• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ سے متعلق بعض احادیث ؟؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مالک الدار کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نبی ؐ کی قبر پر حاضر ہوتا ہے اور اپنا حال بیان کرتا ہے تو خواب میں نبیؐ اس کو سیدنا عمر ؓکے پاس جانے کا فرماتے ہیں۔ تفصیل دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(ج٦ص٣٥٦ح٣٢٠٠٢

الجواب:۔ یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔اس روایت کی سند کچھ یوں ہے: حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ''ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔'' [الرسالہ:ص٥٣] اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں: ''حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔'' [علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص٩٩]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: ''اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔'' [فتاویٰ رضویہ:٥/٢٤٥]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: ''مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔'' [خزائن السنن:١/١] اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے (دیکھئے میزان الاعتدال:ج٢ص٢٢٤،التمہید:ج١٠ص٢٢٨ )جو عن سے روایت کر رہا ہے۔

عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں ، اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔'' [آپ زندہ ہیں واللہ:ص٢٥١]
عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں: ''وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث'' [آپ زندہ ہیں واللہ:ص٢٥]
جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟
السلام علیكم و رحمۃ الله
شیخ محترم پر میں كوئی اعتراض نہیں کر رہا لیکن ایک عمومی مسئلہ ہے کہ ہم میں سے جو علماء رد مسالک اور دفاع مسالک کا کام کرتے ہیں وہ احادیث کی تضعیف بہت زیادہ کرتے ہیں۔ جو حدیث خلاف موقف ہو اس میں کوئی معمولی سی علت بھی مل جائے تو فورا تضعیف کر دیتے ہیں۔
حالانکہ حدیث کو ضعیف کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "اس قول کی نبی ﷺ کی جانب نسبت مخدوش و مشکوک ہے"۔ جس طرح نبی ﷺ کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا من کذب علی متعمدا میں داخل ہے اسی طرح یہ خطرہ بھی ہے کہ آپ کے کسی قول کو یہ کہنا کہ یہ آپ کا نہیں ہے بھی من کذب علی متعمدا کا مصداق بن جائے۔ اس میں بہت احتیاط اور بہت غور و فکر سے کام لینا چاہیے۔ اس کے بعد بھی کسی کے نزدیک کوئی حدیث ضعیف ہی ثابت ہو تو پھر وہ اس سے زیادہ کا مکلف نہیں۔

اعمش حدیث کے بہت بڑے امام ہیں۔ اور اگرچہ وہ تدلیس کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی معنعن روایت مطلقا تدلیس مردود میں داخل نہیں ہوتی۔
حافظ اابن حجرؒ نے انہیں طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے (طبقات المدلسین) اور طبقہ ثانیہ کے متعلق فرماتے ہیں:
الثانية من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة
(طبقات المدلسین 1۔13 ط مکتبۃ المنار)

یعقوب بن سفیانؒ فرماتے ہیں:
حديث سفيان وأبي إسحاق والأعمش ما لم يعلم أنه مدلس يقوم مقام الحجة.
(المعرفۃ و التاریخ 2۔637 ط الرسالۃ)
"سفیان، ابو اسحاق اور اعمش کی حدیث جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ تدلیس شدہ ہے حجۃ کے طور پر قائم ہوتی ہے۔"

