ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
وحی کے سچ ہونے کے دلائل:
وحی پر یہ اعتراض کیا گیا کہ آپﷺ پر وحی آنے کا کوئی امکان نہیں اور جو بھی آپﷺ نے وحی کے نام پر کہا وہ آپ ﷺ کی اپنی گھڑی ہوئی باتیں تھیں(نعوذ باللہ)۔ یہ الزام و نظریہ بالکل غلط ہے جس کے خلاف بہت سے دلائل موجود ہیں:
(۱) نبی اکرم ﷺ پہلے نبی نہ تھے کہ جس پر وحی نازل ہوئی ہو۔ بلکہ آپﷺ انبیاء کے طویل سلسلے کی آخری کڑی تھے اگر پہلے انبیاء پر وحی آ سکتی ہے تو آپ ﷺ پرکیوں نہیں آ سکتی؟
{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۰ۭ ۔۔۔۔۔}(ابراہیم :۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا اس قوم کی زبان میں ہی بھیجا تا کہ وہ انہیں وحی کی باتیں واضح کر دے۔
(۲) عرب نزول وحی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ کہتے کہ قرآن آپﷺ کی بجائے کسی اور پر کیوں نہ اتارا گیا۔
{وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ۳۱}(الزخرف:۳۱) اور انہوں نے کہا کہ یہ قرآن دو بستیوں کے کسی عظیم شخص پر کیوں نہ نازل ہوا۔
(۳) امکان وحی کی تیسری دلیل سچے خواب ہوا کرتے ہیں جو بارشاد نبوی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔اگر یہ خواب تسلیم کئے جا سکتے ہیں تو وحی کو تسلیم کیا جانا چائیے۔
(۴) امکان وحی کی دلیل خود قرآن پاک کا معجزہ ہونا ہے کیونکہ اس جیسی مثال کوئی بھی نہ لا سکا۔ لہذا یہ ایک انسانی تخلیق نہیں بلکہ کلام الٰہی ہے جو بذریعہ وحی نبی اکرم ﷺکو دیا گیا۔
(۵) حضور ﷺ کی ذات اقدس کے مختلف پہلو بھی امکانات وحی پر دلالت کرتے ہیں۔ آپﷺ نبوت سے پہلے پورے عرب معاشرے میں صادق و امین کے لقب سے معروف تھے۔ آپ ﷺ سے اس قسم کی بات کی توقع کرنا بھی عبث ہے کہ آپ ﷺ نے ازخود قرآن گھڑا ہو اور پھر (نعوذ باللہ) اسے اللہ کی طرف منسوب کردیاہو۔ آپ ﷺ نے جب کسی چھوٹی سے چھوٹی بات میں غلط بیانی سے کام نہیں لیا اور کبھی کسی کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کی تو آپ ﷺ کے بارے میں کسی بڑے اور اہم معاملے میں غلط بیانی کا گمان رکھنا بیوقوفی ، جہالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔
(۶) نبی کریم ﷺنہایت شفیق اور نرم مزاج تھے جبکہ دوسری طرف آپ ﷺ اپنے مقصد میں اتنے مضبوط تھے کہ فرماتے اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دو تو بھی میں پیچھے نہ ہٹوں گا۔ آپ ﷺ کا مقصد حصول دنیا یا تعیّشات زندگی نہ تھا بلکہ آپﷺ نے نبوت سے پہلے بھی دنیا کی خواہش نہ کی تھی۔ اپنے مقصد میں اتنا مخلص اور مضبوط وہی شخص ہو سکتا ہے جس کی بنیاد کسی بہت بڑی حقیقت پر مبنی ہو۔ وہ حقیقت وحی الٰہی کی صورت میں آپ ﷺکے پاس تھی۔
(۷) رسول کریم ﷺ تجارتی مقاصد کے علاوہ کبھی جزیرۃ العرب سے باہر گئے اورنہ ہی تجارتی سفر بذریعہ سمندر کیاجبکہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر سمندر کی ایسی باریک تفاصیل ملتی ہیں جو وحی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
(۸) نبی ﷺؐ نے وحی کی روشنی میں ایسی بستیوں کے حالات بتائے جن کو عرب جانتے تھے اور نہ ہی نبیﷺ نے خود کبھی ان بستیوں کے آثار دیکھے تھے۔
{اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۷۠ۙ الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُہَا فِي الْبِلَادِ۸۠ۙ وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۹۠ۙ وَفِرْعَوْنَ ذِي الْاَوْتَادِ۱۰۠ۙ}(الفجر: ۷۔۱۰) ارم جو بلند ستونوں والے تھے جن کی مانند شہر وں میں کوئی پیدا ہی نہیں کیا گیا اور ثمود جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشیں اور میخوں والا فرعون۔
