• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیک اور اچھے غیر مسلم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ابن داؤد صاحب - یا تو آپ میری بات سمجھ نہیں پا رہے یا میں آپ کو صحیح سمجھا نہیں پایا-
جواد بھائی! میں وہی سمجھ رہا ہوں جو آپ تحریر فرمارہے ہیں، آپ نے در اصل ایسا مؤقف اختیار کیا ہوا ہے جس کی بناء پر آپ کی باتیں متضاد ہو رہی ہیں، اور یہی آپ کے مؤقف کے ابطال کو سمجھنے کے لئے کافی ہو سکتی ہیں!
مسلہ کسی کو دنیا میں مسلم یا غیر مسلم قرار دینے کا نہیں - میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ فتویٰ ظاہر پر ہی لگتا ہے -اگر کسی نے الله کی وحدانیت کا اقرار اور طاغوت کا انکار نہیں کیا تو وہ "غیرمسلم" ہی کی صف میں شامل ہو گا-
بھائی! بالکل یہ مسئلہ نہیں، یہ تو بنیاد ہے کہ جو ''غیر مسلم'' ہے ان کا آخرت میں کیا معاملہ ہے! کیونکہ جب کوئی شخص خود مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا تو وہ غیر مسلم ہی ہے، اس پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے!
مسلہ اصل میں کسی غیر مسلم کو حتمی یا یقینی طور پر جہنمی قرار دینے کا ہے- جیسا کہ @ طاہر اسلام صاحب نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ "اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛ لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا"
مجھے اندازہ ہے کہ طاہر الاسلام بھائی، کو ان کے بیان کردہ مؤقف کا نقص سمجھ آگیا ہو گا!
طاہر الاسلام بھائی کا بیان کردہ مؤقف بالکل غلط ہے ، اس بیان سے قبل بھی اس طرح کے مؤقف کا بطلان اسحاق سلفی بھائی نے قرآن کی آیات، احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم، منقول اجماع اور فہم محدثین و فقہا سے بیان کر دیا تھا، اور اس مؤقف کے بیان کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کر کے طاہر الاسلام بھائی کے مؤقف کا بطلان واضح کر دیا گیا!
آخرت کے معاملے کے بارے میں صرف الله ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟؟
اور اللہ نے جس امر کی خبر دے دی ہے، اسے ماننا لازم ہے، اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر کافر کے جہنمی ہونے کی خبر ے دی ہے، لہٰذا اسے تسلم کرنا مسلمان کا کام ہے!
نبی کریم صل الله علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے میں ہماری آخر کیا خوبی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے میں ہماری خوبی اس کلمہ کا اقرار ہے: لا اله الا الله محمد رسول الله اور یہ کلمہ بہت عظیم ہے!
ہماری غالب ترین اکثریت صرف اس وجہ سے مسلمان ہے کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوگئی ہے۔ دین کبھی ہماری معرفت نہیں بنتا، ذاتی دریافت نہیں بنتا بلکہ تاعمر ہمارا تعصب بنا رہتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اگر کسی یہودی یا ہندو کے ہاں پیدا ہوجاتے تو ساری زندگی ہندو اور یہودی بنے رہتے۔
اللہ کا احسان ہے کہ اللہ نے مسلمان گھر میں پیدا کیا! میں اللہ کے اس احسان کو قبول کرتا ہوں، اس کی اس نعمت پر شکر گذار ہوں! اور اگر مگر کہہ کر شیطان کو راستہ دینے کا قائل نہیں!
الله رب العزت تو ایمان کے دعوی داروں سے فرماتا ہے -
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ سوره الحجرات ١٤
یہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور تم الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو الله تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بےشک الله بخشنے والا مہربان ہے -
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ سوره آل عمران ١٤٢
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل کردیے جاؤ گے جب کہ ابھی تک الله نے نہیں ظاہرکیا ان لوگوں کو جو جہاد کرنے والے ہیں اور ابھی صبر کرنے والوں کو بھی ظاہر نہیں کیا-
یہ آیات مسلمانوں کے متعلق ہے، کس کے دل میں ایمان ہے، کس کے دل میں ایمان نہیں! یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ جو خود کو مسلمان کہے ، یعنی لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرے، اس پر مسلمانوں والے احکام صادر کریں!
میرا موقف ہرگز یہ نہیں کہ غیر مسلم کسی نہ کسی وقت جنّت میں جائیں گے اورمسلمان جہنم ہی کی وادی میں جھونکے جائیں گے - بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کے بارے میں فیصلہ الله اپنی رحمت اور عدل کی بنیاد پر کریں گے-
بالکل میرے بھائی! کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہو سکے گا سوائے اس کے کہ اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لے۔ لیکن یہ نکتہ اختلاف نہیں ہے!
نکتہ اختلاف یہ ہے کہ آیا آخرت میں اللہ کی یہ رحمت کفار ہے لئے بھی ہوگی!
اگر آپ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (سورة الأحزاب43) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں تو یہاں سے بھی آپ کو یہ نکتہ واضح ہو جائے گا! ان شاء اللہ!
آپ خود فرما رہے ہیں کہ "ہر مسلمان لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتا ہے، اور اس میں طاغوت کا انکار شامل ہے۔" تو کیا آج کا مسلمان واقعی کلمہ طیبہ کا مطلب صحیح طور سمجھتا ہے ؟؟ کیا اسے پتا ہے کہ طاغوت کس کو کہتے ہیں؟؟ یا اس نے کبھی اس سے بچنے کی کوشش کی ہے ؟؟ -
محمد علی جواد بھائی! اکثر عام مسلمان کو طاغوت کے معنی و مفہوم کو معلوم نہیں ہوتا! لیکن اسے اس کا علم نہ ہونا اس کی لا علمی و جہل ہے، اس لئے یہ نہیں کا جاسکتا کہ وہ طاغوت کا انکار نہیں کرتا، کیونکہ وہ لا اله الله محمد رسول الله کا اقرار کر چکا ہے، اور یہی اس کے طاغوت کے انکار کے لئے کفایت کرتا ہے!
لیکن اکثر لوگ جو ہر دوسرے تیسرے جملہ میں طاغوت کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی طاغوت کے لفظ اور اصطلاح کا درست استعمال نہیں معلوم! وہ بھی اس کا اطلاق درست نہیں کرتے! اور اپنے تئیں خوامخواہ ہر کسی کو طاغوت گردانتے پھرتے ہیں!
معاف کیجیے گا !! آج کے نام نہاد مسلمانوں سے تو بہتر ابو جہل و ابو لہب اس کلمے کا مطلب جانتے تھے - تب ہی تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کافر ٹہرے- اور ہم صرف اس لئے اس کلمہ کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے آباءو اجداد ایسا کرتے رہے ہیں-
الحمدللہ! آج کا یہ مسلمان کلمہ کا مطلب اس طرح نہ جانتے ہوئے بھی اللہ کی توفیق سے اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کلمہ کو حقیقی معنی میں سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے!
