عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نسل بنی آدم علیہ السلام کی اصلاح کے لئے مالک کن فیکون نے ہزاروں کی تعداد میں انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔اس اہم فریضہ کی ادائیگی میںان پاک نفوس علیہ السلام نے جو سختیاں ،پریشانیاں اور مصائب برداشت کیں ،اس پر بشر تو کیا ملائکہ بھی چلّا اٹھے ،اللہ تعالیٰ نے اس امتحان اور آزما ئش کی گھڑی میں نہ صرف یہ کہ ان پا ک نفو س کی حفا ظت فر ما ئی اور ان کو ثا بت قد م رکھا بلکہ مزیداس کے صلہ میں اپنے یہا ں اعلیٰ وا ر فع مقا م عطا فر ما یا اور دنیا میں بھی ان کو مختلف انعا ما ت ومعجزا ت کے ذریعہ سر خ روکیا اور سر فر ا زی عطا فر ما ئی۔لیکن فخر کا ئنا ت، مصلح کل سر ور کو نین اورسردار انبیا ء و رسل احمد مجتبیٰ محمدمصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ اپنی محبت و انسیت کا اظہا ر ہی کچھ عجیب اور انو کھے اور نر الے اندا ز میں فر ما یا ۔
ان ہی میں سے ایک محیر العقول ،جن اور انس کی عقلو ں سے ورا ء الوراء واقعہ معراج ہے،آج کی سا ئنس بھی اس کی تصدیق کرنے پر مجبو ر ہے ۔اور اسی وا قعہ کی روشنی میں آج کے سا ئنسدا نو ں نے چا ند کی تسخیر کی اور مزید نئے نئے تجربات جاری ہیں۔
خود رب کا ئنا ت نے اس وا قعہ کو اپنی قدرت کا ملہ کے چند عجا ئبا ت میں سے ایک اعجو بہ قرا ر دیا ہے ۔چنا نچہ قر آن شر یف میں بیا ن فر ما یا ـ’’سبحان الذی اسرٰی بعبدہ الیٰ اٰیۃ انہ ھوا لسمیع ا لبصیر‘‘
تر جمہ:- پا ک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم)کو راتو ں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔جس کے گر دو پیش کو ہم نے بابرکت بنا رکھا ہے تا کہ ہم اس کو اپنی قدرت کے نشا نا ت دکھا ئیں بیشک وہ سننے وا لا اور دیکھنے والا ہے ۔
تشریح:- لفظ’’ سبحا ن‘‘ خود اس طرف اشا رہ کر رہا ہے کہ دنیا وی نقطہ نظر سے یہ وا قعہ بڑا عجیب و غر یب ہے ،’’اسرائ‘‘ کا لفظ رات کے لئے استعما ل ہو تا ہے لیکن اس کے سا تھ’’ لیلاً‘‘ کا ذکر کر نا وہ بھی نکرہ کے سا تھ اس طرف اشا رہ کر رہا ہے کہ را ت کے تھوڑے وقت میں ایک طویل ترین مسا فت طے کی گئی ،اور ات کے وقت کو اس لئے منتخب کیا گیا کہ یہ وقت پر سکو ن اور خلو ت کا ہو تا ہے۔ اور ایسے وقت میں کسی کو دعوت دینازیادہ اختصا ص ا ور اعزا ز کی دلیل ہے ۔اور اس میں عر بوں کے مزا ج کی رعا یت بھی پو شیدہ ہے اس و جہ سے کہ عرب رات کو ہی سفر کرنا زیادہ پسند کرتے تھے اوران کاآج بھی یہی دستور ہے۔ اور آج کی ما دہ پرست دنیا اور سربراہان مملکت بھی اہم امور اور اسفار کیلئے رات کے وقت کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اور اہل ذوق (اللہ وا لے، صوفیہ حضرات )اس حکمت کو بخو بی سمجھتے ہیں ،اور ’’بعبد ہ‘‘ سے اس طرف اشا رہ ہے کہ یہ سفرمعراج ،جسما نی ہوا نہ کہ رو حا نی( اور آج کی سا ئنسی ترقی نے اس کی مزید تصدیق کر دی ہے کہ انسان لمحو ں میں آسما نی سفر کر سکتا ہے فتد بروا )اور بعبدہ فرما کر اس با ت کی بھی نفی کر دی کہ کہیں کو ئی جا ہل اس عجیب اور غر یب وا قعہ کی و جہ سے نعو ذبا اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبود نہ سمجھ بیٹھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’عبدہ ‘‘ یعنی اپنا محبو ب بند ہ فر ما یا ۔اور ’’لنریہ من اٰیا تنا ‘‘سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عجیب اور غر یب واقعا ت دکھا ئے گئے اور اپنی قدرت عظیمہ کا مشا ہدہ کرا یا گیا۔
واقعہ معراج ایک ایسا شرف امتیاز
جو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی ؑ کو عطا نہیں ہوا
