• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہ کہتے ہیں ہمیں لڑکا تھوڑا آوارہ چاہیئے

سیماب

مبتدی
شمولیت
اگست 06، 2013
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
73
پوائنٹ
17
واہ بھئی سیماب کیا کہنے

شاعری میں کافی لگاؤ ہے۔

بھائی ایک شعر لکھ رہا ہوں اس کا دوسرا شعر آپ لکھ دیجیے

شہرہ سنا ہےعلم ریاضی میں جناب کا
طولِ شب فراق ذرا ناپ دیجیے
ریاضی کے پروفیسر کلاس میں لیکچر دے رہے تھے، طلباء کئی دنوں سے مسلسل ریاضی جیسے خشک مضمون کو پڑھ رہے تھے۔
ایک دن تنگ آ کر ایک منچلے نے کلاس میں ایک شعر پڑھ دیا۔
دعویٰ بڑا ہے علمِ ریاضی میں آپ کو​
طول شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے​
یہ سُننا تھا کہ پروفیسر صاحب کلاس سے چلتے بنے۔ اب سب طلباء پریشان کہ یہ کیا ماجرا ہوا۔ ایسا کیا ہو گیا کہ پروفیسر صاحب کلاس ہی چھوڑ کر چلتے بنے۔
کوئی ایک گھنٹے بعد پروفیسر صاحب کلاس میں آئے اور آتے ہی کہنے لگے۔ دو فٹ چار انچ۔
کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کیا عقدہ ہے؟
تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ شعر سُن کر پروفیسر صاحب گھر چلے گئے تھے اور کل شب جو فراک اپنی بچی کے لیے لیکر آئے تھے اس کا طول ناپنے گئے تھے۔ جو کہ دو فٹ اور چار انچ تھا۔
 

سیماب

مبتدی
شمولیت
اگست 06، 2013
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
73
پوائنٹ
17
واہ بھئی سیماب کیا کہنے

شاعری میں کافی لگاؤ ہے۔

بھائی ایک شعر لکھ رہا ہوں اس کا دوسرا شعر آپ لکھ دیجیے
شاید کچھ یوں ہے
شہرہ سنا ہےعلم ریاضی میں جناب کا
طولِ شب فراق ذرا ناپ دیجیے
طولِ شبِ فراق جو ناپا غریب نے
نکلا وہ زلفِ لیلیٰ سے دو چار ہاتھ کم
 

