• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحی کا معنی و مفہوم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۔ وحی بذریعہ جبریل امین:

یہ وحی جلی کہلاتی ہے جو وحی کی دیگر صورتوں کے مقابلے میں آپ ﷺ پر زیادہ اتری ہے۔بالخصوص قرآن کریم وحی کی اسی صورت میں اور حالت بیداری میں نازل ہوا ہے ۔ نزول وحی کی اس صورت میں رسول یا نبی کو مکمل وجدان اوریقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔سورہ الکوثر کا نزول بھی اسی طرح ہوا۔ کیونکہ حدیث میں لفظ أغفی إغفاء (صحیح مسلم ۱؍ ۳۰۰) سے مراد نیند نہیں بلکہ نزول وحی کی وہ کیفیت ہے جسے (بُرَحَاء ُالْوَحْیِ) کہتے ہیں آپ پروحی کے جھونکے طاری ہوگئے تھے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۝۱۹۵ۭ } (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۵) یہ قرآن یقیناً رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترے ہیں۔ آپ کے دل پر تاکہ آپ خبردار کرنے والوںمیں سے ہوں۔ واضح عربی زبان میں۔
۴۔ وحی جو الہام ہو: الہام اس صورت میں کہ اللہ تعالی اپنے نبی یا رسول کے دل میں کچھ جما دے کہ یہ ایسا ہی ہے۔ نہ اسے رد کرے اور نہ کوئی شک۔جیسے آپ ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِیْ رُوْعِیْ أن نَفْساً لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَہَا، أَلاَ فَاتَّقُوا اللہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ۔ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی کہ کوئی جی بھی اپنا رزق مکمل کئے بغیر مر نہیں سکتا، سنو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور مطالبہ میں جمال پیدا کرو۔ (عن ابن مسعود: مشکاۃ المصابیح ۳؍۱۴۵۸)
انبیاء سابقین کی تعلیمات وحی کی اسی صورت میں نازل ہوئی ہیں۔ کوئی کتاب ان پر نہ اتری تھی۔اللہ تعالی کے رسولوں پر کتابی وحی زیادہ تر اتری۔ اور خواب میں یافرشتے کی بشری حالت میں آمد کی وحی بھی ہوتی۔اس لئے وحی کا معنی و مفہوم تمام انبیاء ورسل کے درمیان مشترکہ چلا آتا ہے۔اس میں جبریل امین قاصد یعنی پیغام لانے والے ہیں۔قرآن مجید میں ہے:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵} (الانبیاء:۲۵) آپ سے قبل کسی رسول کو ہم نے نہیں بھیجا مگر یہ کہ ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے پس تم میری ہی عبادت کرو۔
{قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۝۰ۚ }(الاعراف: ۲۰۳) ’’آپ فرما دیں کہ میں تو اسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ابلاغ وحی دو انداز سے ہوتا ہے:
۱۔ وہ وحی جو جبریل ِامین نے حروف وحرکات سمیت بغیر کسی کمی و بیشی کے آپ ﷺ کو پہنچائی ۔ جسے آپ ﷺ نے بھی جبریلِ امین سے حاصل کرنے کے بعد من وعن آگے پہنچایا۔اسے وحی متلو کہتے ہیں ۔اس سے مراد قرآن مجید کی وحی ہے کیونکہ اسے تلاوت کیا جاتا ہے۔اسے وحی جلی بھی کہتے ہیں۔
۲۔ دوسرا انداز وحی یہ ہے کہ جبریل امین کا انسانی شکل میں حاضر خدمت ہوتے اور معنوی وحی کرجاتے۔ یا خواب والہام کی صورت میں آپ کو براہ راست وحی ہوتی۔وحی کی یہ صورتیں آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات میں ملتی ہیںجنہیں وحی غیر متلو کہتے ہیں۔یہ وحی تمام تر سنت رسول کی عملی صورت ہے اسے وحی خفی کہتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی غیر متلو کی متعدد صورتیں:

اس وحی کی تمام تر تشریحات وحی خفی میں نازل ہوئیں۔اس کے دو انداز ہوا کرتے۔ ۱۔جبریل امین کا خود تشریف لانا۔۲۔ آپ ﷺ کو خواب یا الہام کی صورت میں وحی کا ہوجانا۔ جبریل علیہ السلام نزول وحی کے لئے جب حاضر ہوتے تو ان کی درج ذیل تین حالتوں میں کوئی ایک حالت ہوا کرتی۔
