السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
احناف اور اہلحدیث کے مابین نماز سے متعلق متعدد اختلافی مسائل میں اوقات نماز بھی ایک اہم اختلافی مسئلہ ہے۔ خصوصیت سے نماز فجر اور نماز عصر کے اوقات میں تو سنگین اختلاف ہے۔ یہ دونوں نمازیں اہلحدیث کے ہاں بہت پہلے اول وقت میں ادا کی جاتی ہیں ، جبکہ احناف انہیں تاخیر سے ادا کرتے ہیں۔ نماز کے موضوع پر کوئی سی کتاب اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس اختلاف کا تذکرہ مل جائے گا۔
نماز ظہر کو بھی اس میں شامل کرلیں۔احناف اس نماز کو گرمیوں میں تاخیر سے پڑھتے ہیں کیونکہ حضورپاک کافرمان ہے۔
ابردوابالظہر۔اوراس حدیث کی جوتاویل امام شافعی نے کی ہے اس سے خودامام ترمذی باوجود شافعی ہونے کے متفق نہیں چنانچہ اس حدیث کو ذکر کرکے امام شافعی علیہ الرحمہ کی تاویل کا رد کیاہے۔
فی الحال، مجھے نماز فجر کے تعلق سے کچھ گفتگو کرنی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں اول وقت میں نماز پڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ ہر نماز کو اول وقت میں ہی پڑھنا بہتر ہے، الا یہ کہ کسی نماز کا استثناء ثابت ہو جائے، جیسے کہ نماز عشاء۔ اسی طرح بطور خاص نماز فجر کے متعلق صحیح بخاری کی حدیث ہے:
نماز کے اوقات کے تعلق سے اس حدیث کو یاد رکھیں جس میں ایک فرشتہ نے آکر حضورکو نمازوں کے اوقات کی تعلیم دی تھی ایک دن تمام نمازیں اول وقت میں پڑھائی اوردوسرے دن آخروقت میں اورپھرکہاکہ نمازکاوقت ان دواوقات کے درمیان ہے۔ اب سوال صرف اتناہی رہ جاتاہے کہ کس وقت کا نماز کس وقت پڑھناافضل ہے۔
حضورپاک کی حدیث ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھناافضل ہے۔احناف بھی اس کے قائل ہیں لیکن جس طرح اہل حدیث حضرات اس کو اپنے عموم پر نہیں رکھتے بلکہ بعض احادیث کی بناء پر جیسے عشاء وغیرہ کواس سے خارج سمجھتے ہیں اسی طرح احناف بھی دیگر احادیث کی بناء پر فجر ظہر اورامام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق عصر کواس سے خارج سمجھتے ہیں۔
"کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی۔۔۔۔۔۔والصبح بغلس" [صحیح بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر 560 و عام کتب حدیث]
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف نمازوں کو فلاں فلاں وقت میں پڑھا کرتے تھے اور فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔
جبکہ احناف کا موقف مفتی جمیل احمد نذیری صاحب کی زبانی یہ ہے:
"اب ان اوقات کو بیان کیا جا رہا ہے جن میں نماز پنجگانہ کو ادا کرنا مستحب اور افضل ہے۔ نماز فجر کا مستحب وقت یہ ہے کہ اسفار کر کے نماز پڑھی جائے یعنی ایسے وقت میں شروع ہو کہ روشنی خوب پھیل جائے لیکن اتنا وقت ضرور رہے کہ اگر خدانخواستہ نماز کو دہرانا پڑے تو طلوع آفتاب سے پہلے اسے مستحب طریقہ پر دہرایا جا سکے۔ رافع بن خدیج سے یہ حدیث نبوی مروی ہے کہ فجر میں خوب اجالا کرو اس لئے کہ وہ اجر کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے۔ [رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز صفحہ 58]
