• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت نماز فجر، احناف اور رمضان

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمائيں
میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں ( پڑھنے ) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا
آپ نے اجتہاد کی بات کی۔۔۔
لیکن کیا اُس وقت احناف کی جماعت موجود تھی؟؟؟۔۔۔
تو جب احناف کی جماعت اُس وقت موجود نہیں تھی تو دوسرا سوال یہ ہے کون سی جماعت اُس وقت موجود تھی۔۔۔
لہذا آج جو لوگ خود کو احناف اور دوسرا جو یہ کہتا ہے اُن کے عمل کی دلیل رب کا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرمان ہے۔۔۔
تو فیصلہ کرنا آسان ہے کہ کس کا طریقہ درست ہے کیونکہ یہ بات ہر خاص وعام جانتا ہے کہ احناف جو اجتہاد کی بات کرتے ہیں وہ خود جانتے ہیں کہ امام صاحب رائے دیتے تھے جس وجہ سے انہیں اہل رائے کا امام کہا جاتا ہے۔۔۔ لہذا ایک امام کی رائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سامنے رکھ کر قاری خود فیصلہ کرلے فھوا منھم
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
باقی غیر رمضان میں فجر کے ٹائم کا مسئلہ ہمارا موضوع نہیں ۔
آپ نے غالباً غور نہیں کیا۔ ہمارا موضوع ہی رمضان میں فجر کے اوقات میں "تبدیلی" ہے۔ نا کہ رمضان میں فجر کے اوقات کے ثبوت کے لئے دلائل۔
ان احادیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں سحری کا وقت ختم ہونے پر کتنی دیر میں فجر کی نماز ادا کی جاتی تھی اور یہی احناف کا موقف ہے ۔
رمضان میں فجر کی نماز کے وقت کے سلسلے میں شرح معانی الآثار کا مطالعہ کرلیں خصوصا جہاں فجر کی نماز کے وقت متعلق بحث ہے ، آپ کو یہ بحث مل جائے گي
تلمیذ بھائی،
پہلی بات یہ کہ یہ احادیث خود اہل حدیث کے دلائل ہیں اور آپ ہماری نماز کی کتب میں نماز فجر کے اوقات کی تعیین میں ان دلائل کا پیش کیا جانا ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ آپ شرح معانی الآثار سے یہ بحث مطالعہ کے لئے یہاں نقل کر دیں۔ یا علمائے دیوبند کی نماز کے موضوع پر کافی کتب ہیں، کسی کا حوالہ دے دیں۔ جس میں بدلائل نماز فجر کے اوقات کا رمضان و غیر رمضان میں مختلف ہونا ثابت کیا گیا ہو۔

بات یہ ہے کہ میں نے انٹرنیٹ پر پائی جانے والی احناف کی نماز کے موضوع پر کم و بیش تمام کتب کو ڈاؤن لوڈ کر کے چیک کیا ہے۔ لیکن مجھے کسی ایک میں بھی یہ صراحت نہیں مل سکی ہے کہ علمائے احناف کے نزدیک نماز فجر کو رمضان میں غلس میں ادا کرنا افضل ہے اور غیررمضان میں اسفار کر کے پڑھنا افضل ہے۔ نماز کی ہر کتاب میں نماز فجر کا افضل وقت فقط اسفار کو ہی قرار دیا گیا ہے۔ رمضان و غیر رمضان کی تفریق کسی نے نہیں کی۔

اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نماز فجر کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور طلوع آفتاب سے قبل تک رہتا ہے۔ اہل حدیث اور احناف کے مابین اصل اختلاف فقط یہ ہے کہ افضل وقت کیا ہے۔ ہمارے نزدیک غلس میں ادا کرنا افضل ہے اور ہم سارا سال یہ نماز غلس میں ہی ادا کرتے ہیں۔ احناف کے نزدیک اسفار کر کے ادا کرنا افضل ہے لیکن وہ فقط رمضان میں یہ افضل وقت چھوڑ کر غیر افضل اوقات میں ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا رمضان و غیر رمضان میں فرق کی دلیل مقصود ہے۔

یہ کم و بیش وہی صورت حال ہے جو نماز میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کے ضمن میں درپیش ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سینے پر ہاتھ باندھنے کی نسبت کرنے والی احادیث کو درست سمجھتے ہیں تو اس پر پوری طرح عمل کرتے ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ احناف ایک طرف اہل حدیث کے بالمقابل سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اور پھر عملاً ان کی آدھی آبادی سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتی ہے، جس کی کوئی الگ سے دلیل موجود ہی نہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی حدیث سے اگر تو یہ بات ثابت ہو جائے کہ رمضان و غیر رمضان میں نماز فجر کے افضل اوقات میں فرق ہے تب تو احناف کا مؤقف ثابت ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ:

1۔ اہل حدیث و احناف اس پر متفق ہیں کہ نمازوں کے اوقات میں اصل، انہیں اول وقت پر ادا کرنا ہی ہے الا یہ کہ کسی نماز کو تاخیر سے ادا کرنے کی تخصیص ہو جائے۔
2۔ احادیث میں آنے والے لفظ " اسفار " سے احناف یہ مراد لیتے ہیں کہ نماز فجر کو خوب روشن کر کے ادا کیا جائے۔
3۔ اہل حدیث اس لفظ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ جب فجر کا وقت خوب " واضح " ہو جائے یعنی صبح صادق میں کوئی ابہام نہ رہے تب نماز فجر ادا کرنی چاہئے۔

اب سحری کے بعد 50 آیات کے وقفہ والی احادیث ، اہل حدیث کے مؤقف کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ دیگر عمومی احادیث میں اسفار سے وہی مراد ہے جو اہل حدیث سمجھتے ہیں نا کہ احناف۔ کیونکہ بموجب قانون الحدیث یفسر بعضہ بعضا، سحری سے فجر کے اوقات کا تعین کرنے والی احادیث، اسفار والی دیگر احادیث کی تفسیر کرتی ہیں۔