۱۔ بعض دفعہ جبریل علیہ السلام نظر نہ آتے بلکہ ان کی آمد پرآپ ﷺگھنٹی کی یا شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنتے۔امام ابن حجر ؒ کا کہنا ہے: جبریل امین ایک فرشتہ اور رسول اللہ ﷺایک بشرتھے ۔دونوںکے درمیان اتصال کا نام دراصل وحی ہے۔ جب دو افراد عربی اور عجمی کے درمیان گفتگو ہوتی ہے تو تفاہم کے لئے ہر ایک دوسرے کی زبان جاننے کا محتاج ہوتا ہے۔ جب دو کے مابین وحی میں اتصال ہوتا ہے تو یہاں یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ بشر کا غلبہ ملک پر ہو، تاکہ بشر اس کی بات سمجھ سکے۔یا بشر پر ایسا روحانی غلبہ ہو کہ فرشتہ کے لئے اللہ تعالی کی بات پہنچا نااسے آسان ہو۔(فتح الباری ۱؍۲۸)۔ یہ وحی جلی کہلاتی ہے(الاتقان ۲؍ ۴۲) ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :
{اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ} (الشوری:۵۱) یا وہ کوئی فرستادہ بھیجے جو اسی کے حکم سے جو چاہے وحی کرے۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں: میں نے آپ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ! آپ وحی محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں زنجیرکی آوازیں سنتا ہوں پھر خاموش ہوجاتا ہوں۔ جب بھی مجھ پر وحی ہوتی ہے تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری جان ابھی ختم ہوجائے گی۔
اس اشد وحی میں آپ ﷺ کو سخت پسینہ بھی آتا۔ ام المؤمنین فرماتی ہیں: سخت سردی کے موسم میں میں آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ پھوٹتا دیکھتی۔زید بن ثابت فرماتے ہیں: میںوحی لکھا کرتا۔ آپ پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کو اس کی سخت ترین شدت گھیرے میں لے لیتی۔ اور آپ چھوٹے چھوٹے موتیوں کے پسینہ سے شرابور ہوتے پھر آپ سے وحی ختم ہوجاتی۔(مجمع الزوائد ۸؍۲۵۷)
۲۔ کبھی جبریل امین اپنی اصل شکل میں نمودار ہوتے جیسے آپ ﷺ نے فترۃ الوحی کے بعدجبریل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ۔ پھرمعراج کی رات آپ ﷺ نے انہیں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔
۳۔ جبریل ِامین عموماً ایک صحابی سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں بشری حالت میں آتے۔ اس صورت میںفرشتہ جو وحی آپ ﷺ پرکرتا اسے وحی جلی کہتے ہیں۔
٭… مطالعہ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی خفی کے ذریعے بھی بہت سے احکامات دیئے گئے جو درج ذیل ہیں۔
۱۔ تشریعی امور : جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قضاء، نکاح، طلاق، خلع اور صلح و جنگ کے قواعد اور ان کی تفصیلات جو قرآن مجید میں نہیں -ایسے تمام امور آپ کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے۔ خواہ یہ وحی بذریعہ القاء ہو یا جبریل ؑ انسانی شکل میں آپ کو سامنے آکر بتائیں۔ عرف عام میں یہ وحی خفی کہلاتی ہے۔
۲۔ تدبیری امو ر : آپﷺ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کر کے بعض امور نمٹاتے تھے۔ جس کا "وشاورھم فی الأمر"کے ذریعے آپ کو حکم دیا گیا تھا۔ مثلا جنگ کے لئے کون سا مقام زیادہ مناسب ہے؟ قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ دعوت دین کو کیسے منظم کیا جائے؟وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت اور تجربہ سے ہے جن میںوحی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں مشورہ کے بعد اگر فیصلہ میں کوئی غلطی ہو جائے تو وحی کے ذریعے اس کی اصلاح کر دی جاتی تھی۔ جیسے جنگ بدر کے قیدیوں سے متعلق وحی نازل ہوئی۔
