- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
منقطع روایات کا دین میں حکم
ہم یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ انقطاع سند کی تمام صورتیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ بعض صورتوں سے خبر میں پیدا ہونے والا ضعف شدید ہوتا ہے جبکہ بعض دوسری صورتوں میں خفیف ہوتا ہے۔ انقطاع سند کی صورت میں اگر ضعف خفیف ہو تو قرائن کی بدولت ختم ہو جاتا ہے اور روایت قابل احتجاج ہو جاتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ متوفی 150 ھ فرماتے ہیں:
'' فمن شاھد أصحاب رسول اللہ من التابعین فحدث حدیثا منقطعا عن النبی اعتبر علیہ بأمور منھا أن ینظر الی ما أرسل من الحدیث فان شرکہ فیہ الحفاظ المأمونون فأسندوہ الی رسول اللہ بمثل معنی ما روی کانت ھذہ دلالة علی صحة من قبل عنہ وحفظہ وان انفرد بارسال حدیث لم یشرکہ فیہ من یسندہ قبل ما یفرد بہ من ذلک ویعتبر علیہ بأن ینظر ھل یوافقہ مرسل غیرہ ممن قبل العلم عنہ من غیر رجالہ الذین قبل عنھم فان وجد ذلک کانت دلالة یقوی بہ مرسلہ وھی أضعف من الاولی وان لم یوجد ذلک نظر الی بعض ما یروی عن بعض أصحاب رسول اللہ قولا لہ فان وجد یوافق ما روی عن رسول اللہ کانت ھذہ دلالة علی أنہ لم یأخذ مرسلہ لا عن أصل یصح ان شاء اللہ وکذلک ان وجد عوام من أھل العلم یفتون بمثل معنی ما روی عن النبی۔'' (الرسالة : 461-463، دار الکتب العلمیة)
امام ابن تیمیہ متوفی ٧٢٨ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''والمراسیل اذا تعددت طرقھا وخلت عن المواطأة قصدا أو الاتفاق بغیر قصد کانت صحیحة قطعا.فان النقل اما أن یکون صدقا مطابقا للخبر واما أن یکون کذبا تعمد صاحبہ الکذب أو أخطأ فیہ، فمتی سلم من الکذب العمد والخطأ کان صدقا بلاریب. فاذا کان الحدیث جاء من جھتین أو جھات وقد علم أن المخبرین لم یتواطأ علی اختلافہ وعلم أن مثل ذلک لا تقع الموافقة فیہ اتفاقا بلا قصد علم أنہ صحیح مثل شخص یحدث عن واقعة جرت ویذکر تفاصیل ما فیھا من الأقوال والأفعال ویأتی شخص آخر قد علم أنہ لم یواطی ء الأول فیذکر مثل ما ذکرہ الأول من تفاصیل الأقوال والأفعال فیعلم قطعا أن تلک الواقعة حق فی الجملة فانہ لو کان کل منھما کذبھا عمدا أو خطأ لم یتفق العادة أن یأتی کل منھما بتلک التفاصیل التی تمنع العادة اتفاق الاثنین علیھا بلامواطأة من أحدھما لصاحبہ فان الرجل قد یتفق أن ینتظم بیتا وینظم الآخر مثلہ أو یکذب کذبة ویکذب الآخر مثلھا أما اذا أنشأ قصیدة طویلة ذات فنون علی قافیة وروی فلم تجر العادة بأن غیرہ ینشیء مثلھا لفظا ومعنی مع الطول المفرط بل یعلم بالعادة أنہ أخذھا منہ وکذلک اذا حدث حدیثا طویلا فیہ فنون وحدث آخر بمثلہ فنہ ما أن یکون واطأہ علیہ أو أخذہ منہ أو یکون الحدیث صدقا وبھذہ الطریق یعلم صدق عامة ما تتعددجھاتہ المختلفة علی ھذا الوجہ من المنقولات وان لم یکن أحدھا کافیا ما لرسالہ وما لضعف ناقلہ.'' (مجموع الفتاوی : جلد13، ص347-348)
