• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وھو معکم این ما کنتم (تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے )کی تاویل۔۔۔

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
حافظ ذہبی نے کتاب العلو لکھی، جس میں سلفی عقیدے کا اثبات ہے۔اوپر ایک اقتباس بھی ملاحظہ کرچکے ہیں۔
ابن کثیر پر ایک مستقل مقالہ ہے، جس میں ان کا موقف بیان کیا گیا ہے کہ ان کا موقف بھی ائمہ سلف کی طرح تھا۔
ہاں حافظ ابن حجر اور ان سے پہلے نووی اور دیگر کئی علماء اشاعرہ کی طرح تاویل کے قائل تھے۔
کتاب العرش میں الذھبی کہتے ہیں

وفي كتبنا من الآيات دلالة على إبطال [قول] من زعم من الجهمية أن الله بذاته في كل مكان. وقوله {وُهَو َ مَعكُم نََ كُنْتُم} أراد [به] بعلمه لا بذاته

اور جو ہم نے جھمیہ کے دعوی کے بطلان پر لکھا کہ بے شک الله بذات ہر مکان میںْ (اور وہ ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو) تو ہے اور الله کا قول وُهَو َ مَعكُم اس میں مقصد ہے کہ وہ اپنے علم کے ساتھ ہے نہ کہ بذات ہے-

آپ دیکھ سکتے ہے کہ امام ذہبی اوپر آیت "وھو معکم این ما کنتم" کی تاویل پیش کررہے ہیں کہ الله ہر انسان کے ساتھ بذات نہیں - بلکہ اپنے علم کے ساتھ ہے-
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
آپ دیکھ سکتے ہے کہ امام ذہبی اوپر آیت "وھو معکم این ما کنتم" کی تاویل پیش کررہے ہیں کہ الله ہر انسان کے ساتھ بذات نہیں - بلکہ اپنے علم کے ساتھ ہے
یہ تاویل نہیں ہے ۔
بلکہ آپ اگر عرب کے کلام کو پڑھیں تو یہ لغت کے اعتبار سے بالکل درست مطلب ہے کیونکہ ہر چیز کی معیت فرق ہوتی ہے جو آپ کو سیاق وسباق سے پتہ لگ جاتا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ ادھر ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی یہی معنی مراد لیا ہے اور اس تفسیر میں ان کا کوئی مخالف بھی نہیں صحابہ میں سے ۔
واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ تاویل نہیں ہے ۔
بلکہ آپ اگر عرب کے کلام کو پڑھیں تو یہ لغت کے اعتبار سے بالکل درست مطلب ہے کیونکہ ہر چیز کی معیت فرق ہوتی ہے جو آپ کو سیاق وسباق سے پتہ لگ جاتا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ ادھر ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی یہی معنی مراد لیا ہے اور اس تفسیر میں ان کا کوئی مخالف بھی نہیں صحابہ میں سے ۔
واللہ اعلم
تو پھر اس کو کیا کہیں گے ؟؟

جو شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ ( القواعد المثلیٰ ) صفات باری تعالی میں تاویل کرنے والوں کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہوے کہتے ہیں-

حدیث: بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں " اور بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ : بندوں کے دل ان انگلیوں کو مس کر رہے ہیں ، اور اس بنا پر کہا جائے کہ اس سے (عقیدہ ) حلول کا وہم ہوتا ہے

ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رب کی "حقیقی" انگلیاں ہیں- کیا کسی حدیث نبوی کے مفہوم سے ثابت ہے کہ الله کی یہ انگلیاں حقیقی ہیں؟؟ - یہ تو الله کی تجسیم ہے-

حماد بن سلمہ سے البیہقی میں روایت ہے کہ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ

حماد بن سلمہ، قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – ….ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا-

حماد بن سلمہ، نعوذ باللہ ، الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ ہے اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں- کتاب طبقات الحنابلة از ابن ابی یعلی المتوفی کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں-

