رؤیت حلال کے باب میں اختلاف مطالع کے حوالے سے علماء کی دو طرح کی آراء ہیں۔پہلی یہ کہ اختلاف مطالع کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔یعنی ایک شہر یا ملک والوں کے ساتھ ہی سب کے مہینے کا آغاز ہوگا۔اس رائے کے قائلین میں سے امام مالک،اما م ابوحنیفہ اور ابن حمبل ہیں ۔علماء کی ایک دوسر جماعت کا کہنا ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔اس رائے کے قائلین میں سے امام شافعی کا نام نمایاں ہے۔علماء کے ان دونوں طرح کی آرا میں اختلاف کا سبب حدیث کے الفاظ کا مختلف مفہوم لینے کی وجہ سے ہے پہلے گروہ کے نزدیک حدیث میں جو آیا ہے کہ ’’جب چاند دیکھو تو روزہ رکھو‘‘ اس حکم سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک شہر یا ملک والے دیکھ لیں تو باقی سب ان پر اعتماد کا اظہار کریں۔جبکہ دوسری رائے رکھنے والے علماء کے نزدیک آپﷺ کا یہ خطاب ہر شہر یا ملک والوں کے لئے الگ الگ ہے۔
علماء کی مذکورہ رائے کے تناظر میں اگر دلائل کا جائزہ لیا جائے تو وہ دوسری رائے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلا صحیح مسلم میں حضرت ابوکریب روایت فرماتے ہیں کہ میں شام گیا وہاں میں نے چاند دیکھا تو لوگوں کے ساتھ روزہ رکھ لیا اور جب مہینے کے آخرمیں مدینے آیا تو ابن عباس سے ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس دن روزہ رکھا میں نے کہا جمعہ والے دن فرمانے لگے ہم نے ہفتے والے دن رکھا اور اگر ہم نے چاند نہ دیکھا تو ہم تیس پور ے کریں گے۔کہتے ہیں میں نے کہا کیامعاویہ والا روزہ کافی نہیں؟تو آپ نے فرمایا ہمیں اللہ کے رسول نے اسی طرح حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر غور کریں تو عقلی طور پر بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کئی ایک مقامات کا اوقات کے لحاظ سے فرق ہے لحاظہ بظاہر یہی بات سامنے آتی ہے کہ اختلاف مطالع کا خیال رکھنا چاہیے واللہ اعلم بالصواب۔
اختلاف مطالع ایک فطری حقیقت ہے جس کا انکار نہ تو امت کے فقہاء و محدثین میں سے کسی نے کیا ہے اور نہ ہی ماہرین فلکیات کے مابین اس میں کوئی اختلاف ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں؟ محترم کیلانی صاحب حفظہ اللہ نے اس مسئلہ میں ائمہ کرام کے مذاہب ذکر کردئے ہیں جو کہ بالکل درست ہیں۔ البتہ موصوف نے جس مذہب کو ترجیح دی ہے اس پر ہمارے چند اشکالات ہیں:
۱۔ آپ نے فرمایا
"جبکہ دوسری رائے رکھنے والے علماء کے نزدیک آپﷺ کا یہ خطاب ہر شہر یا ملک والوں کے لئے الگ الگ ہے۔" سوال یہ ہے کہ نبی علیہ السلام کا کلام بذات خود کس چیز پر دلالت کرتا ہے"اطلاق" پر یا "تقیید" پر؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
"صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته" حدیث کے الفاظ میں تو شہر، علاقے یا ملک کی کوئی قید نہیں تو پھر دوسری رائے رکھنے والے علماء کی رائے کیونکر معتبر مانی جائے؟ اور اگر ان حضرات کے پاس دیگر نصوص سے تقیید کی کوئی دلیل ہے تو پیش کریں۔
۲۔ آپ نے فرمایا:
"علماء کی مذکورہ رائے کے تناظر میں اگر "دلائل" کا جائزہ لیا جائے تو وہ دوسری رائے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔" جہاں تک میں جانتا ہوں تو دوسری رائے کے حاملین کے پاس نصوص شریعہ سے صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ کریب رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور روایت ہے جو آپ نے اوپر ذکر فرمائی ہے۔اس کے علاوہ قرآن و حدیث سے کوئی دلیل ہو تو ضرور پیش کیجئے۔ جہاں تک حدیث کریب کا تعلق ہے تو اگر مکمل روایت کو غور سے پڑھا جائے توپوری روایت میں نبی علیہ السلام کے الفاظ یا آپ کا عمل کہیں پر بھی ذکر نہیں کیا گیا سوائے