سیماب

مبتدی
شمولیت
اگست 06، 2013
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
73
پوائنٹ
17
پروفیسر محمد ظریف خان
اندرون ملک اور بیرون ملک سفر نامے تو آپ نے بہت سے پڑھے ہوں گے، مگر ہم نے اس بار آپ کے لیے اندرونِ شہر نامے کا اہتمام کیا ہے بجلی بچائو مہم اور طویل وقفۂ تعطل اپنی جگہ، مگر وعدے کے مطابق باجی کے گھر پہنچنا لازمی تھا۔ کیوں نہ ہو؟ آخر کو بھانجی کی ہونے والی /والا/ ساس/ سسر اور اُن کا پورا ٹبّر ''لڑکی'' دیکھنے جو آرہے تھے۔ رات اور وہ بھی شبِ دیجور، یہ بھی کیا نعمت ہے، جو عیبوں پر کچھ ایسا پردہ ڈال دیتی ہے، جیسے چہرے کے تمام بگڑے نقوش، پکی رنگت اور ڈینٹ وغیرہ میک اپ کی تہوں کے پیچھے غائب غلاّ ہوجاتے ہیں۔ اور جب میک اپ دُھل کر اُترتا ہے تو بسا اوقات بیگم صاحب کو شوہر نام دار بھی پہچان نہیں پاتے۔ میرا خیال ہے کہ کم از کم بَردکھوے کے سمے لوڈشیڈنگ رہا کرے، تاکہ فریقین اور اُن کے حالی موالی ایک دوسرے کا اصل روپ نہ دیکھ سکیں۔ تو آمدم برسرِ مطلب! اورنگی ٹائون پانچ نمبر سے پونے پانچ تک کا فاصلہ تو صرف نصف میل ہے، یعنی کُل 880گز، نصف جس کے 440گز، فُٹ 2640، جب کہ انچ دس ہزار سات سو ساٹھ ہوتے ہیں، مگر گھپ اندھیرے میں وہاں تک جانا طولِ شبِ فراق طے کرنے کے برابر ہے۔ طولِ شبِ فراق ایک شعری ترکیب ہونے کے ساتھ ساتھ کہاوت یا ضرب المثل بھی ہے، جس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ریاضی کے ایک پروفیسر کسی اَدق سوال کو حل کرنے میں محو تھے۔ اُن کی ادب نواز شریکِ حیات نے اُن کے استغراق کو دیکھا تو مسکرا کر یہ شعر پڑھ دیا: دعویٰ بہت ہے علمِ ریاضی میں آپ کو طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے پروفیسر صاحب نے جب بیوی کی یہ دعوتِ مبازرت سنی تو غصہ میں بِھنّا کر اُٹھے، تبدیلیِ لباس کے کمرے میں گئے، اور واپس آکر بڑے فخرکے ساتھ بولے، ''تین فٹ دو انچ''۔ اس جواب پر بیوی تو ہنس ہنس کر لوٹن کبوتری بن گئی، جب کہ پروفیسر صاحب اپنا سر اپنے بغیر ناخنوں والی انگلیوں سے کھجا کھجا کر یہ سوچ رہے تھے کہ آخر اُن سے کیا غلطی یا حماقت سرزد ہوئی ہے؟ تو دوستو! بات اس کے سوا کچھ اور نہ تھی کہ صاحب موصوف سے صرف املا کی غلطی سرزد ہوئی تھی۔ وہ ''فراق'' کو فراک سمجھ کر گھر والی کی کسی قمیض کا طول ناپ کر آئے تھے! چوں کہ ابھی سفر شروع نہیں ہوا، صرف ارادہ کیا گیا ہے، تو کیوں نہ اورنگی ٹائون کا تعارف ہی کرادیا جائے، تاکہ سند رہے اور بہ وقتِ ضرورت کام آوے، اور سفر نامہ پڑھنے والا یہ نہ کہہ پاوے کہ واہ صاحب واہ، اُس مقام سے تو متعارف ہی نہیں کرایا گیا، جہاں کا سفرنامہ تحریر کیا جارہا ہے۔ اورنگی ٹائون جو کراچی میں ضلع غربی میں واقع ہے، کبھی ایشیاء کی سب سے بڑی کچی آبادی تھی، اب نہیں ہے۔ وہاں بے شمار مکانات ڈیفنس اور کلفٹن کی کوٹھیوں کو شرماتے ہیں، تاہم بڑا علاقہ اب بھی ہڑپہ اور موئن جو داڑو کے کھنڈرات سے افضل نہیں۔ اس بستی کا موجودہ رقبہ کم و بیش 150 مربع کلومیٹر اور آبادی پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں پاکستان کے ہر صوبے اور ہر زبان والے لوگ رہتے بستے چلے آرہے ہیں، تاہم آبادی کا بڑا حصہ اُن افراد پر مشتمل ہے جو خود، یا اُن کے باپ داد، ستر کی دہائی میں پاکستان کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹوا کر مرحوم مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے سابق مغربی پاکستان (یعنی ''نئے پاکستان'') میں آئے تھے۔ اِن اُردو دانوں کی اکثریت کا لہجہ اکتسابی اُردو سے قدرے مختلف ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اورنگی ٹائون کو ''رنگی ٹون'' کہتے ہیں۔ اورنگی ٹائون کے زیادہ تر علاقے اور محلّے اپنے قریب واقع بس اسٹاپوں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ نمبر 1 سے 12 نمبر تک، مگر درمیان میں ساڑھے، پونے اور سوا کے سابقے بھی شامل ہیں۔ مثلاً، ساڑھے گیارہ، پونے پانچ اور سوا چھ وغیرہ وغیرہ۔ بستی میں صفائی ستھرائی کا عالم یہ ہے کہ یہاں ہر ہر قدم پر کیچڑ کا ''دریائے ٹیمز'' اور گند بلا اور کوڑا کرکٹ کا ''کے۔ ٹو'' پایا جاتا ہے۔ بستی کے متعدد سیکٹر اِن کے ناطے ہی شناخت کیے جاتے ہیں۔ مثلاً، پونے پانچ کے قریب ایک گندا نالہ چار دہائیوں سے قرب وجوار میں رہنے والوں کے مشامِ جاں کو معطر کرتا چلا آرہا ہے۔ ساڑھے گیارہ کے درمیان اُردو چوک سے شروع ہونے والی سڑک پر (اگر اُسے سڑک کہا جاسکے تو؟) متعدد گہرے گہرے گڑھے ہیں، جہاں دن میں بے شمار گاڑی والوں کے تخنے اُلٹتے ہیں، جب کہ کم زور بینائی رکھنے والے لوگ یا بزرگ افراد اُن ہڈی جوڑنے اور موچ نکالنے والوں کی دکانوں کی رونق بڑھاتے ہیں، جو کم از کم دو درجن کی تعداد میں یہاں پر قائم ہیں۔ تین نمبر پر واقع کالج اُس کچرا کنڈی کی نسبت سے جانا پہچانا جاتا ہے، جسے ہفتوں، بلکہ مہینوں صاف نہیں کیا جاتا، اور اُس میں سے اٹھتے ہوئے بدبو کے بھپکے کئی میل دور سے اپنی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ یعنی بقول شاعر: درد اُٹھ اُٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا
 
Top