• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي
صحیح بخاری: كِتَاب الْأَدَبِ: بَاب رَحْمَةِ النَّاسِ وَالْبَهَائِمِ:
أَبِي سُلَيْمَانَ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ
أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً فَظَنَّ أَنَّا اشْتَقْنَا أَهْلَنَا وَسَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا فِي أَهْلِنَا فَأَخْبَرْنَاهُ وَكَانَ رَفِيقًا رَحِيمًا فَقَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي وَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (مدینہ منورہ) حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے ۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیس دنوں تک رہے ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہؤا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یادآرہے ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ کر آئے تھے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال سنا دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی نرم خو اوربڑے رحم کرنے والے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کوواپس جاؤ اور اپنے ملک والوں کودین سکھاؤ اور بتاؤ اورتم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لیے اذان دے پھر جو تم میں بڑا ہووہ امامت کرائے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
نماز کے بصری اور حسی اعمال

نماز میں جو بصری اور حسی اعمال ہیں وہ درج ذیل ہیں؛
1۔ تکبیر تھریمہ کی رفع الیدین (بصری)
2۔ وقفہ ثناء (حسی، جہری نمازوں میں)
3۔ قرأت (حسی، ہونٹ داڑھی کے ہلنے سے پتہ چل جاتا ہے)
4۔ رکوع (بصری)
5۔ رکوع کی تسبیحات (حسی)
6۔ قومہ (بصری)
7۔ قومہ کا ذکر (حسی)
8۔ پہلا سجدہ (بصری)
9۔ سجدہ کی تسبیحات (حسی)
10۔ جلسہ (بصری)
11۔ جلسہ کا ذکر (حسی)
12۔ دوسرا سجدہ (بصری)
13۔ سجدہ کی تسبیحات (حسی)
14۔ قعود (بصری)
15۔ قعود کے اذکار (حسی)
16۔ قعود میں انگشتِ سبابہ کا اشارہ (بصری)
ان میں سے جتنے بھی بصری افعال ہیں ان (فعلی احادیث) میں حقیقتاً اختلاف نہ ہونا چاہئے۔ ہاں البتہ روایت کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس مشاہدہ کو کس انداز میں پیش کرتا ہے۔ جو حسی ہیں ان (قولی احادیث) کا پتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر چل گیا۔ ان میں راوی کے حافظہ کا عمل دخل بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لئے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا شخص جو رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو بعین انہی الفاظ میں یاد رکھے اور آگے بیان کردے کی بہت زیادہ پذیرائی کی ہے۔
احادیث کی ایک قسم تقریری بتائی جاتی ہے وہ بھی دراصل انہی دو مذکورہ اقسام میں بٹی ہوئی ہیں۔
بصری میں ان احادیث کو اہمیت حاصل ہوگی جو بڑی عمر کے صحابہ سے مروی ہو۔ کیونکہ صف بندی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب وہی اصحاب ہوتے تھے۔ اس قسم کی احادیث میں اگر بڑی عمر کے صحابی کی روایت اور چھوٹی عمر کے صحابی کی روایت میں اختلاف نظر آئے تو بڑی عمر والے کی روایت قبول کرنی چاہیئے اور دوسری حدیث کی مناسب توجیح کی جانی لازم ہے۔
قولی میں ان احادیث کو فوقیت حاصل ہوگی جو حافظہ میں قوی اور فقیہ روات سے مروی ہو۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ نماز کے اختلافی مسائل میں اسی (80) سے نوے (90) فیصد کا تعلق فعلی احادیث سے ہے۔مثلاً تکبیر تحریمہ میں رفع الیدین کی کیفیت، ہاتھ باندھننے کی کیفیت اور جگہ، جلسہ استراحۃ اور تورک وغیرہ۔ درج ذیل حدیث کو ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ ہمیں کس فتنہ میں مبتلا کردیا گیا یا کیا جارہا ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
نماز کے قبول ہونے کی حد

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَجَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ سَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَيْكَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ فَأَعْلِمْنِي قَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ وَاقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ وَتَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا
(صحیح بخاری)
ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد نبوی میں) تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھی اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گیا اور جا کر نماز پڑھی اور پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی ۔ تیسری دفعہ یا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی طرح وضو کر۔ پھر قبلہ رو کھڑا ہو۔ پھر اللہ اکبر کہہ۔ پھر قرآن سے پڑھ جو تجھے یاد ہو پھر رکوع کر یہاں تک کہ سکون سے رکوع کرنے والا ہو پھر کھڑا ہو یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد کی حالت میں بیٹھ جا۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو جا۔ اسی طرح کر اپنی تمام نماز میں"۔
نماز کی ایک رکعت کی ادائیگی کا طریقہ (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو تعلیم فرمایا اس وقت کہ اس نے نماز صحیح طرح نہیں پڑھی تھی) اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام باتیں بتائیں جن کے بغیر نماز کی رکعت نہیں ہوتی۔ ایسا گمان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی بات بتانا بھول گئے ہوں جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں۔
قبولیتِ نماز کے لئے جو چیزیں لازم ہیں ان کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی اور وہ یہ ہیں؛
اچھی طرح وضو کرنا (شرطِ نماز)۔
قبلہ رو کھڑا ہونا (شرطِ نماز)۔
(تکبیر تحریمہ میں)اللہ اکبر کہنا (شرطِ نماز)۔
قرآن سے پڑھنا (قراءت)۔
رکوع اطمینان کے ساتھ کرنا۔
رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا (قومہ)۔
سجدہ اطمینان سے کرنا (پہلا سجدہ)۔
سجدہ سے اٹھ کر بیٹھنا (جلسہ)۔
سجدہ اطمینان سے کرنا (دوسرا سجدہ)۔
ان تمام امور کی ادائیگی کے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ اوپر مذکور حدیث ِ مبارکہ سے ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی نماز میں اذکار و افعال ہیں وہ مسنون یا مستحب ہیں جن کے بغیر نماز ہوجاتی ہے گو درجہ کم ہو جائے۔ اگر کوئی ان مسنون اذکار و افعال کے
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
میں حیران ہوتا ہوں کہ جو عمل دن میں پانچ دفعہ ایک ہی جگہ اکٹھے ہر کر کیا جائے اس میں بھی اختلاف!!!