حقیقت یہ ہے کہ صبح سویرے اندھیرے منہ نماز پڑھنے کی جتنی بھی روایات آئی ہیں وہ فعلی ہیں یعنی حضور کا فعل نقل کیاگیاہے جب کہ اسفار کے تعلق سے جو احادیث آئی ہیں وہ قولی بھی ہیں اورفعلی بھی ہیں۔اوراصول یہ ہے کہ قول کو فعل پر ترجیح ہوتی ہے اورجہاں ایک جانب صرف فعلی احادیث ہوں اوردوسری جانب قولی اورفعلی دونوں قسم کی احادیث ہوں توقولی اورفعلی کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ یہاں پر اسفار فجر کے دلائل بیان کرنامقصود نہیں ہے بلکہ صرف اشارہ کرکے اس ضمن میں احناف کا نقطہ نظربیان کردیاگیاہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کو غلس میں پڑھنے کا معمول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کا یہی معمول رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ شریعت کی نظر میں اول وقت میں نماز فجر پڑھنی افضل ہے اور اسفار کی فضیلت والی جن روایات کا ذکر مفتی جمیل احمد نذیری صاحب نے کیا ہے ان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ صبح صادق باقاعدہ واضح و ظاہر ہو جانے پر ہی نماز فجر پڑھو، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خوب تاخیر کر کے نماز فجر پڑھو۔
صحابہ کرام میں سے متعدد اوربہیترے صحابہ کرام سے اسفار فجر بھی منقول ہے ۔جس کی تفصیل مصنف ابن ابی شیبہ مصنف عبدالرزاق اوردیگر کتابوں میں موجود ہے ۔جہاں تک خلفائے راشدین کے غلس میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے تو یہ کوئی لازمی عمل نہیں ہے ان سے ہی منقول ہے کہ بسااوقات انہوں نے فجر کی نماز اتنی طویل کی کہ لوگوں کو طلوع آفتاب کاخدشہ ہوگیا۔(دیکھئے شرح معانی الآثار)
یہاں تک تو یہ بات دلائل کی ہے۔ اور نماز کے دیگر مسائل کی طرح دلائل کے میدان میں احناف کا عمومی وطیرہ یہ ہے کہ یا تو افضل و غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے، یا پھر وہ بھی ٹھیک اور یہ بھی درست کا آزمودہ فلسفہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں اس مسئلے پر اپنے کچھ ذاتی مشاہدات کی روشنی میں ایک اور جہت سے گفتگو کرنی ہے۔
یہ بات توآپ نے کردی لیکن اس کے مضمرات پر غورنہیں کیا کہ احناف کی ضد میں اآکر حدیث رسول کا انکار کردیا۔کیونکہ ی
ہ ثابت وصحیح حدیث ہے کہ ایک دن حضرت جبرئیل نے حضورپاک کو اول وقت نماز پڑھائی اوردوسرے دن آخر وقت اورفرمایاکہ نماز کا وقت ان دونوں کےد رمیان ہے تو اب چاہے نماز اول وقت پڑھی جائے یاآخروقت نماز اپنے وقت پر ہی ہوگی افضل اورغیرافضل ہی کا تومسئلہ رہے گا۔
مجھے اس طرح کی ذہنیت والے لوگوں سے اکثر بات کا اتفاق ہواکرتاہے جواحناف کی ضد اورمخالفت میں کسی بھی حد سے گزرنے کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان کایہ طرز عمل ان کیلئے ہی نقصاندہ ہے۔ احناف کو کسی بھی قسم کا نقصان توپہنچنے سے رہا۔
