فاسق یا متہم بالکذب کی خبر کا دین میں حکم
جہاں تک فاسق یا متہم بالکذب کا معاملہ ہے تو اس کی خبر کے بارے بھی اصل اصول یہی ہے کہ وہ قابل اطمینان نہیں ہے لیکن اگر اس کی خبر کو کچھ قوی قرائن مل جائیں تو وہ بعض اوقات قبولیت کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ سورہ حجرات ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿٦﴾
'' اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آ ئے تو تم تحقیق کر لیا کرو (اس خبر کی)''۔
اس آیت مبارکہ میں دین و دنیا سے متعلق کسی بھی خبرواحد کو قبول کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس خبر کی تحقیق کر لیا کرو یعنی فاسق کی خبر کو رد کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ تحقیق کے بعد قبول ورد کا اختیار دیا گیا ہے۔ علامہ ابن عاشور متوفی 1393ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''وتنکیر الفاسق ونبأ، فی سیاق الشرط یفید العموم فی الفساق بأی فسق اتصفوا، وفی الأنباء کیف کانت.'' (التحریر والتنویر : الحجرات : 6)
'' نفی کے سیاق میں لفظ 'فاسق' اور 'نبا' کو نکرہ لانے سے عموم کا فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور اس سے مراد ہر قسم کے فاسق ہیں، چاہے وہ کسی قسم کے بھی فسق وفجور میں مبتلا ہوں اور اس سے مراد ہر قسم کی خبریں ہیں۔''
امام ابن قیم متوفی 751 ھ رحمہ اللہ آیت مبارکہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' وھھنا فائدة لطیفة وھی أنہ سبحانہ لم یأمر برد خبر الفاسق وتکذیبہ ورد شھادتہ جملة وانما أمر بالتبین فان قامت قرائن وأدلة من خارج تدل علی صدقہ عمل بدلیل الصدق ولو أخبر بہ من أخبر فھکذا ینبغی الاعتماد فی روایة الفاسق وشھادتہ وکثیر من الفاسقین یصدقون أخبارھم وروایاتھم وشھاداتھم بل کثیر منھم یتحری الصدق غایة التحری وفسقہ من جھات أخرفمثل ھذا لا یرد خبرہ ولا شھادتہ ولوردت شھادة مثل ھذا وروایتہ لتعطلت أکثر الحقوق وبطل کثیر من الأخبار الصحیحة ولا سیما من فسقہ من جھة الاعتقاد والرأی وھو متحر للصدق فھذا لا یرد خبرہ ولا شھادتہ.'' (التفسیر القیم : جلد 2، ص 128-129)
'' یہاں ایک نہایت ہی لطیف نقطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فاسق کی خبر کو رد کرنے یا اس کی تکذیب کا حکم نہیں دی ااور نہ ہی اس کی شہادت کو من جملہ رد کرنے کا حکم جاری کیا ہے بلکہ چھان پھٹک کا حکم دیا ہے۔ پس اگر فاسق کے صدق پرخارجی قرائن اور دلائل قائم ہو جائیں تو صدق کی دلیل پر عمل ہو گا، اگرچہ اس کی خبر دینے والاکوئی بھی ہو۔ پس اس طرح فاسق کی خبر اور گواہی پر اعتماد جائز ہو گا۔ پس (قرائن اور دلائل کی روشنی میں) اکثر فساق کی اخبار، روایات اور گواہیوں کی تصدیق کی جائے گی کیونکہ ان فساق کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو سچائی کو انتہائی درجہ میں تلاش کرتی ہے اور ان کا فسق وفجور (جھوٹ کے علاوہ) بعض دوسری قسم کا ہوتا ہے ( یعنی عموماً فساق وفجار دنیا کا ہر گناہ کر لیں گے لیکن جھوٹ سے بچیں گے، کیونکہ اس سے ان کے دھندے کا اعتماد خراب ہوتا ہے) ۔''
یہ تو کذب یاجھوٹ کے علاوہ فسق وفجور کے حامل فساق وفجار کی روایات کا معاملہ ہے۔ اب کذب یاجھوٹ بھی تو درحقیقت تو فسق وفجور ہی کی ایک قسم ہے۔ پس اگر تو انسان کی زندگی میں غالب طور پر جھوٹ نہ ہو تو ایسے شخص کو فساق وفجار میں شمار کریں گے اور اگر جھوٹ کسی شخص کی زندگی میں غالب طور پر موجود ہو تو اسے کذوب اور کذاب کے درجہ میں رکھیں گے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' وأما فسقہ من جھة الکذب فان کثر منہ وتکرر بحیث یغلب کذبہ علی صدقہ فھذا لا یقبل خبرہ ولا شھادتہ وان ندر منہ مرة ومرتین ففی رد شھادتہ وخبرہ بذلک قولان للعلماء وھما روایتان عن الامام أحمد رحمہ اللہ والمقصود ذکر الفسق الذی لا یخرج الی الکفر.'' (التفسیر القیم : جلد 2، ص 129)
