difa-e- hadis
رکن
- شمولیت
- جنوری 20، 2017
- پیغامات
- 294
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 71
محترم،اگر آپ کو تصویر کایہ رخ اچھا لگتا ہے تو آپ اسی کو مانتے رہیں۔
ویسے کوفیوں نے کس مقصد کے لیے حضرت حسین ؓ کو خطوط لکھے تھے ؟ جب ایسے مکار و غدار لوگ حضرت حسینؓ کو ورغلا سکتے ہیں تو بھلا قتل کا الزام حکومتِ وقت پر ڈالنا کیوں بعید از امکان ہے
میں نے کوئی ہوائی باتیں نہیں کی ہیں کفایت اللہ سنابلی کی کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ" میں موجود ان کے مطابق صحیح سند والی روایت پیش کی ہے اہل حدیث میں سے یزید کے حامی حضرات بڑے زور وہ شور سے یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ یزید کے بارے میں کوئی بھی فسق و فجور اور اس پر جو شراب نوشی اور دیگر الزامات ہیں کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے یہ سب رافضی خرافات ہیں ان سب کا اظہار شیخ کفایت اللہ سنابلی کی کتاب میں جا بجا موجود ہے پھر جب انہی کی پیش کی ہوئی روایت میں جس کو وہ صحیح بھی مانتے ہیں جس سے حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل واضح ہے پھر اس سے صرف نظر کیوں؟ اس روایت میں نہ کوئی رافضی راوی ہے اور نہ یہ کسی رافضی کتاب سے روایت نقل کی ہے یہ تاریخ طبری کی روایت ہے تو اس کو قبول کرنے میں عار کیوں اہل حدیث کا منھج ہے کہ صحیح روایت قبول کی جاتی ہے
دوسری بات اہل کوفہ غداری کی اور مکاری کی یہ بات بھی مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے شیخ کفایت اللہ کی کتاب شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائیں کسی بھی صحیح سند سے یہ روایت نہیں ملتی کہ کوفے والے غدار اور مکار ہیں اور انہوں نے غداری کی اور اگر کہیں ہے تو آپ پیش کردیں جبکہ کفایت اللہ سنابلی صاحب کی کتاب میں ہی یہ روایت موجود ہے اور انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے جس میں ابن زیاد نے کوفہ سے لے کر کربلا تک کرفیوں نافذ کر دیا تھا جس سفاک کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا حکم دینے میں دیر نہ لگی اس کا عام لوگوں کے قتل سے کیا چیز مانع ہو گی تو کسی صحیح سند سے یہ ثابت نہیں کہ اہل کوفہ مکار اور غدار تھے جبکہ صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ ابن زیاد اہل کوفہ پر پہرہ عائد کر دیا تھا۔
تو رہی بات یہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تاریخ طبری میں حسین رضی اللہ عنہ کو اور ابن زبیر کو رضی اللہ عنہم کے موقف کو غلط کہا ہے تو اس حوالے سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ابن عمر رضی اللہ عنہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو امت میں انتشار ڈالنے والا مانتے تو عبدالملک بن مروان کی بیعت کرنے کے باوجود ابن زبیر کو حق پر مانا اور اس کے مقابلے پر اس کو باغی کہا۔
رَوْحُ بنُ عُبَادَةَ: حَدَّثَنَا العَوَّامُ بنُ حَوْشَبٍ، عَنْ عَيَّاشٍ العَامِرِيِّ، عَنْ سَعِيْدِ بنِ جُبَيْرٍ قَالَ: لَمَّا احتُضِرَ ابْنُ عُمَرَ قَالَ: مَا آسَى عَلَى شَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا إلَّا عَلَى ثَلاَثٍ: ظَمَأِ الهَوَاجِرِ، وَمُكَابَدَةِ اللَّيْلِ، وَأَنِّي لَمْ أُقَاتِلِ الفِئَةَ البَاغِيَةَ الَّتِي نَزَلَتْ بِنَا -يَعْنِي: الحَجَّاجَ(سیر اعلام النبلاء 4/ 319ط الحدیث)
اب موصوف کیا فرمائیں گے یہ روایت بالکل صحیح چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اکابرین امت نے ابن زبیر اور حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر جو بھی آئے ان کو باغی قرار دیا اوپر آپ اکابرین کے اقوال پڑھ سکتے ہیں انہوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
تو موصوف کو چاہیے کہ ضد اور کٹ حجتی سے کام لینے کے بجائے تحامل سے ان دلائل پر غور کریں۔