دوسرے مختلف امور کے بارے میں افضل غیرافضل اوریہ بھی صحیح اوروہ بھی صحیح کی بات صرف احناف کی نہیں ہے۔ ابن تیمیہ بھی اس مسئلہ میں ہمارے ہم زبان ہیں جس کی تفصیل میں نے محدث فورم پر ایک مضمون "رسالہ الالفۃ بین المسلمین سے کچھ اقتباسات "کے عنوان سے کیاتھا۔اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حضورپاک کے اعمال میں تنوع اورصحابہ کرام کے اختلافات ہمارے لئے رحمت اورگنجائش ہیں۔اس کو آمیزہ اورفلسفہ کہہ کر دل کا بخار تونکال سکتے ہیں لیکن حقیقت سےمنہ نہیں موڑسکتے۔
http://pak.net/مطالعہ-حدیث/اختلاف-امتی-رحمۃ-کاایک-جائزہ-54908/
میرے ایک بچپن کے دوست ہیں۔ جن سے پہلے کافی ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ اب بیوی بچوں کی مصروفیات میں اور خصوصاً جاب کی ٹائمنگ مختلف ہونے کی وجہ سے پورا سال ملاقات ہی نہیں ہو پاتی، سوائے رمضان کے۔ رمضان میں اکثر ہم ایک دوسرے کو فجر میں اور بعض اوقات مغرب کی نمازوں کو جاتے ہوئے راستہ میں قطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اور اکثر راہ میں دعا سلام ہو جاتی ہے۔ وہ عام سے دیوبندی ہیں
اور میری رائے میں دیوبندی علماء اور اہل علم دیوبندی عوام کی نسبت عام جاہل دیوبندی، عقائد کے معاملے میں بہت سی گمراہیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ واللہ اعلم
آپ کا کہنایہ ہے کہ دیوبندی علماء خراب ہیں دیوبندی جہلاء اچھے ہیں۔جہالت اورجاہلوں کی تعریف صرف آپ جیسے ذہین اورقابل افراد سے ہی ممکن ہے ورنہ جاہلوں کو خود بھی اپنی جہالت پر شرمندگی رہتی ہے۔ہمیں اس مسئلہ میں آپ سے طویل مناقشہ کرنانہیں ہے صرف اتناہی کہ دیناہے کہ جاہلوں اورجہالت کی تعریف
کند جنس باہم جنس پرواز کے قبیل سے تونہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
[/QUOTE]
20 جولائی، 2012۔ (ماہ رمضان شروع ہونے سے ایک روز قبل ) : کراچی میں حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت تھا: 05:20 منٹ۔ اس وقت میں کراچی کے طول و عرض کی بنیاد پر پانچ منٹ کی کمی بیشی ممکن ہے۔ یہ اوقات ہمارے محلے کے دارالعلوم جامعہ عثمانیہ کے ہیں۔ گویا اسفار کی حدیث کی روشنی میں نماز فجر خوب اجالا کر کے مستحب اور افضل وقت میں ادا کی جا رہی تھی۔
21 جولائی، 2012۔ (پہلا روزہ): اور حنفی مساجد میں نمازفجر کا وقت اچانک ہی 04:50 منٹ کر دیا گیا۔ یعنی "اجر کے اعتبار سے بڑھے ہوئے اوقات" کو بھلا دیا گیا۔ بالکل یہی وقت اہلحدیث کی مساجد میں رمضان شروع ہونے سے قبل چل رہا تھا اور رمضان شروع ہوتے ہی، سارے اختلافات الحمدللہ ختم ہو گئے اور امت کے دو گروہوں میں ایک اہم مسئلہ پر اتفاق ہو گیا۔
19 اگست، 2012: (تیسواں روزہ): حنفی مساجد میں نماز فجر کا وقت: 05:05 منٹ۔ اور بالکل یہی وقت اہلحدیث مساجد میں بھی تھا۔
20 اگست، 2012: (عید الفطر): حنفی مساجد میں نماز کا وقت: 05:30 منٹ۔ اہلحدیث مساجد: 05:05 منٹ۔ اور اب میں اپنے دوست سے ملاقات کے لئے اگلے سال ماہ رمضان میں فجر کے اوقات میں ملاقات کا منتظر ہوں۔۔۔!