اول- صحیح مسلم میں یہی حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے-
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: «فِي النَّارِ» ، فَلَمَّا قَفَّى دَعَاهُ، فَقَالَ: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ» [ صحيح مسلم ، 1 - كِتَابُ الْإِيمَانَ ، 88 -]
سیدنا انس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا: آگ میں۔جب وہ واپس جانے کے لئے مڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔
جواد بھائی! آپ بھی کمال کرتے ہو! میں نے کب کہا کہ یہ حدیث صحیح مسلم ميں ان الفاظ کے ساتھ ہے؟ صحیح مسلم میں اس حدیث کا ان الفاظ کے ساتھ نہ ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ دوسری کتب میں یہ حدیث ان الفاظ کے نہیں ہو سکتی! اور وہ صحیح نہیں ہو سکتی، جبکہ ان الفاظ کا صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ سے کوئی تعارض بھی نہیں، بلکہ اضافہ ہے۔ میں نے یہ حدیث ابن ماجہ سے پیش پیش کی ہے، صحیح مسلم سے نہیں۔
یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ دور حاضر کے فتنوں کا ایک امام ، جاوید احمد غامدی کہتا ہے کہ نزول عیسی علیہ السلام کی حدیث موطا مالک میں نہیں ہے۔ اور پھر یہاں سے انکار حدیث کی عمارت کھڑی کرتا ہے!
مسلم کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں -
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ " ، قَالَ: فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ ، وَقَالَ : لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا ، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ سنن ابن ماجه»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں-
دوم - جہاں تک ابن ماجه کی اس حدیث میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے مذکورہ حکم کا تعلق ہے (آیا صحیح یا غیر صحیح؟؟ )
جواد بھائی! اس کی صحت کے لئے پیشگی ہی امام الہیثمی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا گیا تھا، اس کے بعد اسحاق سلفی بھائی نے بھی جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ سے بھی اس کی تصحیح پیش کردی۔
تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ -زمانہ نبوت میں یہ معلوم کرنا آسان تھا کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم اور وہ کس عقیدے پر فوت ہوا ؟؟ -
جواد بھائی! یہ آپ نے کس قاعدے ضابطے اور دلیل کے تحت اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص قرار دیا ہے؟
جواد بھائی! ایک تخصیص اس میں موجود ہے کہ یہ حکم صرف انہیں اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ کو تھا، کہ وہ جس کافر کی قبر سے گذریں اسے یہ بشارت دے دیں! ان اعرابی صحابی نے اسے اپنے لئے حکم ہی سمجھا، اور اگر حکم نہ بھی تھا، اور نہ بھی سمجھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا انہوں نے اپنے اوپر لازم ٹھہرایا، گو کہ وہ خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ مشقت کا کام ہے۔
بہر حال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر کافر کے لئے یہ بتلا دیا ہے کہ وہ جہنمی ہے!
نبی کریم صل الله علیہ پر ایمان اور آپ پر نازل کردہ احکمات کو تسلیم کرنا ہی ایک آدمی کے ایمان کی کسوٹی تھی- جو انکار کرتا تھا یا پہلو تہی کرتا تھا وہ کافر ٹھہرتا تھا -
یہ کسوٹی تو آج بھی ہے! آج کیا دین اسلام میں کوئی تغیر آگیا ہے؟
نیز اکثر و بیشتر آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم صاحب قبر کی کیفیت بھی صحابہ کرام کو بتا دیتے تھے-کہ کس صاحب قبرکو عذاب ہو رہا ہے اور کس کو نعمت خداوندی مل رہی ہے-
جی جناب! یہ معجزات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے، اس میں عذاب تو مسلمانوں کی قبر کا بھی بتلایا گیا ہے! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مغرفت اور رحمت کی دعا بھی کی!
جواد بھائی! جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ معجزے سے متعلق نہیں، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کفار کے لئے جو اسلام کا اقرار کئے بغیر مر چکے انہیں جہنمی قرار دیا ہے۔
دور جدید میں بلکہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی وفات کے بعد اب کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ کسی مرنے والے پر جہنمی یا جنّتی ہونے یا اس پر عذاب قبر ہونے کا حتمی فیصلہ صادر کیا جا سکے- زیادہ سے زیادہ ہم کسی بھی مرنے والے کے بارے میں یا تو نیک گمان کرسکتے ہیں یا برا گمان کرسکتے ہیں (باقی عالم الغیب الله کی ذات ہے) -
کیوں ممکن نہیں بھائی؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرما دیا کہ جس کسی کافر کی قبر سے گزرو، اسے جہنم کی بشارت دے دو، تو یہ آج کیوں ممکن نہیں!
یہ بھی انکار حدیث کا فتنہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق صرف نبی صلی علیہ وسلم کے زمانے تک تھا، آج اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
جب کہ مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق ہر دور میں کیا جائے گا، الا یہ کی اس کا منسوخ ہونا یا کسی زمانہ سے خاص ہونا ثابت ہو!
الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
آمین!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جزاک الله - متفق
آپ متفق ہیں تو آپ ہی اس کا جواب عنایت فرما دیں:
دیکھیے جہاں تک اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات اہل سنت کے عقائد کے تمام متون میں موجود ہے۔اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ غیر مسلموں(کافروں)میں سے بعض لوگ جنت میں جا سکتے ہیں جن کا خدا ہی کو علم ہے؛واللہ اعلم بالصواب
گفتگو اس پر ہے کہ جو کافر ہی مرا اسلام کا اقرار کئے بغیر!
ایسے شخص کو معین کرکے جہنمی کہنے کی ممانعت کن کتب میں ہے؟
اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ غیر مسلموں(کافروں)میں سے بعض لوگ جنت میں جا سکتے ہیں جن کا خدا ہی کو علم ہے
یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جواد بھائی! میں وہی سمجھ رہا ہوں جو آپ تحریر فرمارہے ہیں، آپ نے در اصل ایسا مؤقف اختیار کیا ہوا ہے جس کی بناء پر آپ کی باتیں متضاد ہو رہی ہیں، اور یہی آپ کے مؤقف کے ابطال کو سمجھنے کے لئے کافی ہو سکتی ہیں!