عجیب بات یہ کہ احناف پہلے تو اسفار کی تشریح میں دیگر احادیث سے مدد نہیں لیتے، اور سارا سال غیرافضل اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں۔ اور پھر رمضان میں اہل حدیث کا مؤقف اختیار کر کے خود انہی کے دلائل کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں تو یہ اس سے زیادہ عجیب بات ہے۔ اسی لئے اردو میں نماز کے موضوع پر لکھی جانے والی کسی کتاب میں نماز فجر کے اوقات میں رمضان و غیر رمضان کی تفریق کم سے کم میری نظر سے نہیں گزری، ہو سکتا ہے میری کوتاہ نظری یا قلت مطالعہ کی بدولت ہو۔
تلمیذ بھائی ایسی کسی کتاب کی جانب رہنمائی کر کے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ ورنہ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ آپ کا انفرادی اجتہاد ہے اور خود علمائے احناف اس کی تائید نہیں کرتے جس کے آپ اثبات کے درپے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
3. کیا نبی کریمﷺ سحری صرف رمضان میں فرمایا کرتے تھے؟ غیر رمضان میں آپ بغیر سحری کے روزہ رکھ لیا کرتے تھے؟؟
جو احادیث میں نے پیش کی ہیں ان میں میں اجتماعی سحری کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ سحری کھائي اور مل کر سحری رمضان میں ہی ہوتی ہے ۔ اگر آپ کےپاس اس سحری کی غیر رمضان میں ہونے کی دلیل ہے تو پیش کریں
اجتماعی سحری سے رمضان کشید کرنا بھی درست نہیں۔ اول تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔ یہ اجتماعی سحری ایام بیض کے روزوں میں بھی ممکن ہے، اور اسی طرح شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کثرت صیام مشہور بات ہے۔ کیوں ممکن نہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شعبان میں آپ کے پاس سحری کے لئے تشریف لائے ہوں؟ جب صحابہ میں سے بعض عام راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز کے لئے تشریف لا سکتے ہیں، تو سحری ان کے ساتھ عام راتوں میں کیونکر ممکن نہیں؟

اگر آپ کےپاس اس سحری کی غیر رمضان میں ہونے کی دلیل ہے تو پیش کریں
یہ بات درست نہیں۔ آپ رمضان میں نماز فجر کے اوقات کی تبدیلی کا ثبوت دینے جا رہے ہیں، تو ان احادیث کا رمضان سے متعلق ہونے کا ثبوت بھی آپ کے ذمہ ہے۔ صرف چند صحابہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کرنے سے رمضان کا ثبوت ہر گز نہیں ہوتا۔

اور اگر برسبیل تنزل مان بھی لیا جائے کہ سحری سے نماز فجر کے اوقات کا تعین کرنے والی یہ احادیث " ماہ رمضان" کے موقع پر پیش آئیں۔ اس سے رمضان کی تخصیص ثابت نہیں ہوتی۔ یعنی جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ " صرف" رمضان مبارک میں سحری سے پچاس آیت پڑھنے میں صرف ہونے والے وقت کے بعد نماز فجر قائم ہوتی تھی، آپ کا رمضان میں تبدیلی اوقات فجر کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔
پھر، جو احادیث آپ نے پیش کی ہیں، وہ سحری کے وقت کے تعلق سے نماز فجر کے وقت کا تعین کرتی ہیں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ سحری رمضان میں ہو یا غیر رمضان میں، اس کے اوقات وہی رہتے ہیں۔ لہٰذا آپ ہی کی پیش کردہ احادیث سے رمضان و غیر رمضان میں اوقات فجر کا تعین بھی ہو جاتا ہے اور وہ وہی ہے جس پر آج اہل حدیث عمل پیرا ہیں۔ والحمدللہ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہ اب اجتھادی مسئلہ ہے ۔ ہماری مسجد میں تقریبا 15 منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے اور بعض حنفی مساجد میں 20 – 25 منٹ تک بھی وقفہ ہوتا ہے ۔ ان 50 آیات کے قرآت کو منٹوں میں تبدیل کرنا ایک اجتھادی مسئلہ جس میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ رمضان میں فجر اسفار کرکے نہیں پڑھی جاتی۔
تلمیذ بھائی! اسی بات کا تو آپ سے ثبوت مانگ رہا ہوں کہ امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد ودیگر علمائے احناف رحمہم اللہ اجمعین سے یہ ثابت کریں کہ أسفروا بالصبح والی روایت صرف غیر رمضان کیلئے ہے رمضان کیلئے نہیں۔ آپ کی بغیر دلیل ذاتی رائے کی احناف کے ہاں یا ہمارے ہاں کیا وقعت ہو سکتی ہے؟؟؟

بالکل اسی طرح اپنے ائمہ کرام سے یہ بھی ثابت کریں کہ سحری اور نماز فجر کے درمیان 50 آیتوں کے وقفہ والی روایات صرف اور صرف رمضان سے متعلق ہیں، غیر رمضان کیلئے نہیں۔

لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجئے کہ
غلس (اندھیرے) میں فجر پڑھنی والی روایات رمضان سے متعلق ہیں یا غیر رمضان سے؟؟!

حقیقت یہ ہے کہ میرے علم کی حد تک تمام محدثین کرام وفقہائے عظام﷭ نے 50 آیتوں کے وقفہ والی روایات کو عام (یعنی رمضان وغیر رمضان دونوں کیلئے) مانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کتب احادیث کا مطالعہ کرلیں، تقریباً تمام محدثین نے یا تو ان روایات کو نمازِ فجر کے (عمومی) اوقات کیلئے بیان کیا ہے یا عموماً سحری کے ابواب میں- اور اسے صرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں کیا۔
مثلاً ملاحظہ کیجئے:
امام بخاری نے اس حدیث مبارکہ کیلئے باب قائم کیا ہے: باب وقت الفجر
اسی طرح امام بخاری نے باب قائم کیا ہے: باب قدر كم بين السحور وصلاة الفجر
صحیح مسلم میں امام نووی نے اس حدیث مبارکہ کیلئے باب قائم کیا ہے: باب فضل السحور وتأكيد استحبابه واستحباب تأخيره
امام ترمذی نے باب قائم کیا ہے: باب ما جاء في تأخير السحور
امام نسائی نے باب قائم کیا ہے: باب قدر ما بين السحور وبين صلاة الصبح
امام ابن ماجہ نے باب قائم کیا ہے: باب ما جاء في تأخير السحور
امام دارمی نے باب قائم کیا ہے: باب ما يستحب من تأخير السحور

آپ غور کیجئے کسی محدث نے اسے رمضان کے ساتھ خاص نہیں کیا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غیر رمضان کی سحری کیلئے الگ احکامات ہیں؟؟!

