- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
تیسرا اعتراض
ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ 0 + 0 = 0 ہوتا ہے لہذا ضعیف + ضعیف = 0 ہے۔
ہم اس بات کی وضاحت تفصیل سے کر چکے ہیں کہ ضعیف = 0 والی بات عقل ونقل کے خلاف ہے۔ موضوع روایت کے بارے zero کہنا تو درست ہو سکتا ہے لیکن ضعیف کے بارے یہ کہنا صحیح نہیں ہے ورنہ تو موضوع اور ضعیف میں فرق کیا ہوا ؟ اور جب ہر ضعیف روایت zero کے برابر ٹھہری تو اس کی سترہ وغیرہ قسموں میں فرق کرنے کاکیا مقصدہے؟
ہم یہ بات تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ ضعیف روایات zero سے 50 کے درمیان کسی درجہ میں ہوتی ہے اور اس میں سچ کے پہلو کے مرجوح ہونے کی وجہ سے قائل کی طرف اس کی نسبت ضعیف اور کمزور ہوتی ہے یا وہم کے درجہ میں ہوتی ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں یہ وہم مختلف قرائن کی وجہ سے تقویت حاصل کر لیتا ہے اور درجہ وہم سے 'ظن غالب' یا 'علم' کے درجہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اس خبر میں وہم 'ظن غالب' یا 'علم' کے درجہ کو پہنچا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ ماہرین فن یعنی محققین محدثین کریں گے کیونکہ یہ ان کا میدان ہے اور ان کی زندگیاں حدیث کی خدمت میں کھپ جاتی ہے۔ پس محدثین کے بالمقابل عوام یا طلبة العلم یا اہل فقہ کے ہاتھ میں یہ اختیار دے دینا ایسا ہی ہے جیساکہ کسی مہلک بیماری کی تشخیص میں کسی عطائی یا ڈسپنسریا انجینئر کی رائے پر عمل کیا جائے۔ جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب سے بڑا محدث ہی سب سے بڑا فقیہ ہوتا ہے ، اسی طرح کسی فقیہ کو سب سے بڑامحدث مان لینا بھی ایک ظلم عظیم ہے۔ یہاں مختلف علوم وفنون ہیں، ہر فن کے اپنے رجال کار ہیں اور اس فن کی باریکیوں میں انہی کی رائے معتبر ہوگی جنہوں نے اس فن کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ 0 + 0 = 0 ہوتا ہے لہذا ضعیف + ضعیف = 0 ہے۔
ہم اس بات کی وضاحت تفصیل سے کر چکے ہیں کہ ضعیف = 0 والی بات عقل ونقل کے خلاف ہے۔ موضوع روایت کے بارے zero کہنا تو درست ہو سکتا ہے لیکن ضعیف کے بارے یہ کہنا صحیح نہیں ہے ورنہ تو موضوع اور ضعیف میں فرق کیا ہوا ؟ اور جب ہر ضعیف روایت zero کے برابر ٹھہری تو اس کی سترہ وغیرہ قسموں میں فرق کرنے کاکیا مقصدہے؟
ہم یہ بات تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ ضعیف روایات zero سے 50 کے درمیان کسی درجہ میں ہوتی ہے اور اس میں سچ کے پہلو کے مرجوح ہونے کی وجہ سے قائل کی طرف اس کی نسبت ضعیف اور کمزور ہوتی ہے یا وہم کے درجہ میں ہوتی ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں یہ وہم مختلف قرائن کی وجہ سے تقویت حاصل کر لیتا ہے اور درجہ وہم سے 'ظن غالب' یا 'علم' کے درجہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اس خبر میں وہم 'ظن غالب' یا 'علم' کے درجہ کو پہنچا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ ماہرین فن یعنی محققین محدثین کریں گے کیونکہ یہ ان کا میدان ہے اور ان کی زندگیاں حدیث کی خدمت میں کھپ جاتی ہے۔ پس محدثین کے بالمقابل عوام یا طلبة العلم یا اہل فقہ کے ہاتھ میں یہ اختیار دے دینا ایسا ہی ہے جیساکہ کسی مہلک بیماری کی تشخیص میں کسی عطائی یا ڈسپنسریا انجینئر کی رائے پر عمل کیا جائے۔ جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سب سے بڑا محدث ہی سب سے بڑا فقیہ ہوتا ہے ، اسی طرح کسی فقیہ کو سب سے بڑامحدث مان لینا بھی ایک ظلم عظیم ہے۔ یہاں مختلف علوم وفنون ہیں، ہر فن کے اپنے رجال کار ہیں اور اس فن کی باریکیوں میں انہی کی رائے معتبر ہوگی جنہوں نے اس فن کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب