• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وجادلہم بالتی ہی احسن۔سلفی بھائیو! کیا ہماری زبان کی تلوار کی وجہ سے تو کوئی دینِ حق سے محروم نہیں ہ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بہت خوب اوطلحہ محمداصغر بھائی جان،

بھائی جان ہر مسلک کے لوگ یہی سوچتے ہے کہ ہم ہی اہل سنت ولجماعت میں سے ہے، لیکن بات جب بگڑ جاتی ہے جب ہم اپنے علماء کی بات کے آگے کسی کی نہیں سنتے، یہ باتیں مقلد میں تو پائی ہی جاتی ہے اب اہل حدث میں بھی پائی جانے لگی ہے، آپ کوئی بھی مسلک میں ہو لیکن آپ کا منہج قرآن و حدیث پر ہو تو آپ اہل سنت ولجماعت ہی میں سے ہو، لیکن افسوس آپ جس طرح اہل حدیث کو آئینہ دکھا رہے ہے اسی طرح اپنے مسلک کے لوگوں کو بھی دکھانا چاہیے، کیونکہ یہ بیماری صرف اہل حدیث کی نہیں ہے بلکہ تمام تر مسلک کے لوگوں کی ہے، جو قرآن و حدیث کی دلیل کے باوجود حق کو حق نہیں جانتے،

بھائی ایک مثال دیتا ہوں ایک روز میں تبلیغی مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو وہاں ایک دعا لکھی ہوئی تھی اس دعا کے بارے میں میں پڑھ چکا تھا کہ یہ دعا ضعیف حدیث سے ثابت ہے، میں نے ایک دیوبندی دوست کو کہا کی یہ دعا تو ضعیف ہے، تو وہ کہنے لگا (بنا سوچے سمجھے بغیر) کہ بھائی آپ اہل حدیث تو ہر حدیث کو ضعیف ہی کہہ دیتے ہیں... ہمارے امام نے یہ دعا یہاں لگائی ہے تو تھک ہی ہوگی.
مطلب یہ کہ جو ہمارے امام نے یا علماء نے لکھ دیا وہی سچ ہے اور ہمیں دوبارہ تحقق کرنے کی ضرورت ہی نہیں؟؟

بھائی یہ وہ بیماری ہے جو ہر کسی کو لگی ہوئی ہے. اہل حدیثوں کے علاوہ بھی کئی دوسرے فریقین کے فورم موجود ہے. کیا وہاں اہل حدیثوں کے ساتھ بھی یہی رویہ نہیں ہوتا جس کے بارے میں آپ بات کر رہے ہے.؟؟

باقی آپ نے جو یہ موضوع شروع کیا ہے اس کے لئے شکریہ، الله ہمیں اور آپ کو حق کو حق جاننے کی توفیق دے. آمین
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
تحمل اور بردباری کو اپنائیں

