- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مالک الدار کی روایت سے متعلق فورم پر ایک اور کافی پرانا تھریڈ موجود ہے :
وسیلے کے بارے مالک الدار کی روایت کی حقیقت
وسیلے کے بارے مالک الدار کی روایت کی حقیقت
السلام علیكم و رحمۃ اللهمالک الدار کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نبی ؐ کی قبر پر حاضر ہوتا ہے اور اپنا حال بیان کرتا ہے تو خواب میں نبیؐ اس کو سیدنا عمر ؓکے پاس جانے کا فرماتے ہیں۔ تفصیل دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(ج٦ص٣٥٦ح٣٢٠٠٢
الجواب:۔ یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔اس روایت کی سند کچھ یوں ہے: حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ''ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔'' [الرسالہ:ص٥٣] اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں: ''حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔'' [علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص٩٩]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: ''اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔'' [فتاویٰ رضویہ:٥/٢٤٥]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: ''مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔'' [خزائن السنن:١/١] اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے (دیکھئے میزان الاعتدال:ج٢ص٢٢٤،التمہید:ج١٠ص٢٢٨ )جو عن سے روایت کر رہا ہے۔
عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں ، اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔'' [آپ زندہ ہیں واللہ:ص٢٥١]
عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں: ''وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث'' [آپ زندہ ہیں واللہ:ص٢٥]
جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟
جبکہ نکت میں ان کو ثوری اور ابن عیینہ کے بعد والے تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے ۔حافظ اابن حجرؒ نے انہیں طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے (طبقات المدلسین) اور طبقہ ثانیہ کے متعلق فرماتے ہیں:
الثانية من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة
(طبقات المدلسین 1۔13 ط مکتبۃ المنار)
اصل میں یہ منہج کا اختلاف ہے ، کچھ علماء کے نزدیک جس سے بھی تدلیس ثابت ہو ، اس کی روایت مردود ہے ، الا کہ تصریح بالسماع یا سماع کا کوئی قرینہ مل جائے ۔اگر ہم اسی طرح طبقہ ثانیہ کے مدلسین کو بھی رد کرتے رہے تو ثوری اور ابن عیینہ سمیت اکثر محدثین کی معنعن روایات غیر مقبول ٹھہریں گی۔ کچھ دن قبل ایک صاحب کو اسی طرح امام عبد الرزاق کی معنعن روایات کی تضعیف کرتے ہوئے دیکھا۔ حالانکہ وہ بھی طبقہ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
واللہ اعلم
تصحیح و تضعیف دونوں ہی خطرناک اہمیت رکھتے ہیں ، ضعیف کی تصحیح شریعت سازی ، جبکہ صحیح کی تضعیف شریعت میں کمی کا باعث ہے ۔لیکن ایک عمومی مسئلہ ہے کہ ہم میں سے جو علماء رد مسالک اور دفاع مسالک کا کام کرتے ہیں وہ احادیث کی تضعیف بہت زیادہ کرتے ہیں۔ جو حدیث خلاف موقف ہو اس میں کوئی معمولی سی علت بھی مل جائے تو فورا تضعیف کر دیتے ہیں۔
و علیکم السلام و رحمت الله -السلام علیكم و رحمۃ الله
شیخ محترم پر میں كوئی اعتراض نہیں کر رہا لیکن ایک عمومی مسئلہ ہے کہ ہم میں سے جو علماء رد مسالک اور دفاع مسالک کا کام کرتے ہیں وہ احادیث کی تضعیف بہت زیادہ کرتے ہیں۔ جو حدیث خلاف موقف ہو اس میں کوئی معمولی سی علت بھی مل جائے تو فورا تضعیف کر دیتے ہیں۔
حالانکہ حدیث کو ضعیف کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "اس قول کی نبی ﷺ کی جانب نسبت مخدوش و مشکوک ہے"۔ جس طرح نبی ﷺ کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا من کذب علی متعمدا میں داخل ہے اسی طرح یہ خطرہ بھی ہے کہ آپ کے کسی قول کو یہ کہنا کہ یہ آپ کا نہیں ہے بھی من کذب علی متعمدا کا مصداق بن جائے۔ اس میں بہت احتیاط اور بہت غور و فکر سے کام لینا چاہیے۔ اس کے بعد بھی کسی کے نزدیک کوئی حدیث ضعیف ہی ثابت ہو تو پھر وہ اس سے زیادہ کا مکلف نہیں۔