جو عملاً متواتر ہے وہ نماز میں ہاتھ ناف کے محاذات میں باندھنا ہی ہے اور آج بھی حرمین شریفین میں امام اسی طرح ہاتھ باندھتے ہیں۔
Harmain.png
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منفرد کی نماز کی قبولیت کی حد کی تفصیل ذکر فرما دی اس سے کسی کو اختلاف کرنا جائز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بارہ سو سال بعد ایک طبقہ ایسا اٹھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف نعرہ بلند کیا اور باجماعت نماز میں بھی کچھ امور کو مقتدی پر بھی لازم قرار دے دیا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منفرد کو بھی حکم نہ دیا۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منفرد کی نماز کی قبولیت کی حد کی تفصیل ذکر فرما دی اس سے کسی کو اختلاف کرنا جائز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بارہ سو سال بعد ایک طبقہ ایسا اٹھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف نعرہ بلند کیا اور باجماعت نماز میں بھی کچھ امور کو مقتدی پر بھی لازم قرار دے دیا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منفرد کو بھی حکم نہ دیا۔
اسکی دلیل ؟
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
اسکی دلیل ؟
سارے تھریڈ کو غور سے پڑھا کرو پھر بحث کیا کرو۔
آپ نے تو صرف بحث برائے بحث کرنی ہے اور خلط مبحث کرکے بات کو الجھانا مقصود ہے اور اس مقصد کے لئے چند ایک اشخاص ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اس فورم کے چیدہ چیدہ معزز حضرات اکثر و بیتر معقول بت کرتے اور خواہ مخواۃ کی بحث نہیں کرتے۔
نماز کے قبول ہونے کی حد
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَجَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ سَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَيْكَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ فَأَعْلِمْنِي قَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ وَاقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ وَتَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا
(صحیح بخاری)
ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد نبوی میں) تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھی اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گیا اور جا کر نماز پڑھی اور پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی ۔ تیسری دفعہ یا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی طرح وضو کر۔ پھر قبلہ رو کھڑا ہو۔ پھر اللہ اکبر کہہ۔ پھر قرآن سے پڑھ جو تجھے یاد ہو پھر رکوع کر یہاں تک کہ سکون سے رکوع کرنے والا ہو پھر کھڑا ہو یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد کی حالت میں بیٹھ جا۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو جا۔ اسی طرح کر اپنی تمام نماز میں"۔
قبولیتِ نماز کے لئے جو چیزیں لازم ہیں ان کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی اور وہ یہ ہیں؛
اچھی طرح وضو کرنا (شرطِ نماز)۔
قبلہ رو کھڑا ہونا (شرطِ نماز)۔
(تکبیر تحریمہ میں)اللہ اکبر کہنا (شرطِ نماز)۔
قرآن سے پڑھنا (قراءت)۔
رکوع اطمینان کے ساتھ کرنا۔
رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا (قومہ)۔
سجدہ اطمینان سے کرنا (پہلا سجدہ)۔
سجدہ سے اٹھ کر بیٹھنا (جلسہ)۔
سجدہ اطمینان سے کرنا (دوسرا سجدہ)۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
سارے تھریڈ کو غور سے پڑھا کرو پھر بحث کیا کرو۔
آپ نے تو صرف بحث برائے بحث کرنی ہے اور خلط مبحث کرکے بات کو الجھانا مقصود ہے اور اس مقصد کے لئے چند ایک اشخاص ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اس فورم کے چیدہ چیدہ معزز حضرات اکثر و بیتر معقول بت کرتے اور خواہ مخواۃ کی بحث نہیں کرتے۔
جی تھریڈ کو غور سے ہی پڑھا ہے جو سوال کیا ہے اسکا جواب دیا جائے پھر بات ہوگی اور یہ اوپر جو سکون کے الفاظ کو رنگ دیا گیا ہے احناف کا کیا اس پر عمل ہے؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
کیا یہ آپکا اپنا فہم هے؟

" ﻗﻮﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﻮ ﻓﻮﻗﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﻮ ﺣﺎﻓﻈﮧ ﻣﯿﮟ ﻗﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﯿﮧ ﺭﻭﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﻮ-ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﻼ‌ﻓﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ (80) ﺳﮯ ﻧﻮﮮ (90) ﻓﯿﺼﺪ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﻓﻌﻠﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﮨﮯ-ﻣﺜﻼ‌ً ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺗﺤﺮﯾﻤﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﻓﻊ ﺍﻟﯿﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ، ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺟﮕﮧ، ﺟﻠﺴﮧ ﺍﺳﺘﺮﺍﺣﺔ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺭﮎ ﻭﻏﯿﺮﮦ- ﺩﺭﺝ ﺫﯾﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﻣﻼ‌ﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﺲ ﻓﺘﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ‌ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﯾﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ-"