اب اس سارے سلسلے کو دیکھتے ہوئے چند سوالات ہیں جو مجھ جیسے ایکس دیوبندی، عامی کے ذہن میں آتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی ان کے جوابات ڈھونڈ دیں، تو ایک ذہنی خلش دور ہو جائے گی۔
1۔ اگر فجر کی نماز کو خوب اجالے میں پڑھنا ہی مستحب اور افضل ہے تو رمضان میں، غیر افضل اوقات میں نماز فجر کیوں ادا کی جاتی ہے؟
2۔ کیا رمضان و غیر رمضان میں اوقات فجر کی تبدیلی، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال سے ثابت ہے؟[/QUOTE]
بنیادی سوال یہی ہے بقیہ وقت کا ضیاع ہے۔
شاکر صاحب کہتے ہیں کہ احناف کی جانب سے غلس میں نماز فجر پڑھنے والوں کی تردید میں صفحات کے صفحات کالے کئے جاتے ہیں۔ احناف کی جانب سے توصفحات کالے کئے جاتے ہیں لیکن غیرمقلدین یااہل حدیث کی جانب سے کون سا صفحات روشن کئے جاتے ہیں ۔ہم نے ان حضرات کی جتنی بھی کتابیں پڑھیں اوردیکھی ہیں سب کالی روشنائی سے ہی لکھی ہوئی ملی ہے(ابتسامہ)
کچھ باتیں ذہن میں رہیں تو بہت بہتررہے گا۔
فجر کی نماز کا افضل وقت کیاہے۔ واضح رہے افضل وقت ۔
نماز چاہے غلس یعنی اندھیرے میں اداکی جائے یاصبح کے روشن ہونے کے بعد نماز اداہوجاتی ہے۔ اس میں غیرمقلدین اوراحناف دونوں متفق ہیں۔اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ افضل وقت کون ساہے۔
صحابہ کرام اورتابعین عظام میں سے ایک جماعت کا رجحان رہاہے کہ منہ اندھیرے میں نماز فجر اداکرناافضل ہے۔امام ترمذی حدیث تغلیس کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں۔
وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، يَسْتَحِبُّونَ التَّغْلِيسَ بِصَلَاةِ الفَجْرِ(ترمذی1/287)
غلس کی طرح ہی اسفار میں نماز فجر اداکرنے والے قائلین کی بھی ایک متعدبہ تعداد رہی ہے۔امام ترمذی حدیث اسفار بالفجر ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ: الإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الفَجْرِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ "(سنن الترمذی1/88)
چونکہ یہاں پر دونوں مسلک کے دلائل کا ذکر کرنامقصود نہیں ہے صرف اتنابتانامقصود ہے کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام میں سے ایک بڑی جماعت نے ان دونوں پر عمل کیاہے۔
امام طحاوی نے دونوں طرف کی احادیث کودیکھتے ہوئے اورصحابہ کرام اورخلفائے راشدین کے طرزعمل کو دیکھتے ہوئے کہ وہ فجر کی نماز میں لمبی لمبی سورتیں جیسے سورہ بقرہ،آل عمران،سورہ یوسف اوراسی جیسی طویل سورتیں پڑھاکرتے تھے،یہ رائے اختیار کی ہے کہ فجر کی نماز توشروع غلس میں کیاجائے لیکن ختم اسفار میں کیاجائے۔ جس سے دونوں حدیثوں پر عمل ممکن ہوجائے گا۔(تفصیل اوردلائل کیلئے دیکھئے شرح معانی الآثار)
فقہائے کرام نے مسائل کے استنباط اوراستخراج میں بلکہ اسلامی شریعت میں ایک نہایت مہتمم بالشان چیز
مقاصد شریعت ہے۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو شریعت کی حکمت کو ملحوظ رکھنا کہ شریعت کے فلاں حکم سے کیامقصد ہے اورشریعت کی روح کوسمجھنااورالفاظ سے گزرکر حقیقت تک پہنچنا۔فقہائے کرام نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے اورشاطبی نے الموافقات میں اس پر بڑی تفصٰلی اورمعنی خیز بحث کی ہے۔مقاصد شریعت پر اہم بحث علامہ قرافی نے بھی کی ہے اوردورآخر میں حضرت شاہ ولی اللہ نے جس طرح مقاصد شریعت کو سمجھااورسمجھایاہے وہ انہی کا حصہ ہے۔(یہ واضح رہے کہ حکمت شریعت اورروح شریعت پرامام غزالی نےبھی الاحیاء میں بہت نفیس کلام کیاہے )