۳۔ اجتہادی امور: ایسے دینی معاملات جن میں کسی مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔علم دین کا ماہر صاحب بصیرت ہی اسے معلوم کرسکتا ہے۔ آپﷺ نئے امور کو اسی طرح نمٹاتے تھے۔ مثلاً ایک خاتون نے دریافت کیا کہ میری والدہ پر حج فرض تھامگر وہ ادا کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے اب حج کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بھلا یہ بتاؤاگر تمہاری والد ہ کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتی؟ کہنے لگی: جی ہاں ضرور کرتی ۔آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ تو زیادہ حق دار ہیں کہ اس کا حق ادا ہو۔
آپ کے ایسے اجتہادات کی فہرست بہت طویل ہے۔ مگر جب بھی ایسی کوئی لغزش ہوئی تو بذریعہ وحی جلی یا خفی اس امر کی اصلاح کر دی گئی۔ صرف ایک تشریعی امر یعنی اذان کی مثال ایسی ملتی ہے جس میں آپ نے تشریعی امر ہونے کے باوجود مشورہ کیا۔ لیکن بالآخر یہ مسئلہ بھی وحی کے ذریعہ ہی انجام پایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی غیر متلو کی متعدد صورتیں:

اس وحی کی تمام تر تشریحات وحی خفی میں نازل ہوئیں۔اس کے دو انداز ہوا کرتے۔ ۱۔جبریل امین کا خود تشریف لانا۔۲۔ آپ ﷺ کو خواب یا الہام کی صورت میں وحی کا ہوجانا۔ جبریل علیہ السلام نزول وحی کے لئے جب حاضر ہوتے تو ان کی درج ذیل تین حالتوں میں کوئی ایک حالت ہوا کرتی۔
۱۔ بعض دفعہ جبریل علیہ السلام نظر نہ آتے بلکہ ان کی آمد پرآپ ﷺگھنٹی کی یا شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنتے۔امام ابن حجر ؒ کا کہنا ہے: جبریل امین ایک فرشتہ اور رسول اللہ ﷺایک بشرتھے ۔دونوںکے درمیان اتصال کا نام دراصل وحی ہے۔ جب دو افراد عربی اور عجمی کے درمیان گفتگو ہوتی ہے تو تفاہم کے لئے ہر ایک دوسرے کی زبان جاننے کا محتاج ہوتا ہے۔ جب دو کے مابین وحی میں اتصال ہوتا ہے تو یہاں یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ بشر کا غلبہ ملک پر ہو، تاکہ بشر اس کی بات سمجھ سکے۔یا بشر پر ایسا روحانی غلبہ ہو کہ فرشتہ کے لئے اللہ تعالی کی بات پہنچا نااسے آسان ہو۔(فتح الباری ۱؍۲۸)۔ یہ وحی جلی کہلاتی ہے(الاتقان ۲؍ ۴۲) ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :
{اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ} (الشوری:۵۱) یا وہ کوئی فرستادہ بھیجے جو اسی کے حکم سے جو چاہے وحی کرے۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں: میں نے آپ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ! آپ وحی محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں زنجیرکی آوازیں سنتا ہوں پھر خاموش ہوجاتا ہوں۔ جب بھی مجھ پر وحی ہوتی ہے تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری جان ابھی ختم ہوجائے گی۔
اس اشد وحی میں آپ ﷺ کو سخت پسینہ بھی آتا۔ ام المؤمنین فرماتی ہیں: سخت سردی کے موسم میں میں آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ پھوٹتا دیکھتی۔زید بن ثابت فرماتے ہیں: میںوحی لکھا کرتا۔ آپ پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کو اس کی سخت ترین شدت گھیرے میں لے لیتی۔ اور آپ چھوٹے چھوٹے موتیوں کے پسینہ سے شرابور ہوتے پھر آپ سے وحی ختم ہوجاتی۔(مجمع الزوائد ۸؍۲۵۷)
۲۔ کبھی جبریل امین اپنی اصل شکل میں نمودار ہوتے جیسے آپ ﷺ نے فترۃ الوحی کے بعدجبریل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ۔ پھرمعراج کی رات آپ ﷺ نے انہیں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔
۳۔ جبریل ِامین عموماً ایک صحابی سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں بشری حالت میں آتے۔ اس صورت میںفرشتہ جو وحی آپ ﷺ پرکرتا اسے وحی جلی کہتے ہیں۔
٭… مطالعہ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی خفی کے ذریعے بھی بہت سے احکامات دیئے گئے جو درج ذیل ہیں۔
۱۔ تشریعی امور : جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قضاء، نکاح، طلاق، خلع اور صلح و جنگ کے قواعد اور ان کی تفصیلات جو قرآن مجید میں نہیں -ایسے تمام امور آپ کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے۔ خواہ یہ وحی بذریعہ القاء ہو یا جبریل ؑ انسانی شکل میں آپ کو سامنے آکر بتائیں۔ عرف عام میں یہ وحی خفی کہلاتی ہے۔
۲۔ تدبیری امو ر : آپﷺ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کر کے بعض امور نمٹاتے تھے۔ جس کا "وشاورھم فی الأمر"کے ذریعے آپ کو حکم دیا گیا تھا۔ مثلا جنگ کے لئے کون سا مقام زیادہ مناسب ہے؟ قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ دعوت دین کو کیسے منظم کیا جائے؟وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت اور تجربہ سے ہے جن میںوحی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں مشورہ کے بعد اگر فیصلہ میں کوئی غلطی ہو جائے تو وحی کے ذریعے اس کی اصلاح کر دی جاتی تھی۔ جیسے جنگ بدر کے قیدیوں سے متعلق وحی نازل ہوئی۔
۳۔ اجتہادی امور: ایسے دینی معاملات جن میں کسی مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔علم دین کا ماہر صاحب بصیرت ہی اسے معلوم کرسکتا ہے۔ آپﷺ نئے امور کو اسی طرح نمٹاتے تھے۔ مثلاً ایک خاتون نے دریافت کیا کہ میری والدہ پر حج فرض تھامگر وہ ادا کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے اب حج کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بھلا یہ بتاؤاگر تمہاری والد ہ کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتی؟ کہنے لگی: جی ہاں ضرور کرتی ۔آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ تو زیادہ حق دار ہیں کہ اس کا حق ادا ہو۔
آپ کے ایسے اجتہادات کی فہرست بہت طویل ہے۔ مگر جب بھی ایسی کوئی لغزش ہوئی تو بذریعہ وحی جلی یا خفی اس امر کی اصلاح کر دی گئی۔ صرف ایک تشریعی امر یعنی اذان کی مثال ایسی ملتی ہے جس میں آپ نے تشریعی امر ہونے کے باوجود مشورہ کیا۔ لیکن بالآخر یہ مسئلہ بھی وحی کے ذریعہ ہی انجام پایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۴۔ طبعی امور: اس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے لوگوں سے معاملات وغیرہ آ جاتے ہیں۔ ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے وحی نے یہاں بھی رہنمائی فرمائی۔انسان کھانے پینے میں آزاد ہے لیکن وہ صرف حلال اور پاکیزہ چیز ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدایت ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھے، داہنے ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔وہ اپنے لباس کے انتخاب میں آزاد ہے۔ لیکن ستر ڈھانکنا اور عورت کے لئے حجاب کرنا ضروری ہے۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو کرنے میں آزاد ہے لیکن اپنے والدین اور اہل خانہ سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا پابند ہے۔ وہ اپنے کاروبار کو اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن سود یاحرام طریقہ سے مال نہیں کما سکتا۔ ناپ تول میں کمی نہیں کر سکتا کسی دوسرے سے دھوکہ اور فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ وغیرہ۔