صفات سے متعلق روایات کی مناسب تاویلیں نہ کرنے سے اور سند کی جانچ پڑتال کے بغیر روایات کو قبول کرنے سے امّت تجسیم کی طرف مائل ہو رہی تھی

اب سوال یہ ہے کہ ان روایات کو من و عن قبول کرنے یا جرح و تعدیل کے بغیر صحیح قرار دینے سے کیا امّت میں گمراہی نہیں پهیلی ؟؟-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس کتاب میں اس موضوع پر تفصیلی بحث موجود ہے -اگر ٹائم ہو تو پڑھ لیں اور اپنے خیالات سے مستفید کریں

https://archive.org/details/IbnTaimiyahAurIlmEKalaamByMd.Shareef

صفحہ ٩٠ سے آگے ابن تیمیہ کی موقف کی تفصیلات اور ان کا برخلاف ابن جوزی اور غزالی وغیرہ کے موقف کا موازنہ موجود ہے- یہاں تک کہ حنبلیوں میں بھی گروہ بن گئے- مذکورہ کتاب کے مطابق اشعریوں اور ماتریدیوں میں بھی اس علم میں باہم اختلاف رونما ہوا-
میں تو سمجھا تھا کہ صفات میں تاویل کے اثبات میں محدثین کا مذہب آپ کسی مستند کتاب سے پیش فرمائیں گے
لیکن آپ نے تو پنجابی کالج کے پروفیسر کی کتاب کو عقیدہ کا مصدر بنالیا ہے ،
مجھے تو اس پروفیسر کی عربی دانی بھی مشکوک لگتی ہے ،
صفات کے مسائل میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی عبارات و عقائد کی ترجمانی ایک پنجابی پروفیسر کے بس کا کام نہیں ،
میری گذارش ہے کہ :
عقیدہ جیسے اہم باب میں صرف مستند علماء کی تحریریں پیش نظر رکھیئے !
امام شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

فَإِن أَحْبَبْت يَا عبد الله الْإِنْصَاف فقف مَعَ نُصُوص الْقُرْآن وَالسّنَن ثمَّ انْظُر مَا قَالَه الصَّحَابَة والتابعون وأئمة التَّفْسِير فِي هَذِه الْآيَات وَمَا حكوه من مَذَاهِب السّلف ،فإمَّا أَن تنطق بِعلم وَإِمَّا أَن تسكت بحلم ،ودع المراء والجدال فَإِن المراء فِي الْقُرْآن كفر كَمَا نطق بذلك الحَدِيث الصَّحِيح ،وسترى أَقْوَال الْأَئِمَّة فِي ذَلِك على طبقاتهم بعد سرد الْأَحَادِيث النَّبَوِيَّة ،جمع الله قُلُوبنَا على التَّقْوَى الْهوى
فإننا على أصل صَحِيح وَعقد متين من أَن الله تقدس إسمه لَا مثل لَهُ وَأَن إيمَاننَا بِمَا ثَبت من نعوته كإيماننا بِذَاتِهِ المقدسة إِذْ الصِّفَات تَابِعَة للموصوف فنعقل وجود الْبَارِي ونميز ذَاته المقدسة عَن الْأَشْبَاه من غير أَن نتعقل الْمَاهِيّة
فَكَذَلِك القَوْل فِي صِفَاته نؤمن بهَا ونعقل وجودهَا ونعلمها فِي الْجُمْلَة من غير أَن نتعقلها أَو نشبهها أَو نكيفها أَو نمثلها بِصِفَات خلقه تَعَالَى الله عَن ذَلِك علوا كَبِيرا