بھائی! بالکل یہ مسئلہ نہیں، یہ تو بنیاد ہے کہ جو ''غیر مسلم'' ہے ان کا آخرت میں کیا معاملہ ہے! کیونکہ جب کوئی شخص خود مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا تو وہ غیر مسلم ہی ہے، اس پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے!

مجھے اندازہ ہے کہ طاہر الاسلام بھائی، کو ان کے بیان کردہ مؤقف کا نقص سمجھ آگیا ہو گا!
طاہر الاسلام بھائی کا بیان کردہ مؤقف بالکل غلط ہے ، اس بیان سے قبل بھی اس طرح کے مؤقف کا بطلان اسحاق سلفی بھائی نے قرآن کی آیات، احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم، منقول اجماع اور فہم محدثین و فقہا سے بیان کر دیا تھا، اور اس مؤقف کے بیان کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کر کے طاہر الاسلام بھائی کے مؤقف کا بطلان واضح کر دیا گیا!

اور اللہ نے جس امر کی خبر دے دی ہے، اسے ماننا لازم ہے، اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر کافر کے جہنمی ہونے کی خبر ے دی ہے، لہٰذا اسے تسلم کرنا مسلمان کا کام ہے!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے میں ہماری خصوصیت اس کلمہ کا اقرار ہے: لا اله الا الله محمد رسول الله اور یہ کلمہ بہت عظیم ہے!

اللہ کا احسان ہے کہ اللہ نے مسلمان گھر میں پیدا کیا! میں اللہ کے اس احسان کو قبول کرتا ہوں، اس کی اس نعمت پر شکر گذار ہوں! اور اگر مگر کہہ کر شیطان کو راستہ دینے کا قائل نہیں!

یہ آیات مسلمانوں کے متعلق ہے، کس کے دل میں ایمان ہے، کس کے دل میں ایمان نہیں! یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ جو خود کو مسلمان کہے ، یعنی لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرے، اس پر مسلمانوں والے احکام صادر کریں!

بالکل میرے بھائی! کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہو سکے گا سوائے اس کے کہ اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لے۔ لیکن یہ نکتہ اختلاف نہیں ہے!
نکتہ اختلاف یہ ہے کہ اللہ کی آیا آللہ کی یہ آخرت میں اللہ کی رحمت کفار ہے لئے بھی ہوگی!
اگر آپ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (سورة الأحزاب43) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں تو یہاں سے بھی آپ کو یہ نکتہ واضح ہو جائے گا! ان شاء اللہ!