آپ ﷺ تو کبھی ان بستیوں میں نہیں گئے پھر ان کی اتنی مکمل تصویر کشی کیسے ممکن ہوئی؟ اس کا جواب وحی کے سوا کچھ نہیں۔
(۹) آپ ر ﷺ کی گفتگو اور وحی کے الفاظ میں بہت فرق تھا۔ قرآن اور حدیث اپنے انداز وبیان میں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ قرآن کا پنا منفرد اسلوب ہے جو نظم ہے نہ نثر۔ جبکہ احادیث کا ا پنا اسلوب بیان۔
(۱۰) قرآن مجید میں "قل"بیسیوں مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کلام نبی ﷺ کا اپنا نہیں بلکہ آپ ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے: {قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۲ۚ } (الاخلاص:۱۔۲)
(۱۱) بیشتر مقامات پر قرآن کا اسلوب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ کلام اللہ ہے۔ کلام نبی نہیں۔ مثلاً: سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۳۷ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَتَخْشَى النَّاسَ۰ۚ وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىہُ۰ۭ۔۔۔} (الاحزاب:۳۷) آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف نبی ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی بلکہ کبھی کبھی آپ ﷺکی مرضی یا خواہش کے خلاف بھی نازل ہو جاتی۔ یعنی وحی پر نبی ﷺ کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہ تھا۔
(۱۲) واقعہ افک، ام المؤمنین ، رسول اکرم اور صحابہ کرام کو ایک ماہ تک تڑپاتا وگرماتا رہا۔ غیب دان تو اللہ کی ذات تھی اس لئے آپ ﷺ کوئی حتمی فیصلہ نہ کر پائے اور نہ ہی آپ ﷺ وحی کے بغیر کچھ گھڑ کر اسے اللہ کی طرف منسوب کرسکتے تھے۔ ورنہ آپﷺ سیدہ عائشہؓ کے حق میںاس واقعہ کے آغاز میں ہی کوئی اعلان برأت کردیتے اور تکلیف دہ کیفیت سے بچ جاتے لیکن اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ پر وحی ایک طویل وقفے کے بعد نازل ہوئی۔ اس دوران نبی ﷺ نے کسی قسم کی من گھڑت بات کا سہارا نہیں لیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے خود بذریعہ وحی حقیقت واضح فرمادی۔ اس سلسلے میں نبی ﷺ کا طویل انتظار ان پر نزول وحی کا ایک ثبوت تھا۔
(۱۳) قرآن میں جابجا نبی ﷺ کو وحی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔ {اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ} (الانعام: ۱۰۶) آپ پیروی کیجئے اس وحی کی جو آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے۔ گویا آپ ﷺ بھی دوسرے انسانوں کی طرح بحیثیت انسان وحی کی پیروی کے پابند تھے۔
(۱۴) قرآن مجید میں ہے کہ نبی ﷺ ایک انسان تھے فرشتہ نہ تھے۔ اگر یہ نبی ﷺ کا کلام ہوتا توکیا وہ اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرتے۔ تو کیا آپ ﷺ نے ایسا کیا؟
{قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ۔۔۔} (الکہف:۱۱۰) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا محض ایک انسان ہوں ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔
(۱۵) قرآن میں نہ صرف گزشتہ اقوام کے حالات و واقعات ہیں بلکہ کئی ایسی حقیقتوں کا ذکر بھی ہے جن سے اہل عرب بالکل نابلد تھے اور آج وہ ثابت شدہ ہیں۔پھر بھی کلام الٰہی کی بجائے یہ انسانی تصنیف ہے؟۔
