• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وھو معکم این ما کنتم (تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے )کی تاویل۔۔۔

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
حدیث رسول :

’بنی آدم کے دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔‘‘

یہ ادبی عربی زبان میں فرمایا گیا ہے-

جیسے ہم جب کہتے ہیں کہ ہمارا "دل " چاہ رہا ہے - یا "دل" اداس ہے - یا میرا "دل" تو فلاں کے قبضے میں ہے - تو مراد وہ دل کا عضو نہیں ہوتا جو ہمارے بائیں طرف سینے میں پمپ کررہا ہے - بلکہ یہ ہماری ادبی زبان میں کہا جاتا ہے -

مذکورہ بالا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جذبات و احساسات اللہ رب العزت کے کنٹرول میں ہیں- وہ جب چاہے ان کو تبدیل کردے - وہی انسان کا خالق ہے اور وہ جانتا ہے کہ کب انسان کن جذبات و احساسات کا شکار ہو گا -

اس بنا پر آپ صل الله علیہ و آ له وسلم اکثر اوقات یہ دعا مانگا کرتے تھے

يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ


مذکورہ حدیث : ’بنی آدم کے دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔‘‘ کو وھو معکم این ما کنتم سے جوڑنا صحیح نہیں- اس سے الله کے وجود پر سوالات اٹھتے ہیں جو انسان کو کفر کی طرف دھکیلتے ہیں-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مذکورہ بالا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جذبات و احساسات اللہ رب العزت کے کنٹرول میں ہیں- وہ جب چاہے ان کو تبدیل کردے - وہی انسان کا خالق ہے اور وہ جانتا ہے کہ کب انسان کن جذبات و احساسات کا شکار ہو گا -
ہم سب اللہ کے کنٹرول میں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔
لیکن حدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، انہیں اسی طرح درست ماننا بھی ضروری ہے۔
اللہ کی صفات کے بارے میں اس قسم کی باتیں ’تاویل‘ کے زمرے میں چلی جاتی ہیں۔
اصولی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے متعلق قرآن وسنت میں جو باتیں جیسے بیان ہوئی ہیں، انہیں بعینہ اسی طرح ماننا ضروری ہے، جیسا کہ اللہ کی شان کے لائق و مناسب ہو۔ بعض دفعہ کچھ چیزیں ہم انسانوں کی سوچ کے مطابق الجھن کا باعث بن رہی ہوتی ہیں، تو پھر ہم اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے تاویل و تشریح کا سہارا لیتے ہیں، جو درست نہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ہم سب اللہ کے کنٹرول میں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔
لیکن حدیث میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، انہیں اسی طرح درست ماننا بھی ضروری ہے۔
اللہ کی صفات کے بارے میں اس قسم کی باتیں ’تاویل‘ کے زمرے میں چلی جاتی ہیں۔
اصولی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے متعلق قرآن وسنت میں جو باتیں جیسے بیان ہوئی ہیں، انہیں بعینہ اسی طرح ماننا ضروری ہے، جیسا کہ اللہ کی شان کے لائق و مناسب ہو۔ بعض دفعہ کچھ چیزیں ہم انسانوں کی سوچ کے مطابق الجھن کا باعث بن رہی ہوتی ہیں، تو پھر ہم اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے تاویل و تشریح کا سہارا لیتے ہیں، جو درست نہیں۔
میرے خیال میں ایسا احادیث نبوی کے ادبی انداز کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہے -

بعض صفات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث نبوی کی تاویل اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ دوسری صورت میں اس سے الله کی ذات سے تشبیہ لازم آتی ہے جو کفر کی طرف لے جاتی ہے- امام مالک تو بعض اوقات سند کو دیکھے بغیر ایسی روایات کو رد کردیتے تھے جن سے اللہ رب العزت کی انسان سے تشبیہ ظاہر ہوتی ہو - فقہ مالکیہ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا کہ حدیث "خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ" الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا – تو امام مالک نے فرمایا کہ یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو -

بعض حنبلی علماء امام احمد، ابن حبان وغیرہ تاویل صفات باری تعالیٰ کے قائل نہیں ہیں- یعنی جیسا بیان ہوا ہے ویسا ہی اس کو پڑھا جائے اور ایسا وہ جھمیہ کی مخالفت میں کہنے لگے- جہمیہ اللہ کی ذات کو انرجی نما کوئی چیز سمجھتے تھے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے- چونکہ قرآن میں بھی وجھہ الله کے الفاظ ہیں- محدثین اس روایت کو جہمیہ کی مخالفت میں پیش کرنے لگے-