تقلید شخصی والی تھریڈ میں نہیں معلوم آپ کا اشارہ کس طرف ہے ، اس کے متعلق تو بات اسی تھریڈ میں مناسب رہے گي ، رمضان میں فجر کی نماز کے وقت کے سلسلے میں شرح معانی الآثار کا مطالعہ کرلیں خصوصا جہاں فجر کی نماز کے وقت متعلق بحث ہے ، آپ کو یہ بحث مل جائے گي
اس تھریڈ سے مراد وہی تھریڈ ہے جہاں آپ تمام علمائے احناف کے بر خلاف ’تقلیدِ شخصی‘ سے مراد ’تقلیدِ مذہبی‘ لے رہے تھے۔

خیر!
یہ آپ کی ذمّہ داری ہے کہ آپ ’شرح معانی الآثار‘ سے امام طحاوی کی عبارت کوٹ کریں کہ انہوں نے 50 آیتوں والی اس روایت کو صرف رمضان کے ساتھ اور أسفروا بالفجر والی روایت کو غیر رمضان کے ساتھ خاص کیا ہے۔ میں منتظر ہوں!

جو احادیث میں نے پیش کی ہیں ان میں اجتماعی سحری کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ سحری کھائي اور مل کر سحری رمضان میں ہی ہوتی ہے ۔ اگر آپ کےپاس اس سحری کی غیر رمضان میں ہونے کی دلیل ہے تو پیش کریں
اب یہاں آپ پر ایک نئے دعویٰ کے ثبوت کی ذمہ داری بھی پڑ جاتی ہے۔دعویٰ آپ نے کیا ہے تو ثبوت بھی آپ کے ذمّہ ہے، میرے ذمّہ نہیں۔

درج بالا اقتباس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک اجتماعی سحری یا اجتماعی افطاری صرف رمضان میں ہو سکتی ہے؟؟؟ کیا یہی آپ کی مراد ہے؟؟؟

