلان واضح کر دیا گیا!
اور اللہ نے جس امر کی خبر دے دی ہے، اسے ماننا لازم ہے، اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر کافر کے جہنمی ہونے کی خبر ے دی ہے، لہٰذا اسے تسلم کرنا مسلمان کا کام ہے!آخرت کے معاملے کے بارے میں صرف الله ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے میں ہماری خوبی اس کلمہ کا اقرار ہے: لا اله الا الله محمد رسول الله اور یہ کلمہ بہت عظیم ہے!نبی کریم صل الله علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے میں ہماری آخر کیا خوبی ہے۔
اللہ کا احسان ہے کہ اللہ نے مسلمان گھر میں پیدا کیا! میں اللہ کے اس احسان کو قبول کرتا ہوں، اس کی اس نعمت پر شکر گذار ہوں! اور اگر مگر کہہ کر شیطان کو راستہ دینے کا قائل نہیں!ہماری غالب ترین اکثریت صرف اس وجہ سے مسلمان ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوگئی ہے۔ دین کبھی ہماری معرفت نہیں بنتا، ذاتی دریافت نہیں بنتا بلکہ تاعمر ہمارا تعصب بنا رہتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگر کسی یہودی یا ہندو کے ہاں پیدا ہوجاتے تو ساری زندگی ہندو اور یہودی بنے رہتے۔
یہ آیات مسلمانوں کے متعلق ہے، کس کے دل میں ایمان ہے، کس کے دل میں ایمان نہیں! یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ جو خود کو مسلمان کہے ، یعنی لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرے، اس پر مسلمانوں والے احکام صادر کریں!الله رب العزت تو ایمان کے دعوی داروں سے فرماتا ہے -
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ سوره الحجرات ١٤
یہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور تم الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو الله تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بےشک الله بخشنے والا مہربان ہے -
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ سوره آل عمران ١٤٢
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل کردیے جاؤ گے جب کہ ابھی تک الله نے نہیں ظاہرکیا ان لوگوں کو جو جہاد کرنے والے ہیں اور ابھی صبر کرنے والوں کو بھی ظاہر نہیں کیا-
بالکل میرے بھائی! کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہو سکے گا سوائے اس کے کہ اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لے۔ لیکن یہ نکتہ اختلاف نہیں ہے!میرا موقف ہرگز یہ نہیں کہ غیر مسلم کسی نہ کسی وقت جنّت میں جائیں گے اورمسلمان جہنم ہی کی وادی میں جھونکے جائیں گے - بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کے بارے میں فیصلہ الله اپنی رحمت اور عدل کی بنیاد پر کریں گے-
نکتہ اختلاف یہ ہے کہ آیا آخرت میں اللہ کی یہ رحمت کفار ہے لئے بھی ہوگی!
اگر آپ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (سورة الأحزاب43) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں تو یہاں سے بھی آپ کو یہ نکتہ واضح ہو جائے گا! ان شاء اللہ!
محمد علی جواد بھائی! اکثر عام مسلمان کو طاغوت کے معنی و مفہوم کو معلوم نہیں ہوتا! لیکن اسے اس کا علم نہ ہونا اس کی لا علمی و جہل ہے، اس لئے یہ نہیں کا جاسکتا کہ وہ طاغوت کا انکار نہیں کرتا، کیونکہ وہ لا اله الله محمد رسول الله کا اقرار کر چکا ہے، اور یہی اس کے طاغوت کے انکار کے لئے کفایت کرتا ہے!آپ خود فرما رہے ہیں کہ "ہر مسلمان لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتا ہے، اور اس میں طاغوت کا انکار شامل ہے۔" تو کیا آج کا مسلمان واقعی کلمہ طیبہ کا مطلب صحیح طور سمجھتا ہے ؟؟ کیا اسے پتا ہے کہ طاغوت کس کو کہتے ہیں؟؟ یا اس نے کبھی اس سے بچنے کی کوشش کی ہے ؟؟ -
لیکن اکثر لوگ جو ہر دوسرے تیسرے جملہ میں طاغوت کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی طاغوت کے لفظ اور اصطلاح کا درست استعمال نہیں معلوم! وہ بھی اس کا اطلاق درست نہیں کرتے! اور اپنے تئیں خوامخواہ ہر کسی کو طاغوت گردانتے پھرتے ہیں!