لہذا اس پر کوئی ایک موقف نہیں کہ صفات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث نبوی کو کیسے بیان کیا جائے - لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بعض کی تاویل کی جائے (ضرورت کے مطابق) اور بعض کو من و عن بیان کردیا جائے بغیر تاویل کے- (واللہ اعلم)-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میرے خیال میں ایسا احادیث نبوی کے ادبی انداز کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہے -
بعض صفات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث نبوی کی تاویل اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ دوسری صورت میں اس سے الله کی ذات سے تشبیہ لازم آتی ہے جو کفر کی طرف لے جاتی ہے- امام مالک تو بعض اوقات سند کو دیکھے بغیر ایسی روایات کو رد کردیتے تھے جن سے اللہ رب العزت کی انسان سے تشبیہ ظاہر ہوتی ہو - فقہ مالکیہ میں ہے کہ امام مالک سے سوال ہوا کہ حدیث "خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ" الله نے آدم کو اپنی صورت پر خلق کیا – تو امام مالک نے فرمایا کہ یہ روایت نہ کرو اور نہ انسان کو اس کو روایت کرنے پر بلاو -
بعض حنبلی علماء امام احمد، ابن حبان وغیرہ تاویل صفات باری تعالیٰ کے قائل نہیں ہیں- یعنی جیسا بیان ہوا ہے ویسا ہی اس کو پڑھا جائے اور ایسا وہ جھمیہ کی مخالفت میں کہنے لگے- جہمیہ اللہ کی ذات کو انرجی نما کوئی چیز سمجھتے تھے جو تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے- چونکہ قرآن میں بھی وجھہ الله کے الفاظ ہیں- محدثین اس روایت کو جہمیہ کی مخالفت میں پیش کرنے لگے-
لہذا اس پر کوئی ایک موقف نہیں کہ صفات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث نبوی کو کیسے بیان کیا جائے - لیکن اولیٰ یہی ہے کہ بعض کی تاویل کی جائے (ضرورت کے مطابق) اور بعض کو من و عن بیان کردیا جائے بغیر تاویل کے- (واللہ اعلم)-
میں تو سمجھ رہا تھا شاید آپ نے لاعلمی میں تاویل کرلی، لیکن آپ کے نزدیک تو تاویل کرنا ضروری ہے۔ یہ گمراہ مذہب ہے۔
اس سوچ کے مطابق تو ہر ہر صفت باری تعالی کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے تشبیہ لازم آتی ہے۔
ہمارے نزدیک سلف صالحین کا منہج یہی تھا، کہ اللہ تعالی کے متعلق جو چیزیں جیسے بیان ہوئی ہیں، انہیں ویسے ہی مان جائے، کما یلیق بجلالہ وشأنہ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میں تو سمجھ رہا تھا شاید آپ نے لاعلمی میں تاویل کرلی، لیکن آپ کے نزدیک تو تاویل کرنا ضروری ہے۔ یہ گمراہ مذہب ہے۔
اس سوچ کے مطابق تو ہر ہر صفت باری تعالی کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے تشبیہ لازم آتی ہے۔
ہمارے نزدیک سلف صالحین کا منہج یہی تھا، کہ اللہ تعالی کے متعلق جو چیزیں جیسے بیان ہوئی ہیں، انہیں ویسے ہی مان جائے، کما یلیق بجلالہ وشأنہ۔
محترم -

یہ صرف میرا نہیں بلکہ اکثر معتقدین و متاخرین علماء کا موقف ہے کہ ایسی روایات کی تاویل ضروری ہے جن میں صفات باری تعالیٰ میں انسانی اعْضَاءٍ کو کسی نہ کسی لحاظ سے تشبیہ دی گئی ہے- ان محدثین میں امام مالک، ابن حزم ، ابن خزیمہ ، امام ذہبی ، امام ابن حجر وغیرہ ہیں- جو من و عن ان روایات کو قبول کرنے کے خلاف ہیں-

ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:

ہمارا رب اپنی پنڈلی کو کھولے گا-( بخاری)- اس متعلق نا گمان کرو کہ الله أَعْضَاءٍ وَجَوَارِحٍ والا ہے کیونکہ یہ مخلوق سے مشابہت کا قول ہے الله تعالی اس سے بلند ہے اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے-