اگر ہاں تو اسے بھی ثابت کر دیں! شکریہ!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ابتسامہ۔ ابتسامہ
راقم الحروف کو ایسی ڈھکوسلوں والی پوسٹ سے معاف رکھیں ، اگر علمی مواد موضوع سے متعلق ہے تو شیئر کریں ورنہ ایسی لا یعنی پوسٹس صرف جذباتیت کو فروغ کو دیتی ہیں اور جذباتیت میں حق کے متعلق تحقیق نہیں ہوسکتی
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ نے اجتہاد کی بات کی۔۔۔
لیکن کیا اُس وقت احناف کی جماعت موجود تھی؟؟؟۔۔۔
تو جب احناف کی جماعت اُس وقت موجود نہیں تھی تو دوسرا سوال یہ ہے کون سی جماعت اُس وقت موجود تھی۔۔۔
لہذا آج جو لوگ خود کو احناف اور دوسرا جو یہ کہتا ہے اُن کے عمل کی دلیل رب کا قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرمان ہے۔۔۔
تو فیصلہ کرنا آسان ہے کہ کس کا طریقہ درست ہے کیونکہ یہ بات ہر خاص وعام جانتا ہے کہ احناف جو اجتہاد کی بات کرتے ہیں وہ خود جانتے ہیں کہ امام صاحب رائے دیتے تھے جس وجہ سے انہیں اہل رائے کا امام کہا جاتا ہے۔۔۔ لہذا ایک امام کی رائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سامنے رکھ کر قاری خود فیصلہ کرلے فھوا منھم
ما شاء اللہ ، کیا فہم پایا ہے آپ نے بات رمضان میں صلاہ الفجر کی وقت متعلق ہو رہی ہے اور آپ موضوع چھیڑ رہے ہیں کہ احناف کب سے ہیں اور کب سے نہیں ۔ غیر متعلق امور سے باز رہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
شاکر بھائی اور انس بھائی
آپ حضرات نے میری پوسٹ سے متعلق مختلف اقتباسات لے کر کچھ سوالات اٹھائے ہیں ۔ میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ میں ایک ایک نقطہ کے متعلق کچھ عرض کردوں
احناف کی سستی یا عوام پر شفقت
پہلا اعتراض تو یہ آیا کہ احناف فجر کے نماز کے لئیے اسفار کے وقت کو افضل سمجھتے ہیں ہیں لیکن رمضان میں اول وقت میں سہولت کے لئیے جلد نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ اس کا مجھے اقرار ہے کہ بعض حنفی افراد کا یہی موقف ہے کہ فجر کی نماز کا وقت اسفار ہی ہے خواہ رمضان ہو یا غیر رمضان ۔ ان کا کہنا ہے فجر رمضان میں اسفار کرکے پڑھی جائے گي تو کئی حضرات کی نماز قضا ہونے کا خدشہ ہے اور کئی افراد پر یہ بھاری ہوگا اور مشقت کا باعث ہو گا تو عوام کی ایک تعداد کو مشقت سے بچانے کے لئیے رمضان میں فجر اول وقت میں پڑھ لی جائے ۔ اگر یہی نظریہ مان لیا جائے کہ احناف اسی وجہ سے رمضان میں فجر اول وقت ادا کرتے ہیں تو پھر بھی رمضان میں اول وقت میں فجر پڑھنا ممدوح عمل کہلائے نہ کہ لائق ملامت ، اگر اس نظریہ کی وجہ سے احناف پر ملامت کی جائے گي تو پھر معاذ اللہ یہ اعتراض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جائے گا ۔
نماز میں لمبی قرآت کرنا باعث ثواب ہے اور افضل عمل ہے لیکن جب جماعت ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو خفیف پڑھنے کا کہا ہے تاکہ بعض نمازیوں کو مشقت سے بجایا جاسکے تو کیا یہاں آپ معاذ اللہ جماعت کی نماز کی خفیف پڑھنے کے عمل کو اسی طرح سستی سے تعبیر کریں گے جیسا آپ نے احناف کو متھم کیا ہے ۔ اس کے علاوہ کئی مثالیں اور ہیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لو لا اشق علی امتی کہ کر امت کو مشقت سے بچایا ۔
یہ بعض احناف کا موقف ہے ۔ جب کہ میں ذاتی طور پر سمجتھا ہوں کہ رمضان میں فجر اول وقت پر پڑھی جائے گي جیسا کہ میں نے پہلے کچھ دلائل دیئے اور مذید کچھ عرض کر رہا ہوں
یہ دلیل ان احناف کی نقل کی ہے جو پورا سال فجر کو اسفار کے وقت پڑھنے کو افضل جانتے ہیں لیکن پھر بھی رمضان میں فجر اول وقت پر ادا کرتے ہیں
حدیث میں بیان کردہ سحری رمضان کے متعلق ہے اس کی دلیل
احناف فجر کو غلس میں ادا کرنے کو افضل نہیں مانتے بلکہ اسفار میں فجر کی ادائیگي کو افضل کہتے ہیں ۔ (اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو اس پر بھی بات کی جاسکتی ہے لیکن في الحال یہ ہمارا موضوغ نہیں) اب اگر وہ احادیث جن میں سحری اور فجر کے درمیاں پچاس آیات کی قرات جتنا وقفہ بتایا گيا ہے تو اگر ہم اس سحری کو رمضان اور غیر رمضان دونوں پر لیتے ہیں تو پھر بہت مشکل صورت الحال ہوجائے گي ۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزہ رکھیں تو فجر کی نماز جلدی پڑھیں اور جب روزہ نہ رکھیں تو اسفار میں پڑھیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئیے کیا مشکلات ہوجائیں گي ۔ وہ تو پھر سوچتے ہوں گے ہم آج غلس کے لئیے نماز فجر میں جائيں یا اسفار میں ، ان کو کیا معلوم ہوگا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزہ رکھا ہوگا یا نہیں ۔ اس لئیے اس سحری کو رمضان کے ساتھ ہی خاص سمجھا جاسکتا ہے ۔
رمضان میں تبدیلی کی دلیل
شاکر صاحب نے رمضان میں تبدیلی کے حالہ سے دلیل مانگي ہے اور ان کی تحریر پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کہ وہ چاہ رہے ہیں کہ میں ایسی روایت پیش کروں جس میں غیر رمضان میں اسفار میں فجر پڑھنے کی بات ہو اور غیر رمضان میں جلدی فجر پڑھنے کی بات ہو ۔ محترم ، کئی شرعی احکام ایسے ہیں جہاں حکم ایک جگہ ہے اور اس سے استثناء دوسری جگہ ہے ۔ تو کیا ہر شرعی معاملہ کا حکم اور استثناء ایک جگہ نہ ہو تو کیا آپ اس استثناء کو نہ مانیں گے ؟؟؟؟؟ اس طرح تو شرعی احکام کی صورت و ہیئت باکل تبدیل ہوجائے گي اور ایک نیا مسلک بلکہ نیا دین وجود میں آجائے گا
میری رائے یا احناف کا موقف
ایک اعتراض یہ آیا جو دلائل میں نے دیے وہی امام ابو حنیفہ یا ان کے شاگرد یا حنفی فقہاء سے ثابت کروں ۔ محترم دو امور ذھن میں رکھیں ۔ ایک ہے کسی شرعی معاملہ میں فقہاء کا موقف اور ایک ہے اس موقف کی دلیل ۔ اگر میں کوئی ایسا موقف اپناؤں جو احناف کے فقہاء کرام کا موقف نہ ہو اور میں اصرار کروں کہ یہ موقف حنفی مسلک کا ہے تو میں غلطی پر ہوں گا ، مثلا میں کہوں کہ احناف سجدہ میں رفع الیدین کے قائل ہیں اور رفع الیدین کرتے ہیں تو میں غلطی پر ہوں گا کیوں احناف سجدہ کے رفع الیدین بلکہ تکبیرات الانتقال کے رفع الیدین کے قائل نہیں اور نہ یہ رفع الیدین کرتے ہیں
دوسرا امر ہے جو دلیل میں نے دی وہی دلیل امام ابو حنیفہ یا ان کے شاگردوں سے ثابت کروں ۔ محترم میرے نذدیک یہ مطالبہ غلط ہے ۔ بعض دفعہ دو مختلف افراد دو مختلف دلائل دیتے ہیں لیکن نتیجہ پر ایک ہی جگہ پہنچتے ہیں ۔ اگر میں یہی مطالبہ محدث فتوی کے حوالہ سے کروں کہ محدث فتووں میں جو فتاوی دیتے ہوئے دلیل دی گئی ہے وہ اپنے ہم مسلک کے فقہاء سے ثابت کریں تو آپ کے لئیے تو ڈبل مشکلات ہوجائيں گي کیوں کہ پہلے آپ کو وہی دلائل اپنے فقیہ سے ثابت کرنے ہوں گے اور پھر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ متعلقہ فقیہ نہ تو شافقی مسلک ہے اور نہ حنبلی مسلک بلکہ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتا ہے (ڈبل مشکلات اس لئيے ہوجائيں گي کیوں کہ میرے نذدیک اہل حدیث مسلک کے افراد ہر دور میں نہیں تھے اور اگر کسی دور میں بھی تھے تو نہ قابل بیان حد تک کم تعداد میں تھے )
میرا نظریہ ہے کہ موقف میں تو اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن دلائل میں اختلاف ہو سکتا ہے ۔ اس لئیے بعینہ انہی دلائل کو امام ابو حنیفہ یا ان کے شاگردوں سے ثابت کرنا کا مطالبہ غلط ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعینہ یہی دلائل امام ابو حنیفہ یا ان کے شاگردوں سے ثابت ہوں یا نہ ہوں اصل امر یہ کہ میں جو دلیل دے رہا ہوں وہ صحیح دلیل ہے یا نہیں
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
احناف اور اہلحدیث کے مابین نماز سے متعلق متعدد اختلافی مسائل میں اوقات نماز بھی ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے۔ خصوصیت سے نماز فجر اور نماز عصر کے اوقات میں تو سنگین اختلاف ہے۔ یہ دونوں نمازیں اہلحدیث کے ہاں بہت پہلے اول وقت میں ادا کی جاتی ہیں ، جبکہ احناف انہیں تاخیر سے ادا کرتے ہیں۔ نماز کے موضوع پر کوئی سی کتاب اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس اختلاف کا تذکرہ مل جائے گا۔