جو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی ؑ کو عطا نہیں ہوا
نسل بنی آدم علیہ السلام کی اصلاح کے لئے مالک کن فیکون نے ہزاروں کی تعداد میں انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔اس اہم فریضہ کی ادائیگی میںان پاک نفوس علیہ السلام نے جو سختیاں ،پریشانیاں اور مصائب برداشت کیں ،اس پر بشر تو کیا ملائکہ بھی چلّا اٹھے ،اللہ تعالیٰ نے اس امتحان اور آزما ئش کی گھڑی میں نہ صرف یہ کہ ان پا ک نفو س کی حفا ظت فر ما ئی اور ان کو ثا بت قد م رکھا بلکہ مزیداس کے صلہ میں اپنے یہا ں اعلیٰ وا ر فع مقا م عطا فر ما یا اور دنیا میں بھی ان کو مختلف انعا ما ت ومعجزا ت کے ذریعہ سر خ روکیا اور سر فر ا زی عطا فر ما ئی۔لیکن فخر کا ئنا ت، مصلح کل سر ور کو نین اورسردار انبیا ء و رسل احمد مجتبیٰ محمدمصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ اپنی محبت و انسیت کا اظہا ر ہی کچھ عجیب اور انو کھے اور نر الے اندا ز میں فر ما یا ۔
ان ہی میں سے ایک محیر العقول ،جن اور انس کی عقلو ں سے ورا ء الوراء واقعہ معراج ہے،آج کی سا ئنس بھی اس کی تصدیق کرنے پر مجبو ر ہے ۔اور اسی وا قعہ کی روشنی میں آج کے سا ئنسدا نو ں نے چا ند کی تسخیر کی اور مزید نئے نئے تجربات جاری ہیں۔
خود رب کا ئنا ت نے اس وا قعہ کو اپنی قدرت کا ملہ کے چند عجا ئبا ت میں سے ایک اعجو بہ قرا ر دیا ہے ۔چنا نچہ قر آن شر یف میں بیا ن فر ما یا ـ’’سبحان الذی اسرٰی بعبدہ الیٰ اٰیۃ انہ ھوا لسمیع ا لبصیر‘‘
تر جمہ:- پا ک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم)کو راتو ں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔جس کے گر دو پیش کو ہم نے بابرکت بنا رکھا ہے تا کہ ہم اس کو اپنی قدرت کے نشا نا ت دکھا ئیں بیشک وہ سننے وا لا اور دیکھنے والا ہے ۔
تشریح:- لفظ’’ سبحا ن‘‘ خود اس طرف اشا رہ کر رہا ہے کہ دنیا وی نقطہ نظر سے یہ وا قعہ بڑا عجیب و غر یب ہے ،’’اسرائ‘‘ کا لفظ رات کے لئے استعما ل ہو تا ہے لیکن اس کے سا تھ’’ لیلاً‘‘ کا ذکر کر نا وہ بھی نکرہ کے سا تھ اس طرف اشا رہ کر رہا ہے کہ را ت کے تھوڑے وقت میں ایک طویل ترین مسا فت طے کی گئی ،اور ات کے وقت کو اس لئے منتخب کیا گیا کہ یہ وقت پر سکو ن اور خلو ت کا ہو تا ہے۔ اور ایسے وقت میں کسی کو دعوت دینازیادہ اختصا ص ا ور اعزا ز کی دلیل ہے ۔اور اس میں عر بوں کے مزا ج کی رعا یت بھی پو شیدہ ہے اس و جہ سے کہ عرب رات کو ہی سفر کرنا زیادہ پسند کرتے تھے اوران کاآج بھی یہی دستور ہے۔ اور آج کی ما دہ پرست دنیا اور سربراہان مملکت بھی اہم امور اور اسفار کیلئے رات کے وقت کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اور اہل ذوق (اللہ وا لے، صوفیہ حضرات )اس حکمت کو بخو بی سمجھتے ہیں ،اور ’’بعبد ہ‘‘ سے اس طرف اشا رہ ہے کہ یہ سفرمعراج ،جسما نی ہوا نہ کہ رو حا نی( اور آج کی سا ئنسی ترقی نے اس کی مزید تصدیق کر دی ہے کہ انسان لمحو ں میں آسما نی سفر کر سکتا ہے فتد بروا )اور بعبدہ فرما کر اس با ت کی بھی نفی کر دی کہ کہیں کو ئی جا ہل اس عجیب اور غر یب وا قعہ کی و جہ سے نعو ذبا اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معبود نہ سمجھ بیٹھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’عبدہ ‘‘ یعنی اپنا محبو ب بند ہ فر ما یا ۔اور ’’لنریہ من اٰیا تنا ‘‘سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عجیب اور غر یب واقعا ت دکھا ئے گئے اور اپنی قدرت عظیمہ کا مشا ہدہ کرا یا گیا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