ترجمہ :
”اللہ کے بندے! انصاف چاہتے ہو، تو نصوص قرآن و سنت پہ جم جائیے، پھر اقوال صحابہ و تابعین پہ نظر کیجئے اور ائمہ تفسیر کو دیکھئے کہ وہ اس بارے میں سلف کا مذہب کیا نقل کرتے ہیں، علم ہو تو منہ کھولئے ورنہ خاموشی بھلی ہے، لڑائی جھگڑے سے مجتنب رہیے کہ قرآن کے بارے میں جھگڑا کفر ہے، صحیح حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے،
احادیث میں تدبر کے بعد اگر آپ ائمہ کے اقوال دیکھیں گے تو وہ یہی بتاتے نظر آئیں گے،اللہ ہمارے دل تقوی پر مجتمع فرمائے، وہ تقوی جو اللہ کو محبوب ہو، اللہ کے بندے! ہم دین حنیف پر کاربند ہیں، ہم عقیدے کی پختگی پر ہیں، اللہ کے اسماء مقدسہ ہیں۔ ان اسماء کی کوئی مثال نہیں۔ قرآن و سنت سے ثابت صفات باری تعالیٰ پر ہمارا اسی طرح ایمان ہے، جس طرح خود ذات باری تعالیٰ پر، کیوں کہ صفات موصوف کے تابع ہوتی ہیں۔ ہم وجود باری تعالیٰ کو حق مانتے ہیں اور ماہیت میں غور نہیں کرتے، نہ ہی اسے مخلوقات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ہمارا یہی طریقہ اللہ کی صفات کے متعلق بھی ہے۔ ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، ان کا وجود حق مانتے ہیں، ان میں دماغ آرائی نہیں کرتے۔ انہیں مخلوقات سے تشبیہ نہیں دیتے۔ ان کی کیفیت بیان نہیں کرتے اور صفات مخلوق سے ان کی مثال بیان نہیں کرتے ہیں، اللہ ان تمام چیزوں سے بلند ہیں۔”
(العلوّ للعلي العظیم ، باب :الْأَحَادِيث الْوَارِدَة فِي الْعُلُوّ)​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حماد بن سلمہ سے البیہقی میں روایت ہے کہ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ
حماد بن سلمہ، قتادہ سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا – ….ایک مرد کی صورت دیکھا اس پر سبز لباس تھا-

حماد بن سلمہ، نعوذ باللہ ، الله کو مرد کی شکل کا کہہ رہے ہیں جو تشبیہ و تجسیم کا عقیدہ ہے اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں- کتاب طبقات الحنابلة از ابن ابی یعلی المتوفی کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں-

صفات سے متعلق روایات کی مناسب تاویلیں نہ کرنے سے اور سند کی جانچ پڑتال کے بغیر روایات کو قبول کرنے سے امّت تجسیم کی طرف مائل ہو رہی تھی
اب سوال یہ ہے کہ ان روایات کو من و عن قبول کرنے یا جرح و تعدیل کے بغیر صحیح قرار دینے سے کیا امّت میں گمراہی نہیں پهیلی ؟؟-
اس حديث كو ایک دو نہیں، درجنوں محدثین و ائمہ کرام نے صحیح کہا ہے، جن میں حدیث کے ماہرین اور عقیدہ کے امام بھی ہیں۔
اور اس حدیث میں خواب بیان کیا گیا ہے، حقیقی رؤیت کی بات نہیں کی گئی، اور پھر یہ خواب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، کسی اور کا نہیں۔ جیسا بیان ہوا، اسے ویسے ہی مان جائے گا۔ واللہ اعلم۔(تفصیل)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
معیت وغیرہ کا معنی’ علم‘ بیان کرنا بھی تاویل ہی ہے۔ اللہ تعالی نے علم اور معیت دونوں چیزوں کا اثبات کیا ہے، دونوں ہی ماننا چاہیے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اس حديث كو ایک دو نہیں، درجنوں محدثین و ائمہ کرام نے صحیح کہا ہے، جن میں حدیث کے ماہرین اور عقیدہ کے امام بھی ہیں۔
اور اس حدیث میں خواب بیان کیا گیا ہے، حقیقی رؤیت کی بات نہیں کی گئی، اور پھر یہ خواب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، کسی اور کا نہیں۔ جیسا بیان ہوا، اسے ویسے ہی مان جائے گا۔ واللہ اعلم۔(تفصیل)
حنابلہ کے اکثر آئمہ و مجتہدین تجسیم کی طرف مائل تھے جن میں امام احمد، امام ابی یعلی، ابن تیمیہ سر فہرست ہیں- ان کی طرف سے جہمیہ کے رد میں الله رب العزت کی صفات سے متعلق بعض ایسی تاویلیں پیش کیں جو عوام کو کفر کی طرف لے جانی والی تھیں- اس بنا پر امام مالک ایسی تمام روایتوں کو سختی سے رد کرتے تھے جن میں تھا کہ "الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا" - حماد بن سلمہ کی البیہقی میں روایت کو کہا گیا کہ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ - اگر یہ نبی کریم کا خواب تھا تو انبیاء کا خواب تو وحی کی قسم سے ہوتا ہے جو جھوٹ نہیں ہو سکتا - یعنی خواب میں نبی کریم نے الله رب العزت کو جس صورت میں دیکھا - جس کے بال گھنگریالے ، اور چہرہ داڑھی مونچھ کے بغیر ہے)-