نماز ظہر کو بھی اس میں شامل کرلیں۔احناف اس نماز کو گرمیوں میں تاخیر سے پڑھتے ہیں کیونکہ حضورپاک کافرمان ہے۔ ابردوابالظہر۔اوراس حدیث کی جوتاویل امام شافعی نے کی ہے اس سے خودامام ترمذی باوجود شافعی ہونے کے متفق نہیں چنانچہ اس حدیث کو ذکر کرکے امام شافعی علیہ الرحمہ کی تاویل کا رد کیاہے۔


فی الحال، مجھے نماز فجر کے تعلق سے کچھ گفتگو کرنی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں اول وقت میں نماز پڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ ہر نماز کو اول وقت میں ہی پڑھنا بہتر ہے، الا یہ کہ کسی نماز کا استثناء ثابت ہو جائے، جیسے کہ نماز عشاء۔ اسی طرح بطور خاص نماز فجر کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے:
نماز کے اوقات کے تعلق سے اس حدیث کو یاد رکھیں جس میں ایک فرشتہ نے آکر حضورکو نمازوں کے اوقات کی تعلیم دی تھی ایک دن تمام نمازیں اول وقت میں پڑھائی اوردوسرے دن آخروقت میں اورپھرکہاکہ نمازکاوقت ان دواوقات کے درمیان ہے۔ اب سوال صرف اتناہی رہ جاتاہے کہ کس وقت کا نماز کس وقت پڑھناافضل ہے۔

حضورپاک کی حدیث ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھناافضل ہے۔احناف بھی اس کے قائل ہیں لیکن جس طرح اہل حدیث حضرات اس کو اپنے عموم پر نہیں رکھتے بلکہ بعض احادیث کی بناء پر جیسے عشاء وغیرہ کواس سے خارج سمجھتے ہیں اسی طرح احناف بھی دیگر احادیث کی بناء پر فجر ظہر اورامام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق عصر کواس سے خارج سمجھتے ہیں۔

"کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی۔۔۔۔۔۔والصبح بغلس" [صحیح بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر 560 و عام کتب حدیث]
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف نمازوں کو فلاں فلاں وقت میں پڑھا کرتے تھے اور فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔
جبکہ احناف کا موقف مفتی جمیل احمد نذیری صاحب کی زبانی یہ ہے:
"اب ان اوقات کو بیان کیا جا رہا ہے جن میں نماز پنجگانہ کو ادا کرنا مستحب اور افضل ہے۔ نماز فجر کا مستحب وقت یہ ہے کہ اسفار کر کے نماز پڑھی جائے یعنی ایسے وقت میں شروع ہو کہ روشنی خوب پھیل جائے لیکن اتنا وقت ضرور رہے کہ اگر خدانخواستہ نماز کو دہرانا پڑے تو طلوع آفتاب سے پہلے اسے مستحب طریقہ پر دہرایا جا سکے۔ رافع بن خدیج سے یہ حدیث نبوی مروی ہے کہ فجر میں خوب اجالا کرو اس لئے کہ وہ اجر کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے۔ [رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز صفحہ 58]

حقیقت یہ ہے کہ صبح سویرے اندھیرے منہ نماز پڑھنے کی جتنی بھی روایات آئی ہیں وہ فعلی ہیں یعنی حضور کا فعل نقل کیاگیاہے جب کہ اسفار کے تعلق سے جو احادیث آئی ہیں وہ قولی بھی ہیں اورفعلی بھی ہیں۔اوراصول یہ ہے کہ قول کو فعل پر ترجیح ہوتی ہے اورجہاں ایک جانب صرف فعلی احادیث ہوں اوردوسری جانب قولی اورفعلی دونوں قسم کی احادیث ہوں توقولی اورفعلی کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ یہاں پر اسفار فجر کے دلائل بیان کرنامقصود نہیں ہے بلکہ صرف اشارہ کرکے اس ضمن میں احناف کا نقطہ نظربیان کردیاگیاہے۔


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کو غلس میں پڑھنے کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کا یہی معمول رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ شریعت کی نظر میں اول وقت میں نماز فجر پڑھنی افضل ہے اور اسفار کی فضیلت والی جن روایات کا ذکر مفتی جمیل احمد نذیری صاحب نے کیا ہے ان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ صبح صادق باقاعدہ واضح و ظاہر ہو جانے پر ہی نماز فجر پڑھو، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خوب تاخیر کر کے نماز فجر پڑھو۔

صحابہ کرام میں سے متعدد اوربہیترے صحابہ کرام سے اسفار فجر بھی منقول ہے ۔جس کی تفصیل مصنف ابن ابی شیبہ مصنف عبدالرزاق اوردیگر کتابوں میں موجود ہے ۔جہاں تک خلفائے راشدین کے غلس میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے تو یہ کوئی لازمی عمل نہیں ہے ان سے ہی منقول ہے کہ بسااوقات انہوں نے فجر کی نماز اتنی طویل کی کہ لوگوں کو طلوع آفتاب کاخدشہ ہوگیا۔(دیکھئے شرح معانی الآثار)


یہاں تک تو یہ بات دلائل کی ہے۔ اور نماز کے دیگر مسائل کی طرح دلائل کے میدان میں احناف کا عمومی وطیرہ یہ ہے کہ یا تو افضل و غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے، یا پھر وہ بھی ٹھیک اور یہ بھی درست کا آزمودہ فلسفہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں اس مسئلے پر اپنے کچھ ذاتی مشاہدات کی روشنی میں ایک اور جہت سے گفتگو کرنی ہے۔

یہ بات توآپ نے کردی لیکن اس کے مضمرات پر غورنہیں کیا کہ احناف کی ضد میں اآکر حدیث رسول کا انکار کردیا۔کیونکہ یہ ثابت وصحیح حدیث ہے کہ ایک دن حضرت جبرئیل نے حضورپاک کو اول وقت نماز پڑھائی اوردوسرے دن آخر وقت اورفرمایاکہ نماز کا وقت ان دونوں کےد رمیان ہے تو اب چاہے نماز اول وقت پڑھی جائے یاآخروقت نماز اپنے وقت پر ہی ہوگی افضل اورغیرافضل ہی کا تومسئلہ رہے گا۔