نمازکے وقت کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ کا نقطہ نظریہ رہاہے کہ نماز کی افضل وقت کے سلسلہ میں احادیث میں اختلاف ہے تووہ وقت افضل ہوگاجس میں لوگوں کو آسانی ہو اورزیادہ سے زیادہ لوگ مسجد پہنچ سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے فجر کی نماز میں اسفار کو پسند کیاکہ اس میں لوگوں کیلئے تیسیر بھی ہے اورتکثیر جماعت کا زیادہ امکان بھی ہے۔ ظہر کی نماز کے سلسلہ میں امام ابوحنیفہ نے ڈن ڈھلنے پر پڑھاجاناافضل قراردیاہے اس کی تائید حدیث سےبھی ہوتی ہے اورلوگوں کو بھی آسانی ہے کیونکہ پورے دوپہر میں ظہر کیلئے گھر سے نکلنامشکل ہوتاہے۔عصر کی نماز میں بھی امام ابوحنیفہ نے مثلین کا وقت پسند کیاہے تاکہ لوگ نماز پڑھنے،آرام کرنے کے بعد آرام سے نماز میں شرکت کرسکیں۔عشاء کاوقت امام ابوحنیفہ نے تھوڑادیرسےپسند کیاہے تاکہ لوگ کام کاج سے فارغ ہوکر سہولت سے نماز کیلئے جمع ہوسکیں۔(ہرایک کی تائید کیلئے احادیث موجود ہیں)
ان تمام امور سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ امام ابوحنیفہ کا نقظہ یہ رہاہے کہ نماز کے سلسلہ میں افضل وقت(اگراحادیث مختلف ہوں)تو وہ وقت ہوگاجس میں لوگوں کیلئے تیسیر ہواورتکثیر جماعت کا امکان ہو۔
ہوسکتاہے کہ انس نظرصاحب اورشاکرصاحب یہ بحث شروع کردیں کہ یہ تمہاری ذاتی رائے ہے ہم نہیں مانتے لہذا فقہائے احناف کےبھی ہم کچھ اقوال پیش کردیتے ہیں تاکہ ان کو یہ بات تسلیم کرنے میں آسانی ہوسکے۔
امام سرخسی اپنی مایہ ناز کتاب المبسوط میں لکھتے ہیں۔
» وَلِأَنَّ فِي الْإِسْفَارِ تَكْثِيرَ الْجَمَاعَةِ وَفِي التَّغْلِيسِ تَقْلِيلَهَا، وَمَا يُؤَدِّي إلَى تَكْثِيرِ الْجَمَاعَةِ فَهُوَ أَفْضَلُ (المبسوط للسرخسی1/146)
اسی طرح دوسرے ظہر کی نماز کے سلسلے میں ابراد اورتاخیر کی مصلحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لِأَنَّ فِي التَّعْجِيلِ فِي الصَّيْفِ تَقْلِيلَ الْجَمَاعَاتِ وَإِضْرَارًا بِالنَّاسِ(المبسوط للسرخسی
اسی طرح انہوں نے عصر اورعشاء کے بارے میں بھی لکھاہے۔
حافظ عینی البنایہ شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں۔
ولأن في الإسفار تكثير الجماعة وتوسع الحلال على النائم والضعيف في إدراك فضل الجماعة فكان أفضل وأولى.
(البنایہ شرح الھدایہ2/37)
اس کے علاوہ مزید حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں ۔لیکن اسی پر اکتفاء کیاجاتاہے۔
اب غورکریں۔
اگرعا م دنوں میں عوام الناس کیلئے سہولت،آسانی اورتکثیر جماعت
اسفار بالفجر میں ہے تو رمضان کے مہینے میں عوام الناس کی سہولت اورتکثیر بالجماعۃکا زیادہ امکان اس میں ہے کہ سحری کے کچھ دیر بعد نماز پڑھ لی جائے۔ ورنہ لوگ سستی اورلاپرواہی برتنے لگیں گے اورنیند کی تھکان غالب ہونے لگے گی۔بالخصوص جب کہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سحری تناول فرمانے کے بعد پچاس آیتوں کے بقدر رکتے پھر نماز فجر اداکرتے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگرانسان روح شریعت کو سمجھے اورعمل کرے تو بہت سارے توہمات کا خاتمہ ہوجائے۔نماز میں طویل قیام کرنابہترہے لیکن جماعت کی نماز میں ضعیف اورعورتوں کاخیال کرتے ہوئے حکم دیاگیاکہ ہلکی نماز پڑھائی جائے۔ایک مرتبہ حضورپاک فجر کی نماز پڑھارہے تھے کہ کسی بچے کی رونے کی آواز کانوں میں پڑی تو بچے کی ماں کاخیال کرتے ہوئے کہ اس کو اس کے رونے سے تکلیف ہورہی ہوگی نماز مختصر کردی۔