(۱۶) ہمارے دور میں انسان نے اپنی بات بہت تیزی اور مخفی انداز سے دوسرے تک پہچانے کے آلات ایجاد کر لیے ہیں۔ جو ہزاروں میل دور بیٹھے چند سیکنڈ میں آواز و تحریر کو دوسرے تک بآسانی پہنچا دیتے ہیں۔ان میں الیکٹرانک ویڈیومیل وکانفرنس اور fax و سیٹلائٹ کمیونیکیشن، جی پی ایس، سیٹلائٹ فونز وغیرہ کا کردار نمایاں ہے۔کیا اللہ تعالی کے لئے اپنی بات تیزی سے رسول اللہ ﷺتک پہنچانے کا بندوبست کرنا ناممکن تھا۔ کہ جس کا بہت کم فہم صدیوں بعد انسان کو جاکر حاصل ہوا۔
(۱۷) وحی میں تضاد ملا اور نہ ہی آپ ﷺ کی گفتگو میں کہ جسے کسی نے آپ ﷺ کو باور کرایا ہو۔
(۱۸) اہل جاہلیت نے آپ ﷺ کو ساحر، کاہن، مجنون اور کذاب تک کہا۔ یہ تابڑ توڑ حملے آپ ﷺ کے خلاف ایک ایسا ماحول تیار کرنے کا حصہ تھے کہ کوئی بھی اسلام قبول نہ کرسکے۔مگر کیا وہ کسی ایک الزام پر خود قائم رہ سکے یا انہیں اپنے الزام پر یقین تھا؟ نہیں! اس کے برعکس آپ ﷺ کو یقین تھا اور آنکھوں دیکھی نزول وحی کی کیفیات نے ایمان صحابہ کو عین الیقین دلا دیا تھا۔ مگر یہ نام اور پروپیگنڈے آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے۔ نہ ہی صحابہ کرام کا ایمان کو متزلزل ہوا۔کفار یہ بھی جانتے تھے کہ جو مجنون ہے اس کے کذاب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو کذاب ہے اس کا مجنون ہونا بھی ناممکن ہے۔
تجزیہ: وہ وحی جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ کی صورت میں اور سیدنا عیسیٰ ؑپر انجیل کی صورت میںاتری ان کا کیا حال ہوا؟ کس نے بنواسرائیل پر حملہ کیا؟ ان کے ہیکل کو مسمار کیا اور تورات کے اوراق تک پھاڑ ڈالے کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ پھر کیا غلامی سے نسلوںبعد نجات پانے کے بعد محض یادداشت سے کتاب تورات لکھ کر دعوی کرنا یہ اصل کتاب ہے؟ حدیث رسول ہی اس سے بھلی کہ جسے کم ازکم صحابہ نے لکھ تو لیا۔ مزید براں تورات وانجیل میںاضافہ شدہ ایسی حکایات جو نزول تورات وانجیل کے بعد پیش آئے بڑی مضحکہ خیز ہیں۔
وحی پر یہ اعتراض کیا گیا کہ آپﷺ پر وحی آنے کا کوئی امکان نہیں اور جو بھی آپﷺ نے وحی کے نام پر کہا وہ آپ ﷺ کی اپنی گھڑی ہوئی باتیں تھیں(نعوذ باللہ)۔ یہ الزام و نظریہ بالکل غلط ہے جس کے خلاف بہت سے دلائل موجود ہیں:
(۱) نبی اکرم ﷺ پہلے نبی نہ تھے کہ جس پر وحی نازل ہوئی ہو۔ بلکہ آپﷺ انبیاء کے طویل سلسلے کی آخری کڑی تھے اگر پہلے انبیاء پر وحی آ سکتی ہے تو آپ ﷺ پرکیوں نہیں آ سکتی؟
{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِيُبَيِّنَ لَہُمْ۰ۭ ۔۔۔۔۔}(ابراہیم :۴) ہم نے جو رسول بھی بھیجا اس قوم کی زبان میں ہی بھیجا تا کہ وہ انہیں وحی کی باتیں واضح کر دے۔
(۲) عرب نزول وحی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ کہتے کہ قرآن آپﷺ کی بجائے کسی اور پر کیوں نہ اتارا گیا۔
{وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ۳۱}(الزخرف:۳۱) اور انہوں نے کہا کہ یہ قرآن دو بستیوں کے کسی عظیم شخص پر کیوں نہ نازل ہوا۔
(۳) امکان وحی کی تیسری دلیل سچے خواب ہوا کرتے ہیں جو بارشاد نبوی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔اگر یہ خواب تسلیم کئے جا سکتے ہیں تو وحی کو تسلیم کیا جانا چائیے۔
(۴) امکان وحی کی دلیل خود قرآن پاک کا معجزہ ہونا ہے کیونکہ اس جیسی مثال کوئی بھی نہ لا سکا۔ لہذا یہ ایک انسانی تخلیق نہیں بلکہ کلام الٰہی ہے جو بذریعہ وحی نبی اکرم ﷺکو دیا گیا۔