اگر ان روایات کی کوئی مناسب توجیہ نہ پیش کی جائے تو انسان کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے- لیکن یہ بھی ہے کہ اکثر صفات کی توجیہ ممکن نہیں بھی ہے - جیسے الله کا ہر رات آسمان دنیا پر نزول وغیرہ-

بعض حنبلی محدثین جیسے امام احمد، ابن حبان، ابن تیمیہ، وغیرہ اس بات کے قائل تھے (امام ابن کثیر حنبلی ہونے کے باوجود اس نظریہ پر نہیں تھے) کہ الله کی تمام ذات و صفات کو من و عن تسلیم کیا جائے-

اس کی کوئی تاویل پیش نہ کی جائے اس نظریہ سے عوام کی اکثریت تجسیم کی طرف مائل ہوئی- کیوںکہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب اس کے سامنے اس کے خالق کے أَعْضَاءٍ کا ذکر کیا جائے تو وہ اس کو سب سے پہلے اپنے ذہن میں اس کا تصور بنانے کی کوشش کرتا ہے- عرب اور برصغیر کے اہل حدیث غیرارادی طور پر امام احمد اور ابن تیمیہ کے مقلد ہیں- اس لئے وہ اس نظریہ کو ہی فوقیت دیتے رہے ہیں-

لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ اہل سنّت و الجماعت کا اجماعی موقف نہیں ہے-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ان محدثین میں امام مالک، ابن حزم ، ابن خزیمہ ، امام ذہبی ، امام ابن حجر وغیرہ ہیں- جو من و عن ان روایات کو قبول کرنے کے خلاف ہیں-
ان محدثین کرام کو صفات باری میں تاویل کا قائل بتاکر آپ نے بہت بڑا دعویٰ کردیا ہے ؛
براہ کرم کوئی مستند حوالہ پیش فرمائیں جس میں ان مذکور محدثین کرام سے تاویل کا ثبوت ملتا ہو !
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
ایسی روایات کی تاویل ضروری ہے جن میں صفات باری تعالیٰ میں انسانی اعْضَاءٍ کو کسی نہ کسی لحاظ سے تشبیہ دی گئی ہے-
محترم جہمیوں نے ایسی روایات کا یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تشبیہ ہے :
امام ترمذی فرماتے ہیں :
وأما الجهمية فأنكرت هذه الروايات وقالوا: هذا تشبيه۔ [ ترمذی ج ۲ ص ٤٤ ]
اور آپ ایسی روایات کی یہ کہہ تاویل کر رہے ہیں کہ یہ تشبیہ ہے ۔۔
آپ خود سوچیں کہ آپ کے اور جہمیوں کے قول میں کتنا فرق ہے ؟
جبکہ دونوں کے برعکس امام اسحاق بن رہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنما يكون التشبيه إذا قال: يد كيد، أو مثل يد، أو سمع كسمع، أو مثل سمع، فإذا قال: سمع كسمع، أو مثل سمع، فهذا التشبيه. وأما إذا قال كما قال الله تعالى يد، وسمع، وبصر، ولا يقول كيف، ولا يقول مثل سمع، ولا كسمع، فهذا لايكونتشبيها
تشبیہ تب ہوتی جب یہ کہا جاتا کہ (اس کا ) ہاتھ (دوسرے) ہاتھوں کی طرح ہے یا (اس کی) سمع (دوسروں کی) سمع کی طرح ہے ، یہ تو تشبیہ ہے ۔ لیکن جب یہ کہا جائے یہ اللہ تعالی کے لئے ہاتھ، سمع اور بصر ہے لیکن بلا کیفیت ہے اور کیفیت و مثلیت کا ذکر نہ ہو تو تشبیہ نہ ہوگی ۔ [ترمذي ج ٢ ص ٤٤ ]
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
تشبیہ تب ہوتی جب یہ کہا جاتا کہ (اس کا ) ہاتھ (دوسرے) ہاتھوں کی طرح ہے یا (اس کی) سمع (دوسروں کی) سمع کی طرح ہے ، یہ تو تشبیہ ہے ۔ لیکن جب یہ کہا جائے یہ اللہ تعالی کے لئے ہاتھ، سمع اور بصر ہے لیکن بلا کیفیت ہے اور کیفیت و مثلیت کا ذکر نہ ہو تو تشبیہ نہ ہوگی ۔ [ترمذي ج ٢ ص ٤٤ ]
جزاک اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ صرف میرا نہیں بلکہ اکثر معتقدین و متاخرین علماء کا موقف ہے کہ ایسی روایات کی تاویل ضروری ہے جن میں صفات باری تعالیٰ میں انسانی اعْضَاءٍ کو کسی نہ کسی لحاظ سے تشبیہ دی گئی ہے- ان محدثین میں امام مالک، ابن حزم ، ابن خزیمہ ، امام ذہبی ، امام ابن حجر وغیرہ ہیں- جو من و عن ان روایات کو قبول کرنے کے خلاف ہیں-
اتنے طویل و عریض دعوے تو نہ کریں۔
امام مالک کا موقف تاویل نہیں ہے۔ الاستواء معلوم والکیف مجہول والإیمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعۃ، اصولی درجہ کا یہ مشہور مقولہ انہیں کا ہے۔
امام ابن حبان کو حنبلی آپ نے پتہ نہیں کیسے بنادیا ہے؟
بہرصورت یہ بات درست ہے کہ عقیدہ کے معاملے میں ان کے متعلق کلام ہے۔
حافظ ذہبی نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔
قال شيخ الإسلام أبو إسماعيل الأنصاري: سِألت يحيى بن عمّار عن أبي حاتم بن حبّان: هل رأيته؟ قال: وكيف لم أره ونحن أخرجناه من سِجِسْتان، كان له علم كثير ولم يكن له كبير دين، قدم علينا فأنكر الحد لله، فأخرجناه.
قلت: إنكار الحد وإثباته، مما لم يأت به نصّ، والكلام منكم فضول، ومن حُسْن إِسْلامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لا يَعْنِيهِ، والأيمان بأنّ الله تعالى ليس كمثله شيء من قواعد العقائد، وكذلك الإيمان " بأنّ " الله بائن من خلقه، متميّزة ذاته المقدّسة من ذوات مخلوقاته.
(تاريخ الإسلام ت بشار (8/ 74)
میرے علم کے مطابق ابن خزیمہ و ذہبی كا تاویل والا موقف نہیں تھا۔
ابن خزیمہ کی کتاب التوحید اور اسی طرح ان کی صحیح اس کی شاہد ہیں۔ حافظ ذہبی نے کتاب العلو لکھی، جس میں سلفی عقیدے کا اثبات ہے۔اوپر ایک اقتباس بھی ملاحظہ کرچکے ہیں۔
ابن کثیر پر ایک مستقل مقالہ ہے، جس میں ان کا موقف بیان کیا گیا ہے کہ ان کا موقف بھی ائمہ سلف کی طرح تھا۔
ہاں حافظ ابن حجر اور ان سے پہلے نووی اور دیگر کئی علماء اشاعرہ کی طرح تاویل کے قائل تھے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ان محدثین کرام کو صفات باری میں تاویل کا قائل بتاکر آپ نے بہت بڑا دعویٰ کردیا ہے ؛
براہ کرم کوئی مستند حوالہ پیش فرمائیں جس میں ان مذکور محدثین کرام سے تاویل کا ثبوت ملتا ہو !
وقت کی کمی کا باعث اس پر تفصیل سے لکھنا ممکن نہیں -
اس کتاب میں اس موضوع پر تفصیلی بحث موجود ہے -اگر ٹائم ہو تو پڑھ لیں اور اپنے خیالات سے مستفید کریں

https://archive.org/details/IbnTaimiyahAurIlmEKalaamByMd.Shareef

صفحہ ٩٠ سے آگے ابن تیمیہ کی موقف کی تفصیلات اور ان کا برخلاف ابن جوزی اور غزالی وغیرہ کے موقف کا موازنہ موجود ہے- یہاں تک کہ حنبلیوں میں بھی گروہ بن گئے- مذکورہ کتاب کے مطابق اشعریوں اور ماتریدیوں میں بھی اس علم میں باہم اختلاف رونما ہوا-

صفات کی تاویل سے متعلق کس کا موقف صحیح اور کس کا غلط ہے- یہ تفصیل طلب اور مشکل امر ہے-ہر ایک کا اپنا نظریہ ہے جس میں صحیح و غلط کا احتمال ہے- لیکن یہ بات سراسر غلط ہے کہ آئمہ و مجتہدین، متقدمین و متاخرین کا اس پر اجماع تھا کہ صفات کی تاویل نہیں کی جائے گی- آئمہ کا اس موضوع پر بہت اختلاف تھا-
 
Top