اگرانہی نظائر اورمثالوں کو دیکھتے ہوئے احناف نے عمومی طورپر اسفار کی افضیلت کا قائل ہوتے ہوئے اورروح شریعت کاخیال کرتے ہوئے رمضان میں سحری کے فوری بعد یاغلس میں نماز پڑھنے کو اپنایاہے تویہ نہ کوئی تضادہے اورنہ کوئی دورخاعمل ۔بلکہ روح شریعت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ہاں جن لوگوں کی سمجھ اورفہم ظاہریت تک محدود ہے اور وہ موتی کے بجائے صرف سیپی کے خواہاں اورخواہشمند ہیں ت وہ علامہ قرافی کا یہ ارشاد سنیں۔
الجمود علی المنقولات ابداضلال فی الدین وجھل بمقاصد العلماء المسلمین والسلف الماضین(اعلام الموقعین 2/15
منقولات پر ہمیشہ جمود اختیار کرنا دین میں گمراہی کا پیش خیمہ ہے اورعلماء مسلمین اوراسلاف کے مقاصد شرعیہ کے فہم سے جہالت کا ثبوت ہے۔
4۔ تقلید شخصی کی تائید میں ایک عجیب بودی سی دلیل یہ بھی کئی کتب میں مطالعہ کرنے کو ملی کہ اگر تقلید کو غیر معین رہنے دیا جائے، تو ہر شخص اپنی مرضی کے فتاویٰ پر عمل کرتا رہے گا، جہاں سہولت ملی اسی کا مسلک اختیار کر لیا۔ اور اہلحدیث کو بھی اسی خود ساختہ الزام کے تحت مطعون کیا جاتا ہے کہ سہل مسائل کو اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم پلٹ کر یہی اعتراض کریں کہ سارا سال چونکہ نماز فجر کے لئے جلدی اٹھنا مشکل ہے، اسی لئے اسے حتی الامکان آخر وقت پر ادا کیا جاتا ہے اور چونکہ رمضان میں سحری کے بعد زیادہ دیر تک جاگتے رہنا مشکل ہے، اسی لئے اسے اول وقت میں ادا کر کے فراغت حاصل کی جاتی ہے، تو معلوم نہیں اس کا کیا جواب ہوگا؟
آپ نے بات صحیح کی ہے لیکن نتیجہ غلط نکالاہے۔ تیسیر اورتکثیر جماعت شریعت کے مقاصد میں سے ہے اوراس کا خیال حضورپاک نےبھی رکھاہے لہذا اس کوخواہش نفس قراردینانہ صرف اپنے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اپنے ایمان اوردین کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔
تقلید معین کی یہ دلیل کہ غیرمتعین میں ہرشخص اپناراگ الاپے گاکوئی غیرواقعی بات نہیں ہے۔اس کا اعتراف مولاناحسین بٹالوی نے بھی کیاہے اوراہل حدیث بننے کے بعد جن لوگوں نے قادیانی فرقہ میں شمولیت اختیار کی یاپھر منکر حدیث بنے یاپھر دین وشریعت کے بہت سے اصول کا ہی انکار کردیا اس کیلئے ماضی کی تاریخ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔
یہ بات کہ غیرمعین میں ہرشخص کو من مانی کی آزادی مل جاتی ہے اوراس سے بچناچاہئے۔ دیگر علمائے عظام نے بھی یہ بات کہی ہے۔اگرکبھی وقت موقع اورفرصت ہوتو تقلید کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں اس کا مطالعہ کرلیں۔ شاہ ولی اللہ نے بھی چار مذہب کے دائرہ سے باہر نکلنے کومنع کیاہے اوربرصغیر کے باشندوں کے حق میں یہ بہترسمجھاہے کہ وہ فقہ حنفی کو اپنائیں۔بہرحال اس پر بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ تھریڈ کا موضوع نہیں ہے اورذیلی موضوع پر زیادہ توجہ دینے سے اصل موضوع گم ہوجاتاہے۔
اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ ہمیں بلاتعصب حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ اور کتاب و سنت کو اپنے تابع بنانے کے لئے باطل تاویلات کے بجائے، ماانزل اللہ کی وسعت قلب کے ساتھ اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ہماری بھی دعاہے کہ اللہ حق کو حق اورباطل کو باطل سمجھنے والی فہم عنایت کرے اورحق کے پردے میں باطل اورباطل کے پردے میں حق کو دیکھنے والی بصیرت نصیب کرے،علماء ماضی کا احترام کرنے کی توفیق دے۔ والسلام