(۵) حضور ﷺ کی ذات اقدس کے مختلف پہلو بھی امکانات وحی پر دلالت کرتے ہیں۔ آپﷺ نبوت سے پہلے پورے عرب معاشرے میں صادق و امین کے لقب سے معروف تھے۔ آپ ﷺ سے اس قسم کی بات کی توقع کرنا بھی عبث ہے کہ آپ ﷺ نے ازخود قرآن گھڑا ہو اور پھر (نعوذ باللہ) اسے اللہ کی طرف منسوب کردیاہو۔ آپ ﷺ نے جب کسی چھوٹی سے چھوٹی بات میں غلط بیانی سے کام نہیں لیا اور کبھی کسی کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کی تو آپ ﷺ کے بارے میں کسی بڑے اور اہم معاملے میں غلط بیانی کا گمان رکھنا بیوقوفی ، جہالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔
(۶) نبی کریم ﷺنہایت شفیق اور نرم مزاج تھے جبکہ دوسری طرف آپ ﷺ اپنے مقصد میں اتنے مضبوط تھے کہ فرماتے اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دو تو بھی میں پیچھے نہ ہٹوں گا۔ آپ ﷺ کا مقصد حصول دنیا یا تعیّشات زندگی نہ تھا بلکہ آپﷺ نے نبوت سے پہلے بھی دنیا کی خواہش نہ کی تھی۔ اپنے مقصد میں اتنا مخلص اور مضبوط وہی شخص ہو سکتا ہے جس کی بنیاد کسی بہت بڑی حقیقت پر مبنی ہو۔ وہ حقیقت وحی الٰہی کی صورت میں آپ ﷺکے پاس تھی۔
(۷) رسول کریم ﷺ تجارتی مقاصد کے علاوہ کبھی جزیرۃ العرب سے باہر گئے اورنہ ہی تجارتی سفر بذریعہ سمندر کیاجبکہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر سمندر کی ایسی باریک تفاصیل ملتی ہیں جو وحی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
(۸) نبی ﷺؐ نے وحی کی روشنی میں ایسی بستیوں کے حالات بتائے جن کو عرب جانتے تھے اور نہ ہی نبیﷺ نے خود کبھی ان بستیوں کے آثار دیکھے تھے۔
{اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۷۠ۙ الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُہَا فِي الْبِلَادِ۸۠ۙ وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۹۠ۙ وَفِرْعَوْنَ ذِي الْاَوْتَادِ۱۰۠ۙ}(الفجر: ۷۔۱۰) ارم جو بلند ستونوں والے تھے جن کی مانند شہر وں میں کوئی پیدا ہی نہیں کیا گیا اور ثمود جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشیں اور میخوں والا فرعون۔
آپ ﷺ تو کبھی ان بستیوں میں نہیں گئے پھر ان کی اتنی مکمل تصویر کشی کیسے ممکن ہوئی؟ اس کا جواب وحی کے سوا کچھ نہیں۔
(۹) آپ ر ﷺ کی گفتگو اور وحی کے الفاظ میں بہت فرق تھا۔ قرآن اور حدیث اپنے انداز وبیان میں ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ قرآن کا پنا منفرد اسلوب ہے جو نظم ہے نہ نثر۔ جبکہ احادیث کا ا پنا اسلوب بیان۔
(۱۰) قرآن مجید میں "قل"بیسیوں مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کلام نبی ﷺ کا اپنا نہیں بلکہ آپ ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے: {قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۲ۚ } (الاخلاص:۱۔۲)
(۱۱) بیشتر مقامات پر قرآن کا اسلوب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ کلام اللہ ہے۔ کلام نبی نہیں۔ مثلاً: سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۳۷ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَتَخْشَى النَّاسَ۰ۚ وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىہُ۰ۭ۔۔۔} (الاحزاب:۳۷) آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف نبی ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی بلکہ کبھی کبھی آپ ﷺکی مرضی یا خواہش کے خلاف بھی نازل ہو جاتی۔ یعنی وحی پر نبی ﷺ کو کسی قسم کا اختیار حاصل نہ تھا۔