مجھے اس طرح کی ذہنیت والے لوگوں سے اکثر بات کا اتفاق ہواکرتاہے جواحناف کی ضد اورمخالفت میں کسی بھی حد سے گزرنے کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کایہ طرز عمل ان کیلئے ہی نقصاندہ ہے۔ احناف کو کسی بھی قسم کا نقصان توپہنچنے سے رہا۔

دوسرے مختلف امور کے بارے میں افضل غیرافضل اوریہ بھی صحیح اوروہ بھی صحیح کی بات صرف احناف کی نہیں ہے۔ ابن تیمیہ بھی اس مسئلہ میں ہمارے ہم زبان ہیں جس کی تفصیل میں نے محدث فورم پر ایک مضمون "رسالہ الالفۃ بین المسلمین سے کچھ اقتباسات "کے عنوان سے کیاتھا۔اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حضورپاک کے اعمال میں تنوع اورصحابہ کرام کے اختلافات ہمارے لئے رحمت اورگنجائش ہیں۔اس کو آمیزہ اورفلسفہ کہہ کر دل کا بخار تونکال سکتے ہیں لیکن حقیقت سےمنہ نہیں موڑسکتے۔
http://pak.net/مطالعہ-حدیث/اختلاف-امتی-رحمۃ-کاایک-جائزہ-54908/


میرے ایک بچپن کے دوست ہیں۔ جن سے پہلے کافی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ اب بیوی بچوں کی مصروفیات میں اور خصوصاً جاب کی ٹائمنگ مختلف ہونے کی وجہ سے پورا سال ملاقات ہی نہیں ہو پاتی، سوائے رمضان کے۔ رمضان میں اکثر ہم ایک دوسرے کو فجر میں اور بعض اوقات مغرب کی نمازوں کو جاتے ہوئے راستہ میں قطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اور اکثر راہ میں دعا سلام ہو جاتی ہے۔ وہ عام سے دیوبندی ہیں
اور میری رائے میں دیوبندی علماء اور اہل علم دیوبندی عوام کی نسبت عام جاہل دیوبندی، عقائد کے معاملے میں بہت سی گمراہیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم

آپ کا کہنایہ ہے کہ دیوبندی علماء خراب ہیں دیوبندی جہلاء اچھے ہیں۔جہالت اورجاہلوں کی تعریف صرف آپ جیسے ذہین اورقابل افراد سے ہی ممکن ہے ورنہ جاہلوں کو خود بھی اپنی جہالت پر شرمندگی رہتی ہے۔ہمیں اس مسئلہ میں آپ سے طویل مناقشہ کرنانہیں ہے صرف اتناہی کہ دیناہے کہ جاہلوں اورجہالت کی تعریف کند جنس باہم جنس پرواز کے قبیل سے تونہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

[/QUOTE]
20 جولائی، 2012۔ (ماہ رمضان شروع ہونے سے ایک روز قبل ) : کراچی میں حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت تھا: 05:20 منٹ۔ اس وقت میں کراچی کے طول و عرض کی بنیاد پر پانچ منٹ کی کمی بیشی ممکن ہے۔ یہ اوقات ہمارے محلے کے دارالعلوم جامعہ عثمانیہ کے ہیں۔ گویا اسفار کی حدیث کی روشنی میں نماز فجر خوب اجالا کر کے مستحب اور افضل وقت میں ادا کی جا رہی تھی۔
21 جولائی، 2012۔ (پہلا روزہ): اور حنفی مساجد میں نمازفجر کا وقت اچانک ہی 04:50 منٹ کر دیا گیا۔ یعنی "اجر کے اعتبار سے بڑھے ہوئے اوقات" کو بھلا دیا گیا۔ بالکل یہی وقت اہلحدیث کی مساجد میں رمضان شروع ہونے سے قبل چل رہا تھا اور رمضان شروع ہوتے ہی، سارے اختلافات الحمدللہ ختم ہو گئے اور امت کے دو گروہوں میں ایک اہم مسئلہ پر اتفاق ہو گیا۔
19 اگست، 2012: (تیسواں روزہ): حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت: 05:05 منٹ۔ اور بالکل یہی وقت اہلحدیث مساجد میں بھی تھا۔
20 اگست، 2012: (عید الفطر): حنفی مساجد میں نماز کا وقت: 05:30 منٹ۔ اہلحدیث مساجد: 05:05 منٹ۔ اور اب میں اپنے دوست سے ملاقات کے لئے اگلے سال ماہ رمضان میں فجر کے اوقات میں ملاقات کا منتظر ہوں۔۔۔!
اب اس سارے سلسلے کو دیکھتے ہوئے چند سوالات ہیں جو مجھ جیسے ایکس دیوبندی، عامی کے ذہن میں آتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی ان کے جوابات ڈھونڈ دیں، تو ایک ذہنی خلش دور ہو جائے گی۔
1۔ اگر فجر کی نماز کو خوب اجالے میں پڑھنا ہی مستحب اور افضل ہے تو رمضان میں، غیر افضل اوقات میں نماز فجر کیوں ادا کی جاتی ہے؟
2۔ کیا رمضان و غیر رمضان میں اوقات فجر کی تبدیلی، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے ثابت ہے؟[/QUOTE]

بنیادی سوال یہی ہے بقیہ وقت کا ضیاع ہے۔
شاکر صاحب کہتے ہیں کہ احناف کی جانب سے غلس میں نماز فجر پڑھنے والوں کی تردید میں صفحات کے صفحات کالے کئے جاتے ہیں۔ احناف کی جانب سے توصفحات کالے کئے جاتے ہیں لیکن غیرمقلدین یااہل حدیث کی جانب سے کون سا صفحات روشن کئے جاتے ہیں ۔ہم نے ان حضرات کی جتنی بھی کتابیں پڑھیں اوردیکھی ہیں سب کالی روشنائی سے ہی لکھی ہوئی ملی ہے(ابتسامہ)

کچھ باتیں ذہن میں رہیں تو بہت بہتررہے گا۔

فجر کی نماز کا افضل وقت کیاہے۔ واضح رہے افضل وقت ۔

نماز چاہے غلس یعنی اندھیرے میں اداکی جائے یاصبح کے روشن ہونے کے بعد نماز اداہوجاتی ہے۔ اس میں غیرمقلدین اوراحناف دونوں متفق ہیں۔اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ افضل وقت کون ساہے۔