اگر ہم اسی طرح طبقہ ثانیہ کے مدلسین کو بھی رد کرتے رہے تو ثوری اور ابن عیینہ سمیت اکثر محدثین کی معنعن روایات غیر مقبول ٹھہریں گی۔ کچھ دن قبل ایک صاحب کو اسی طرح امام عبد الرزاق کی معنعن روایات کی تضعیف کرتے ہوئے دیکھا۔ حالانکہ وہ بھی طبقہ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حافظ اابن حجرؒ نے انہیں طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے (طبقات المدلسین) اور طبقہ ثانیہ کے متعلق فرماتے ہیں:
الثانية من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة
(طبقات المدلسین 1۔13 ط مکتبۃ المنار)
جبکہ نکت میں ان کو ثوری اور ابن عیینہ کے بعد والے تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے ۔
اگر ہم اسی طرح طبقہ ثانیہ کے مدلسین کو بھی رد کرتے رہے تو ثوری اور ابن عیینہ سمیت اکثر محدثین کی معنعن روایات غیر مقبول ٹھہریں گی۔ کچھ دن قبل ایک صاحب کو اسی طرح امام عبد الرزاق کی معنعن روایات کی تضعیف کرتے ہوئے دیکھا۔ حالانکہ وہ بھی طبقہ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
واللہ اعلم
اصل میں یہ منہج کا اختلاف ہے ، کچھ علماء کے نزدیک جس سے بھی تدلیس ثابت ہو ، اس کی روایت مردود ہے ، الا کہ تصریح بالسماع یا سماع کا کوئی قرینہ مل جائے ۔
جبکہ کچھ علماء طبقاتی تقسیم کے قائل ہیں ، جبکہ مزید تفصیلات بھی ہیں ۔
لیکن ایک عمومی مسئلہ ہے کہ ہم میں سے جو علماء رد مسالک اور دفاع مسالک کا کام کرتے ہیں وہ احادیث کی تضعیف بہت زیادہ کرتے ہیں۔ جو حدیث خلاف موقف ہو اس میں کوئی معمولی سی علت بھی مل جائے تو فورا تضعیف کر دیتے ہیں۔
تصحیح و تضعیف دونوں ہی خطرناک اہمیت رکھتے ہیں ، ضعیف کی تصحیح شریعت سازی ، جبکہ صحیح کی تضعیف شریعت میں کمی کا باعث ہے ۔
مسالک و مذاہب سے تعصب ختم کرنے کی ضرورت ہے ، کسی روایت کی تصحیح صرف اس لیے نہیں کرنی چأہیے کہ یہ میرے حق میں ، اور دوسری تضعیف اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ یہ میرے خلاف یا میرے مخالف کے حق میں ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیكم و رحمۃ الله
شیخ محترم پر میں كوئی اعتراض نہیں کر رہا لیکن ایک عمومی مسئلہ ہے کہ ہم میں سے جو علماء رد مسالک اور دفاع مسالک کا کام کرتے ہیں وہ احادیث کی تضعیف بہت زیادہ کرتے ہیں۔ جو حدیث خلاف موقف ہو اس میں کوئی معمولی سی علت بھی مل جائے تو فورا تضعیف کر دیتے ہیں۔
حالانکہ حدیث کو ضعیف کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "اس قول کی نبی ﷺ کی جانب نسبت مخدوش و مشکوک ہے"۔ جس طرح نبی ﷺ کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا من کذب علی متعمدا میں داخل ہے اسی طرح یہ خطرہ بھی ہے کہ آپ کے کسی قول کو یہ کہنا کہ یہ آپ کا نہیں ہے بھی من کذب علی متعمدا کا مصداق بن جائے۔ اس میں بہت احتیاط اور بہت غور و فکر سے کام لینا چاہیے۔ اس کے بعد بھی کسی کے نزدیک کوئی حدیث ضعیف ہی ثابت ہو تو پھر وہ اس سے زیادہ کا مکلف نہیں۔


واللہ اعلم
و علیکم السلام و رحمت الله -

اصول سند و روایت سے تو مالک الدار کی اس حدیث کو ضعیف ثابت کردیا گیا ہے- لیکن محدثین و فقہا کا حدیث کو پرکھنے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ روایت جو قرآن کی صریح نص یا کسی صریح صحیح حدیث جس کی سند اعلی درجہ کی ہو اس سے براہ راست متعارض ہو وہ روایت رد کر دی جائے گی -

مذکورہ روایت قرآن کریم کی متعدد آیات سے متعارض ہے جن میں الله رب العزت نے فوت شدہ صالح لوگوں کی ارواح سے مدد طلب کرنے کو صریح شرک قرار دیا ہے- صرف یہی نہیں بلکہ اس قسم کی ضعیف روایات ان احادیث نبوی سے بھی براہ راست متعارض ہیں جو اس قسم کے باطل وسیلوں کی ممانعت میں بخاری و مسلم اور دیگر صحاح ستہ کی کتابوں میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے مروی ہیں- جیسے مشہور روایات : یہود و نصاریٰ پر آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی لعنت بوجہ قبروں کی عبادت گاہ بنانے پر - یا پھر وہ روایت جس میں نبی کریم صل علیہ و آ له وسلم کا فرمان ہے کہ دنیا میں شرک کا آغاز حضرت نوح علیہ سلام کی قوم کا اپنے پانچ صالح افراد کے مرنے کے بعد ان کے وسیلے سے مدد مناگنے کی بنا پر ہوا وغیرہ - اس بنا پر فوت شدہ افراد سے وسیلے کے اثبات میں تمام مذکورہ روایات قابل رد ہی سمجھی جائیں گی (واللہ اعلم) -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
و علیکم السلام و رحمت الله -

اصول سند و روایت سے تو مالک الدار کی اس حدیث کو ضعیف ثابت کردیا گیا ہے- لیکن محدثین و فقہا کا حدیث کو پرکھنے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ روایت جو قرآن کی صریح نص یا کسی صریح صحیح حدیث جس کی سند اعلی درجہ کی ہو اس سے براہ راست متعارض ہو وہ روایت رد کر دی جائے گی -

مذکورہ روایت قرآن کریم کی متعدد آیات سے متعارض ہے جن میں الله رب العزت نے فوت شدہ صالح لوگوں کی ارواح سے مدد طلب کرنے کو صریح شرک قرار دیا ہے- صرف یہی نہیں بلکہ اس قسم کی ضعیف روایات ان احادیث نبوی سے بھی براہ راست متعارض ہیں جو اس قسم کے باطل وسیلوں کی ممانعت میں بخاری و مسلم اور دیگر صحاح ستہ کی کتابوں میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے مروی ہیں- جیسے مشہور روایات : یہود و نصاریٰ پر آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی لعنت بوجہ قبروں کی عبادت گاہ بنانے پر - یا پھر وہ روایت جس میں نبی کریم صل علیہ و آ له وسلم کا فرمان ہے کہ دنیا میں شرک کا آغاز حضرت نوح علیہ سلام کی قوم کا اپنے پانچ صالح افراد کے مرنے کے بعد ان کے وسیلے سے مدد مناگنے کی بنا پر ہوا وغیرہ - اس بنا پر فوت شدہ افراد سے وسیلے کے اثبات میں تمام مذکورہ روایات قابل رد ہی سمجھی جائیں گی (واللہ اعلم) -
جزاک اللہ خیرا
ایک مزید وضاحت کر دیجیے۔
وسیلہ کی ہم جو عموما دیکھتے ہیں لوگوں میں کچھ قسمیں ہیں:
1: بعض لوگ بزرگ کو وسیلہ بمعنی واسطہ یا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یعنی جو ملے گا وہ بزرگ کے ذریعے سے ملے گا۔ بزرگ کا بیچ میں دخل ہوگا۔
2: بعض لوگ بزرگ کا واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ فلاں بزرگ کے وسیلے سے فلاں کام کر دے۔ لیکن ان کی مراد اس بزرگ کو بیچ میں لانا نہیں ہوتی بلکہ اس طور پر حوالہ دینا ہوتی ہے کہ چوں کہ وہ بزرگ اللہ کے نیک اور مقرب بندے تھے تو جس طرح ان پر اللہ کی رحمت تھی اس طرح ہم پر ہو کر ہماری دعا قبول ہو جائے۔
3: بعض لوگ فوت شدہ بزرگوں سے ان کی قبر پر جا کر دعا کی درخواست کرتے ہیں۔
4: بعض صرف نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

ان میں سے پہلا تو میں جانتا ہوں کہ کھلا شرک ہے۔ لیکن بقایا کے بارے میں کیا کسی آیت یا روایت میں صراحت سے منع کیا گیا ہے؟
صراحت سے منع کیا گیا ہو استنباط نہ کیا گیا ہو کیوں کہ استنباط سے مفہوم قطعیت سے نکل جاتا ہے، انسانی فہم اور عقل کا دخل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو سماع موتی اور حیات النبیﷺ کا مسئلہ ہے وہ بھی مختلف فیہ ہے اور مختلف فیہ مسئلہ بھی قطعی نہیں رہتا۔