میرے عزیز! اگر کوئی آپ کی مذمت کرتا ہے تو ہرگز اس کو ترکی بہ ترکی جواب دے اللہ کی مدد نہ کھوئیں!بلکہ آپ مخاطب کے ساتھ اچھے سے اچھا رویہ اپنائیں!ایک واقعہ ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا کسی سے جھگڑاہو گیا مخالف نے آپ کے خلاف زبان دراز ی کی آپ ﷺ خاموش سنتے رہے جب ابوبکرنے ان کو ویسا ہی جواب دیا تو حضورﷺ وہاں سے منہ پھیر کر چل دئیے ۔حضرت ابو بکرنے عرض کیاوہ مجھے کہتا رہا تو آپ سنتےرہے اور جب میں نے کچھ ویسا جواب دیا توآپ وہاں سے اٹھ گئے؟ حضورﷺ نے فرمایا: جب وہ تمہارے خلاف بول رہاتھا تو فرشتے اس کو جواب دے رہے تھے اور جب تم نے اس کے خلاف بولنا شروع کیا تو فرشتے بھی وہاں سے برخواست ہوگئے اس لئے میں بھی وہاں سے اٹھ آیا۔
لہذاجو کوئی آپ کو کیسے ہی برے لقب سے نوازے ،آپ مخاطب کو سنت نبوی کے مطابق برے لقب سے ہرگز یاد نہ کریں۔دیکھیں حضورﷺ کو مکہ والے جادوگر، پاگل دیوانہ اورشاعر پتہ نہیں کیا کچھ کہا کرتے تھے ۔توکیا آپ ﷺ بھی ترکی بہ ترکی ان کو ویسے ہی جواب نوازتے تھے۔ ہرگز نہیں! اور یہی تحمل اور بردباری حضورﷺ کی دعوت کی کامیابی کی وجہ بنی۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
دیوبندیوں کے ہاں شخصیت پرستی کی ایسی تعلیم ہے کہ جس طریق سے دین مل رہا ہے اگر ان پر آنچ آتی ہے تووہ دین کوخیر آباد کردیں گے
اولاتویہ بات ہی غلط ہے۔
ثانیا آپ نے جس طرح عموم پیداکیاہے وہ کہاں سے اخذ کیا۔
ثالثا اس کے برخلاف کی مثالیں زیادہ ہیں۔
مولاناقاسم نانوتوی اورمولانا رشید احمد گنگوہی دونوں حاجی امداد اللہ مہاجرمکی کے مرید تھے باوجود اس کے کہ حاجی صاحب میلاد میں قیام کےقائل تھے۔یہ دونوں حضرات کبھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہوئے۔
درس ترمذی اوردیگر کتب حدیث کاہی ایک مختصرمعتدلانہ جائزہ لیں ۔ایسے حوالوں کی کمی نہیں ہوگی جہاں حدیث کے دلائل کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کا مشہورمسلک ترک کردیاگیاہے۔
انسان کو محبت اورنفرت دونوں میں اعتدال کاثبوت دیناچاہئے۔آپ مسلک اہل حدیث اختیار کررہے ہیں خوشی کی بات ہے لیکن دیوبندی حضرات پر اتہام تراشی کرنانامناسب ہے۔ بات وہ کریں جس کے حق میں معقول دلائل موجود ہوں ویسے تو ہرالٹی تحریر کے بھی کچھ مویدین نکل ہی آتے ہیں۔سوایسی تحریروں کے حامیوں کی یہاں کمی نہیں ملے گی۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میرے ایک دوست نے اپنے دوست سے پوچھا تم سعودی عرب میں رہ رہے ہو وہاں کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کیوں نہیں کرلیتے ۔اس نے کہا یار! میں اس غرض کیلئے وہاں ایک مدرسہ میں گیا تھا لیکن وہاں کسی سے ملاقات ہوئی تو وہ باتوں باتوں کے دوران ابوحنیفہ کو کافر کہنے لگے تومیرا دل ایساکھٹا ہوا کہ میں اپنے ارادے اپنے دل میں دفن کرکے واپس چلاآیا۔ اسی طرح میرے ایک دوست نے کہا کہ یارسلفیوں سے بات کرنے کو بھی جی نہیں کرتا کیوں کہ وہ چھوٹتے ہی ابوحنیفہ کو کافر کہنے میں دیر نہیں کرتے۔
دیکھیں جو شخص اپنی زندگی بھر ایک شخص کے قصیدے سنتا رہا ، اس کی کرم نوازیاں سنتا رہا، اس کی نکتہ آفرینیاں سنتا رہااور پھر جب آپ اس شخص کوقرآن وسنت کی دعوت دینے کے دوران اس کے عظیم شخص کے خلاف زبان درازیاں کرنے لگیں گے تو وہ یقینا اسی وقت بدک جائے گا۔اگر آپ ذرا صبر سے کام لیں گے تو جب حق اس کی سمجھ میں آجائے گا تو وہ خود ہی آپ کی زبان بن جائے گا۔ میرے عزیز!برصغیر والوں، نہیں بلکہ تمام حق سے کنارہ کش لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ شخصیات پرستی میں گھرے ہوئے ہیں لہذا ان شخصیات کی عیب بینی کے ساتھ کبھی آپ ان کے دل میں اپنی بات نہیں اتار سکتے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر سلف نے ابن عربی کو یہود و نصاریٰ سے بدتر کافر قراردیا ہے۔ یہ بات بیشتر لوگوں کو معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں ابن عربی کے قصیدے پڑھنے والوں کی کوئی کمی نہیں حتی کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کا ابن عربی جو بدترین کافر اور مرتد تھا شیخ اکبر ہے۔ کیا ابن تیمیہ اور دیگر اہل حدیث علماء نے ابن عربی کو کافر قرار دے کر غلط کیا؟ کیا ان نفوس کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ جس شخصیت کے لوگ گرویدہ ہوں اس کو کافر کہہ دینے سے دعوتی کام میں روکاٹ پیدا ہوگی؟