محمد علی جواد بھائی! اکثر عام مسلمان کو طاغوت کے معنی و مفہوم کو معلوم نہیں ہوتا! لیکن اسے اس کا علم نہ ہونا اس کی لا علمی و جہل ہے، اس لئے یہ نہیں کا جاسکتا کہ وہ طاغوت کا انکار نہیں کرتا، کیونکہ وہ لا اله الله محمد رسول الله کا اقرار کر چکا ہے، اور یہی اس کے طاغوت کے انکار کے لئے کفایت کرتا ہے!
لیکن اکثر لوگ جو ہر دوسرے تیسرے جملہ میں طاغوت کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی طاغوت کے لفظ اور اصطلاح کا درست استعمال نہیں معلوم! وہ بھی اس کا اطلاق درست نہیں کرتے! اور اپنے تئیں خوامخواہ ہر کسی کو طاغوت گردانتے پھرتے ہیں!

الحمدللہ! آج کا یہ مسلمان کلمہ کا مطلب اس طرح نہ جانتے ہوئے بھی اللہ کی توفیق سے اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کلمہ کو حقیقی معنی میں سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے!

جواد بھائی! آپ بھی کمال کرتے ہو! میں نے کب کہا کہ یہ حدیث صحیح مسلم ميں ان الفاظ کے ساتھ ہے؟ صحیح مسلم میں اس حدیث کا ان الفاظ کے ساتھ نہ ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ دوسری کتب میں یہ حدیث ان الفاظ کے نہیں ہو سکتی! اور وہ صحیح نہیں ہو سکتی، جبکہ ان الفاظ کا صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ سے کوئی تعارض بھی نہیں، بلکہ اضافہ ہے۔ میں نے یہ حدیث ابن ماجہ سے پیش پیش کی ہے، صحیح مسلم سے نہیں۔
یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ دور حاضر کے فتنوں کا ایک امام ، جاوید احمد غامدی کہتا ہے کہ نزول عیسی علیہ السلام کی حدیث موطا مالک میں نہیں ہے۔ اور پھر یہاں سے انکار حدیث کی عمارت کھڑی کرتا ہے!


جواد بھائی! اس کی صحت کے لئے پیشگی ہی امام الہیثمی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا گیا تھا، اس کے بعد اسحاق سلفی بھائی نے بھی جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ سے بھی اس کی تصحیح پیش کردی۔

جواد بھائی! یہ آپ نے کس قاعدے ضابطے اور دلیل کے تحت اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص قرار دیا ہے؟
جواد بھائی! ایک تخصیص اس میں موجود ہے کہ یہ حکم صرف انہیں اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ کو تھا، کہ وہ جس کافر کی قبر سے گذریں اسے یہ بشارت دے دیں! ان اعرابی صحابی نے اسے اپنے لئے حکم ہی سمجھا، اور اگر حکم نہ بھی تھا، اور نہ بھی سمجھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا انہوں نے اپنے اوپر لازم ٹھہرایا، گو کہ وہ خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ مشقت کا کام ہے۔
بہر حال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر کافر کے لئے یہ بتلا دیا ہے کہ وہ جہنمی ہے!

یہ کسوٹی تو آج بھی ہے! آج کیا دین اسلام میں کوئی تغیر آگیا ہے؟

جی جناب! یہ معجزات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے، اس میں عذاب تو مسلمانوں کی قبر کا بھی بتلایا گیا ہے! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مغرفت اور رحمت کی دعا بھی کی!
جواد بھائی! جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ معجزے سے متعلق نہیں، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کفار کے لئے جو اسلام کا اقرار کئے بغیر مر چکے انہیں جہنمی قرار دیا ہے۔

کیوں ممکن نہیں بھائی؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرما دیا کہ جس کسی کافر کی قبر سے گزرو، اسے جہنم کی بشارت دے دو، تو یہ آج کیوں ممکن نہیں!
یہ بھی انکار حدیث کا فتنہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق صرف نبی صلی علیہ وسلم کے زمانے تک تھا، آج اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
جب کہ مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق ہر دور میں کیا جائے گا، الا یہ کی اس کا منسوخ ہونا یا کسی زمانہ سے خاص ہونا ثابت ہو!

آمین!
بالکل صحیح ۔۔جزاک اللہ خیراً
وزادک اللہ علماً و فضلاً
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وایاک ! آمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جواد بھائی! میں وہی سمجھ رہا ہوں جو آپ تحریر فرمارہے ہیں، آپ نے در اصل ایسا مؤقف اختیار کیا ہوا ہے جس کی بناء پر آپ کی باتیں متضاد ہو رہی ہیں، اور یہی آپ کے مؤقف کے ابطال کو سمجھنے کے لئے کافی ہو سکتی ہیں!

بھائی! بالکل یہ مسئلہ نہیں، یہ تو بنیاد ہے کہ جو ''غیر مسلم'' ہے ان کا آخرت میں کیا معاملہ ہے! کیونکہ جب کوئی شخص خود مسلمان ہونے کا اقرار نہیں کرتا تو وہ غیر مسلم ہی ہے، اس پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے!