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نماز کے قبول ہونے کی حد
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَجَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ سَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَيْكَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ فَأَعْلِمْنِي قَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ وَاقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ وَتَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا
(صحیح بخاری)
ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد نبوی میں) تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھی اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گیا اور جا کر نماز پڑھی اور پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا کہ جا ۔۔۔ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی ۔ تیسری دفعہ یا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی طرح وضو کر۔ پھر قبلہ رو کھڑا ہو۔ پھر اللہ اکبر کہہ۔ پھر قرآن سے پڑھ جو تجھے یاد ہو پھر رکوع کر یہاں تک کہ سکون سے رکوع کرنے والا ہو پھر کھڑا ہو یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد کی حالت میں بیٹھ جا۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو جا۔ اسی طرح کر اپنی تمام نماز میں"۔
ماز کی ایک رکعت کی ادائیگی کا طریقہ (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو تعلیم فرمایا اس وقت کہ اس نے نماز صحیح طرح نہیں پڑھی تھی) اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام باتیں بتائیں جن کے بغیر نماز کی رکعت نہیں ہوتی۔ ایسا گمان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسی بات بتانا بھول گئے ہوں جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں۔
قبولیتِ نماز کے لئے جو چیزیں لازم ہیں ان کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی اور وہ یہ ہیں؛
مگر امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفیہ مندرجہ ذیل میں سے ملون کو لازم نہیں مانتی!
اچھی طرح وضو کرنا (شرطِ نماز)۔
امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفیہ کے مطابق تو نشیلی شراب سے بھی ''اچھی طرح'' وضو کیا جاسکتا ہے!
قبلہ رو کھڑا ہونا (شرطِ نماز)۔
(تکبیر تحریمہ میں)اللہ اکبر کہنا (شرطِ نماز)۔
امام ابو حنیفہ کے نزدیک'' اللہ اکبر ''شرط نماز نہیں! بلکہ اللہ کی ثناء کے دوسرے کلمات اور وہ بھی عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان مثلاً فارسی میں بھی کہے جا سکتے ہیں!
قرآن سے پڑھنا (قراءت)۔
فقہ حنفیہ میں قرآن کی قراءت کے بغیر بھی رکعت ونماز ادا ہو جاتی ہے! خواہ اسے قراءت آتی بھی ہو!
رکوع اطمینان کے ساتھ کرنا۔
امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفیہ میں رکوع اطمینان کے ساتھ کرنا لازم نہیں! اس کے بغیر بھی نماز ادا ہو جاتی ہے!
رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا (قومہ)۔
فقہ حنفیہ میں رکوع سے سیدھا کھڑا ہونا لازم نہیں، بس اس قدر اٹھ جائے کہ ہاتھ گھٹنوں سے اوپر آجائیں، کافی ہے! اور فقہ حنفی میں سیدھا کھڑے ہوئے بغیر نماز ہو جاتی ہے!
سجدہ اطمینان سے کرنا (پہلا سجدہ)۔
فقہ حنفیہ میں سجدہ اطمینان سے کرنا لازم نہیں، نہ پہلا نہ دوسرا! اس کے بغیر بھی نماز ادا ہو جاتی ہے!
سجدہ سے اٹھ کر بیٹھنا (جلسہ)۔
سجدہ اطمینان سے کرنا (دوسرا سجدہ)۔
فقہ حنفیہ میں سجدہ اطمینان سے کرنا لازم نہیں، نہ پہلا نہ دوسرا! اس کے بغیر بھی نماز ادا ہو جاتی ہے!
ان تمام امور کی ادائیگی کے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ اوپر مذکور حدیث ِ مبارکہ سے ظاہر ہے۔
مگر امام ابو حنیفہ اور فقہ حنفیہ اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف ملون امور کے بغیر بھی نماز کی ادائیگی کے قائل ہیں!
اس کے علاوہ جو کچھ بھی نماز میں اذکار و افعال ہیں وہ مسنون یا مستحب ہیں جن کے بغیر نماز ہوجاتی ہے گو درجہ کم ہو جائے۔ اگر کوئی ان مسنون اذکار و افعال کے
اور یہ آپ کی غلط فہمی ہے!
 
Top