اصل بات یہ ہے کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے اور ہمارا کام صرف حق بات پہنچانا ہے اگر بات حق ہو چاہے وہ ابوحنیفہ کے متعلق ہو یا کسی اور شخصیت سے متعلق اور چاہے کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو ہمیں تو پہنچانی ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کا سامنے والے پر کیا رد عمل ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھکر دعوت کے تقاضے اور حکمت عملیوں کون جانتا ہے؟ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکین اور کفار کو حق کی دعوت پیش کی تو ساتھ ساتھ ان کو گمراہ بھی قرار دیا۔ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے خرافات و اباطیل کا پردہ چاک کرنا اور بتوں کی حقیقت اور قدر و قیمت کو واشگاف کرنا شروع کردیا۔آپ مثالیں دے دے کر سمجھاتے کہ یہ کس قدر عاجز و ناکارہ ہیں اور دلائل سے واضح فرماتے کہ جو شخص انہیں پوجتا ہے اور ان کو اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ بناتا ہے وہ کس قدر کھلی گمراہی میں ہے۔
مکہ ایک ایسی آواز سن کر جس میں مشرکین اور بت پرستوں کو گمراہ کہا گیا تھا، احساس غضب سے پھٹ پڑا۔
(الرحیق المختوم،ص 115)

اگر یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی اور کے متعلق ہوتی تو ہمارے داعیان فورا فرمادیتے کہ کہ انداز تبلیغ غلط ہے کیونکہ جب آغاز دعوت میں ہی جن کو دعوت دی جارہی ہے انہیں گمراہ قرار دے دیا اور انکے بتوں کی تکذیب کردی گئی تو بھلا وہ ایسی دعوت پر کیوں کان دھریں گے بلکہ تو وہ یہ بات سن کر ہی بدک جائیں گے۔سب سے پہلے انہیں پیار و محبت سے دعوت دی جاتی نہ تو انہیں گمراہ کہا جاتا اور نہ انکے بتوں کے بارے میں کوئی توہین آمیز بات کی جاتی تو وہ توجہ سے بات سنتے پھر جب انہیں دعوت سمجھ میں آجاتی تو خود ہی اپنے بتوں سے کنارہ کش ہوجاتے! یہ تو تھی آج کے جدید داعیان کی بات۔

جہاں تک ہماری بات ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سامنے والے پر اس کی گمراہی بھی واضح کرتے ہیں اور جس امام کی وہ پرستش اور عبادت میں مبتلا ہے اس امام کی کمزوری اور اصل حقیقت بھی بتا تے ہیں۔تاکہ اسے حق قبول کرنے میں آسانی ہو۔پھر جس کی قسمت میں اللہ نے ہدایت لکھی ہو وہ حق قبول کرلیتا ہے۔ اور جس کی قسمت میں ہدایت نہ ہو اس سے آپ جتنا بھی پیار اور حکمتوں سے بات کرلیں کوئی فائدہ نہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
تبلیغی جماعت انتہاء درجہ بدعات کی مرتکب ہونے اور تحریف دین میں حد درجہ غلو کرنے کے باوجود عوامی سطح پر سب سے زیادہ کامیاب جارہی ہے ، حالآنکہ وہ اپنے سوا کسی کو درست نہیں سمجھتے ، لیکن عقل کی بات یہ ہے کہ وہ اس کو کہتے نہیں۔ جبکہ سلفی جماعت موجودہ دور میں سب سے زیادہ خالص قرآن وسنت کی پابند ہونے کے باوجود پھیلنے میںسب سے زیادہ سست روی کا شکار ہے۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف حکمت عملی ،نرم رویہ اور اکرام مسلم وغیرہ جیسی خصلتوں سے محرومی ہے ۔
نہ تو تبلیغی جماعت کامیاب ہے اور نہ اہل حدیث اپنی دعوتی سرگرمیوں میں ناکام۔

