• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وھو معکم این ما کنتم (تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے )کی تاویل۔۔۔

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے گزارش ہے کہ اس کا تفصیلی جواب دیں
یہ سوال زیادہ مشہور ہے کہ مفسرین و محدثین رح نے اس آیت کی تاویل کر کے علم کیوں مراد لیا ہے؟

برائے مہربانی اس کا جواب دیں کہ محدثین و اہل علم نے اس متعلق کیا فرمایا ہے یا ہو سکے تو زیادہ سے زیادہ اہل علم کی گواہی اس متعلق عنایت فرما دیں ـ

جزاک اللہ خیراً
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے ایک فتوی سے اقتباس ملاحظہ کیجیے :
انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے حدیث:
«قُلُوبَ بَنِی آدَمَ بَيْنَ اِصْبَعَيْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ»صحیح مسلم، القدر، باب تصریف اللہ تعالی القلوب کیف شاء، ح: ۲۶۵۴۔

’’بنی آدم کے دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔‘‘
اور حدیث:

«اَلْحَجَرُ الْاَسْوَدُ يَمِيْنُ اللّٰهِ فِی الْاَرْضِ»ضعیف: مسند الفردوس للدیلمی: ۲/۱۵۹، حدیث: ۲۸۰۷، ۲۸۰۸ وتاریخ بغداد: ۳۲۸ الضعیفة: ۲۲۳۔

’’حجر اسود سرزمین کائنات پر اللہ کا دایاں ہاتھ ہے۔‘‘
اور آیت کریمہ:

﴿وَهُوَ مَعَكُمۡ أَيۡنَ مَا كُنتُمۡۚ﴾--الحدید:4

’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
کی تاویل کی ہے؟
اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے مذکورہ دو حدیثوں کی تاویل کی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابو حامد غزالی رحمہ اللہ نےجو یہ بیان کیا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے تین چیزوں کی تاویل کی ہے:
٭ حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے۔
٭ بندوں کے دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔
٭ اورمیں یمن کی طرف سے رحمان کی سانس کو محسوس کرتا ہوں۔ امام احمد رحمہ اللہ کی طرف یہ ایک جھوٹی بات منسوب ہے، کسی نے سند کے ساتھ اس بات کو امام احمد رحمہ اللہ سے نقل نہیں کیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے بھی کوئی نہیں جس نے اس بات کو ان سے نقل کیا ہو۔‘‘فتاوی: ۵/۳۹۸ جمع وترتیب ابن قاسم۔
اور ارشاد باری تعالیٰ:

﴿وَهُوَ مَعَكُمۡ أَيۡنَ مَا كُنتُمۡۚ﴾--الحدید:4

’’اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
اس کی امام احمد رحمہ اللہ نے تاویل نہیں کی، بلکہ اس آیت کریمہ کی اس کے بعض لوازمات کے ساتھ امام احمد رحمہ اللہ نے تفسیر کی ہے امام احمد رحمہ اللہ ان جہمیہ کی تردید میں نہایت ممتاز مقام کے حامل ہیں جنہوں نے اصلی مراد کے خلاف اس آیت کریمہ کی تفسیر کی ہے، کیونکہ ان کا گمان کے مطابق اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر جگہ موجود ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ان کی اس بات سے پاک ہے، اس موقعہ سے امام احمد رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ معیت یہاں مخلوق کے احاطہ کے معنی میں ہے اور احاطہ جن چیزوں کے ساتھ کیا ہے ان میں ایک چیز علم بھی ہے، کیونکہ معیت کا تقاضا حلول واختلاط نہیں ، بلکہ اس کے معنی ہر جگہ اس کے حسب حال اور موقعہ ومحل کے اعتبارسے ہوں گے، اس لیے کہا جاتا ہے:
(سَقَانِیْ لَبَنًا مَعَہٗ مَائٌ) ’’اس نے مجھے دودھ پلایا جس کے ساتھ پانی بھی تھا۔‘‘ اور (صَلَّیْتُ مَعَ الْجَمَاعَۃِ) ’’میں نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘ اور (فُـلَانٌ مَعَہٗ زَوْجَتُہٗ) ’’فلاں شخص کے ساتھ اس کی بیوی ہے۔‘‘