'' اور جہاں تک ایسے فسق کا معاملہ ہے جو جھوٹ ہو تو اگر تو جھوٹ اس سے اس قدر کثرت سے صادر ہو کہ اس کی سچائی پر غالب آ جائے تو اس کی خبر قبول نہیں کی جائے گی ]کیونکہ وہ فاسق سے کذوب یا کذاب کے درجہ میں داخل ہو گیا ہے[ اور اگر تو اس سے جھوٹ شاذ ونادر صادر ہوتو اس کی خبر اور شہادت کے قبول ورد میں علماء کے دو اقوال ہیں]یعنی اس کی خبر وشہادت قابل قبول ہے یا قابل قبول نہیں ہے[ اور یہ دونوں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہیں۔ یہاں ہمارا مقصود ایسا فسق وفجور ہے جو کفر تک نہ پہنچاتا ہو۔''
امام ابن تیمیہ متوفی 728 ھ رحمہ اللہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
'' وفیہ أیضا أنہ متی اقترن بخبر الفاسق دلیل آخر یدل علی صدقہ فقد استبان الأمر وزال الأمر بالتثبت فتجوز صابة القوم وعقوبتھم بخبر الفاسق مع قرینة.'' (مجموع الفتاوی : جلد 15، ص307)
'' اس آیت مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی اخذہوتا ہے کہ جب فاسق کی خبر کے ساتھ کوئی اور ایسی دلیل مل جائے جو فاسق کے سچا ہونے پر دلالت کر رہی ہو تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے اور پختگی سے شبہ زائل ہو جاتا ہے پس اس صورت میں اگر فاسق کی خبر کے ساتھ کوئی قرینہ مل جائے تو (ایسے فاسق کی خبر کی بنیاد پر کسی) قوم پر چڑھائی کرنا یا اس کو سزا دینا جائز ہو جاتا ہے۔''
شیخ صالح العثیمین آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' والمعنی : خبر الفاسق اذا جاء کم انظروا فی القرئن، فاذا دلت القرائن علی قبول خبرہ اقبلوہ، واذا دلت القرائن علی رد خبر ردوا.'' (شرح مقدمہ اصول التفسیر للعثیمین : ص 157)
'' آیت کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ جب تمہارے پاس فاسق کی خبر آئے تو قرائن میں غور کرو، پس جب قرائن اس کی خبر کی قبولیت پر دلالت کر رہے ہوں تو اس کی خبر کو قبول کر لو اور جب قرائن اس کی خبر کے رد پر دلالت کر رہے ہوں تو اس کی خبر کو رد کر دو۔''
قرآن کریم میں ایک اور جگہ غیر مسلم کی شہادت بھی قبول کی گئی ہے۔ سورہ المائدہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّـهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ ﴿١٠٦﴾ فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّـهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٠٧﴾ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿١٠٨﴾
'' اے اہل ایمان! جب تم میں سے کسی ایک کو وصیت کرتے وقت موت آئے تو (اس وقت ) تمہاری باہمی شہادت تم میں سے دو عادل افراد ہیں یا تمہارے علاوہ (یعنی غیر مسلموں میں سے ) دو افراد ہیں جبکہ تم سفر میں ہو اور تمہیں موت آ پہنچے۔ تم ان دونوں غیر مسلم گواہوں کو نماز کے بعد (مسجد میں) روک کر رکھو گے۔ پس اگر تمہیں شک ہو ( کہ ان دونوں نے شہادت میں ڈنڈی ماری ہے تو ) وہ دونوں اللہ کی قسمیں اٹھائیں کہ ہم اس گواہی کے عمل کے بدلہ میں کوئی قیمت حاصل نہیں کریں اور اگرچہ جس کے خلاف گواہی جا رہی ہو، وہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اور ہم اللہ کی گواہی کو نہ چھپائیں گے۔ بے شک (اگر ہم ایسا کریں گے تو ) لازما گناہ گاروں میں سے ہو جائیں گے۔ پس اگر کسی طرح اطلاع ہو جائے کہ ان دونوں غیر مسلم گواہوں نے گناہ کمایا ہے ( یعنی غلط گواہی دی ہے ) تو میت کے ان قریبی رشتہ داروں میں سے کہ جن کے خلاف گواہی جا رہی ہے، دو افراد ان دو غیرمسلم گواہوں کی جگہ کھڑے ہو کر اللہ کی قسمیں اٹھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں غیر مسلموں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے زیادتی نہیں کی۔ بے شک (اگر ہم زیادتی کریں گے ) تو لازما ظالمین میں سے ہو جائیں گے۔ یہ طریقہ کار زیادہ قریب ہے اس بات کے وہ غیر مسلم لوگ اپنی گواہی کو صحیح رخ پر پیش کریں یا وہ اس سے ڈر جائیں کہ ان کی قسمیں کچھ دوسری قسموں سے رد کر دی جائیں گی۔ اللہ سے ڈرو اور سنو۔ اور اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔''
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں مسلمان عادل گواہ نہ ملنے کی صورت میں دو غیر مسلموں کی گواہی بھی معتبر قرار دی ہے لیکن ساتھ ہی ایسا طریق کار بتلا دیا کہ جس سے ان غیر مسلموں کی گواہی میں ان کے فسق و فجو ر یا عدالت کے مجروح ہونے کی وجہ سے جو طعن پیدا ہوتاہے، اس کا ازالہ ہو سکے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے وقت غیر مسلموں کی شہادت رد کرنے کی بجائے ایسے قرائن کی طرف رہنمائی کی ہے کہ جن سے ان کی شہادت کی تصدیق یا تکذیب ہو سکے۔