(۱۲) واقعہ افک، ام المؤمنین ، رسول اکرم اور صحابہ کرام کو ایک ماہ تک تڑپاتا وگرماتا رہا۔ غیب دان تو اللہ کی ذات تھی اس لئے آپ ﷺ کوئی حتمی فیصلہ نہ کر پائے اور نہ ہی آپ ﷺ وحی کے بغیر کچھ گھڑ کر اسے اللہ کی طرف منسوب کرسکتے تھے۔ ورنہ آپﷺ سیدہ عائشہؓ کے حق میںاس واقعہ کے آغاز میں ہی کوئی اعلان برأت کردیتے اور تکلیف دہ کیفیت سے بچ جاتے لیکن اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ پر وحی ایک طویل وقفے کے بعد نازل ہوئی۔ اس دوران نبی ﷺ نے کسی قسم کی من گھڑت بات کا سہارا نہیں لیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے خود بذریعہ وحی حقیقت واضح فرمادی۔ اس سلسلے میں نبی ﷺ کا طویل انتظار ان پر نزول وحی کا ایک ثبوت تھا۔
(۱۳) قرآن میں جابجا نبی ﷺ کو وحی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ۔ {اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ} (الانعام: ۱۰۶) آپ پیروی کیجئے اس وحی کی جو آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے۔ گویا آپ ﷺ بھی دوسرے انسانوں کی طرح بحیثیت انسان وحی کی پیروی کے پابند تھے۔
(۱۴) قرآن مجید میں ہے کہ نبی ﷺ ایک انسان تھے فرشتہ نہ تھے۔ اگر یہ نبی ﷺ کا کلام ہوتا توکیا وہ اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرتے۔ تو کیا آپ ﷺ نے ایسا کیا؟
{قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۚ۔۔۔} (الکہف:۱۱۰) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا محض ایک انسان ہوں ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔
(۱۵) قرآن میں نہ صرف گزشتہ اقوام کے حالات و واقعات ہیں بلکہ کئی ایسی حقیقتوں کا ذکر بھی ہے جن سے اہل عرب بالکل نابلد تھے اور آج وہ ثابت شدہ ہیں۔پھر بھی کلام الٰہی کی بجائے یہ انسانی تصنیف ہے؟۔
(۱۶) ہمارے دور میں انسان نے اپنی بات بہت تیزی اور مخفی انداز سے دوسرے تک پہچانے کے آلات ایجاد کر لیے ہیں۔ جو ہزاروں میل دور بیٹھے چند سیکنڈ میں آواز و تحریر کو دوسرے تک بآسانی پہنچا دیتے ہیں۔ان میں الیکٹرانک ویڈیومیل وکانفرنس اور fax و سیٹلائٹ کمیونیکیشن، جی پی ایس، سیٹلائٹ فونز وغیرہ کا کردار نمایاں ہے۔کیا اللہ تعالی کے لئے اپنی بات تیزی سے رسول اللہ ﷺتک پہنچانے کا بندوبست کرنا ناممکن تھا۔ کہ جس کا بہت کم فہم صدیوں بعد انسان کو جاکر حاصل ہوا۔
(۱۷) وحی میں تضاد ملا اور نہ ہی آپ ﷺ کی گفتگو میں کہ جسے کسی نے آپ ﷺ کو باور کرایا ہو۔
(۱۸) اہل جاہلیت نے آپ ﷺ کو ساحر، کاہن، مجنون اور کذاب تک کہا۔ یہ تابڑ توڑ حملے آپ ﷺ کے خلاف ایک ایسا ماحول تیار کرنے کا حصہ تھے کہ کوئی بھی اسلام قبول نہ کرسکے۔مگر کیا وہ کسی ایک الزام پر خود قائم رہ سکے یا انہیں اپنے الزام پر یقین تھا؟ نہیں! اس کے برعکس آپ ﷺ کو یقین تھا اور آنکھوں دیکھی نزول وحی کی کیفیات نے ایمان صحابہ کو عین الیقین دلا دیا تھا۔ مگر یہ نام اور پروپیگنڈے آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے۔ نہ ہی صحابہ کرام کا ایمان کو متزلزل ہوا۔کفار یہ بھی جانتے تھے کہ جو مجنون ہے اس کے کذاب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو کذاب ہے اس کا مجنون ہونا بھی ناممکن ہے۔
تجزیہ: وہ وحی جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ کی صورت میں اور سیدنا عیسیٰ ؑپر انجیل کی صورت میںاتری ان کا کیا حال ہوا؟ کس نے بنواسرائیل پر حملہ کیا؟ ان کے ہیکل کو مسمار کیا اور تورات کے اوراق تک پھاڑ ڈالے کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ پھر کیا غلامی سے نسلوںبعد نجات پانے کے بعد محض یادداشت سے کتاب تورات لکھ کر دعوی کرنا یہ اصل کتاب ہے؟ حدیث رسول ہی اس سے بھلی کہ جسے کم ازکم صحابہ نے لکھ تو لیا۔ مزید براں تورات وانجیل میںاضافہ شدہ ایسی حکایات جو نزول تورات وانجیل کے بعد پیش آئے بڑی مضحکہ خیز ہیں۔