ان تصریحات سے واضح ہو جاتا ہے کہ شریعت کے تمام امور کا سارا انحصار وحی پر ہے ۔انسانی بصیرت پر اکتفاء نہیں کیا گیا کہ وہ اجمال قرآن کی وضاحت کرے کیونکہ ان معاملات کا تعلق وحی خفی سے ہے جو اس کے بغیر انجام پاہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان پہلوؤں پر بھی وحی نے ہدایات دی ہیں۔ جن میں اکثر کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ، بلکہ ان کی رہنمائی وحی خفی سے کی گئی ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نزول وحی کی ابتداء :

جب آپ کی عمرمبارک چالیس سال ہو گئی تو رمضان دوشنبہ کی اکیسویں شب یعنی لیلۃ القدرمیں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کونبوت سے سرفراز فرمایا۔ جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی چند آیات لے کر آپﷺ کے پاس غار حراء میں تشریف لائے۔ نزول وحی کی پہلی تاریخ یہی ہے پھر بتدریج آپ ﷺکی آخری عمر تک اس وحی کا سلسلہ تقریباً ۲۳ سال تک رہا ہے (جس کا زمانہ ۲۲ سال ۵ ماہ اور ۱۴ دن بنتا ہے) یہاں تک کہ پورا قرآن مجید نازل ہوگیا۔
ابتداء میں سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس کے بعدمشہور قول کے مطابق تین برس تک کوئی وحی نہیں آئی۔اسے ’’فترۃ الوحی‘‘ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ لیکن ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق وحی کی یہ بندش تقریباً دس دن تھی۔پھر بعدمیں آپ پر سورہ المدثر يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝۱ۙ قُـمْ فَاَنْذِرْ۝۲۠ۙ نازل ہوئی۔
۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن مجید اس طرح نازل ہوا کہ کبھی ایک چھوٹی آیت یاکبھی آیت کا ایک جزو نازل ہوتا اور کبھی کئی کئی آیتیں بیک وقت نازل ہو تیں۔ سب سے چھوٹا حصہ قرآن مجید میں جونازل ہوا وہ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ ہے۔ یہ ایک طویل آیت کا جزو ہے۔ دوسری طرف سورہ الانعام مکمل ایک ہی وقت میں نازل ہوئی جو ۶۵ آیات پر مشتمل ہے۔
امام بخاریؒ نے اُم المومنین عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے وہ مفصل سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت و جہنم کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگوں کے قلوب میں اسلام نے گھر کر لیا تو حلال و حرام کے مسائل و احکام نازل ہوئے۔ ورنہ اگر چھوٹتے ہی یہ حکم نازل کر دیا جاتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم تو کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر حکم ہوتا کہ زنا نہ کرو تو کہتے کہ ہم سے زنا ترک نہیں ہو سکتا۔(صحیح بخاری ۱/۱۸۵)
احادیث صحیحہ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حسب ضرورت پانچ او ر دس سے زیادہ یا کم آیات نازل ہوا کرتیں۔ چنانچہ واقعہ افک میں دس آیتوں کا اور سورہ المؤمنون کی ابتدائی دس آیات کا نزول یکبارگی ثابت ہے۔ نزول قرآن کے لحاظ سے سورۃ البقرۃ کی درج ذیل آیت آخری ہے :
{وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْہِ اِلَى اللہِ۝۰ۣۤ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۲۸۱ۧ} (البقرۃ:۲۸۱) اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر نفس کو پورا پورا دیا جائے گا جو اس نے کمائی کی اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے۔