الحمدللہ! آج کا یہ مسلمان کلمہ کا مطلب اس طرح نہ جانتے ہوئے بھی اللہ کی توفیق سے اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کلمہ کو حقیقی معنی میں سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے!معاف کیجیے گا !! آج کے نام نہاد مسلمانوں سے تو بہتر ابو جہل و ابو لہب اس کلمے کا مطلب جانتے تھے - تب ہی تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کافر ٹہرے- اور ہم صرف اس لئے اس کلمہ کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے آباءو اجداد ایسا کرتے رہے ہیں-
جواد بھائی! آپ بھی کمال کرتے ہو! میں نے کب کہا کہ یہ حدیث صحیح مسلم ميں ان الفاظ کے ساتھ ہے؟ صحیح مسلم میں اس حدیث کا ان الفاظ کے ساتھ نہ ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ دوسری کتب میں یہ حدیث ان الفاظ کے نہیں ہو سکتی! اور وہ صحیح نہیں ہو سکتی، جبکہ ان الفاظ کا صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ سے کوئی تعارض بھی نہیں، بلکہ اضافہ ہے۔ میں نے یہ حدیث ابن ماجہ سے پیش پیش کی ہے، صحیح مسلم سے نہیں۔اول- صحیح مسلم میں یہی حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے-
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ» [ صحيح مسلم ، 1 - كِتَابُ الْإِيمَانَ ، 88 -]
سیدنا انس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: آگ میں۔جب وہ واپس جانے کے لئے مڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔
یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ دور حاضر کے فتنوں کا ایک امام ، جاوید احمد غامدی کہتا ہے کہ نزول عیسی علیہ السلام کی حدیث موطا مالک میں نہیں ہے۔ اور پھر یہاں سے انکار حدیث کی عمارت کھڑی کرتا ہے!
مسلم کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں -
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ " ، قَالَ: فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ ، وَقَالَ : لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا ، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ سنن ابن ماجه»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں-
جواد بھائی! اس کی صحت کے لئے پیشگی ہی امام الہیثمی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا گیا تھا، اس کے بعد اسحاق سلفی بھائی نے بھی جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ سے بھی اس کی تصحیح پیش کردی۔دوم - جہاں تک ابن ماجه کی اس حدیث میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے مذکورہ حکم کا تعلق ہے (آیا صحیح یا غیر صحیح؟؟ )
جواد بھائی! یہ آپ نے کس قاعدے ضابطے اور دلیل کے تحت اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص قرار دیا ہے؟تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ -زمانہ نبوت میں یہ معلوم کرنا آسان تھا کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم اور وہ کس عقیدے پر فوت ہوا ؟؟ -
جواد بھائی! ایک تخصیص اس میں موجود ہے کہ یہ حکم صرف انہیں اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ کو تھا، کہ وہ جس کافر کی قبر سے گذریں اسے یہ بشارت دے دیں! ان اعرابی صحابی نے اسے اپنے لئے حکم ہی سمجھا، اور اگر حکم نہ بھی تھا، اور نہ بھی سمجھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا انہوں نے اپنے اوپر لازم ٹھہرایا، گو کہ وہ خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ مشقت کا کام ہے۔
بہر حال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر کافر کے لئے یہ بتلا دیا ہے کہ وہ جہنمی ہے!
یہ کسوٹی تو آج بھی ہے! آج کیا دین اسلام میں کوئی تغیر آگیا ہے؟نبی کریم صل الله علیہ پر ایمان اور آپ پر نازل کردہ احکمات کو تسلیم کرنا ہی ایک آدمی کے ایمان کی کسوٹی تھی- جو انکار کرتا تھا یا پہلو تہی کرتا تھا وہ کافر ٹھہرتا تھا -
جی جناب! یہ معجزات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے، اس میں عذاب تو مسلمانوں کی قبر کا بھی بتلایا گیا ہے! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مغرفت اور رحمت کی دعا بھی کی!نیز اکثر و بیشتر آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم صاحب قبر کی کیفیت بھی صحابہ کرام کو بتا دیتے تھے-کہ کس صاحب قبرکو عذاب ہو رہا ہے اور کس کو نعمت خداوندی مل رہی ہے-
جواد بھائی! جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ معجزے سے متعلق نہیں، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کفار کے لئے جو اسلام کا اقرار کئے بغیر مر چکے انہیں جہنمی قرار دیا ہے۔
کیوں ممکن نہیں بھائی؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرما دیا کہ جس کسی کافر کی قبر سے گزرو، اسے جہنم کی بشارت دے دو، تو یہ آج کیوں ممکن نہیں!دور جدید میں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی وفات کے بعد اب کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ کسی مرنے والے پر جہنمی یا جنّتی ہونے یا اس پر عذاب قبر ہونے کا حتمی فیصلہ صادر کیا جا سکے- زیادہ سے زیادہ ہم کسی بھی مرنے والے کے بارے میں یا تو نیک گمان کرسکتے ہیں یا برا گمان کرسکتے ہیں (باقی عالم الغیب الله کی ذات ہے) -
یہ بھی انکار حدیث کا فتنہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق صرف نبی صلی علیہ وسلم کے زمانے تک تھا، آج اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
جب کہ مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق ہر دور میں کیا جائے گا، الا یہ کی اس کا منسوخ ہونا یا کسی زمانہ سے خاص ہونا ثابت ہو!
آمین!الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
Last edited: