"ایک مجہول الحال آدی کے خواب سے استدلال ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروق بھر کے دور خلافت میں قحط واقع ہو گیا۔ ایک صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! اپنی امت کے لیے پانی مانگئے کیوں کہ وہ ہلاک ہو رہی
ہے،
تو ایک مرد أن (حضرت بلال بن حارث) کے خواب میں آۓ (اور الاستیعاب کے الفاظ یہ ہیں کہ): خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”(حضرت) عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے لئے بارش کی دعا کریں انہیں بارش وی جائے گی اور انہیں کہو کہ احتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو.
وہ صاحب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ماجرا بیان کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) رو دیئے اور کہا: الله (جل جلالک میں اپنی بساط بھر کوتاہی نہیں کرتا »
یہ واقعہ بلاشبہ حدیث کی ایک کتاب مصنف ابن ابی شیبہ (ج:۲، ص: ۲۳) اور (فتح الباری“ ۲۹۵ / ۲ ، کتاب الاستسقاء باب سوم) میں درج ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی بابت کہا ہے۔
وروي عن ابن ابی شیبة باسناد صحيح من رواية ابي صالح السمان عن مالك الداری ....... الخ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے مسیح سند کے ساتھ ابوصا السمان عن مالك الداری کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ لیکن تین وجوہ سے یہ واقعہ ناقابل استدلال ہے۔
(1) یہ قصہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ واقعہ کا اصل راوی مالک الداری ہے جو مجمول ہے جب تک اس کی عدالت اور ضبط کا علم نہیں ہو گا۔ یہ واقعہ ساقط الاعتبار ہوگا۔ حافظ ابن حجر نے جو یہ کہا ہے: (باسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان» تو اس کا مطلب یہ
ہے کہ سند ابو صالح السمان تک یہ روایت کی ہے۔ مالك الداری کے حالات کا چونکہ حافظ ابن حجر کو علم نہیں ہو سکا تھا اس لئے انہوں نے اس کی بابت خاموشی اختیار کر کے ابو صال تک سلسلہ سند کو صحیح قرار دے دیا مقصد یہ تھا کہ مالک الداری کی عدالت و ضبط کی بھی اگر توثیق ہو جائے تو یہ روایت بالکل صحیح ہو گی۔ بصورت دیگر غیرصحیح ہوگی۔ ان کی تصحیح کا مطلب پوری سند کی صحیح نہیں ہے اگر پوری سند ان کے نزدیک میں ہوتی تو وہ اس طرح
کہتے: «عن مالك الداری و اسناده صحيح» لیکن حافظ ابن حجر نے اس طرح نہیں کہا۔ اس لئے جب تک واقعہ کے اصل راوی--- مالك الداری کی توثیق ثابت نہیں ہوگی یہ واقعہ نا قابل حجت ہوگا۔
(۴) یہ ققہ سنداً صحیح ہو تب بھی حجت نہیں اس لئے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کا ایک آدی پر مدار ہے جو نامعلوم اور مجہول ہے اور حافظ ابن حجر حنفیہ نے سیف بن عمر کے حوالے سے اس نامعلوم آدمی کا نام بلال بن الحارث (مالي) بتلایا ہے حالانکہ سیف بن عمر خود محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے بلکہ اس کی بابت یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ثقہ راویوں کے نام سے من گھڑت حدیثیں بیان کرتا تھا۔ ایسے کذاب ووضاع راوی کے بیان پر یہ کسی طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی علم کی قبر پر جاکر عرض گزار ہونے والے ایک کالی بلال بن الحارث المزنی تھے؟
(3) بالخصوص جب کہ مستند اور صحیح روایات سے اکابر صحابہ نجات کا یہ طرز عمل ثابت ہے کہ انہوں نے قحط سالی کے موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر استغاثہ نہیں کیا بلکہ کھلے میدان میں نماز استسقاء کا اہتمام کیا جو ایک مسنون عمل ہے اور اس میں زندہ بزرگ عمِ رسول حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔ یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ہے۔ اسی طرح حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قحط پڑا تو انہوں نے بھی ایک اور صحابی رسول سے دعا کروائی۔
ان مستند واقعات اور اکابر صحابہ کے طرز عمل کے مقابلے میں ایک غیر مستند روایت اور وہ بھی خواب پر مبنی نیز مجہول شخص کے بیان کو کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
ishaq salfi