کتاب طبقات الحنابلة از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا -

آٹھوی صدی میں ابن تیمیہ بھی اس باطل عقیدے کا شکار ہوے- فرماتے ہیں کہ قرون ثلاثہ میں سلف میں کوئی نزاع نہ تھا کہ یہ ضمیر الله کی طرف جاتی ہے کیونکہ اس پر بہت اکثر سے طرق سے اصحاب رسول سے روایات ہیں اور ان سب احادیث کا سیاق دلالت کرتا ہے اور یہ اسی پر کہ الله نے انسان کو آدم کی صورت پید کیا- اہل کتاب کی کتب میں بھی مذکور ہے جیسے توریت اور دیگر میں بھی (تلبيس ا لجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية)

حالانکہ اس پہلے اس گمراہی پر خود حنابلہ کے امام ، امام جوزی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ حنابلہ نے گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے - "وہ اپنی کتاب دفع شبه التشبيه[/HL] میں لکھتے ہے کہ میں نے اپنے اصحاب (حنابلہ) کو دیکھا جو اصول میں ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہیں أور إس میں تین تصانیف ہیں ابو عبد الله بن حامد کی اور ان کے صاحب قاضی ابو یعلی کی اور ابن الزغوانی کی پس انہوں نے ان کو اپنے مذھب کے مطابق تصنیف کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مرتبے سے گر کر عوام کی سطح پر آ گئے اور انہوں نے صفات بار ی تعالی کو اس محسوسات تک کا متقاضی کر دیا پس انہوں نے الله تعالی کو نام دیا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو اپنی صو رت پر خلق کیا پس الله کے لئے صورت کا اثبات کیا-

یہ عقیدہ توریت میں ہے جیسا ابن تیمیہ نے بھی فرمایا - (یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس کو عقیدے کے طور پر قبول کرلیا )-