لوگ جمع کرلینا اور اپنی تعداد بڑھا لینا کوئی کامیابی نہیں۔اصل کامیابی کسی کے عقیدے درست کروادینا اور جنت کی جانب راہنمائی میں ہے۔ اور اس میں الحمداللہ اہل حدیث کامیاب ہیں۔ جب ان کی کوششوں سے چاہے ایک ہی آدمی حق کی طرف آتا ہو لیکن وہ عقیدے اور حق و باطل کی صحیح معرفت حاصل کرلیتا ہے یہ خود اس شخص کے حق میں بھی کامیابی ہوتی ہے اور اس کے حق میں بھی جو اسے اس راستے پر لایا ہو اس کے برعکس تبلیغی جماعت چاہے اپنی دعوتی سرگرمیوں سے ہزاروں لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرتی ہو لیکن نہ تو وہ ہزاروں لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی تبلیغی جماعت اس عمل سے کوئی خیر پاتی ہے۔ بس یہ گھاٹے کاسودا ہے اور فضول کی محنتیں ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر تمہاری کوششوں سے کوئی ایک شخص ہدایت پر آگیا تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔(الحدیث)
پس وہ ایک صحیح العقیدہ شخص ان ہزاروں لوگوں سے بہتر ہے جن کے عقیدے خراب ہوں۔
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
ٌْمیرے عزیز قرآن وحدیث کی ہربات دین ہے جب ہم اپنے مسلک کی وجہ سے کسی حدیث کوترک کرتے ہیں تو کیا یہ اپنے مسلک جو درحقیقت شخصیت پرستی یاگروہ پرستی ہی کی ایک قسم ہے کی وجہ سے دین کو خیر آبادنہیں کرتے ۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ بقیہ تین مسالک کے خاص وممتازحصہ قرآن وحدیث کو چھوڑ دیا ہے۔ اور یہ جو آپ نے فرمایاکہ امام ابو حنیفہ کے قول کے خلاف فتوی دیا ہے تو میرے بھائی وہ امام ابو یوسف کے قول پر ہوگا یا امام محمد وغیرہما حنفی حضرات ہی کے قول پر فتوی ہوگا ۔اور دوسری عرض ہے کہ جیسا اوپر فورم میں ایک ساتھی نے تبلیغی جماعت کی مسجد کے حوالے سے واقعہ نقل کیا ہے یہ جزئی واقعہ نہیں ہے بلکہ عمومی مزاج یہی ہے کہ ہمارے مسلک حنفی کے حامل شخص کو کوئی دوسرا قرآن وحدیث کی کوئی بات نہیں منوا سکتا جب تک کہ ہمارے ائمہ کی اس پر مہرِ تصدیق ثبت نہ ہواور کیا ہم کھلے دل سے اپنے ماننے والوں کو ایسا مشورہ دیتے ہیں کہ اہل حدیث ہوں یا جو کوئی بھی ،جو بھی قرآن وحدیث کی بات کرے اس کی مانو اور اس کی کتاب پڑھو بلکہ جو مسئلہ قرآن وحدیث کے موافق ہو اس پر عمل کرو اور پہلے مسئلہ کو کالعدم سمجھو ۔ میرے بھائی ! کیا اللہ ورسول کا حکم ایسے نہیں ہے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ ورسول کے ہر حکم پر سرتسلیم خم نہ کرے خواہ وہ جو بھی ہو جیسا بھی ہو۔کیا بعض پر ایمان لانا اور بعض کا انکار کرنا سارے کے انکار کو مستلزم نہیں ہے۔
 
شمولیت
مئی 02، 2012
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
210
پوائنٹ
73
دعوت کے میدان میں شدت اور درشتگی کیلئے قرآن وحدیث کی دلیل مطلوب ہے

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر سلف نے ابن عربی کو یہود و نصاریٰ سے بدتر کافر قراردیا ہے۔ یہ بات بیشتر لوگوں کو معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں ابن عربی کے قصیدے پڑھنے والوں کی کوئی کمی نہیں حتی کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کا ابن عربی جو بدترین کافر اور مرتد تھا شیخ اکبر ہے۔ کیا ابن تیمیہ اور دیگر اہل حدیث علماء نے ابن عربی کو کافر قرار دے کر غلط کیا؟ کیا ان نفوس کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ جس شخصیت کے لوگ گرویدہ ہوں اس کو کافر کہہ دینے سے دعوتی کام میں روکاٹ پیدا ہوگی؟

اصل بات یہ ہے کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے اور ہمارا کام صرف حق بات پہنچانا ہے اگر بات حق ہو چاہے وہ ابوحنیفہ کے متعلق ہو یا کسی اور شخصیت سے متعلق اور چاہے کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو ہمیں تو پہنچانی ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کا سامنے والے پر کیا رد عمل ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھکر دعوت کے تقاضے اور حکمت عملیوں کون جانتا ہے؟ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکین اور کفار کو حق کی دعوت پیش کی تو ساتھ ساتھ ان کو گمراہ بھی قرار دیا۔ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے خرافات و اباطیل کا پردہ چاک کرنا اور بتوں کی حقیقت اور قدر و قیمت کو واشگاف کرنا شروع کردیا۔آپ مثالیں دے دے کر سمجھاتے کہ یہ کس قدر عاجز و ناکارہ ہیں اور دلائل سے واضح فرماتے کہ جو شخص انہیں پوجتا ہے اور ان کو اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ بناتا ہے وہ کس قدر کھلی گمراہی میں ہے۔
مکہ ایک ایسی آواز سن کر جس میں مشرکین اور بت پرستوں کو گمراہ کہا گیا تھا، احساس غضب سے پھٹ پڑا۔
(الرحیق المختوم،ص 115)