امام رازی (م۶۰۶ھ؁) نے سیدنا ابن عباس کا یہ قول (فتوح الغیب ۲/۵۴۵)ذکر کیا ہے کہ آیت مذکورہ بالا ہی وہ آخری آیت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی۔ اس طرح کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے جب حج فرمایا تو آیت کلالہ نازل ہوئی۔ آپﷺ نے وقوف عرفات کیا تو آیات اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ۔۔۔ (المائدۃ : ۳) نازل ہوئیں۔اور اس کے بعد یہ آیت وَاتَّقُوْا یَوْماً تُرْجَعُونَ فِیْہ تو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ اس کو سورہ البقرہ کے۲۸۱ آیت کے سرے میں رکھیں۔ اس کے بعد آپ اکیاسی دن زندہ رہے۔بعض اکیس دن اور ایک قول سات دن کا بھی ہے۔ اورکچھ نے یہ کہا کہ آپ ﷺ کی وفات سے صرف تین گھنٹے قبل یہ آیت نازل ہوئی تھی۔بہر حال اسی آیت کے نزول کے آخری ہونے کی تائید بے شمار تفاسیر سے ملتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نزول وحی کے وقت آپ ﷺ کی کیفیت :

نزول وحی کے وقت آپ ﷺبکمال ہوش و حواس اور روحانی طور پر نہایت چاق و چوبند اور چوکس ہوا کرتے ۔ حاضرین سوائے چند ظاہری آثار کے اسے محسوس نہ کرپاتے ۔ مثلاً آپ ﷺ کے جسم مبارک کا بھاری ہوجانا، پسینہ بہنا خواہ سردی ہو۔جب وحی آتی تو آپ ﷺ کسی عصبی تکلیف میں مبتلا ہوتے نہ بیماری کا دورہ پڑتا۔اس کا مبدأ اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔ اس وحی میں کلام نفسی کا شبہ تک نہ ہو تا اور نہ دوسرے احتمالات کا اس میں دخل ۔ فرشتہ جب وحی نازل کرکے چلا جاتا تو آپ ﷺ تھوڑی دیر بعد اپنی طبعی حالت میں لوٹ آتے۔ قرآن مجید میں بھی ان احتمالات کا دفاع کیا گیا ہے۔
{وَمَاہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ۝۰ۭقَلِيْلًامَّاتُ ؤْمِنُوْنَ۝۴۱ۙوَلَابِقَو ْلِ كَاہِنٍ۝۰ۭقَلِيْلًامَّاتَ ذَكَّرُوْنَ۝۴۲ۭ}(الحاقۃ: ۴۱۔۴۲) یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے ،تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہواور نہ ہی کسی کاہن کا،تم بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔
احادیث صحیحہ میں رسول اللہﷺ نے وحی کے نزول کی کیفیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
بعض اوقات نزول وحی کے وقت مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ میرے لئے بہت سخت ہوتی ہے۔ جب یہ کیفیت دور ہوتی ہے تو جو کچھ مجھے بتایا گیا ہوتا ہے یاد ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات فرشتہ انسانی صورت میں آ کر بات کرتا ہے جسے سن کر میں یاد کر لیتا ہوں۔ (صحیح بخاری ۱؍ ۶)
وحی کی پہلی صورت واقعی زیادہ گراں اور دشوار ہوا کرتی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہے۔
{اِنَّا سَـنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا۝۵} (المزمل: ۵ )ہم آپ پر ایک گراں بار قول القاء کریں گے۔
اسی کیفیت کو دیکھ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
وَلَقَدْرَأَیْتُہٗ یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ فِی الْیَوْمِ الشَّدِیْدِالْبَرْدِ فَیَفْصِمُ عَنْہُ وَإِنَّ جَبِیْنَہُ لَیَتَفَصَّدُ عَرَقًا( صحیح بخاری : ۲) میں نے سخت سردی کے دن آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتے دیکھی تو پیشانی سے پسینہ بہ رہا تھا۔
حالت سواری میں نزول وحی شروع ہوتی تو جانور بوجھ تلے دب کر بیٹھ جاتا(زاد المعاد ۱/۲۵)۔ زید ؓ بن ثابت پر بھی اس کیفیت کا جب بوجھ پڑا تو ان کی ران ٹوٹنے لگی۔ صحابہ کرام ؓ اس وحی کی آواز کو شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ سے تشبیہ دیا کرتے کیونکہ انہیں اس کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دیتی تھی۔( مسند أحمد) وحی کی اس حالت میں آپ ﷺ نیند کرنے والے کی طرح سانس لیا کرتے۔ ایسی بات نہیں تھی کہ آپ پر غنودگی کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی گویا کہ آپ بے ہوش ہوجاتے یاآپ پر کوئی پردہ ڈال دیا گیاہو۔ سیدنا عمر ؓ نے صفوان بن یعلی کو یہی حالت دکھائی کہ کپڑے سے آپ پر سایہ کیا گیا تھا انہوں نے اپنا سر اندر ڈال کر دیکھا تو آپ کا چہرہ مبارک انتہائی سرخ تھا اور آپ ﷺ سونے والے کی طرح بلند سانسیں لے رہے تھے۔