Then God said, “Let us make man in our image, after our likeness.
Genesis 1:26

غالب گمان یہی ہے کہ یہ عقیدہ عیسایوں سے مسلمانوں میں در آیا -

جب کہ اس سے پہلے امام مالک، ابن جوزی، عقیلی اور ابن حزم وغیرہ رویت باری تعالیٰ کو سختی سے رد کر چکے تھے کہ یہ عقیدہ عوام الناس کو تجسیم کی طرف لے کر جا رہا تھا-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حنابلہ کے اکثر آئمہ و مجتہدین تجسیم کی طرف مائل تھے جن میں امام احمد، امام ابی یعلی، ابن تیمیہ سر فہرست ہیں- ان کی طرف سے جہمیہ کے رد میں الله رب العزت کی صفات سے متعلق بعض ایسی تاویلیں پیش کیں جو عوام کو کفر کی طرف لے جانی والی تھیں-
یہ بالکل غلط اور ان ائمہ پر خالص بہتان ہے کہ وہ تجسیم کے قائل اور کفریہ عقیدہ پھیلانے والے تھے ،
یہ صد فیصد جھوٹ اور بہتان و افتراء ہے ،
جن ائمہ کرام رحمہم اللہ کا آپ نے نام لیا یہ گرامی قدر حضرات تاویل کے سخت خلاف تھے ، ان کی ساری زندگی رد تاویلات میں گزری ،
آپ ان کی اپنی کتب سے یہ باتیں ثابت کریں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
حماد بن سلمہ کی البیہقی میں روایت کو کہا گیا کہ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ
آپ شاید جانتے نہیں کہ " البیہقی " کسی کتاب کا نام نہیں ،بلکہ بڑے مشہور اورمعتبر محدث امام أبو بكراحمد بن الحسین البيهقي(المتوفى: 458هـ) کا اسم نسبی ہے ،وہ موجودہ ایران کے نیشاپور کے ایک علاقہ "بیہق " کے باشندے تھے ، سو اس نسبت سے انہیں " بیہقی " کہا جاتا ہے ،ان کا نام تو ۔۔ احمد بن حسین ۔۔ تھا
ان کی کئی کتابیں ہیں ، جن میں سب سے زیادہ مشہور "السنن الکبریٰ " اور پھر اس کے بعد "الجامع لشعب الایمان " ہے ،جو کئی جلدوں میں مطبوع ہیں ،ان کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں ہیں آپ ان کی کتاب سے یہ روایت بالاسناد نقل کریں ،پھر اس پر کچھ کہا جاسکتا ہے ،
ـــــــــــــــــــــــ
دوسری بات جو شاید آپ کے علم میں نہیں وہ یہ کہ جن ائمہ کرام کو آپ نے مطعون کیا ،امام مالک ؒ ان سے بہت پہلے گزرے ہیں ،امام احمد بن حنبل ؒ ۔۔امام شافعیؒ ۔۔ کے شاگرد ہیں ، اور امام شافعیؒ ۔۔ امام مالکؒ ۔۔ کے شاگرد ہیں ،
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ تو ساتویں صدی کے مجدد ہیں ، یعنی ان ائمہ کرام سے قریباً پانچ سو سال بعد آئے ،
ان حضرات ائمہ کے زمانہ کے متعلق یہ وضاحت اس لئے کی تاکہ آپ ان کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ہر ایک کے دور کے مطابق نقد و جرح کرسکیں ،