صحابہ کرام اورتابعین عظام میں سے ایک جماعت کا رجحان رہاہے کہ منہ اندھیرے میں نماز فجر اداکرناافضل ہے۔امام ترمذی حدیث تغلیس کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں۔

وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، يَسْتَحِبُّونَ التَّغْلِيسَ بِصَلَاةِ الفَجْرِ(ترمذی1/287)
غلس کی طرح ہی اسفار میں نماز فجر اداکرنے والے قائلین کی بھی ایک متعدبہ تعداد رہی ہے۔امام ترمذی حدیث اسفار بالفجر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ: الإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الفَجْرِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ "(سنن الترمذی1/88)
چونکہ یہاں پر دونوں مسلک کے دلائل کا ذکر کرنامقصود نہیں ہے صرف اتنابتانامقصود ہے کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام میں سے ایک بڑی جماعت نے ان دونوں پر عمل کیاہے۔

امام طحاوی نے دونوں طرف کی احادیث کودیکھتے ہوئے اورصحابہ کرام اورخلفائے راشدین کے طرزعمل کو دیکھتے ہوئے کہ وہ فجر کی نماز میں لمبی لمبی سورتیں جیسے سورہ بقرہ،آل عمران،سورہ یوسف اوراسی جیسی طویل سورتیں پڑھاکرتے تھے،یہ رائے اختیار کی ہے کہ فجر کی نماز توشروع غلس میں کیاجائے لیکن ختم اسفار میں کیاجائے۔ جس سے دونوں حدیثوں پر عمل ممکن ہوجائے گا۔(تفصیل اوردلائل کیلئے دیکھئے شرح معانی الآثار)

فقہائے کرام نے مسائل کے استنباط اوراستخراج میں بلکہ اسلامی شریعت میں ایک نہایت مہتمم بالشان چیز مقاصد شریعت ہے۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو شریعت کی حکمت کو ملحوظ رکھنا کہ شریعت کے فلاں حکم سے کیامقصد ہے اورشریعت کی روح کوسمجھنااورالفاظ سے گزرکر حقیقت تک پہنچنا۔فقہائے کرام نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے اورشاطبی نے الموافقات میں اس پر بڑی تفصٰلی اورمعنی خیز بحث کی ہے۔مقاصد شریعت پر اہم بحث علامہ قرافی نے بھی کی ہے اوردورآخر میں حضرت شاہ ولی اللہ نے جس طرح مقاصد شریعت کو سمجھااورسمجھایاہے وہ انہی کا حصہ ہے۔(یہ واضح رہے کہ حکمت شریعت اورروح شریعت پرامام غزالی نےبھی الاحیاء میں بہت نفیس کلام کیاہے )

نمازکے وقت کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ کا نقطہ نظریہ رہاہے کہ نماز کی افضل وقت کے سلسلہ میں احادیث میں اختلاف ہے تووہ وقت افضل ہوگاجس میں لوگوں کو آسانی ہو اورزیادہ سے زیادہ لوگ مسجد پہنچ سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے فجر کی نماز میں اسفار کو پسند کیاکہ اس میں لوگوں کیلئے تیسیر بھی ہے اورتکثیر جماعت کا زیادہ امکان بھی ہے۔ ظہر کی نماز کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ نے ڈن ڈھلنے پر پڑھاجاناافضل قراردیاہے اس کی تائید حدیث سےبھی ہوتی ہے اورلوگوں کو بھی آسانی ہے کیونکہ پورے دوپہر میں ظہر کیلئے گھر سے نکلنامشکل ہوتاہے۔عصر کی نماز میں بھی امام ابوحنیفہ نے مثلین کا وقت پسند کیاہے تاکہ لوگ نماز پڑھنے،آرام کرنے کے بعد آرام سے نماز میں شرکت کرسکیں۔عشاء کاوقت امام ابوحنیفہ نے تھوڑادیرسےپسند کیاہے تاکہ لوگ کام کاج سے فارغ ہوکر سہولت سے نماز کیلئے جمع ہوسکیں۔(ہرایک کی تائید کیلئے احادیث موجود ہیں)

ان تمام امور سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ امام ابوحنیفہ کا نقظہ یہ رہاہے کہ نماز کے سلسلہ میں افضل وقت(اگراحادیث مختلف ہوں)تو وہ وقت ہوگاجس میں لوگوں کیلئے تیسیر ہواورتکثیر جماعت کا امکان ہو۔

ہوسکتاہے کہ انس نظرصاحب اورشاکرصاحب یہ بحث شروع کردیں کہ یہ تمہاری ذاتی رائے ہے ہم نہیں مانتے لہذا فقہائے احناف کےبھی ہم کچھ اقوال پیش کردیتے ہیں تاکہ ان کو یہ بات تسلیم کرنے میں آسانی ہوسکے۔

امام سرخسی اپنی مایہ ناز کتاب المبسوط میں لکھتے ہیں۔
» وَلِأَنَّ فِي الْإِسْفَارِ تَكْثِيرَ الْجَمَاعَةِ وَفِي التَّغْلِيسِ تَقْلِيلَهَا، وَمَا يُؤَدِّي إلَى تَكْثِيرِ الْجَمَاعَةِ فَهُوَ أَفْضَلُ (المبسوط للسرخسی1/146)
اسی طرح دوسرے ظہر کی نماز کے سلسلے میں ابراد اورتاخیر کی مصلحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لِأَنَّ فِي التَّعْجِيلِ فِي الصَّيْفِ تَقْلِيلَ الْجَمَاعَاتِ وَإِضْرَارًا بِالنَّاسِ(المبسوط للسرخسی
اسی طرح انہوں نے عصر اورعشاء کے بارے میں بھی لکھاہے۔
حافظ عینی البنایہ شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں۔
ولأن في الإسفار تكثير الجماعة وتوسع الحلال على النائم والضعيف في إدراك فضل الجماعة فكان أفضل وأولى.
(البنایہ شرح الھدایہ2/37)
اس کے علاوہ مزید حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں ۔لیکن اسی پر اکتفاء کیاجاتاہے۔