وحی کی دوسری صورت پہلی سے ہلکی اور آسان تھی۔ اس میں نہ آوازوں کا تسلسل ہوتا اور نہ پیشانی سے پسینہ بہتا۔ جبریل انسانی شکل میں آتے اور وحی کرجاتے۔ یہ صوری مشابہت دونوں کے کام میں آسانی پیدا کر دیا کرتی تھی۔وحی کی ان دونوں صورتوں میں آپﷺ کے ہوش و حواس بالکل بجا ہوتے تھے۔ اس حالت وحی میں آپﷺ کے فہم و ادراک میں کوئی فرق نہ آتا تھا خواہ وحی کیسی ہی ہوتی۔
ابتداء جب آپﷺ پر وحی نازل ہوئی تو آیت کا کچھ حصہ ضائع ہوجانے کے خوف سے وحی مکمل ہونے سے پہلے آپ ﷺ اسے جلدی جلدی پڑھنا شروع کر دیا کرتے تھے تا کہ وہ الفاظ نہ بھول جائیں۔ جبریل علیہ السلام جو الفاظ پڑھاتے آپﷺ اپنی زبان مبارک او ر لبوں کو ہلاتے جاتے اوران کے ساتھ ساتھ پڑھتے۔ دوسری طرف قرآن مجید کا یاد کرنا آپ ﷺ پرآسان کر دیا گیا تھا۔ اس لئے یہ وعدہ فرما کے آپ کو مطمئن کر دیا:
{لَاتُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۝۱۶ۭ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۝۱۸ۚ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗ۝۱۹ۭ} (القیامۃ:۱۶۔۱۹) قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلائیں۔ اس کو آپﷺ کے سینہ میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ اور پھر اس کو بیان کروانا بھی ہمارے ذمہ ہے۔
وحی کے بعد نازل شدہ قرآن کی آیت یا آیات دوبارہ پڑھوانے کی ذمہ داری کو غالباً یوںسمجھا جا سکتا ہے کہ(Hard Disk) میں کچھ(Upload) کر دیا جائے۔ جسے بعد میں جب اورجیسے چاہیں سن لیں یا CD میں مختلف فائلز سننے کے لئے ایک بار اسے Backکیا جائے یا جس طرح ایک آڈیو کیسٹ کو کسی کاپئیر پر ٹرانسفر کیا جائے تو وہ پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں ۶۰ یا ۹۰ منٹ کا کیسٹ دونوں طرف سے کاپی کر دیتا ہے۔ کاپی کرنے کے اس دورانئے میں اگر ہم آواز سنیں تو وہ ناقابل فہم ہوتی ہے۔ شاید نزول وحی کی کیفیت اس طرح کی تیزی میں ہوتی ہوگی جسے بہت ہی جلد سینے میں اتار دیا جاتا ہوگا اور جس کی آواز کو صحابہ رسول نے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آواز جیسا سنا یا اس سے تشبیہ دی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نزول وحی کا دارو مدار :

نزول وحی کی آمد اور اس کے رک جانے کا سارا دارومداراللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر تھا۔اللہ تعالی چاہتے تو وحی جاری رہتی اور اگر چاہتے تو رک جاتی۔ قرآن کے نزول یا عدم نزول میں آپ کے اختیار کوکوئی دخل نہ تھا۔واقعہ افک میں ایک ماہ وحی کا سلسلہ منقطع رہا۔ آپﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو سخت پریشانی رہی۔اور آپ ﷺ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ رہے تھے: إِنِّیْ لَا أَعْلَمُ عَنْہَا إِلَّا خَیْرًا۔ دلی آرزو رہی کہ آپ ﷺ کا قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل ہو جائے۔ سولہ سترہ ماہ تک نہایت بے قرار رہے مگر ہوا وہی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چاہا۔
