ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
۔ وحی بذریعہ جبریل امین:
یہ وحی جلی کہلاتی ہے جو وحی کی دیگر صورتوں کے مقابلے میں آپ ﷺ پر زیادہ اتری ہے۔بالخصوص قرآن کریم وحی کی اسی صورت میں اور حالت بیداری میں نازل ہوا ہے ۔ نزول وحی کی اس صورت میں رسول یا نبی کو مکمل وجدان اوریقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔سورہ الکوثر کا نزول بھی اسی طرح ہوا۔ کیونکہ حدیث میں لفظ أغفی إغفاء (صحیح مسلم ۱؍ ۳۰۰) سے مراد نیند نہیں بلکہ نزول وحی کی وہ کیفیت ہے جسے (بُرَحَاء ُالْوَحْیِ) کہتے ہیں آپ پروحی کے جھونکے طاری ہوگئے تھے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۱۹۴ۙ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۱۹۵ۭ } (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۵) یہ قرآن یقیناً رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترے ہیں۔ آپ کے دل پر تاکہ آپ خبردار کرنے والوںمیں سے ہوں۔ واضح عربی زبان میں۔
۴۔ وحی جو الہام ہو: الہام اس صورت میں کہ اللہ تعالی اپنے نبی یا رسول کے دل میں کچھ جما دے کہ یہ ایسا ہی ہے۔ نہ اسے رد کرے اور نہ کوئی شک۔جیسے آپ ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِیْ رُوْعِیْ أن نَفْساً لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَہَا، أَلاَ فَاتَّقُوا اللہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ۔ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی کہ کوئی جی بھی اپنا رزق مکمل کئے بغیر مر نہیں سکتا، سنو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور مطالبہ میں جمال پیدا کرو۔ (عن ابن مسعود: مشکاۃ المصابیح ۳؍۱۴۵۸)
انبیاء سابقین کی تعلیمات وحی کی اسی صورت میں نازل ہوئی ہیں۔ کوئی کتاب ان پر نہ اتری تھی۔اللہ تعالی کے رسولوں پر کتابی وحی زیادہ تر اتری۔ اور خواب میں یافرشتے کی بشری حالت میں آمد کی وحی بھی ہوتی۔اس لئے وحی کا معنی و مفہوم تمام انبیاء ورسل کے درمیان مشترکہ چلا آتا ہے۔اس میں جبریل امین قاصد یعنی پیغام لانے والے ہیں۔قرآن مجید میں ہے:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۲۵} (الانبیاء:۲۵) آپ سے قبل کسی رسول کو ہم نے نہیں بھیجا مگر یہ کہ ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے پس تم میری ہی عبادت کرو۔
{قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۰ۚ }(الاعراف: ۲۰۳) ’’آپ فرما دیں کہ میں تو اسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔
یہ وحی جلی کہلاتی ہے جو وحی کی دیگر صورتوں کے مقابلے میں آپ ﷺ پر زیادہ اتری ہے۔بالخصوص قرآن کریم وحی کی اسی صورت میں اور حالت بیداری میں نازل ہوا ہے ۔ نزول وحی کی اس صورت میں رسول یا نبی کو مکمل وجدان اوریقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔سورہ الکوثر کا نزول بھی اسی طرح ہوا۔ کیونکہ حدیث میں لفظ أغفی إغفاء (صحیح مسلم ۱؍ ۳۰۰) سے مراد نیند نہیں بلکہ نزول وحی کی وہ کیفیت ہے جسے (بُرَحَاء ُالْوَحْیِ) کہتے ہیں آپ پروحی کے جھونکے طاری ہوگئے تھے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۱۹۴ۙ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۱۹۵ۭ } (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۵) یہ قرآن یقیناً رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترے ہیں۔ آپ کے دل پر تاکہ آپ خبردار کرنے والوںمیں سے ہوں۔ واضح عربی زبان میں۔
۴۔ وحی جو الہام ہو: الہام اس صورت میں کہ اللہ تعالی اپنے نبی یا رسول کے دل میں کچھ جما دے کہ یہ ایسا ہی ہے۔ نہ اسے رد کرے اور نہ کوئی شک۔جیسے آپ ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِیْ رُوْعِیْ أن نَفْساً لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَہَا، أَلاَ فَاتَّقُوا اللہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ۔ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی کہ کوئی جی بھی اپنا رزق مکمل کئے بغیر مر نہیں سکتا، سنو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور مطالبہ میں جمال پیدا کرو۔ (عن ابن مسعود: مشکاۃ المصابیح ۳؍۱۴۵۸)
انبیاء سابقین کی تعلیمات وحی کی اسی صورت میں نازل ہوئی ہیں۔ کوئی کتاب ان پر نہ اتری تھی۔اللہ تعالی کے رسولوں پر کتابی وحی زیادہ تر اتری۔ اور خواب میں یافرشتے کی بشری حالت میں آمد کی وحی بھی ہوتی۔اس لئے وحی کا معنی و مفہوم تمام انبیاء ورسل کے درمیان مشترکہ چلا آتا ہے۔اس میں جبریل امین قاصد یعنی پیغام لانے والے ہیں۔قرآن مجید میں ہے:
{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۲۵} (الانبیاء:۲۵) آپ سے قبل کسی رسول کو ہم نے نہیں بھیجا مگر یہ کہ ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے پس تم میری ہی عبادت کرو۔
{قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۰ۚ }(الاعراف: ۲۰۳) ’’آپ فرما دیں کہ میں تو اسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف بھیجی جاتی ہے‘‘۔