اب غورکریں۔

اگرعا م دنوں میں عوام الناس کیلئے سہولت،آسانی اورتکثیر جماعت اسفار بالفجر میں ہے تو رمضان کے مہینے میں عوام الناس کی سہولت اورتکثیر بالجماعۃکا زیادہ امکان اس میں ہے کہ سحری کے کچھ دیر بعد نماز پڑھ لی جائے۔ ورنہ لوگ سستی اورلاپرواہی برتنے لگیں گے اورنیند کی تھکان غالب ہونے لگے گی۔بالخصوص جب کہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سحری تناول فرمانے کے بعد پچاس آیتوں کے بقدر رکتے پھر نماز فجر اداکرتے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگرانسان روح شریعت کو سمجھے اورعمل کرے تو بہت سارے توہمات کا خاتمہ ہوجائے۔نماز میں طویل قیام کرنابہترہے لیکن جماعت کی نماز میں ضعیف اورعورتوں کاخیال کرتے ہوئے حکم دیاگیاکہ ہلکی نماز پڑھائی جائے۔ایک مرتبہ حضورپاک فجر کی نماز پڑھارہے تھے کہ کسی بچے کی رونے کی آواز کانوں میں پڑی تو بچے کی ماں کاخیال کرتے ہوئے کہ اس کو اس کے رونے سے تکلیف ہورہی ہوگی نماز مختصر کردی۔

اگرانہی نظائر اورمثالوں کو دیکھتے ہوئے احناف نے عمومی طورپر اسفار کی افضیلت کا قائل ہوتے ہوئے اورروح شریعت کاخیال کرتے ہوئے رمضان میں سحری کے فوری بعد یاغلس میں نماز پڑھنے کو اپنایاہے تویہ نہ کوئی تضادہے اورنہ کوئی دورخاعمل ۔بلکہ روح شریعت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ہاں جن لوگوں کی سمجھ اورفہم ظاہریت تک محدود ہے اور وہ موتی کے بجائے صرف سیپی کے خواہاں اورخواہشمند ہیں ت وہ علامہ قرافی کا یہ ارشاد سنیں۔
الجمود علی المنقولات ابداضلال فی الدین وجھل بمقاصد العلماء المسلمین والسلف الماضین(اعلام الموقعین 2/15
منقولات پر ہمیشہ جمود اختیار کرنا دین میں گمراہی کا پیش خیمہ ہے اورعلماء مسلمین اوراسلاف کے مقاصد شرعیہ کے فہم سے جہالت کا ثبوت ہے۔

4۔ تقلید شخصی کی تائید میں ایک عجیب بودی سی دلیل یہ بھی کئی کتب میں مطالعہ کرنے کو ملی کہ اگر تقلید کو غیر معین رہنے دیا جائے، تو ہر شخص اپنی مرضی کے فتاویٰ پر عمل کرتا رہے گا، جہاں سہولت ملی اسی کا مسلک اختیار کر لیا۔ اور اہلحدیث کو بھی اسی خود ساختہ الزام کے تحت مطعون کیا جاتا ہے کہ سہل مسائل کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر یہی اعتراض کریں کہ سارا سال چونکہ نماز فجر کے لئے جلدی اٹھنا مشکل ہے، اسی لئے اسے حتی الامکان آخر وقت پر ادا کیا جاتا ہے اور چونکہ رمضان میں سحری کے بعد زیادہ دیر تک جاگتے رہنا مشکل ہے، اسی لئے اسے اول وقت میں ادا کر کے فراغت حاصل کی جاتی ہے، تو معلوم نہیں اس کا کیا جواب ہوگا؟

آپ نے بات صحیح کی ہے لیکن نتیجہ غلط نکالاہے۔ تیسیر اورتکثیر جماعت شریعت کے مقاصد میں سے ہے اوراس کا خیال حضورپاک نےبھی رکھاہے لہذا اس کوخواہش نفس قراردینانہ صرف اپنے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اپنے ایمان اوردین کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔

تقلید معین کی یہ دلیل کہ غیرمتعین میں ہرشخص اپناراگ الاپے گاکوئی غیرواقعی بات نہیں ہے۔اس کا اعتراف مولاناحسین بٹالوی نے بھی کیاہے اوراہل حدیث بننے کے بعد جن لوگوں نے قادیانی فرقہ میں شمولیت اختیار کی یاپھر منکر حدیث بنے یاپھر دین وشریعت کے بہت سے اصول کا ہی انکار کردیا اس کیلئے ماضی کی تاریخ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔
یہ بات کہ غیرمعین میں ہرشخص کو من مانی کی آزادی مل جاتی ہے اوراس سے بچناچاہئے۔ دیگر علمائے عظام نے بھی یہ بات کہی ہے۔اگرکبھی وقت موقع اورفرصت ہوتو تقلید کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں اس کا مطالعہ کرلیں۔ شاہ ولی اللہ نے بھی چار مذہب کے دائرہ سے باہر نکلنے کومنع کیاہے اوربرصغیر کے باشندوں کے حق میں یہ بہترسمجھاہے کہ وہ فقہ حنفی کو اپنائیں۔بہرحال اس پر بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ تھریڈ کا موضوع نہیں ہے اورذیلی موضوع پر زیادہ توجہ دینے سے اصل موضوع گم ہوجاتاہے۔

اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ ہمیں بلاتعصب حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ اور کتاب و سنت کو اپنے تابع بنانے کے لئے باطل تاویلات کے بجائے، ماانزل اللہ کی وسعت قلب کے ساتھ اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ہماری بھی دعاہے کہ اللہ حق کو حق اورباطل کو باطل سمجھنے والی فہم عنایت کرے اورحق کے پردے میں باطل اورباطل کے پردے میں حق کو دیکھنے والی بصیرت نصیب کرے،علماء ماضی کا احترام کرنے کی توفیق دے۔ والسلام
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
غیر رمضان میں احناف جو فجر تاخیر سے پڑھتے ہیں وہ یہاں موضوع نہیں، یہاں موضوع ہے کہ احناف رمضان میں فجر اول وقت کیوں پڑھتے ہیں
جی نہیں یہاں دونوں موضوع ہے غیر رمضان میں تاخیر اور رمضان میں تعجیل
 
Top