اسلام و علیکم بھائی -
میں آپ کی اس بات کی مزید وضاحت چاہوں گا کیونکہ -
ایک انسان کو بحثیت مسلمان چاہے مرد ہو یا عورت شرعی احکامات پر نہ صرف عمل کرنے بلکہ اس کا علم حاصل کرنا بھی واجب ہے -جب ہی وہ اس پر صحیح طو ر عمل کر پا ے گا -اگر جان بوجھ کر وہ اس سے پہلو تہی کرتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہو گا ؟؟-
آپ نے لکھا ہے "تیسری یہ کہ تاوئل کرتاہویاشبہ لاحق ہوجائے یعنی حکم شرعی کے سمجھنے میں غلطی کررہاہے" سوال یہ ہے کہ نبی کریم صل الله وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور کے بعد بہت سے ایسے گروہ پیدا ہوے جنھوں نے قرآن اور احدیث کی اپنے فہیم کے مطابق تاویلات کیں اور محدثین اور ائمہ کے مطابق کافر قرا ر پا ے آخر کس اصول کے تحت وو کافر قرار پا ے -؟؟ جیسے رافضی مععتزلا، جہمیہ، قدریہ ، جبر،یہ، وحدت الوجود وحدت الشہود کا حامل گروہ وغیرہ -کیا غلط تاویل یا شبہ کی وجہ سے انسان کافر نہیں ہو سکتا ؟؟ عیسائی بھی تو حضرت عیسیٰ کی طرف سے شک میں پڑ گئے تھے اور کافر قرار پا ے -؟؟
پھر آپ نے لکھا ہے کہ "وہ مجبور نہ ہو". سوال ہے کہ اگر کوئی برے کام کے جواز کے لئے یہ کہے کہ اب تو حالات ہی ایسے ہیں لہذا ہم مجبور ہیں تو کیا اس کا یہ عذر کفر میں مانع ہو گا؟؟
وسلام
السلام علیکم
محتر م بھائی آپ کی پوسٹ پڑی یقین جانئے خوشی ہوئی ۔آپ ایک سنجیدہ سائل محسوس ہوے ۔نہ ہی جذباتیت ہے اور نہ ہی الزام ترشی،مزید یہ کہ سوال کےاندرواقعی طلب پائی جاتی ہے اللہ آپ کو جزائےخیر دے میں دعاکرتاہوں کہ اس فورم کے تمام لوگوں کے اندر یہی رویہ پنپے۔
اب آتے ہیں آپ کے جوابات کی طرف ،برادرم آپ نےموانع التکفیر کے حوالے سے تین سوالا ت اٹھائے ہیں پہلایہ کہ جو مسلمان ضروری دینی علم سیکھنے سے کوتاہی برتے ہیں ان کے بارے میں کیاحکم لگایاجائے،دوسرایہ کہ تاریخ اسلامی میں تاویل و شبہ کے گرفتار جو فرق ضالہ گزرے ہیں محدثین نے ان کی تکفیر کی ہے تو آج ہم کیوں نہی کرسکتے؟آپکا تیسرا او رآخری سوال یہ ہے کہ حالات کی مجبوری کو معتبر سمجھاجاسکتاہے یانہیں؟
جواب دینے سے قبل میں صراحت کردوں کہ یہ کوئی فتوی نہیں ہے بس مسلےکاایک نظری حل ہے۔دیکھیں بھائی جان علمانے اس حوالے سے بڑی تفصیل سے بحث کی ہےکہ دین کا بنیادی علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے اور پھر یہ بھی وضاحت کی ہےکہ کتناعلم یاکون کونسے فرائض کاعلم حصل کرناہر ایک پر واجب ہے امام غزالی نے احیاالعلوم میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہےاس کے علاوہ دور جدید میں بھی منہاج المسلم وغیرہ جیسی کتابیں اسی ضرورت کے تحت لکھی گئیں ہےلیکن ان علما میں سے کسی نے بھی اس علم کی تحصیل میں کوتاہی کرنےوالے کو کافر نہیں کہاوہ فاسق ہوسکتاہےیااس طرح کا کوئی اؤرسخت حکم اس پر لاگو کیاہے علمانے لیکن کافرنہیں کہا۔
آپ کے دوسر ے سوال کےضمن میں عرض کرتاہوں کہ خلافت عباسی کےدور میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب کوئی ایک بھی مسلمان گروہ ایسا نہیں تھا جس کی کسی دوسر ےگروہ کی طرف سے تکفیر نہ کی جارہی ہو تو اسوقت سوال پیداہوا کہ آخر مسلمان کون ہے تو علمانے پھر اجماع کیا کہ جو بھی قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑتاہے وہ مسلمان ہوگا چاہے وہ کتناہی تاویل وشبہ میں گڑفتار ہوچناچہ اسے ہی امام ابوالعز حنفی نےشرح عقیدہ طحاوہ میں نقل کیاہے۔آپ نے دیکھانہیں کہ دورحاضرمیں مرزائیوں کوکافر کہنےمیں ایک سو سال علماکےدرمیان بحث مباحثہ ہوتارہاہے حتی کہ ابوالکلام جیسے لوگ ان کے بارےمیں کفر کاحکم نہیں لگاسکے
آپ کےآخری سوال کے ضمن میں عرض کرتاہوں کہ دیکھیں جی ہر وہ مجبوری مجبوری ہےیاہر وہ جبر ،جبرہےجسے شریعت جبر قرار دیتی ہےرہی یہ بات کہ شریعت کونسے جبر کو معتبر مانتی ہےتو اس کاتعین علمائے وقت یا مجتہدین وقت کرسکتے ہیں۔ہر کسی کے پاس یہ اتھارٹی نہیں کہ وہ اس کاتعین کرتےپھرے۔
والسلام