آپ ان ائمہ کرام میں سے کسی بات نہ مانیں ،کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ان کے ذمہ ایسی باتیں مت لگائیں جو انہوں نے نہیں کہیں ،
ان کے بارے میں لکھتے ہوئے سب سے بڑی شرط یہ سامنے رکھیں کہ جتنے بڑے یہ لوگ تھے ان کے خلاف بات کرتے ہوئے دلیل بھی اتنی بڑی اور مضبوط ہونی چاہیئے ، نہ کہ راہ چلتے کسی نتھو خیرے سے سن کران کے خلاف نعرے بلند کرنے لگیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حنابلہ کے اکثر آئمہ و مجتہدین تجسیم کی طرف مائل تھے جن میں امام احمد، امام ابی یعلی، ابن تیمیہ سر فہرست ہیں-
اللہ ہمیں ہدایت دے۔
اس بنا پر امام مالک ایسی تمام روایتوں کو سختی سے رد کرتے تھے جن میں تھا کہ "الله نے آدم کو اپنی صورت پیدا کیا" - حماد بن سلمہ کی البیہقی میں روایت کو کہا گیا کہ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فِي صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدَ، دُونَهُ سِتْرٌ مِنْ لُؤْلُؤِ قَدَمَيْهِ ـ أَوْ قَالَ: رِجْلَيْهِ ـ فِي خُضْرَةٍ - اگر یہ نبی کریم کا خواب تھا تو انبیاء کا خواب تو وحی کی قسم سے ہوتا ہے جو جھوٹ نہیں ہو سکتا - یعنی خواب میں نبی کریم نے الله رب العزت کو جس صورت میں دیکھا - جس کے بال گھنگریالے ، اور چہرہ داڑھی مونچھ کے بغیر ہے)-
کتاب طبقات الحنابلة از ابن ابی یعلی المتوفی ٥٢٦ ھ کے مطابق حنبلیوں کے نزدیک یہ اوپر والی اسناد اور روایات صحیح تھیں اور یہ عقیدہ ان میں سے ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے الله کو دیکھا تھا -
آٹھوی صدی میں ابن تیمیہ بھی اس باطل عقیدے کا شکار ہوے- فرماتے ہیں کہ قرون ثلاثہ میں سلف میں کوئی نزاع نہ تھا کہ یہ ضمیر الله کی طرف جاتی ہے کیونکہ اس پر بہت اکثر سے طرق سے اصحاب رسول سے روایات ہیں اور ان سب احادیث کا سیاق دلالت کرتا ہے اور یہ اسی پر کہ الله نے انسان کو آدم کی صورت پید کیا- اہل کتاب کی کتب میں بھی مذکور ہے جیسے توریت اور دیگر میں بھی (تلبيس ا لجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية)
حالانکہ اس پہلے اس گمراہی پر خود حنابلہ کے امام ، امام جوزی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ حنابلہ نے گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے - "وہ اپنی کتاب دفع شبه التشبيه[/HL] میں لکھتے ہے کہ میں نے اپنے اصحاب (حنابلہ) کو دیکھا جو اصول میں ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہیں أور إس میں تین تصانیف ہیں ابو عبد الله بن حامد کی اور ان کے صاحب قاضی ابو یعلی کی اور ابن الزغوانی کی پس انہوں نے ان کو اپنے مذھب کے مطابق تصنیف کیا اور میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مرتبے سے گر کر عوام کی سطح پر آ گئے اور انہوں نے صفات بار ی تعالی کو اس محسوسات تک کا متقاضی کر دیا پس انہوں نے الله تعالی کو نام دیا کہ اس نے آدم علیہ السلام کو اپنی صو رت پر خلق کیا پس الله کے لئے صورت کا اثبات کیا-
یہ عقیدہ توریت میں ہے جیسا ابن تیمیہ نے بھی فرمایا - (یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس کو عقیدے کے طور پر قبول کرلیا )-
Then God said, “Let us make man in our image, after our likeness.
Genesis 1:26

غالب گمان یہی ہے کہ یہ عقیدہ عیسایوں سے مسلمانوں میں در آیا -
جب کہ اس سے پہلے امام مالک، ابن جوزی، عقیلی اور ابن حزم وغیرہ رویت باری تعالیٰ کو سختی سے رد کر چکے تھے کہ یہ عقیدہ عوام الناس کو تجسیم کی طرف لے کر جا رہا تھا-
اتنی لمبی چوڑی ہانکنے کی بجائے، پہلے تو حدیث کی صحت و ضعف پر بات کرلیں۔
اگر حدیث ضعیف ہوئی، تو پھر اسے عیسائی عقیدہ اور جو مرضی کہیے گا۔
لیکن اگر حدیث ہی صحیح ہو تو پھر اس قسم کی باتیں کرنا ہی فضول ہے۔
میرے لیے یہ بات کسی حیرانی سے کم نہیں کہ قرآن و حدیث میں موجود الفاظ میں تجسیم ہے، اور وہ عقیدہ اللہ کے شایان نہیں، لیکن خود ہماری اپنی عقل میں جو بات آتی ہے، وہ اللہ کی شایان شان ہے۔
قرآن و سنت کو فیصل و حکم مان کر بات کریں، جو عقیدہ ثابت ہو، اسے مانیں، اس کے خلاف جس امام کا بھی عقیدہ ہوگا، ہم رد کرنے میں آپ کے ساتھ ہیں۔
لیکن عقلی موشگافیوں کی بنیاد پر بڑے بڑے ائمہ کرام کو ’تاویل‘ و ’تجسیم‘ کا مرتکب کہنا، اس کج روی کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔
 
Top