امام ابو داود رحمہ اللہ متوفی 275 ھ لکھتے ہیں:
''وأما المراسیل فقد کان یحتج بھا العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوری ومالک ابن أنس والأوزاعی حتی جاء الشافعی فتکلم فیھا وتابعہ علی ذلک أحمد بن حنبل وغیرہ رضوان اللہ علیھم. فاذا لم یکن مسند غیر المراسیل، ولم یوجد المسند، فالمرسل یحتج بہ ولیس ھو مثل المتصل فی القوة.'' (رسالة الی أھل مکة : ص 25-26، المکتب الاسلامی)
ہم یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ انقطاع سند کی تمام صورتیں ایک جیسی نہیں ہیں۔ بعض صورتوں سے خبر میں پیدا ہونے والا ضعف شدید ہوتا ہے جبکہ بعض دوسری صورتوں میں خفیف ہوتا ہے۔ انقطاع سند کی صورت میں اگر ضعف خفیف ہو تو قرائن کی بدولت ختم ہو جاتا ہے اور روایت قابل احتجاج ہو جاتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ متوفی 150 ھ فرماتے ہیں:
'' فمن شاھد أصحاب رسول اللہ من التابعین فحدث حدیثا منقطعا عن النبی اعتبر علیہ بأمور منھا أن ینظر الی ما أرسل من الحدیث فان شرکہ فیہ الحفاظ المأمونون فأسندوہ الی رسول اللہ بمثل معنی ما روی کانت ھذہ دلالة علی صحة من قبل عنہ وحفظہ وان انفرد بارسال حدیث لم یشرکہ فیہ من یسندہ قبل ما یفرد بہ من ذلک ویعتبر علیہ بأن ینظر ھل یوافقہ مرسل غیرہ ممن قبل العلم عنہ من غیر رجالہ الذین قبل عنھم فان وجد ذلک کانت دلالة یقوی بہ مرسلہ وھی أضعف من الاولی وان لم یوجد ذلک نظر الی بعض ما یروی عن بعض أصحاب رسول اللہ قولا لہ فان وجد یوافق ما روی عن رسول اللہ کانت ھذہ دلالة علی أنہ لم یأخذ مرسلہ لا عن أصل یصح ان شاء اللہ وکذلک ان وجد عوام من أھل العلم یفتون بمثل معنی ما روی عن النبی۔'' (الرسالة : 461-463، دار الکتب العلمیة)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی منقطع یعنی مرسل روایت بیان کریں تو چند امور کے سبب سے ان مرسل روایات کا اعتبار کیا جائے گا۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ اس مرسل روایت میں غور کیا جائے، پس اگر اس مرسل روایت کا معنی ومفہوم کچھ عادل اور ضابط راویوں نے کسی اور مسند روایت میں بھی بیان کیا ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تابعی کی مرسل روایت صحیح اور محفوظ ہے۔ اور اگر تو صورت یہ ہو کہ تابعی اپنی مرسل روایت میں منفرد ہو اور کوئی اور راوی اس معنی کی مسند روایت نقل نہ کر رہا ہو تو پھر یہ غور کیا جائے گا کہ کیا اہل علم تابعین سے مروی کوئی اور مرسل روایت ایسی ہے جو اس پہلی مرسل روایت کی موافقت کر رہی ہو اور اس دوسری مرسل کے راوی بھی اور ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی مرسل روایت اس دوسری مرسل سے قوی ہو جائے گی لیکن اس صورت میں مرسل کی قوت پہلی صورت کی مرسل سے کم ہو گی۔ور اگر ایسا بھی نہ ہو ( یعنی کسی مرسل کی تائید کسی دوسری مرسل سے بھی نہ ہو رہی ہو ) تو پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتاوی کو دیکھا جائے گا۔ پس اگر کسی صحابی کا قول اس مرسل روایت کے موافق ہوا تو یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ اس مرسل کی کوئی اصل صحیح ہے ان شاء اللہ۔ اسی طرح کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اس مرسل کا بھی ہے کہ جس کے معنی ومفہوم کے مطابق عام اہل علم نے فتوی جاری کیا ہو ۔''