واللہ اعلم
جزاک اللہ خیراو علیکم السلام و رحمت الله -
اصول سند و روایت سے تو مالک الدار کی اس حدیث کو ضعیف ثابت کردیا گیا ہے- لیکن محدثین و فقہا کا حدیث کو پرکھنے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ روایت جو قرآن کی صریح نص یا کسی صریح صحیح حدیث جس کی سند اعلی درجہ کی ہو اس سے براہ راست متعارض ہو وہ روایت رد کر دی جائے گی -
مذکورہ روایت قرآن کریم کی متعدد آیات سے متعارض ہے جن میں الله رب العزت نے فوت شدہ صالح لوگوں کی ارواح سے مدد طلب کرنے کو صریح شرک قرار دیا ہے- صرف یہی نہیں بلکہ اس قسم کی ضعیف روایات ان احادیث نبوی سے بھی براہ راست متعارض ہیں جو اس قسم کے باطل وسیلوں کی ممانعت میں بخاری و مسلم اور دیگر صحاح ستہ کی کتابوں میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے مروی ہیں- جیسے مشہور روایات : یہود و نصاریٰ پر آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کی لعنت بوجہ قبروں کی عبادت گاہ بنانے پر - یا پھر وہ روایت جس میں نبی کریم صل علیہ و آ له وسلم کا فرمان ہے کہ دنیا میں شرک کا آغاز حضرت نوح علیہ سلام کی قوم کا اپنے پانچ صالح افراد کے مرنے کے بعد ان کے وسیلے سے مدد مناگنے کی بنا پر ہوا وغیرہ - اس بنا پر فوت شدہ افراد سے وسیلے کے اثبات میں تمام مذکورہ روایات قابل رد ہی سمجھی جائیں گی (واللہ اعلم) -
یہ میں نے ابھی پڑھا۔(2)کسی کی جا ہ حق حر مت اور بر کت کا وسیلہ لینا مثلاً وسیلہ لینے ولا کہے : اے اللہ ! فلاں شخص کا تیر ے پا س جو مر تبہ ہے اس کو وسیلہ بنا تا ہوں یا فلاں شخص کا تجھ پر جو حق ہے اس کو وسیلہ بنا تا ہوں یا اس شخص کی حر مت اور بر کت کو وسیلہ بنا تا ہوں کہ تو میر ی حا جت پو ر ی فر ما دے !
آپ کی بات کا جواب ذرا تفصیل طلب ہے - وقت کی کمی کے بائث بعد میں بیان کرسکوں گا -جزاک اللہ خیرا
ایک مزید وضاحت کر دیجیے۔
وسیلہ کی ہم جو عموما دیکھتے ہیں لوگوں میں کچھ قسمیں ہیں:
1: بعض لوگ بزرگ کو وسیلہ بمعنی واسطہ یا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یعنی جو ملے گا وہ بزرگ کے ذریعے سے ملے گا۔ بزرگ کا بیچ میں دخل ہوگا۔
2: بعض لوگ بزرگ کا واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ فلاں بزرگ کے وسیلے سے فلاں کام کر دے۔ لیکن ان کی مراد اس بزرگ کو بیچ میں لانا نہیں ہوتی بلکہ اس طور پر حوالہ دینا ہوتی ہے کہ چوں کہ وہ بزرگ اللہ کے نیک اور مقرب بندے تھے تو جس طرح ان پر اللہ کی رحمت تھی اس طرح ہم پر ہو کر ہماری دعا قبول ہو جائے۔
3: بعض لوگ فوت شدہ بزرگوں سے ان کی قبر پر جا کر دعا کی درخواست کرتے ہیں۔
4: بعض صرف نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر دعا کی درخواست کرتے ہیں۔
ان میں سے پہلا تو میں جانتا ہوں کہ کھلا شرک ہے۔ لیکن بقایا کے بارے میں کیا کسی آیت یا روایت میں صراحت سے منع کیا گیا ہے؟
صراحت سے منع کیا گیا ہو استنباط نہ کیا گیا ہو کیوں کہ استنباط سے مفہوم قطعیت سے نکل جاتا ہے، انسانی فہم اور عقل کا دخل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو سماع موتی اور حیات النبیﷺ کا مسئلہ ہے وہ بھی مختلف فیہ ہے اور مختلف فیہ مسئلہ بھی قطعی نہیں رہتا۔
@خضر حیات بھائی۔
جی یہ تو مجھے اندازہ ہے کہ یہ کسی صریح صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔ لیکن اس سے یہ بدعت یا شرک کے زمرے میں کیسے آتا ہے یہ میں نہیں سمجھ سکا۔لیکن آپ کی بیان کردہ دعا کی چاروں کیفیات صحابہ کرام و سلف صالحین سے کسی صحیح صریح روایت سے ثابت نہیں- جو اس بات کا بعین ثبوت ہے کہ قرون اولیٰ میں فوت شدہ افراد کو وسیلہ یا ان کے نیک اعمال کو واسطہ بنانا شرک و بدعت کے زمرے میں اتا تھا -