امیر یزیدؒ کی وثاقت و عدالت کی سب سے بڑی دلیل ( جہادِ قسطنطنیہ کی طرح) صحابہ کرام ؓ کا امیر یزیدؒ کی بیعت پر کامل اتفاق و اجماع ہے اس لیے کہ خلافت کےلیے اہلِ علم نے جو شرائط لگائی ہیں ان میں امام کا عادل اور معتبر ہونا بھی شامل ہے ( الاحکام السلطانیہ لابی یعلیٰ الفراء ، صفحہ نمبر 22)
صحابہ کرام ؓ میں سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے امیر یزید ؒ کو نیک اور صالح ترین شخص کہا ہے ( الانساب الاشراف للبلاذری )
کیا ہمیں اس مؤقف کو اپنانے کی اجازت ہے ؟
امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر کے تبصرے یزید کے بارے میں پڑھ کر اپ کی عادل امام والی غلط فہمی تو ہوا ہو گئی ہو گی اب ذرا ابن عباس سے منقول بلاذری کی اس روایت کی سند بھی دیکھ لیتے ہیں
اپ کی پیش کی ہوئی روایت کی سند یہ ہے
الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي:
اس روایت کی علت یہ ہے کہ عامر بن مسعود مجہول الحال ہیں چنانچہ عامر بن مسعود سے فقط دو نے روایت کی ہے (1)عبدالعزیز بن رفیع (2) نمیر بن عریب الھمدانی
چنانچہ اصول میں یہ موجود ہے کہ جس راوی کی توثیق موجود نہ ہو اور اس سے روایت کرنے والے صرف دو ہوں ایسا راوی مجہول الحال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تحریر تقریب التھذیب کے مولفین نے اس کو مجہول نقل کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں"وھو عندنا مجھول الحال ،فقد روی عنہ اثنان، وذکرہ ابن حبان فی "الثقات" ولا یعلم توثیقہ عن احد(تحریر تقریب التھذیب رقم 3109)
رہی بات لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا تو عروہ بن الزبیر جیسے تابعی جب یزید کےسامنے اس کی تعریفیں کر سکتے ہیں تو لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا کیا معنی رکھتا ہے
سوچنےکی بات ہے کہ اگر امیر یزید ؒ کا” فسق و فجور“ سب صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کے علم میں تھا اور یہ بات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی تھی تو کوئی” منظم تحریک “ کیوں نہ چلائی گئی ؟کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا عظیم ترین جہاد ہے۔ کیا صحابہ کرام ؓ کی سیرت و کردار پر ایسی ہی مہر نبیﷺ نے لگائی تھی ؟ اس میں امیر یزیدؒ کے کس” فسق و فجور“ اور اس کے ”ثبوت “ کی بات ہو رہی ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے نزدیک تو قاتلین ِ حسینؓ امیر یزید ؒ نہیں، بلکہ اہلِ کوفہ تھے ۔
لطف تو یہ ہے کہ امیر یزیدؒ کا ” فسق و فجور “ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ایک موقع پر حضرت جابر ؓ کا قول ہے :-
کلمت حسیناً فقلت لہ اتق اللہ ولا تضرب الناس بعضھم ببعض( البدایہ و النہایہ ، جلد8، صفحہ نمبر 163)
میں نے حضرت حسین ؓ سےبات کی اور ان کو کہا کہ اللہ تعالٰی سے ڈرو اور لوگوں کو آپس میں مت لڑاؤ۔
دوسرے موقع پر حضرت ابو سعید خدری ؓ کو بھی فرمانا پڑھا :-
غلبنی الحسین علی الخروج و قلت لہ اتق اللہ فی نفسک و الزم بیتک ولا تخرج علی امامک ( البدایہ و النہایہ ، جلد نمبر 8 ، صفحہ نمبر 162)
حضرت حسین ؓ نے خروج کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا کہ اپنی جان کے بارے میں اللہ تعالٰی ڈرو اور اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور اپنے امام کے خلاف خروج مت کرو۔
حضرت ابو واقد لیثی ؓ نے بھی ان کو راستہ میں فرمایا تھا:-