اگر یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی اور کے متعلق ہوتی تو ہمارے داعیان فورا فرمادیتے کہ کہ انداز تبلیغ غلط ہے کیونکہ جب آغاز دعوت میں ہی جن کو دعوت دی جارہی ہے انہیں گمراہ قرار دے دیا اور انکے بتوں کی تکذیب کردی گئی تو بھلا وہ ایسی دعوت پر کیوں کان دھریں گے بلکہ تو وہ یہ بات سن کر ہی بدک جائیں گے۔سب سے پہلے انہیں پیار و محبت سے دعوت دی جاتی نہ تو انہیں گمراہ کہا جاتا اور نہ انکے بتوں کے بارے میں کوئی توہین آمیز بات کی جاتی تو وہ توجہ سے بات سنتے پھر جب انہیں دعوت سمجھ میں آجاتی تو خود ہی اپنے بتوں سے کنارہ کش ہوجاتے! یہ تو تھی آج کے جدید داعیان کی بات۔

جہاں تک ہماری بات ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سامنے والے پر اس کی گمراہی بھی واضح کرتے ہیں اور جس امام کی وہ پرستش اور عبادت میں مبتلا ہے اس امام کی کمزوری اور اصل حقیقت بھی بتا تے ہیں۔تاکہ اسے حق قبول کرنے میں آسانی ہو۔پھر جس کی قسمت میں اللہ نے ہدایت لکھی ہو وہ حق قبول کرلیتا ہے۔ اور جس کی قسمت میں ہدایت نہ ہو اس سے آپ جتنا بھی پیار اور حکمتوں سے بات کرلیں کوئی فائدہ نہیں۔
ابن عربی کو عامۃ الناس جانتے ہی نہیںہیں جن کی خرافات اور کفریہ بکواسیں بھی واضح ہیں۔ لیکن جب آپ امام ابوحنیفہؒ کو کافر کہتے ہیں تو پھر ابن بازؒ ،البانی ؒاور دیگر کبار سلفیینؒ آپ کے نز دیک مداہن ہیںجو ان کے نام کے ساتھ دعائیں دینا نہیں بھولتے ۔حالآنکہ کافر کیلئے دعائے رحمت گنا ہ ہے۔اوراگرواقعۃً ایسا ہے تو آپ ایک مہم چلائیں اور ان کے کفر کے فتوی پر مدلل کتاب چھاپ دیں اورہم عصر سلفی اکابرین کی رائے بھی اس میں شامل کرلیں۔اور کیا توحید کی دعوت دینے میں ان کو زیرِ بحث لاکر ان پر کیچڑ اچھالنا بھی دعوت ِتوحید کی تکمیل ہے۔آپ نے صفی الرحمن مبارکپوری ؒ کے حوالہ سے جوبات لکھی ہے براہِ مہربانی آپ کسی کے مقلد نہیں ہیں لہذا کسی حدیث سے حضورﷺ کا یہ طریقہ دعوت ثابت کریں کہ آپ مخاطب کو دعوت دینے میں ان کی کافرآباء واجدادشخصیات کی مذمت کرنا لازمی رکھتے ہوں، بتوں کو برا بھلا کہنے کی بات نہیں چل رہی بلکہ مخاطب اور ان کے اکابر کی مذمت کی بات ہورہی ہے۔اب تک بندہ نے جودعوتی احادیث پڑھی ہیں ان میں تو مخاطب کو ہمیشہ عزت واحترام کے ساتھ دعوت دیتے پایا ہے۔کیا جس گروہ کے شخص کو دعوت دی جائے اس کے اکابر کی کفریہ لسٹ دعوت میں شامل کرنا ضروری ہے۔اس سخت رویہ کو اپنانے والے کسی صاحب نے ابھی تک ایک صحیح حدیث اس مضمون میں بطوردلیل پیش نہیں کی جس سے موجودہ درشت رویہ کی دعوت کے باب میںتائید نکلتی ہو۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
میرے عزیز قرآن وحدیث کی ہربات دین ہے
چاہے منسوخ ہو ،چاہے غیرمعمول بہاہو۔
 
Top