ایک مجہول الحال آدی کے خواب سے استدلال ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروق بھر کے دور خلافت میں قحط واقع ہو گیا۔ ایک صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی نے نبی اکرم ا کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! اپنی امت کے لیے پانی مانگئے کیوں کہ وہ ہلاک ہو رہی
ہے تو ایک مرد أن (حضرت بلال بن حارث) کے خواب میں آۓ (اور الاستیعاب کے الفاظ یہ ہیں کہ): خواب میں نبی کریم میم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”(حضرت) عمر زبور) کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے لئے بارش کی دعا کریں انہیں بارش وی جائے گی اور انہیں کھو کہ احتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو. وہ صاحب حضرت عمر منہ کے پاس آئے اور ماجرا بیان کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (بنر) رو دینے اور کھا: الله (جل جلالک میں اپنی بساط بھر کو اتنی نہیں کر 6 » یہ واقعہ بلاشبہ حدیث کی ایک کتاب مصنف ابن ابی شیبہ (ج:۲، ص: ۲۳) اور (نح الباری“ ۲۹۵ / ۲ ، کتاب الاستسقاء باب سوم) میں درج ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کی بابت کیا ہے۔
وروي عن ابن ابی شیبة باسناد صحيح من رواية ابي صالح السمان عن مالك الداری ....... الخ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے مسیح سند کے ساتھ ابوصا السمان عن مالك الداری کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ لیکن تین وجوہ سے یہ واقعہ تا قائل استدلال ہے۔
) یہ قصہ میں نہیں ہے اس لئے کہ واقعے کا اصل راوی مالک الداری ہے جو مجمول ہے جب تک اس کی عدالت اور ضبط کا علم نہیں ہو گا۔ یہ واقعہ ساقط الاعتبار ہوگا۔ حافظ ابن حجر نے جو یہ کہا ہے: (باسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان» تو اس کا مطلب یہ
ہے کہ سند ابو صالح السمان تک یہ روایت کی ہے۔ مالك الداری کے حالات کا چونکہ حافظ ابن حجر کو علم نہیں ہو سکا تھا اس لئے انہوں نے اس کی بابت خاموشی اختیار کر کے ابو صال تک سلسلہ سند کو صحیح قرار دے دیا مقصد یہ تھا کہ مالک الداری کی عدالت و ضبط کی بھی اگر توثیق ہو جائے تو یہ روایت بالکل میں ہو گی۔ بصورت دیگر غیر صحیح۔ ان کی تصحیح کا مطلب پوری سند کی تصحیح نہیں ہے اگر پوری سند ان کے نزدیک صحیح ہوتی تو وہ اس طرح
کہتے: «عن مالك الداری و اسناده صحيح» لیکن حافظ ابن حجر نے اس طرح نہیں کہا۔
اس لئے جب تک واقعہ کے اصل راوی--- مالك الداری کی توثیق ثابت نہیں ہوگی یہ واقعہ نا قابل حجت ہوگا۔
(۴) یہ قصہ سنداً صحیح ہو تب بھی حجت نہیں اس لئے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کا ایک آدی پر مدار ہے جو نامعلوم اور مجہول ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سیف بن عمر کے حوالے سے اس نامعلوم آدمی کا نام بلال بن الحارث (صحابی) بتلایا ہے حالانکہ سیف بن عمر خود محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے بلکہ اس کی بابت یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ثقہ راویوں کے نام سے من گھڑت حدیثیں بیان کرتا تھا۔ ایسے کذاب ووضاع راوی کے بیان پر یہ کسی طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی علم کی قبر پر جاکر عرض گزار ہونے والے ایک صحابی بلال بن الحارث المزنی تھے؟
(3) بالخصوص جب کہ مستند اور صحیح روایات سے اکابر صحابہ نجات کا یہ طرز عمل ثابت ہے کہ انہوں نے قحط سالی کے موقعے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر استغاثہ نہیں کیا بلکہ کھلے میدان میں نماز استسقاء کا اہتمام کیا جو ایک مسنون عمل ہے اور اس میں زندہ بزرگ عمِ رسول حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔
یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ہے۔ ای طرح حضرت معاویہ بن کے زمانے میں قحط پڑا تو انہوں نے بھی ایک اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلمسے دعا کروائی۔ ان مستند واقعات اور اکابر صحابہ کے طرز عمل کے مقابلے میں ایک غیر مستند روایت اور وہ بھی خواب پر مبنی نیز مجہول شخص کے بیان کو کس طرح تعلیم کیا جاسکتا ہے؟
توحيد اور شرك كي حقيقت قرآن وحديث كي روشني ميں