لا تخرج فانہ من یخرج لغیر وجہ خروج انما خرج یقتل نفسہ( البدایہ و النہایہ ، جلد نمبر 8، صفحہ نمبر 193)
خروج مت کرو کیونکہ جو شخص خروج کی وجہ نہ ہونے کے با وجود خروج کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کے لیے جنگ کرتا ہے ۔
ان روایات میں واضح طور پر صحابہ کرام ؓ نے حضرت حسین ؓ کو حکومت ِ وقت کے خلاف ”خروج “سے منع کیا ہے ۔ دوسرے معنوں میں یہ تھی امیر یزیدؒ کے افسانو ی ” فسق و فجور“ کے خلاف ” خروج “ کرنے کی حقیقت ! او ر اس متواتر ” فسق و فجور “ کے” خلاف“ یہ تھانبیﷺ کے صحبت یافتہ، ظالم جابر کےسامنے ڈٹ جانے والی اور کسی ملامت کا خوف نہ کھانے والی مقدس جماعتِ صحابہ ؓ کا طرز ِ عمل!
محترم، بات صرف اتنی ہے کہ آپ کو یزید کے اگے کچھ دیکھائی نہیں دیتا ہے وگرنہ اہل مدینہ کا یزید کی بیعت توڑنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونا ضرور نظر آتا باقی رہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جس جماعت کا اپ بار بار تذکرہ کر کے فرما رہے ہیں کہ وہ یزید کے فسق و فجور کے خلاف منظم کیونکر نہ ہوئے تو آں جناب مجھے صرف ۱۰ سے ۱۵ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام بتا دیں جو اس وقت اس عمر میں تھے کہ یزید اور اہل شام کی اتنی بڑی ظالم فوج کے خلاف منظم ہوتے جس نے تین دن مدینہ الرسول میں تباہی مچا دی اس وقت ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا تو محترم عرض یہ ہے کہ جو صغائر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے انہوں نے اپنی طرف سے اس ظلم کو روکنے کی کوشش کی تھی جن میں عبداللہ بن حنظلہ ، معقل بن سنان، ابن زبیر، حسین رضی اللہ عنھم وغیرہ ہے جنہوں نے یزید کے ظلم کے خلاف منظم ہونے کی کوشش کی مگر جو بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے جونکہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے اس لئے وہ ان کو اس سے منع کرتے رہے چنانچہ اس حوالے سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اصحابہ بدر میں سے صحابہ نےعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اپنے گھروں میں رہنا پسند کر لیا تھا
أما إن رجالا من مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ لَزِمُوا بُيُوتَهُمْ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ فَلَمْ يَخْرُجُوا إِلَّا إِلَى قُبُورِهِم
البدایہ النھایہ ط الفکر 7/253 )
تو آں جناب کو منظم تحریک والی بات بھی سمجھ آ گئی ہو گی آخر میں دو باتیں جو اپ نے کی ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو ہی قاتل سمجھتے تھے مگر اپ یہ ثابت کر دو وہ قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے والے لوگ تھے ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو قاتل سمجھتے تھے ابن زیاد اور اس کی فوج اور عمر بن سعد کیا اہل کوفہ نہیں تھے اہل کوفہ کا قتل کرنا ثابت ہے مگر وہ اہل کوفہ جو حکومت می شامل تھے جس کا ثبوت میں بقلم سنابلی صاحب کے صحیح روایت سے دے چکا ہوں
آخر میں اپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے کچھ اقوال نقل کیے تھے کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو خروج سے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے سے روکا آں جناب ذرا ان اقوال کی سند پیش کریں گے یزید کی شراب نوشی اور دیگر باتوں پر صحیح سند کا تقاضہ کیا جاتا ہے مگر حسین رضی اللہ عنہ جیسی عظیم ہستی اس کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ یزید کی پارسائی ثابت کرتی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو شریعت کے خلاف ثابت کرتی ہے کہاں گئی اہل حدیث کی وہ شان جو سند کو دین مانتی ہے