ان میں سے پہلی مثال میں معیت امتزاج واختلاط کے معنی میں ہے، دوسری مثال میں کسی اختلاط کے بغیر جگہ اور عمل میں مشارکت کے معنی لئے گئے ہیں اور تیسری مثال میں مصاحبت کے معنی ہیں، خواہ جگہ یا عمل میں اشتراک نہ بھی ہو۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ معیت کے معنی مضاف الیہ کی مناسبت سے مختلف ہواکرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت اس سے مختلف ہوگی جو مخلوق کی اپنے جیسی مخلوق کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس معیت میں امتزاج واختلاط کا امکان ہی نہیں اور جگہ میں مشارکت کا امکان بھی نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہ بات ممتنع ہے۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اپنی مخلوق سے جدا اور بلند و بالا ہے، لہٰذا وہ آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہے کیونکہ وہ اپنے علم وقدرت، سلطنت سمع و بصر اور تدبیر وغیرہ کے ساتھ ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے جیسا کہ اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، لہٰذا اگر کوئی مفسر معیت کی علم کے معنی میں تفسیر کرتا ہے تو وہ نہ اس کے تقاضے سے خارج ہے اور نہ اس کی تاویل سے، البتہ وہ شخص اسے تاویل سمجھے گا جو معیت کے معنی ہرحال میں امتزاج واختلاط اور جگہ میں مشارکت سمجھتا ہو اور یہ قاعدہ کلیہ بیان کیا جا چکا ہے کہ ہر حال میں معیت کے یہ معنی نہیں لئے جاسکتے ۔ یہ بات الگ ہے ان تینوں نصوص کی اس تاویل کے حوالے سے جو امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے نیز ان نصوص کا ان کی اپنی حیثیت سے جائزہ لیا جائے تو ابھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مفسر معیت کی علم کے معنی میں تفسیر کرتا ہے تو وہ اس کے بعض مقتضیات ہی کے ساتھ تفسیر کرنا سمجھا جائے گا، اسے اس معنی سے انحراف قرار نہیں دیا جاسکتا، جو اس کا تقاضا ہے۔
(فتاوی ارکان اسلام ، عقائد کے مسائل ص 69 ) از محدث فتوی

شیخ محمد بن صالح العثیمین نے القواعد المثلی میں بھی اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی صاحب نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کردیا ہے ۔
معیت کے تعلق سے ایک اور مفید تحریر
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
نقل ابن عبد البر رحمه الله إجماع الصحابة والتابعين على أنهم قالوا في معناها : (هو على العرش ، وعلمه في كل مكان) . " التمهيد " (7/138) ، انظر : " مجموع الفتاوى " (3/236) ، (5/495) .
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
حدیث:
«قُلُوبَ بَنِی آدَمَ بَيْنَ اِصْبَعَيْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ»صحیح مسلم، القدر، باب تصریف اللہ تعالی القلوب کیف شاء، ح: ۲۶۵۴۔

’’بنی آدم کے دل، رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔‘‘
محترم شیوخ [USERGROUP=2]@رجسٹرڈ اراکین[/USERGROUP] توجہ دیں۔
یہ اعتراض دیوبندیوں کے کسی عالم کا ہے اور جدید اعتراض ہے اس کا دلائل کے ساتھ تفصیلی جواب لکھ کر شکریہ کا موقع دیں ۔
IMG-20190212-WA0001.jpg
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اللہ عرش پہ ہے، اس کی دلیل قرآن کریم کی صریح آیت ہے، الرحمن علی العرش استوی
اسی طرح ہی بولنا چاہیے، صغرے کبرے ملا کر نتائج نکال کر عقیدے بنانا، درست نہیں چاہے، کوئی بھی بنائے، سلفی ہو غیر سلفی۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ نے یہ جواب دیا ہے
حضور بین اصبعین کے الفاظ ھیں ۔ اسے لگنا تو لازم نہیں آتاھے ۔ جیسے و السحاب المسخر بین السماء والارض ۔ حالانکہ نہ وہ بادل آسمان سے لگے ھوتے ھیں ۔ اور نہ زمین سے ۔ اسی طرح بین اصبعین من اصابع الرحمن کی بات سمجھ لیں
باقی انگلیوں کے حقیقی ھونے سے اگر وہ مراد لیتے ھیں ۔ کہ وہ انسانوں کی طرح انگلیاں ھیں ۔ تو فھذہ فریة بلا مریة علینا وعلی اکابرنا یعنی تو پھر یہ ہم پر اور ہماریں اکابرین پر بلا شک و شبہ بہتان ہے