مجھے اندازہ ہے کہ طاہر الاسلام بھائی، کو ان کے بیان کردہ مؤقف کا نقص سمجھ آگیا ہو گا!
طاہر الاسلام بھائی کا بیان کردہ مؤقف بالکل غلط ہے ، اس بیان سے قبل بھی اس طرح کے مؤقف کا بطلان اسحاق سلفی بھائی نے قرآن کی آیات، احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم، منقول اجماع اور فہم محدثین و فقہا سے بیان کر دیا تھا، اور اس مؤقف کے بیان کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کر کے طاہر الاسلام بھائی کے مؤقف کا بطلان واضح کر دیا گیا!

اور اللہ نے جس امر کی خبر دے دی ہے، اسے ماننا لازم ہے، اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر کافر کے جہنمی ہونے کی خبر ے دی ہے، لہٰذا اسے تسلم کرنا مسلمان کا کام ہے!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے میں ہماری خوبی اس کلمہ کا اقرار ہے: لا اله الا الله محمد رسول الله اور یہ کلمہ بہت عظیم ہے!

اللہ کا احسان ہے کہ اللہ نے مسلمان گھر میں پیدا کیا! میں اللہ کے اس احسان کو قبول کرتا ہوں، اس کی اس نعمت پر شکر گذار ہوں! اور اگر مگر کہہ کر شیطان کو راستہ دینے کا قائل نہیں!

یہ آیات مسلمانوں کے متعلق ہے، کس کے دل میں ایمان ہے، کس کے دل میں ایمان نہیں! یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ جو خود کو مسلمان کہے ، یعنی لا اله الا الله محمد رسول الله کا اقرار کرے، اس پر مسلمانوں والے احکام صادر کریں!

بالکل میرے بھائی! کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہو سکے گا سوائے اس کے کہ اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لے۔ لیکن یہ نکتہ اختلاف نہیں ہے!
نکتہ اختلاف یہ ہے کہ آیا آخرت میں اللہ کی یہ رحمت کفار ہے لئے بھی ہوگی!
اگر آپ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (سورة الأحزاب43) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں تو یہاں سے بھی آپ کو یہ نکتہ واضح ہو جائے گا! ان شاء اللہ!


محمد علی جواد بھائی! اکثر عام مسلمان کو طاغوت کے معنی و مفہوم کو معلوم نہیں ہوتا! لیکن اسے اس کا علم نہ ہونا اس کی لا علمی و جہل ہے، اس لئے یہ نہیں کا جاسکتا کہ وہ طاغوت کا انکار نہیں کرتا، کیونکہ وہ لا اله الله محمد رسول الله کا اقرار کر چکا ہے، اور یہی اس کے طاغوت کے انکار کے لئے کفایت کرتا ہے!
لیکن اکثر لوگ جو ہر دوسرے تیسرے جملہ میں طاغوت کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں، انہیں بھی طاغوت کے لفظ اور اصطلاح کا درست استعمال نہیں معلوم! وہ بھی اس کا اطلاق درست نہیں کرتے! اور اپنے تئیں خوامخواہ ہر کسی کو طاغوت گردانتے پھرتے ہیں!

الحمدللہ! آج کا یہ مسلمان کلمہ کا مطلب اس طرح نہ جانتے ہوئے بھی اللہ کی توفیق سے اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کلمہ کو حقیقی معنی میں سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے!

جواد بھائی! آپ بھی کمال کرتے ہو! میں نے کب کہا کہ یہ حدیث صحیح مسلم ميں ان الفاظ کے ساتھ ہے؟ صحیح مسلم میں اس حدیث کا ان الفاظ کے ساتھ نہ ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ دوسری کتب میں یہ حدیث ان الفاظ کے نہیں ہو سکتی! اور وہ صحیح نہیں ہو سکتی، جبکہ ان الفاظ کا صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ سے کوئی تعارض بھی نہیں، بلکہ اضافہ ہے۔ میں نے یہ حدیث ابن ماجہ سے پیش پیش کی ہے، صحیح مسلم سے نہیں۔
یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ دور حاضر کے فتنوں کا ایک امام ، جاوید احمد غامدی کہتا ہے کہ نزول عیسی علیہ السلام کی حدیث موطا مالک میں نہیں ہے۔ اور پھر یہاں سے انکار حدیث کی عمارت کھڑی کرتا ہے!


جواد بھائی! اس کی صحت کے لئے پیشگی ہی امام الہیثمی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا گیا تھا، اس کے بعد اسحاق سلفی بھائی نے بھی جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ سے بھی اس کی تصحیح پیش کردی۔

جواد بھائی! یہ آپ نے کس قاعدے ضابطے اور دلیل کے تحت اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص قرار دیا ہے؟
جواد بھائی! ایک تخصیص اس میں موجود ہے کہ یہ حکم صرف انہیں اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ کو تھا، کہ وہ جس کافر کی قبر سے گذریں اسے یہ بشارت دے دیں! ان اعرابی صحابی نے اسے اپنے لئے حکم ہی سمجھا، اور اگر حکم نہ بھی تھا، اور نہ بھی سمجھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا انہوں نے اپنے اوپر لازم ٹھہرایا، گو کہ وہ خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ مشقت کا کام ہے۔
بہر حال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر کافر کے لئے یہ بتلا دیا ہے کہ وہ جہنمی ہے!

