بندہ اس کے جواب میں عرض کرے:
اگر ایک شخص اللہ کی ذات کو کامل اور اصلی مانے اور باقی سب کو اس کے سامنے ہیچ نداند سمجھےاور اس بات کو کوئی نام دے تو اس نام دینے سے اس کو منع کرنےکی حاجت کیوں؟؟؟؟
یہ بندر سے انسان والا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک اضافی سوچ ہے جس سے آپ اس وقت تک منع نہیں کر سکتے جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل نہ ہو۔ اگر یہ ان عقائد میں سے ہوتا جن پر کفر و اسلام کا دار و مدار ہے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والا ایمان کافی ہے۔ لیکن یہ وہ چیز تو ہے نہیں۔ اب اگر ایک شخص کوئی اضافی سوچ رکھتا ہے تو اسے سوچ رکھنے سے تو منع نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اس کی سوچ کے غلط اور صحیح ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
جب "عقیدے" کا نام لیا جاتا ہے تو عموماً ہمارے ذہن میں وہ چیز آتی ہے جس سے انسان کافر یا مسلمان ہوتا ہے۔ حالانکہ اصطلاح میں عقیدہ دل کے فعل یعنی سوچ کو کہتے ہیں۔ مثلاً نماز کو فرض سمجھنا عقیدے کا مسئلہ ہے اور سماع موتی بھی۔ اول الذکر تو کفر و ایمان کا مسئلہ ہے لیکن دوسرے میں تو خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہے تو یہ تو کفر اور ایمان کا مسئلہ ہو نہیں سکتا۔ لیکن اسے عقیدہ ہی کہا جاتا ہے۔
اسی طرح کے کئی مسائل ہیں جو "عقیدے" کی کیٹگری کے تحت آتے ہیں یعنی ان میں جسمانی اعضاء کا عمل نہیں ہوتا لیکن اس سے وہ عقیدہ مراد نہیں ہوتا جو ہم اردو والے فوراً سمجھتے ہیں۔
محترم -
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس امّت کی گمراہی کی اصل وجہ ہی یہ "
اضافی سوچ ہے" - یہی کفر اور بدعت کی طرف پہلی سیڑھی ہے- اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے یہ بھونڈی دلیل دی جاتی ہے کہ فلاں امر یا عقیدہ تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دور میں نہیں تھا - لہذا اس کو متلقاً
"حرام یا کفر" کہنا صحیح نہیں- اگر اس طرح سے دیکھا جائے تو بہت سی چزیں اس دین میں حلال قرار پائیں گی-مثلاً چرس افیون، عورتوں کی ہم جنس پرستی، ہیجڑا پن، حب علی کی آڑ میں بعض اصحاب کرام رضوان الله اجمین پر تنقید تبرّا کرنا غیرہ -یہ سب امور بھی تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دور میں نہ تھے- تو کیا ہم ان امور کو حلال قرار دے سکتے ہیں آپ کے اس "
اضافی سوچ" کے اصول کے تحت ؟؟ -
مزید یہ کہ یہی
"اضافی سوچ" کا وہ باطل نظریہ جس نے امّت میں "
تصوف "جیسے گمراہ کن مذہب کی داغ بیل ڈالی- اور چوںکہ اس امّت کے بڑے بڑے اکابرین اس باطل مذہب کے جادو کا شکار ہوے - لہذا دور حاضر میں اس مذہب
"تصوف" کی جس شد و مد کے ساتھ پشت پناہی کی جاتی ہے شاید ہی کسی اور نظریے کی کی جاتی ہو-
آپ کہتے ہیں : "
جب "عقیدے" کا نام لیا جاتا ہے تو عموماً ہمارے ذہن میں وہ چیز آتی ہے جس سے انسان کافر یا مسلمان ہوتا ہے۔ حالانکہ اصطلاح میں عقیدہ دل کے فعل یعنی سوچ کو کہتے ہیں" - تو محترم اس نظریہ کو اگر ذہن میں رکھ کر کسی کے کافر ہونے یا نہ ہونے کا "کلیہ" بنایا جائے تو کوئی عیسائی ، یہودی ، بدھ مت، یا ہندو بھی کافر نہیں رہتا - کیوں کہ ہمیں کیا پتا کہ کس کے دل میں کیا ہے -ظاہری طور پر تو ان کے ہاں بھی "گاڈ ، بھگوان ، یا خدا" کا تصور کسی نہ کسی صورت میں بہرحال موجود ہے؟؟ - لیکن عقلی طور پر ان کو "کافر" اسی لئے سمجھا یا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے الله رب العزت کے تصور کو اسطرح تسلیم نہیں کیا جیسا کہ انبیاء کی تعلیمات کا مدعا تھا - ظاہر ہے کہ الله رب العزت کی ان اضافی و خود ساختہ صفات جو اس کی ذات اور اس کے احکام سے ثابت نہیں ان کو اپنے مرضی کے معانی پہنانا
"کفر" نہیں تو پھر کیا ہے؟؟ -
یعنی اگر کوئی
"تثلیث" کا عقیدہ رکھے تو کافر کہلاے - اور اگر کوئی نام نہاد مسلمان اسی کی بگڑی شکل "جس کو
وحدت الوجود کہا جاتا ہے" پر ایمان رکھے - تو وہ پھر بھی مسلمان کا مسلمان ہی رہے ؟؟ -کیسی عجیب منطق ہے -
جہاں تک سماع موتی کا تعلق ہے تو اصحاب کرام رضوان الله اجمعین وغیرہ میں صرف اگر اختلاف تھا - تو
"قلیب بدر" سے متعلق واقعہ سے تھا کہ آیا نبی کرم صل الله علیہ و آ له وسلم نے واقعی بدر کے کفار کے مردہ اجسام سے جب خطاب کیا تو انہوں نے سنا تھا یا نہیں؟؟- یعنی کچھ نے اس کو نبی کریم کا معجزہ سمجھا تو کچھ نے اس کو عام خطاب سمجھا (جیسے اماں عائشہ رضی الله عنھما وغیرہ)- توجیحات کے فرق کی وجہ سے اس کو عقیدے میں شمار نہیں کیا گیا - ورنہ قرآن کا تو واضح حکم ہے کہ عمومی طور پر مردہ نہیں سنتا (سوره فاطر ٢٢) -اور یہی اہل سنّت کا عقیدہ ہے-
الله رب العزت سب کو ہدایت دے (آمین)-