امام ابن تیمیہ متوفی ٧٢٨ھ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''والمراسیل اذا تعددت طرقھا وخلت عن المواطأة قصدا أو الاتفاق بغیر قصد کانت صحیحة قطعا.فان النقل اما أن یکون صدقا مطابقا للخبر واما أن یکون کذبا تعمد صاحبہ الکذب أو أخطأ فیہ، فمتی سلم من الکذب العمد والخطأ کان صدقا بلاریب. فاذا کان الحدیث جاء من جھتین أو جھات وقد علم أن المخبرین لم یتواطأ علی اختلافہ وعلم أن مثل ذلک لا تقع الموافقة فیہ اتفاقا بلا قصد علم أنہ صحیح مثل شخص یحدث عن واقعة جرت ویذکر تفاصیل ما فیھا من الأقوال والأفعال ویأتی شخص آخر قد علم أنہ لم یواطی ء الأول فیذکر مثل ما ذکرہ الأول من تفاصیل الأقوال والأفعال فیعلم قطعا أن تلک الواقعة حق فی الجملة فانہ لو کان کل منھما کذبھا عمدا أو خطأ لم یتفق العادة أن یأتی کل منھما بتلک التفاصیل التی تمنع العادة اتفاق الاثنین علیھا بلامواطأة من أحدھما لصاحبہ فان الرجل قد یتفق أن ینتظم بیتا وینظم الآخر مثلہ أو یکذب کذبة ویکذب الآخر مثلھا أما اذا أنشأ قصیدة طویلة ذات فنون علی قافیة وروی فلم تجر العادة بأن غیرہ ینشیء مثلھا لفظا ومعنی مع الطول المفرط بل یعلم بالعادة أنہ أخذھا منہ وکذلک اذا حدث حدیثا طویلا فیہ فنون وحدث آخر بمثلہ فنہ ما أن یکون واطأہ علیہ أو أخذہ منہ أو یکون الحدیث صدقا وبھذہ الطریق یعلم صدق عامة ما تتعددجھاتہ المختلفة علی ھذا الوجہ من المنقولات وان لم یکن أحدھا کافیا ما لرسالہ وما لضعف ناقلہ.'' (مجموع الفتاوی : جلد13، ص347-348)
'' مرسل روایات کے طرق اگر ایک سے زائد ہوں اور ارادی یا غیر ارادی اتفاقی موافقت سے خالی ہوں ( یعنی ان مرسل روایات کے راویوں کے ارادتاً یا اتفاقاً ایک بات پر متفق ہونے کا امکان نہ ہو) تو ایسی روایات قطعی درجہ میں صحیح قرار پائیں گی۔ کوئی بھی روایت یا تو امر واقعہ کے مطابق ہو گی اور سچی ہو گی یا امر واقعہ کے خلاف ہو گی اور جھوٹ ہو گی۔ (امر واقعہ کے خلاف ہونے کی صورت میں ) یا تو اس روایت کا راوی عمدا جھوٹا ہو گا یا وہ مخطی ہو گا۔ پس اگر راوی سے عمدا جھوٹ اور خطا دونوں ہی کی نفی ہو جائے تو اس کی خبر بلاشبہ سچ شمار ہو گی۔ پس اگر کوئی روایت دو یا زائد طرق سے مروی ہو اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اس روایت کے مخبرین نے اس کے اختلاف پر آپس میں ملاقات نہیں کی ہے اور یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس قسم کی روایات میں بلاقصد اتفاقی موافقت حاصل نہیں ہوتی ہے تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی واقعہ کا تذکرہ کرتا ہے۔ اور اس واقعہ میں موجود اقوال وافعال کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص ایسا ہے کہ جس کے بارے یہ معلوم ہے کہ اس نے پہلیسے ملاقات نہیں کی ہے۔ پس وہ بھی اس واقعے کا ذکر کرتا ہے جس کا پہلے نے کیا ہے اور اس میں موجود اقوال وافعال کی تفصیل بیان کرتاہے۔ پس اس طرح سے قطعی طور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ واقعہ من جملہ حق ہے۔ کیونکہ اگر تو ان دونوں اشخاص نے عمدا جھوٹ بولا ہو یا خطاً، دونوں صورتوں میں عادت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ دو افراد نے بغیر باہمی ملاقات کے اس قدر تفصیلی واقعات کو ایک جیسا بیان کر دیا ہو۔ بعض اوقات ایک شاعر ایک شعر کہتا ہے اور دوسرا بھی ویسا ہی شعر کہہ دیتا ہے یا کوئی شخص ایک جھوٹ بولتا ہے اور دوسرا بھی ویسا ہی جھوٹ بول دیتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک شخص نے کئی ایک فنون پر مشتمل کسی قافیہ پرایک لمباقصیدہ کہا ہو اور وہ اس سے مروی ہو تو عادت یہ تسلیم نہیں کرتی کہ اس شخص کے علاوہ کوئی اور شخص بھی ایسا ہی قصیدہ لفظاً ومعناً اسی قدر طویل صورت میں کہے۔ بلکہ عادت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس صورت میں دوسرے نے ضرور پہلے سے وہ قصید ہ لیا ہوگا۔ پس اسی طرح اگر کوئی شخص ایک لمبی چوڑی (مرسل) روایت بیان کرے کہ جس میں کئی ایک فنون کا بیان ہو اور دوسرا بھی ایسی ہی روایت نقل کرے۔ پس یا تو دوسرے نے پہلے سے ملاقات کی ہے اور اس سے وہ (مرسل) روایت حاصل کی ہے (اور اگر دوسرے کی پہلے سے ملاقات نہ ہو) تویہ روایت سچی ہو گی ( کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں تابعین کا کوئی مصدر ہے جسے انہوں نے اگرچہ بیان نہیں کیا اور ان تابعین نے جھوٹ بھی نہیں بولا ہے )۔ پس اس طرح سے ایک ایسی روایت کہ جس کے طرق مذکورہ بالااعتبارسے مختلف ہوں، اس کے عمومی بیانات کی تصدیق کی جائے گی ، اگرچہ وہ روایت اپنے اکیلے طریق میں مرسل ہونے کی وجہ سے یا راوی کے ضعف کی وجہ سے کفایت کرنے والی نہ ہو گی۔''
امام ابو داود رحمہ اللہ متوفی 275 ھ لکھتے ہیں:
''وأما المراسیل فقد کان یحتج بھا العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوری ومالک ابن أنس والأوزاعی حتی جاء الشافعی فتکلم فیھا وتابعہ علی ذلک أحمد بن حنبل وغیرہ رضوان اللہ علیھم. فاذا لم یکن مسند غیر المراسیل، ولم یوجد المسند، فالمرسل یحتج بہ ولیس ھو مثل المتصل فی القوة.'' (رسالة الی أھل مکة : ص 25-26، المکتب الاسلامی)
''جہاں تک مراسیل کا معاملہ ہے تو سابقہ علماء میں سے سفیان ثوری، امام مالک، امام اوزاعی رحمہم اللہ ان سے حجت پکڑتے تھے یہاں تک کہ امام شافعی رحمہ اللہ آئے اور انہوں نے اس بارے کلام کیا ( اور اس کی قبولیت کی کچھ شرائط مقرر کیں ) اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کی متابعت کی (یعنی مرسل کو مطلق طور قبول نہ کیا)۔ پس جب مسند موجود نہ ہو اور صرف مرسل روایت ہو تو اس صورت مرسل روایت سے حجت پکڑی جائے گی لیکن وہ قوت میں متصل کے برابر پھر بھی نہ ہوگی۔''