لیں اپ کے پیش کیے ہوئے اقوال کی سند دیکھ لیں
اس کی سند آپ کو غور سے نظر آرہی ہو گی اس میں "قالوا" کے الفاظ سے روایت شروع ہے میں نے نشاندہی کی ہے اب یہ آپ بتا دیں یہ قالوا کون نے یہ کوئی ناصبیوں کی جماعت ہوگئی جو حسین رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے اور ان کے اس اقدام کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے جبکہ آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں اہلسنت و الجماعۃ کی نظر میں حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی کیا قدر ومنزلت ہے۔
وَمِنْ قَامَ لِعَرَضِ دُنْيَا فَقَطْ، كَمَا فَعَلَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَمَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ فِي الْقِيَامِ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَكَمَا فَعَلَ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي الْقِيَامِ عَلَى يَزِيدَ بْنِ الْوَلِيدِ، وَكَمَنْ قَامَ أَيْضًا عَنْ مَرْوَانَ، فَهَؤُلَاءِ لَا يُعْذَرُونَ، لِأَنَّهُمْ لَا تَأْوِيلَ لَهُمْ أَصْلًا، وَهُوَ بَغْيٌ مُجَرَّدٌ.
وَأَمَّا مَنْ دَعَا إلَى أَمْرٍ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٍ عَنْ مُنْكَرٍ، وَإِظْهَارِ الْقُرْآنِ، وَالسُّنَنِ، وَالْحُكْمِ بِالْعَدْلِ: فَلَيْسَ بَاغِيًا، بَلْ الْبَاغِي مَنْ خَالَفَه
(المحلی بالاثار باب قتل اھل البغی 11/335)
ابن حجر فرماتے ہیں
قِسْمٌ خَرَجُوا غَضَبًا لِلدِّينِ مِنْ أَجْلِ جَوْرِ الْوُلَاةِ وَتَرْكِ عَمَلِهِمْ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ فَهَؤُلَاءِ أَهْلُ حَقٍّ وَمِنْهُمُ الْحَسیَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ فِي الْحَرَّةِ وَالْقُرَّاءُ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى الْحَجَّاجِ(ُفتح الباری تحت رقم 6929)
اور شذرات الذھب میں اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ خروج حق بجانب تھا۔
والعلماء مجمعون على تصويب قتال عليّ لمخالفيه لأنه الإمام الحق،
ونقل الاتفاق أيضا على تحسين خروج الحسين على يزيد، وخروج ابن الزّبير، وأهل الحرمين على بني أمية، وخروج ابن الأشعث [1] ومن معه من كبار التابعين وخيار المسلمين على الحجّاج.
ثم [إن] الجمهور رأوا جواز الخروج على من كان مثل يزيد، والحجّاج، ومنهم من جوّز الخروج على كل ظالم
شذرات الذھب جلد 1 275
اہلسنت والجماعۃ نے حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو حق لکھا ہے اور اس پر اجماع نقل کیا ہے
آخر میں امام ابن کثیر کا قول نقل کررہا ہوں جنہوں نے یہی لکھا کہ سب دل سے حسین رضی اللہ عنہ کو پسند فرماتے تھے مگر پوری یزیدی حکومت ان کی دشمنی پر تلی ہوئی تھی اب ابن کثیر رحمہ اللہ کو رافضی نما اہلسنت مت کہنا شروع کر دیجیئے گا
بَلِ النَّاسُ إِنَّمَا مَيْلُهُمْ إِلَى الْحُسَيْنِ لِأَنَّهُ السَّيِّدُ الْكَبِيرُ، وَابْنُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يساميه ولا يساويه، ولكن الدولة اليزيدية كانت كُلَّهَا تُنَاوِئُهُ.
البدایہ والنھایہ 8/151)
اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور اصل اہلسنت میں شامل فرمائے آمین