@خضر حیات بھائی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
(2)کسی کی جا ہ حق حر مت اور بر کت کا وسیلہ لینا مثلاً وسیلہ لینے ولا کہے : اے اللہ ! فلاں شخص کا تیر ے پا س جو مر تبہ ہے اس کو وسیلہ بنا تا ہوں یا فلاں شخص کا تجھ پر جو حق ہے اس کو وسیلہ بنا تا ہوں یا اس شخص کی حر مت اور بر کت کو وسیلہ بنا تا ہوں کہ تو میر ی حا جت پو ر ی فر ما دے !
یہ میں نے ابھی پڑھا۔
لیکن ذرا سا فرق ہے۔ ہو سکتا ہے مکان یا زمان کی وجہ سے یہ فرق ہو۔
لیکن جو آج کل ہمارے سامنے ہے اس میں ایک تو کسی کی حرمت، جاہ، برکت وغیرہ کو ایسا لازم نہیں سمجھا جاتا کہ اس حوالے سے اللہ پاک دعا ضرور قبول کریں گے۔ بلکہ اگر اس کے لیے یہ لفظ کہا جائے کہ"حوالہ دیا جاتا ہے" تو زیادہ موزوں ہوگا۔ یعنی دعا مانگنے والا یہ سمجھتا ہے کہ فلاں شخص پر جو اللہ پاک کی رحمتیں اور برکتیں تھیں اور وہ اللہ کا محبوب بندہ تھا تو جب میں اس کا حوالہ دوں گا تو امید ہے کہ اللہ پاک دعا قبول فرمائیں گے۔
میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے خود دیکھا ہے ایسے لوگوں کو اور یہ تفصیل جب انہوں نے بتائی تو میں اس پر کوئی حکم نہیں لگا سکا کیوں کہ اس کی کوئی صراحت مجھے معلوم نہیں تھی۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جزاک اللہ خیرا
ایک مزید وضاحت کر دیجیے۔
وسیلہ کی ہم جو عموما دیکھتے ہیں لوگوں میں کچھ قسمیں ہیں:
1: بعض لوگ بزرگ کو وسیلہ بمعنی واسطہ یا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یعنی جو ملے گا وہ بزرگ کے ذریعے سے ملے گا۔ بزرگ کا بیچ میں دخل ہوگا۔
2: بعض لوگ بزرگ کا واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ فلاں بزرگ کے وسیلے سے فلاں کام کر دے۔ لیکن ان کی مراد اس بزرگ کو بیچ میں لانا نہیں ہوتی بلکہ اس طور پر حوالہ دینا ہوتی ہے کہ چوں کہ وہ بزرگ اللہ کے نیک اور مقرب بندے تھے تو جس طرح ان پر اللہ کی رحمت تھی اس طرح ہم پر ہو کر ہماری دعا قبول ہو جائے۔
3: بعض لوگ فوت شدہ بزرگوں سے ان کی قبر پر جا کر دعا کی درخواست کرتے ہیں۔
4: بعض صرف نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

ان میں سے پہلا تو میں جانتا ہوں کہ کھلا شرک ہے۔ لیکن بقایا کے بارے میں کیا کسی آیت یا روایت میں صراحت سے منع کیا گیا ہے؟
صراحت سے منع کیا گیا ہو استنباط نہ کیا گیا ہو کیوں کہ استنباط سے مفہوم قطعیت سے نکل جاتا ہے، انسانی فہم اور عقل کا دخل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو سماع موتی اور حیات النبیﷺ کا مسئلہ ہے وہ بھی مختلف فیہ ہے اور مختلف فیہ مسئلہ بھی قطعی نہیں رہتا۔

@خضر حیات بھائی۔
آپ کی بات کا جواب ذرا تفصیل طلب ہے - وقت کی کمی کے بائث بعد میں بیان کرسکوں گا -

لیکن آپ کی بیان کردہ دعا کی چاروں کیفیات صحابہ کرام و سلف صالحین سے کسی صحیح صریح روایت سے ثابت نہیں- جو اس بات کا بعین ثبوت ہے کہ قرون اولیٰ میں فوت شدہ افراد کو وسیلہ یا ان کے نیک اعمال کو واسطہ بنانا شرک و بدعت کے زمرے میں اتا تھا -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
لیکن آپ کی بیان کردہ دعا کی چاروں کیفیات صحابہ کرام و سلف صالحین سے کسی صحیح صریح روایت سے ثابت نہیں- جو اس بات کا بعین ثبوت ہے کہ قرون اولیٰ میں فوت شدہ افراد کو وسیلہ یا ان کے نیک اعمال کو واسطہ بنانا شرک و بدعت کے زمرے میں اتا تھا -
جی یہ تو مجھے اندازہ ہے کہ یہ کسی صریح صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ بدعت یا شرک کے زمرے میں کیسے آتا ہے یہ میں نہیں سمجھ سکا۔

میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ جزاک اللہ خیرا
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں بهی اور مجهے یقین ہیکہ میری طرح اور بهی اس علمی بحث کا انتظار کرینگے ۔ اسکو سمجہنا ایسا ہی ہے گویا دین اسلام کی سب سے اہم ترین چیز کو سمجہنا ہے ۔ تو کیوں نا اسمیں محترم خضر حیات ، محترم اسحاق بهائی کے علاوہ دیگر فورم پر موجود اہل علم کو بهی دعوت دی جائے اور سمجهنے کی نیت سے بحث شروع کی جائے !
والسلام
 
Top