یہ کہناکہ فجر کی نماز کا وقت احناف کے امتیازی مسائل میں سے ہے ۔ غوروفکر کے بغیر کہاگیاہے۔ اس طرح توکہنے والایہ بھی کہہ سکتاہے کہ ابرادبالظہر کا مسئلہ احناف کے امتیازی مسائل میں سے ہے۔ عصرکومثلین میں پڑھنے کا مسئلہ امتیازی مسئلہ میں سے ہے۔اس طرح توجس کا من چاہے وہ کسی بھی اختلافی مسئلہ کو امتیازی مسئلہ بناسکتاہے۔
رمضان کے استثناء کو امام ابوحنیفہ سے اوردیگر کبار علماء سے ثابت کرنے کی بات بھی فقہ حنفی سے ناواقفیت کی بناء پر کہی گئی ہے۔بہت سے مسائل ایسے ہیں جس میں رواج،رسم عرف اورعادت کو دخل ہوتاہے اوراس کو مقامی علماء اپنے اعتبار سے ہی طے کرلیتے ہیں۔ بہت سارے مسائل ایسے ہیں جس میں متقدمین میں سے کچھ بھی صراحتامنقول نہیں لیکن متاخرین نے اپنے زمانہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیاہے۔
شیخ سعدی نے گلستاں میں ایک شعرلکھاہے۔
گرہمیں باشد مکتب وملا
کارطفلاں تمام خواہدشد
اس کا ترجمہ انس نضرصاحب جانتے ہوں اس لئے ترجمہ سے گریز کررہاہوں۔ ہماری تیسیر اورتکثیرللجماعۃ کی بات پر انہوں نے جو مثال پیش کی ہے وہ ان کے تفقہ کا اعلیٰ نمونہ اورقیاس مع الفارق کی بہترین مثال ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
حدیث جبرئیل بتاتی ہے کہ فجر کی نماز چاہے اول وقت میں پڑھی جائے یاآخر وقت میں نماز اپنے وقت پر اداہوگی۔ اختلاف صرف افضیلت میں ہے۔ کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ غلس ہونی چاہئے اورکچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ اسفار ہونی چاہئے۔ لیکن انس نضر صاحب نے وقت کے اندر نماز اداکرنے کی مثال میں اتناغلو کیاکہ فرمانے لگے کہ اگرتیسیر ہی مدنظرہے توصبح آٹھ بجے نماز پڑھنے کی اجازت دینی چاہئے۔اہل حدیث حضرات کا طرفہ تماشاملاحظہ ہو کہ اگرہم رفع یدین کے تعلق سے کچھ عرض کریں توفورامخالفت حدیث اورمخالفت سنت کے طعنے بلند کرنے شروع کردیئے جاتے ہیں(یہ اوربات ہے کہ مجلس علماء میں میرے ایک سوال کے باوجود کہ مخالفت سنت وحدیث کا معیار کیاہے یعنی کس کو ہم کب مخالف حدیث وسنت کہیں گے،تاحال کوئی جواب نہیں آیاہے)لیکن یہ حضرات آزاد ہیں کہ مختلف فیہ مسائل میں فریق کے مسائل کے تعلق سے باوجود کہ اس کی تائید میں حدیث قولی وفعلی موجودہو،اکابرصحابہ اورتابعین کا اس پر عمل رہاہو۔
انس نضر صاحب کو یہ بات صاف کرنی چاہئے کہ کیااہل حدیث عشاء کی نماز کے تعلق سے تاخیر کے قائل نہیں ہیں؟۔ اگرقائل ہیں توپھررمضان میں وقت معہودسے ہٹ کر نماز کیوں ہوتی ہے۔اگر وہ کہیں گے کہ آدھے گھنٹہ کا فرق کوئی فرق نہیں ہوتاتویہی جواب ہماری جانب سے بھی عرض ہے کہ ان کے غلس اورہمارے اسفار میں بھی تقریبااسی آدھے گھنٹہ کا فرق ہوتاہے۔
یہ کہناہے مسئلہ اختلافی نہیں ہے اس سے بات نہیں بنتی ہے۔ ہم نماز فجر میں عمومی طورپر اسفار کے قائل ہیں لیکن تکثیر للجماعت کی غرض سے رمضان میں غلس میں نمازپڑھ لیتے ہیں ۔ ہم عشاء کی نماز کے سلسلے میں تاخیر کے قائل ہیں لیکن رمضان میں تھوڑاجلدی کرلیتے ہیں۔
ہمارامسئلہ اورموقف توصاف ہے لیکن اصل پیچیدگی تو آپ کے یہاں ہیں۔ لمبے چوڑے دلائل نہ دینے کی بات بھی ایک عجیب مضحکہ ہے۔ اختلافی مسئلہ نہیں ہے اس لئے لمبے چوڑے دلیل نہیں دیئے۔ اگریہی مسئلہ اختلافی ہوتاتو؟مکتبہ محدث میں اس موضوع پر کتنی کتابیں اب تک اپ لوڈ ہوچکی ہوتیں۔
سبحان اللہ کیااصول فرمادیا!لیکن اگرحجۃ اللہ البالغہ کی طرف رجوع کرلیتے تومعلوم ہوتاکہ یہ حضورپاک کا عمل تکثیر للجماعۃ کیلئے تھاکہ باوجود اس کے کہ حضور کو مرغوب عشاء کی نماز میں تاخیر تھی لیکن لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے کبھی پہلے بھی پڑھ لیا۔ لیکن یہی بات اگرہم فجر کے سلسلے میں کہیں کہ فجر کی نماز اسفار میں پڑھناحضورسے ثابت اوراس سلسلے میں قولی اورفعلی احادیث موجود ہیں لیکن لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے رمضان میں غلس میں پڑھ لیاجاتاہے تویہ بڑاجرم اورالزامی سوال بن جاتاہے۔