"هکذا أمرنا رسول الله ﷺ" کے جس پر ہم ابھی کلام کریں گے۔ اس کے علاوہ اس روایت جو کچھ بھی ہے اگر اس کو اختلاف مطالع کے معتبر ہونے پر دلیل مان بھی لیں تو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذاتی اجتہاد ہی ہے جو حدیث مرفوع "صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته" کے مخالف ہے لحاظہ ہمیں تسلیم نہیں کیونکہ حجت نبی علیہ السلام کے صریح قول
"صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته" میں ہے نہ کہ کسی صحابی کے اجتہاد میں۔
۳۔ جہاں تک ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فرمان
"هکذا أمرنا رسول الله ﷺ" کا تعلق ہے تو سوال یہ ہے کہ "هكذا" کہہ کر ابن عباس رضی اللہ عنہ کس چیز کی طرف اشارہ کررہے ہیں؟ اگر یہ کہا جائے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اختلاف مطالع کے معتبر ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کب کہا کہ شام کی رویت میرے لئے کافی اسلئے نہیں ہے کہ شام کی رویت تو حجاز والوں کیلئے معتبر ہی نہیں، نہ ہی آپ نے یہ فرمایا کہ شام اور مدینہ کا مطلع جدا ہے لحاظہ ان کی رویت ہمارے لئے معتبر نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کلام کو اختلاف مطالع کے معتبر ہونے پر محمول کرنا
زبردستی ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ابو کریب کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل شام کے عمل کو اختیار نہیں کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ابن عباس کے کلام کا مفہوم ہے کیا اور آپ نے اہل شام کی رویت کو کیوں نہیں اختیار کیا؟ تو اس بارے میں فقہاءِ حدیث کی توجیہات ملاحضہ فرمائیں:
۱۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو کریب کی گواہی کو اس لئے نا کافی سمجھا کہ اس امر میں کم از کم دو گواہوں کی ضرورت تھی جبکہ یہاں ابو کریب اکیلے تھے۔
۲۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ خبر اس وقت پہنچی جب اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا کیونکہ اس وقت رمضان کا مہینہ اپنے اخری دنوں میں تھا جیسا کہ ابو کریب کے الفاظ سے واضح ہے
"ثم قدمت المدينة آخر الشهر" یعنی "پھر میں مدینہ پہنچا مہینے(رمضان) کے آخر میں"۔ گویا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اہل شام کی رویت کا علم رمضان کے آخر میں ہوا جبکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا اسی لئے آپ نے فرمایا کہ ہم تو برابر اپنے شہر والوں کیساتھ روزے رکھیں گے یہاں تک کہ ۳۰ دن مکمل کرلیں یا ہم اس سے قبل شوال کا چاند دیکھ لیں یعنی ۲۹ دن پر رمضان کا اختتام کرلیں۔
معلوم ہوا کہ کریب والی روایت میں ایک سے زیادہ احتمالات ہیں اور اصول فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ
"اذا وجد الاحتمال بطل الاستدلال" یعنی "جب احتمال موجود ہو تو استدلال باطل ہوجاتا ہے" لحاظہ کریب والی روایت سے استدلال باطل ٹھہرا۔ دوسری بات یہ کہ ابو کریب والی روایت
ظن کا فائدہ دیتی ہے اور نبی علیہ السلام سے مرفوع حدیث
"صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته" قطعی الدلالۃ ہےاور یہ بات معلوم ہے کہ ظن کے مقابلے میں یقین کو ترک نہیں کیا جاتا۔
واللہ المستعان