کلام مجید میں ایک اور جگہ سورۃ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ نقل کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴿٢٠﴾ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢١﴾ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ ﴿٢٢﴾إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّـهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ ﴿٢٤﴾ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ﴿٢٥﴾ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ۩ ﴿٢٦﴾ قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾ اذْهَب بِّكِتَابِي هَـٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ ﴿٢٨﴾
''حضرت سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا: مجھے کیا ہو گیا ہے، میں ہدہد کو دیکھ نہیں پا رہا ہوں یا وہ غائب ہے۔ میں اسے لازما شدید سزادوں گا یا اسے ذبح ہی کر ڈالوں گا یا وہ میرے پاس کوئی واضح دلیل (عذر) لے کر آئے۔ پس حضرت سلیمان علیہ السلام نے زیادہ دیر نہیں گزاری ( کہ ہدہد آ گیا)۔ پس ہدہدنے کہا : میں نے اس چیز کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ احاطہ نہیں کرسکے اور میں آپ کے پاس قوم سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے وہ ان پر حکمرانی کرتی ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ میں نے اس عورت اور اس کی قوم کے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کر دیا ہے پس اس نے انہیں سیدھے رستے سے روک دیا ہے۔ پس وہ اس بات کی طرف رہنمائی نہیں پا سکے کہ وہ اس اللہ کو سجدہ کریں جو زمین یا آسمانوں میں چھپی ہوئی ہر چیز کو نکالتا ہے اور ہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔ اللہ' اس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا : ہم عنقریب دیکھیں گے کہ تم نے سچ بولا یا تم جھوٹوں میں سے ہو۔ تو میرا یہ خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان سے منہ موڑ لے پس دیکھ وہ کیا کیا چیزلوٹاتے ہیں۔''
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد کی بلا اجازت غیرحاضری نے اس کی خبر اور روایت کو مشکوک بنا دیا تھا۔ پس آیت مبارکہ کے الفاظ
سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کی خبر کی تصدیق و تکذیب کی بنیاد خارجی قرائن کو بنایا ہے اور بالآخر ایک قرینہ ہی کی بدولت ہدہد کی خبر کی تصدیق کی گئی اور وہ قرینہ ملکہ سبا کی طرف خط کا ڈالنا اور اس کی طرف سے ایلچی کا آنا تھا۔
اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' عن أبی ھریرة قال کان أھل الکتاب یقرؤون التوراة بالعبرانیة ویفسرونھا بالعربیة لأھل الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تصدقوا أھل الکتاب ولاتکذبوھم (وقولوا آمنا باللہ وماأنزل ) الآیة.'' (صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب ما یجوز تفسیر التوراة وغیرھا من کتب اللہ بالعربیة)
'' حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور اس کی تفسیر وتوضیح اہل اسلام کے لیے عربی میں کرتے تھے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل کتاب کی نہ تو تصدیق کرو اور نہ ہی تکذیب کرو۔ اور کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا...۔''
یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقا اہل کتاب کی خبر یا نقل کو مردود قرار نہیں دیا ہے اگرچہ وہ فساق وفجار تھے۔ اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ دینی خبر میں عدالت میں طعن کی صورت میں بعض حالات میں بعض خارجی قرائن کی موجودگی میں مخبر کی خبر کو اس قدر تقویت مل جاتی ہے کہ وہ قابل احتجاج ہو جاتی ہے اور ' وہم' سے 'ظن' یا'علم' کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