یہ کسوٹی تو آج بھی ہے! آج کیا دین اسلام میں کوئی تغیر آگیا ہے؟

جی جناب! یہ معجزات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے، اس میں عذاب تو مسلمانوں کی قبر کا بھی بتلایا گیا ہے! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مغرفت اور رحمت کی دعا بھی کی!
جواد بھائی! جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ معجزے سے متعلق نہیں، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کفار کے لئے جو اسلام کا اقرار کئے بغیر مر چکے انہیں جہنمی قرار دیا ہے۔

کیوں ممکن نہیں بھائی؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرما دیا کہ جس کسی کافر کی قبر سے گزرو، اسے جہنم کی بشارت دے دو، تو یہ آج کیوں ممکن نہیں!
یہ بھی انکار حدیث کا فتنہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق صرف نبی صلی علیہ وسلم کے زمانے تک تھا، آج اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
جب کہ مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق ہر دور میں کیا جائے گا، الا یہ کی اس کا منسوخ ہونا یا کسی زمانہ سے خاص ہونا ثابت ہو!

آمین!
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم - میرے خیال ہے کہ شاید آپ مجھ جیسے کم علم شخص کی بات صحیح طور پر سمجھ نہیں پاۓ - اسی لئے اس زمن میں ایک اہل علم "مقبول احمد سلفی" کا لکھا ہوا مضمون اس لنک میں دیا گیا ہے - اس کو پڑھ لیجئے- میرا موقف تقریباً یہی ہے جومقبول سلفی کا ہے-

http://maquboolahmad.blogspot.com/2014/12/blog-post_7.html

باقی باتوں کو بائی پاس کرتے ہوے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ :

کہ مجھے افسوس ہے کہ اکثر اہل علم جن میں آپ بھی شامل ہیں بغیر سوچے سمجھے اکثریت پر "منکرحدیث" ہونے کا الزام عائد کردیتے ہیں- منکر حدیث تو وہ ہوتا ہے جو کلّی طور پرحجت حدیث کا منکر ہو-احادیث نبوی کے مفاہیم میں تو ہردور میں اختلاف راۓ ہوتا رہا ہے- حتیٰ کے صحابہ کرام کے مابین بھی رہا ہے-

میں نے صحیح مسلم کی حدیث موازنہ کے طور پر پیش کی تھی- اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک روایت کو پرکھنے کے عمل میں جب اس روایت کا موازنہ دوسری کتب میں موجود روایات سے کیا جاتا ہے - تو ہماری ترجیح وہ روایات ہوتی ہے جو احادیث کی معتبر کتابوں میں پائی جاتی ہیں-(خاص کر جب معامله عقیدے کا ہو)- صحیح مسلم کو ابن ماجہ پر بہرحال فوقیت حاصل ہے - لیکن پھر بھی میں نے ابن ماجہ کی روایت کا مطلقاً انکار نہیں کیا-

آپ کا کہنا ہے کہ "یہ بھی انکار حدیث کا فتنہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق صرف نبی صلی علیہ وسلم کے زمانے تک تھا، آج اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا" - تو محترم یہ تو جمہوریت پسند لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ خلافت کا نفاذ آج ممکن نہیں- تو کیا یہ بھی منکر حدیث میں شامل نہیں ؟؟

دوسرے یہ کہ اگر ایک صحابی رسول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو- تو سوال ہے کہ اس حکم پر بعد میں کتنے صحابہ کرام رضوان الله آجمعین نے عمل کیا ؟؟ اوران کے بعد کے ادوار میں کتنے ایسے مسلمان تھے جو اس حکم پر عمل کرتے رہے ؟؟کیا آج بھی ایسے مسلمان ہیں جو اس حکم پرعمل پیرا ہیں ؟؟

پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کسی کافر کی قبرپر گذرتے ہوے اسے دوزخ کی خوشخبری دینے کا حکم نبی کریم کے دور تک کا نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے؟؟ - ہمیں تو یہی پتا ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم کے اس حکم "کہ جب مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرو تو ان کو سلام کرو اور کہو کہ السلام علیکم یا اہل القبور یغفر اللہ لنا و لکم انتم سلفنا و نحن بالاثر" پرہی دور قدیم سے لیکر آج تک لوگ عمل کرتے چلے آ رہے ہیں-

جب کہ ابن ماجہ میں بیان کردہ حکم پر عمل مسلمانوں میں مفقود ہی نظر آتا ہے-؟؟

بلکہ اس کے برعکس حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللهﷺنے مُردوں کو برائی سے یاد نہ کرو یعنی ان کو برا نہ کہو اور ان کی برائیاں نہ بیان کرو، اس لئے کہ جو کچھ انہوں نے کیا وہ اس کے نتیجے اور انجام کو پہنچ چکے۔ (بخاری- ٢١١ )

اگر آپ اپنے نظریات پر نظر ثانی کریں تو خوشی ہوگی-

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-

والسلام -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
محترم - میرے خیال ہے کہ شاید آپ مجھ جیسے کم علم شخص کی بات صحیح طور پر سمجھ نہیں پاۓ - اسی لئے اس زمن میں ایک اہل علم "مقبول احمد سلفی" کا لکھا ہوا مضمون اس لنک میں دیا گیا ہے - اس کو پڑھ لیجئے- میرا موقف تقریباً یہی ہے جومقبول سلفی کا ہے-
http://maquboolahmad.blogspot.com/2014/12/blog-post_7.html
مقبول سلفی کی اس تحریر میں زیر بحث مسئلہ کا ذکر ہی نہیں!
باقی باتوں کو بائی پاس کرتے ہوے میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ :

کہ مجھے افسوس ہے کہ اکثر اہل علم جن میں آپ بھی شامل ہیں بغیر سوچے سمجھے اکثریت پر "منکرحدیث" ہونے کا الزام عائد کردیتے ہیں- منکر حدیث تو وہ ہوتا ہے جو کلّی طور پرحجت حدیث کا منکر ہو-احادیث نبوی کے مفاہیم میں تو ہردور میں اختلاف راۓ ہوتا رہا ہے- حتیٰ کے صحابہ کرام کے مابین بھی رہا ہے-
جواد بھائی! میں نے کسی پر یہاں''منکر حدیث'' ہونے کا الزام نہیں عائد کیا۔ میں نے صرف اتنا بتلایا ہے کہ یہ طرز اور طرز استدلال و انکار منکر حدیث کا ہوتا ہے!
میں نے صحیح مسلم کی حدیث موازنہ کے طور پر پیش کی تھی- اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک روایت کو پرکھنے کے عمل میں جب اس روایت کا موازنہ دوسری کتب میں موجود روایات سے کیا جاتا ہے - تو ہماری ترجیح وہ روایات ہوتی ہے جو احادیث کی معتبر کتابوں میں پائی جاتی ہیں-(خاص کر جب معامله عقیدے کا ہو)- صحیح مسلم کو ابن ماجہ پر بہرحال فوقیت حاصل ہے - لیکن پھر بھی میں نے ابن ماجہ کی روایت کا مطلقاً انکار نہیں کیا-
بھائی! فوقیت یعنی ترجیح کا معاملہ اس وقت ہوتا ہے ،جب دو صحیح احادیث میں ایسا ظاہری تضاد ہو کہ تطبیق کی کوئی صورت نہ ملے، یہاں تو ایسا کوئی تضاد ہی نہیں!
میں نے کہا تھا کہ:
جواد بھائی! آپ بھی کمال کرتے ہو! میں نے کب کہا کہ یہ حدیث صحیح مسلم ميں ان الفاظ کے ساتھ ہے؟ صحیح مسلم میں اس حدیث کا ان الفاظ کے ساتھ نہ ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ دوسری کتب میں یہ حدیث ان الفاظ کے نہیں ہو سکتی! اور وہ صحیح نہیں ہو سکتی، جبکہ ان الفاظ کا صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ سے کوئی تعارض بھی نہیں، بلکہ اضافہ ہے۔ میں نے یہ حدیث ابن ماجہ سے پیش پیش کی ہے، صحیح مسلم سے نہیں۔
یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ دور حاضر کے فتنوں کا ایک امام ، جاوید احمد غامدی کہتا ہے کہ نزول عیسی علیہ السلام کی حدیث موطا مالک میں نہیں ہے۔ اور پھر یہاں سے انکار حدیث کی عمارت کھڑی کرتا ہے!
آپ کا کہنا ہے کہ "یہ بھی انکار حدیث کا فتنہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، کہ نبی صلی علیہ وسلم کی احادیث کا اطلاق صرف نبی صلی علیہ وسلم کے زمانے تک تھا، آج اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا" - تو محترم یہ تو جمہوریت پسند لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ خلافت کا نفاذ آج ممکن نہیں- تو کیا یہ بھی منکر حدیث میں شامل نہیں ؟؟
جواد بھائی!خلافت سے متعلق آپ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ بتلائی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ:
خلافت علی منہاج النبوہ تو صرف تیس سال رہی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ) سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ تعالی اپنا ملک جسے چاہے گا عنائت کرے گا۔ سعید بن جمہان نے کہا کہ حضرت سفینہ ‎‎نے مجھے کہا حساب لگا لو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو سال حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دس سال اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور اسی طرح کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ۔سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے کہا کہ یہ بنومروان سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ تھے تو انھوں نے کہا بنی زرقاء کے پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ- أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ-<.
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ

سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نبوت کی خلافت تیس سال تک رہے گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ملک جسے چاہے گا دیدے گا ۔ “

اس حدیث کو شیخ البانی و زبیر علی زئی نے صحیح و حسن قرار دیا ہے! لیکن میں آپ کو ان کی تصحیح پیش نہیں کرتا! میں آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتا ہوں:
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا}
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 406 جلد 03 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

فَإِنْ قَالَ: أَرَدْتُ بِقَوْلِي أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ يَقُولُونَ: إِنَّ خِلَافَتَهُ انْعَقَدَتْ بِمُبَايَعَةِ الْخَلْقِ لَهُ لَا بِالنَّصِّ.
فَلَا رَيْبَ أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ وَإِنْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ النَّصَّ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، لِقَوْلِهِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً» "، فَهُمْ يَرْوُونَ النُّصُوصَ الْكَثِيرَةَ فِي صِحَّةِ خِلَافَةِ غَيْرِهِ.