شیخ محترم کے اس جواب کو آسان فہم میں سمجھنے کے لئے ایک بھائی نے یہ وضاحت کی ہے :
شیخ نے یہ کہا ہے کی دو انگلیوں کے درمیان اس سے مس کرنا یعنی ٹچ ہونا یا اتحاد ہونا نہیں لازم آتا بلکہ ایسا مخلوق میں بھی ہوسکتا ہے جیسے شیخ نے قرآن کی آیت پیش کی کہ بادلوں کو زمین و آسمان کے درمیان مسخر کردیا گیا جبکہ بادل نا زمین سے مس ہے نا آسمان کی انتہاء سے مس بلکہ درمیان میں ہے اور جدا بھی ہے جب مخلوق میں ایسا ممکن ہے پھر اللہ رب العالمین کی ذات تو اعلی و ارفع ہے ان سب چیزوں سے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
شیخ واصل واسطی حفظہ اللہ نے یہ جواب دیا ہے
حضور بین اصبعین کے الفاظ ھیں ۔ اسے لگنا تو لازم نہیں آتاھے ۔ جیسے و السحاب المسخر بین السماء والارض
اس کا جواب خود شیخ ابن عثیمینؒ نے اسی کتاب القواعد المثلیٰ میں دے رکھا ہے :
شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ ( القواعد المثلیٰ ) صفات باری تعالی میں تاویل کرنے والوں کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

* المثال الثاني: «قلوب العباد بين أصبعين » من أصابع الرحمن".
شبہ : تم اہل سنت کہتے ہو کہ حدیث میں ثابت ہے کہ " بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں "
والجواب: أن هذا الحديث صحيح رواه مسلم في الباب الثاني من كتاب القدر عن عبد الله بن عمرو بن العاص أنه سمع النبي، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: «إن قلوب بني آدم كلها بين أصبعين من أصابع الرحمن»«قلوب العباد بين أصبعين » من أصابع الرحمن".«كقلب واحد يصرفه حيث يشاء» ثم قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهم مصرف القلوب صرف قلوبنا على طاعتك»
جواب :یہ حدیث بالکل صحیح ہے ، صحیح مسلم ،کتاب القدر میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندوں کے دل پروردگار کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں جیسے ایک دل ہوتا ہے ، پروردگار ان کو پھیرتا ہے جس طرح چاہتا ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ» ”یا اللہ! دلوں کے پھرانے والے ہمارے دلوں کو پھیر دے اپنی اطاعت پر۔"

وقد أخذ السلف أهل السنة بظاهر الحديث وقالوا: إن لله تعالى أصابع حقيقة نثبتها له كما أثبتها له رسوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولا يلزم من كون قلوب بني آدم بين أصبعين منها أن تكون مماسة لها حتى يقال: إن الحديث موهم للحلول فيجب صرفه عن ظاهره.

" سلف اہل سنت نے اس حدیث کے ظاہری معنی کو لیا ہے یعنی اس کی کوئی تاویل نہیں کی ،سلف رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ : اللہ کی (اس کی شان کے لائق ) انگلیاں ہیں ،ہم اسی طرح اللہ کی اس صفت کا اثبات کرتے ہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اثبات فرمایا ہے ،(یعنی جس طرح اللہ کی انگلیاں بتائی ہیں )
اور بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ : بندوں کے دل ان انگلیوں کو مس کر رہے ہیں ، اور اس بنا پر کہا جائے کہ اس سے (عقیدہ ) حلول کا وہم ہوتا ہے اس لئے اس حدیث کے ظاہری معنی کی تاویل ضروری ہے ،
فهذا السحاب مسخر بين السماء والأرض وهو لا يمس السماء ولا الأرض ويقال: بدر بين مكة والمدينة مع تباعد ما بينها وبينهما،
فقلوب بني آدم كلها بين أصبعين من أصابع الرحمن حقيقة، ولا يلزم من ذلك مماسة ولا حلول

دیکھئے : بادل جو حقیقت میں آسمان و زمین کے درمیان مسخرہے ،وہ نہ آسمان کو مس کر رہا ہے نہ زمین کو ، (پھر بھی کہا جاتا ہے کہ بادل زمین وآسمان کے درمیان ہے )اور چاند کے متعلق بولتے ہیں کہ بدر مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے ، چاند مکہ و مدینہ سے بہت دور ہوتا ہے ،لیکن ہوتا ان کے درمیان ہی ہے ،اسی طرح بادل آسمان و زمین سے جدا اور دور رہتا ہے ،
اسی طرح بنو آدم کے دل سارے کے سارے حقیقۃً رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہونے کے باوجود ان انگلیوں سے مس نہیں کر رہے ،انگلیوں کے درمیان ماننے سے مس و حلول لازم نہیں آتے ۔
(مجموع فتاوی ابن عثیمینؒ جلد 3 ص310)​
 
Last edited:
Top