نبی کریم ﷺ اس امر کے واحد شاہد تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ آپ کا ذاتی یقین و اطمینان بھی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ آپ اپنی ذات کو وحی کی تعلیمات میں مدغم نہیں کرتے تھے۔ بعض اوقات وحی اس کثرت سے نازل ہونے لگتی کہ آپ بیمار پڑ جاتے اور بعض اوقات شدید ضرورت کے وقت وحی رک جایا کرتی تھی۔وحی ہمہ وقت آپ ﷺ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی رہتی تھی۔ کوئی وقت مستثنٰی نہ تھا۔ آپ بستر پر لیٹے ہیں اور ابھی سو بھی نہ پائے تھے کہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سر اٹھا کر مسکرانے لگے اور فرماتے ہیں کہ مجھ پر سورة الکوثر نازل ہوئی ہے۔گھر پر استراحت فرمارہے ہیں رات کا ایک تہائی حصہ باقی ہے کہ آپ پر سورة التوبہ کی وہ آیت اتری جس میں غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے صحابہ کرام ؓ کا ذکر تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی کی زبان:

اللہ تعالی کایہ اصول رہا ہے کہ مخاطب قوم کی زبان میں ہی وحی نازل کی جائے تاکہ قوم وحی الٰہی کو سمجھنے، اس پر ایمان لانے یا نہ لانے کا فیصلہ کر سکے۔ اس لئے جس قوم میں بھی رسول آیا وحی بھی اسی قوم کی زبان میں نازل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ وحی کبھی عبرانی میں آئی، کبھی سریانی میں اور کبھی عربی میں ، اور کبھی دوسری قوم کی زبان میں۔ آپﷺ کے مخاطب چونکہ عرب تھے اس لئے قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وحی کی حقیقت:

انسانی حواس کے لئے اولا ً اس کی حقیقت کو پانا ممکن نہیں کیونکہ کائنات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی حقیقت کا ادراک ہمارے حواس کے بس میں نہیں مگر وہ بلاشبہ موجودہیں۔ہاں انسانی حواس ایک حد تک ان کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔ آج جدیدآلات کے ذریعے بغیر کسی تگ ودو کے دنیا کے دوسرے کنارے بیٹھے شخص سے بآسانی ویڈیو گفتگو کرنا، ان کی تصادیر دیکھنا ممکن ہوگیا ہے جس کا بظاہر کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح حشرات الارض اور بعض جانور وں کو انسان سے بڑھ کر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ مثلاً انسان کے مقابلے میں کتے کے سونگھنے کی صلاحیت سات سو گنا زیادہ ہے، دیمک کی ملکہ کئی میل پھیلے اپنے کارکنوں کو بغیر کسی ظاہری واسطے کے پیغام دیتی ہے جو اس پیغام کو سننے کے بعد اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں جبکہ دیمک اندھی ہوتی ہے۔ پتنگوں کی سینکڑوں اقسام کئی فرلانگ سے اپنے نرومادہ کی مخصوص آواز یا بو سونگھ لیتے ہیں۔ جب یہ سب کچھ مانا جاتا ہے تو اس بات کے ماننے میں کیا مشکل ہے کہ اللہ تعالی بھی اپنے پیغام کو اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے ان سے بھی زیادہ مخفی طریقہ استعمال کرنے پر قادر ہے جسے وحی کہتے ہیں ۔
وحی عالم الغیب سے تعلق رکھتی ہے۔ عالم الشہادہ پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی طرح عالم الغیب پر بھی ہمارا ایمان ہے۔ کچھ عقل مند ، صاحب دانش وبینش جو انہیں نظر آتا ہے اسے تو مانتے ہیں مگر جو ان کے خیال ، تصور یا دید سے باہر ہے اس کا انکار کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی غیبی اشیاء پر ان کا اندھا ایمان ہوتا ہے جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے۔ مثلاً: عقل کولیجئے۔ کیا اسے کسی نے آج تک دیکھا ہے مگر اس کے وجود کا انکار کوئی نہیں کرتا۔روح جو ہمارے جسم میں دوڑتی پھرتی ہے سبھی جانتے ہیں مردہ اور زندہ میں فرق اسی روح کے ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ مگر کیا ہمارے ترقی یافتہ وسائل اس کی یافت کرسکے ہیں؟ عالم شہادہ کے علاوہ یہ عالم بھی ماننا پڑتا ہے جسے عالم الغیب کہتے ہیں۔ وحی کا تعلق بھی اسی عالم سے ہے۔
 
Top