ملاحظہ فرمائیں : صفحه 454 جلد 01 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

وَأَمَّا عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 522 جلد 04 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
دوسرے یہ کہ اگر ایک صحابی رسول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو- تو سوال ہے کہ اس حکم پر بعد میں کتنے صحابہ کرام رضوان الله آجمعین نے عمل کیا ؟؟ اوران کے بعد کے ادوار میں کتنے ایسے مسلمان تھے جو اس حکم پر عمل کرتے رہے ؟؟کیا آج بھی ایسے مسلمان ہیں جو اس حکم پرعمل پیرا ہیں ؟؟
یہ بات بھی پچھلی تحریر میں واضح کر دی گئی تھی، ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
جواد بھائی! یہ آپ نے کس قاعدے ضابطے اور دلیل کے تحت اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص قرار دیا ہے؟
جواد بھائی! ایک تخصیص اس میں موجود ہے کہ یہ حکم صرف انہیں اعرابی صحابی رضی اللہ عنہ کو تھا، کہ وہ جس کافر کی قبر سے گذریں اسے یہ بشارت دے دیں! ان اعرابی صحابی نے اسے اپنے لئے حکم ہی سمجھا، اور اگر حکم نہ بھی تھا، اور نہ بھی سمجھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا انہوں نے اپنے اوپر لازم ٹھہرایا، گو کہ وہ خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ مشقت کا کام ہے۔
بہر حال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر کافر کے لئے یہ بتلا دیا ہے کہ وہ جہنمی ہے!
پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کسی کافر کی قبرپر گذرتے ہوے اسے دوزخ کی خوشخبری دینے کا حکم نبی کریم کے دور تک کا نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے؟؟ - ہمیں تو یہی پتا ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم کے اس حکم "کہ جب مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرو تو ان کو سلام کرو اور کہو کہ السلام علیکم یا اہل القبور یغفر اللہ لنا و لکم انتم سلفنا و نحن بالاثر" پرہی دور قدیم سے لیکر آج تک لوگ عمل کرتے چلے آ رہے ہیں-
وہ اس لئے کہ امر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام ہے!
جب کہ ابن ماجہ میں بیان کردہ حکم پر عمل مسلمانوں میں مفقود ہی نظر آتا ہے-؟؟
وہ اس لئے کہ صحابی خود بتلا رہے ہیں کہ یہ حکم صرف ان صحابی کے لئے تھا! صحابی کے الفاظ کو بغور دیکھیں!
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ الْبَخْتَرِيِّ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ أَبِي كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ ، وَكَانَ وَكَانَ فَأَيْنَ هُوَ ؟ ، قَالَ : " فِي النَّارِ " ، قَالَ : فَكَأَنَّهُ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَأَيْنَ أَبُوكَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " حَيْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ " ، قَالَ : فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدُ ، وَقَالَ : لَقَدْ كَلَّفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا ، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ ، إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ
سنن ابن ماجه» كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ» بَاب مَا جَاءَ فِي زِيَارَةِ قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے صاحب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور ایسے ایسے تھے (بھلائیاں گنوائیں) بتایئے وہ کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں۔ راوی کہتے ہیں شاید ان کو اس سے رنج ہوا۔ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! تو آپ کے والد کہاں ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی کافر کی قبر سے گزرو تو اسکو دوزح کی خوشخبری دیدو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں۔
قال الهيثمي في مجمع الزوائد: رواه البزار والطبراني في الكبير ورجاله رجال الصحيح
اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
بلکہ اس کے برعکس حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللهﷺنے مُردوں کو برائی سے یاد نہ کرو یعنی ان کو برا نہ کہو اور ان کی برائیاں نہ بیان کرو، اس لئے کہ جو کچھ انہوں نے کیا وہ اس کے نتیجے اور انجام کو پہنچ چکے۔ (بخاری- ٢١١ )
یہاں انہیں برا بھلا کہنے کی ممانعت ہے، کفار کو جہنمی کہنے کی نہیں!
اگر آپ اپنے نظریات پر نظر ثانی کریں تو خوشی ہوگی-
الحمدللہ! میرے مؤقف کے خلاف کوئی دلیل آئے تو ضرور اس پر غور کرتا ہوں! اور یہ مجھ پر اور ہر مسلمان پر لازم ہے! آپ نے جو باتیں پیش کی ہیں ، ان پر غور کرکے ہی جواب لکھا ہے !
الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
آمین!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
دیکھیے جہاں تک اصولی اور عمومی ضابطے کی بات ہے تو یہی کہا جائے گا کہ جو شخص اسلام قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے اور فلہٰذا دوزخی؛لیکن جب کسی کو معین اور مشخص طور پر دوزخی کہنے کی بات ہو تو کافر کو بھی یقینی طور پر جہنمی نہیں کہا جا سکتا اور یہ بات اہل سنت کے عقائد کے تمام متون میں موجود ہے۔اس بنا پر یہ امکان موجود ہے کہ غیر مسلموں(کافروں)میں سے بعض لوگ جنت میں جا سکتے ہیں جن کا خدا ہی کو علم ہے؛واللہ اعلم بالصواب
محترم شیخ!
اس اصول کی دلیل بھی ذکر کر دیں. یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ معین کافر کو جہنمی کہنے میں کیا امر مانع ہے؟؟؟
مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک؟؟؟
 
Top